ملالہ کا نکاح پر سوال یا مغربی ایجنڈا

ملالہ نے تو حد ہی کردی، نکاح پر انگلی اٹھانے کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ ملالہ کا تعلق اسلام یا پاکستان سے ہے


مناظر علی June 03, 2021
ملالہ وہی کررہی ہے جو وہ کہنا چاہتی ہے یا جو اس سے کہلوایا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اگر تو یہ سوال کوئی ناسمجھ بچہ یا بچی کرے تو اسے اس کی عمر کے حساب سے جواب دینا اور سمجھانا ازحد ضروری ہے، تاکہ سوال اس کے ذہن میں جواب کا ہی منتظر نہ رہے۔ اس وقت تک جب کوئی شخص اسے اس سوال کا اپنی مرضی سے جواب دے اور اس کے نتیجے میں اس کی زندگی کا رخ ہی بدل جائے۔

اور اگر سوالیہ انداز میں شادی کرنے پر حیرت کا اظہار کرنے والی تئیس سالہ جوان لڑکی جسے عاقل، بالغ اور تعلیم یافتہ بھی کہیں گے، کیوں کہ وہ کوئی عام نہیں بلکہ پاکستان کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی ملالہ یوسفرئی ہے، تو پھر جس طرح ملالہ نے کہا کہ ''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنا پڑتی ہے؟ اگر آپ زندگی میں ایک شخص کو چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آخر کیوں یہ صرف ایک پارٹنرشپ نہیں ہوسکتی؟''

ملالہ چونکہ اپنی شہرت کی وجہ سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے اور ایک پاکستانی لڑکی کا عالمی دنیا میں اتنا نام بنا لینا بھی اسے لوگوں کی، خاص طور پر لڑکیوں کی توجہ دلاتا ہے، لہٰذا اس کی باتیں بھی معاشرے اور خاص طور پر پاکستان کی لڑکیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ آج یہ سوال اور حیرت کا اظہار ملالہ نے کیا ہے تو کل کو یہی سوال کوئی بھی بچی کرسکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس کی وضاحت کی جائے کہ شادی کیوں ضرورت ہے۔

اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے اور اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریۂ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائز اور مہذب طریقے سے پورا کرنے کی اجازت ہے۔

اسلام نے نکاح کو انسانی بقا و تحفظ کےلیے ضروری بتایا ہے۔ اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کےلیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا۔

ارشاد نبوی ہے: ''النکاح من سنّتی'' نکاح کرنا میری سنت ہے۔ دوسری جگہ پرآپؐ نے نکاح کو آدھا ایمان قرار دیا۔
اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ۔

قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح دیگر انبیائے کرام کی بھی سنت ہے۔
ارشاد ربانی ہے۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً۔
ترجمہ: اے رسولؐ ہم نے آپ سے پہلے یقیناً رسول بھیجے اور انہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔

کسی بھی اسلامی معاشرے میں مسلمان تو کیا غیر مسلموں نے بھی نکاح پر سوال اٹھانے کی جرات نہیں کی۔ کیوں کہ مذہب کے ساتھ ساتھ کوئی بھی مہذب معاشرہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ دو مخالف جنس کے افراد بطور پارٹنر ساتھ رہتے رہیں، وہ جسمانی تعلقات بھی بنائیں اور بچے بھی پیدا کریں، مگر نکاح کے ساتھ نہیں، صرف پارٹنر بن کر۔ حیرت ہے جب دو افراد بطور پارٹنر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر ایک مذہبی اور قانونی طریقہ موجود ہے، اسے کیوں نہیں فالو کریں گے؟ نکاح میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟

کیا دوسرے لفظوں میں آپ نوجوان نسل کو یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ آپ بھی یہ آواز بلند کریں اور یہ غلط حرکت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اپنے حقوق کےلیے آج دبے لفظوں تو کل سڑکوں پر نکل آئیں، جیسا کہ حقوق نسواں کے نام پر کئی بے ہودہ نعرے بھی مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے عورت کو اس کے تمام بنیادی حقوق فراہم کیے ہیں۔ اگر کوئی مرد اپنی عورتوں کو وہ حقوق نہیں دیتا تو وہ دنیا و آخرت میں سزا کا مستحق ہے۔ پھر بھی ایک طبقہ ہر سال یہ شور مچاتا ہے کہ عورتوں کو حقوق دیں۔ ہاں مظلوم عورتوں کی آواز بلند کریں، ان پر تشدد کے خلاف آواز بلند کریں، زیادتی کے خلاف احتجاج کریں، وراثت میں حصہ نہ ملنے پر قانونی راستہ اختیار کریں۔ مگر یہ طریقہ جس سے بےہودگی کا ایک طوفان آجاتا ہے، یہ غلط ہے۔

بالکل ایسے ہی ملالہ نے ووگ میگزین کو شہرت کےلیے شاید یہ سمجھ سے بالا انٹرویو دیا ہے کیوں کہ دنیا معمول کی باتیں اب نہیں سنتی، انہیں کچھ نیا چاہیے، کچھ چٹ پٹا اور کچھ ایسا چاہیے جسے وہ ڈسکس کرسکیں اور آپ نے تو حد ہی کردی۔ نہ اسلامی اقدار کا خیال کیا، نہ مذہب کو دیکھا، نہ پاکستان کے نام کی لاج رکھی۔ نکاح پر انگلی اٹھانے کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ ملالہ کا تعلق اسلام سے ہے یا پاکستان سے ہے۔

میں یہاں ایک فیس بک یوزر کا کمنٹ آپ کی نذر کرنا چاہوں گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی اکائی خاندان ہے، جس کی بنیاد شادی کا بندھن ہے۔ نکاح کی کاغذی کارروائی کے پیچھے ہر معاشرے کی تاریخ ہے، اس کی بنیاد پر خواتین ریاستی اداروں سے اپنے حقوق طلب کرتی ہیں۔ جب ان کے بطن سے بچے پیدا کرکے کوئی بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو مذہب اور قانون اس مرد پر بچوں کی ذمے داری ڈالتا ہے۔ جب طلاق ہوتی ہے تو عورت کو کہیں نان نفقہ اور کہیں اثاثوں کی تقسیم سے حصہ ملتا ہے۔ یہی معاملہ وراثت کا ہے۔ ایک پورا سوشل اسٹرکچر ہے جو شادی کے ذریعے وجود میں آنے والی خاندانی اکائی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔

ملالہ نے تو جو کرنا تھا وہ کررہی ہے اور جو کہنا چاہتی ہے یا اس سے جو کہلوایا جاتا ہے وہ کہہ رہی ہے۔ ہم پاکستان میں بیٹھ کر سوائے تنقید کے اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ ہماری آواز، ہمارے الفاظ نجانے اس تک پہنچتے ہیں یا نہیں، مگر ملالہ کے انٹرویو کے بعد ہمیں اس معاملے پر نوجوان نسل کو یہ معاملہ واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ دلائل کے ساتھ انہیں مطمئن کریں۔ صرف یہ کوئی جواب نہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو ہم نے نکاح کرنا ہوتا ہے۔ انہیں ان کے سوالوں کے جواب دیجئے تاکہ کل کو خدانخواستہ ہمارے معاشرے میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا نہ ہوجائے جو یہ نعرہ لگادے کہ ہمیں ملالہ کی سوچ کے مطابق رہنا ہے۔ ہمیں نکاح نہیں، صرف پارٹنرشپ کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں