ملالہ اور ہنگامہ
شادی کے سوال پر ملالہ نے بھی عام مشرقی لڑکیوں کی طرح جواب دیا کہ شادی کرنا کیوں ضروری ہے؟ جسے افسانہ بنادیا گیا
ملالہ یوسف زئی، کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ، بچیوں کی تعلیم کا استعارہ، علم کا ستارہ، وہ بیٹی جس کا دل کئی ممالک کی شہریت رکھنے کے باوجود پاکستان کےلیے دھڑکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک انٹرویو کے اقتباسات پر پاکستان بھر میں تنقید کا سامنا کررہی ہیں۔ ملالہ سے لاکھ اختلاف سہی، گل مکئی کے کردار پر سوالات ہی سہی، بیرون ملک جانے پر اعتراض ہی سہی، لیکن تادم تحریر میرے دیس کی اس بیٹی کی کردارکشی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
ووگ میگزین کے سرورق پر ملالہ کی دوپٹہ اوڑھے تصویر جہاں پختون روایات کی آئینہ دار ہے۔ وہیں حجاب کے مخالف مغربی میڈیا کےلیے بھی اسے ہضم کرنا مشکل ہے۔ نوبل انعام یافتہ پاکستان کی بیٹی کے انٹرویو کا ایک خاص حصہ سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ ایک لمحے کو ملالہ کا تذکرہ چھوڑتے ہیں۔ تصور کرتے ہیں ایک ایسی بیٹی کا، جو شعور کی منازل ایک ایسے معاشرے میں طے کرتی ہے، جہاں زندگی کے اسباق نہیں پڑھائے جاتے۔ جسے والدہ سے گفتگو کا انتہائی کم موقع ملتا ہے۔ جس کی سہلیاں بھی زندگی کے تصور سے لاعلم ہیں۔ کیا ایسی بیٹی زندگی کا علم حاصل کرپائے گی؟ کیا اسے شعور حیات حاصل ہوپائے گا؟ ملالہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس کے ذہن میں بھی ایسے ہی سوالات تھے۔ یہ سوالات اس نے اپنی ماں کے سامنے رکھے۔ جس نے ایک روایتی ماں کی طرح جواب دیا کہ شادی تو تمھیں کرنا ہی پڑے گی۔ شادی کے سوال پر ملالہ کی ماں نے بھی یہی کہا کہ یہ خوبصورت ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں پیار کا اظہار بھی لٹھ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جہاں محبت کے لطیف جذبات کو بھی کانٹوں کا لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ جہاں سوال پوچھنے پر گلے کاٹ دیے جاتے ہیں۔ جہاں اپنا اخلاق بہتر کرنے کے بجائے دوسروں کو اخلاقیات کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ گل مکئی جس وقت تک گل مکئی تھی، سب کےلیے قابل قبول تھی۔ ایک ایسی بچی جسے اپنے اسکول سے جدائی برداشت نہیں ہورہی تھی۔ لیکن جب یہی گل مکئی ملالہ یوسفزئی کے نام سے سامنے آئی، حکومت پاکستان نے اعزاز سے نوازا تو ملالہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہوگئی۔ کیونکہ اسے پہچان مل گئی تھی۔ وہ پاکستان کا مثبت چہرہ بن کر سامنے آئی تھی۔ پاکستانی لڑکیوں کےلیے امید کا استعارہ بن چکی تھی۔ بھلا ہم ایسی لڑکیوں کو کیونکر قبول کرتے۔ سوات کی سڑکوں پر اسی ملالہ کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے، اسے علاج کےلیے بیرون ملک روانہ کردیا جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملالہ پاکستانی معاشرے کےلیے ناقابل برداشت ہوگئی۔
ملالہ یوسفزئی کے حالیہ انٹرویو کی بات کرتے ہیں۔ جس کے بعد پاکستان میں اسے ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انٹرویو کے دوران صحافی کی جانب سے بار بار مختلف زاویوں سے ایک ہی سوال پوچھا جارہا ہے۔
''شادی کب کر رہی ہیں؟''
''شادی کا کوئی پرپوزل آیا ہے؟''
''کیسے پارٹنر کو پسند کریں گی؟''
یہ وہ سوالات ہیں جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ہر لڑکی سے پوچھے جاتے ہیں۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی لڑکیاں ان سوالات سے چڑ سی جاتی ہیں۔ ان کا چڑچڑا پن ان کے لہجوں سے جھلکتا ہے۔ انہیں اس لفظ سے نفرت سی ہوجاتی ہے۔ وہ ایسے سوالات پوچھنے والوں کے سر پھاڑنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ یقیناً صحافی کے ایسے سوالات ملالہ کےلیے بھی ناقابل برداشت تھے۔ اس نے بھی عام مشرقی لڑکیوں کی طرح جواب دیا کہ شادی کرنا کیوں ضروری ہے؟
اس انٹرویو کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرتے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ہمیشہ متنازع باتوں کو شہ سرخی بنایا جاتا ہے۔ یہ خبر بیچنے کا سب سے بنیاد ی اصول ہے۔ اکثر اوقات شہ سرخی متن سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ یہی اصول ان دنوں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ملالہ کے انٹرویو کے اس حصے کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، تاکہ اپنی پروڈکٹ کو بیچا جاسکے۔
ملالہ نے اپنے انٹرویو میں لاک ڈاؤن کی مصروفیات کا تذکرہ کیا۔ اس نے پختون روایات پر بات کی۔ قوم کی بیٹی نے ماں کے ہاتھوں کھانے کا ذکر بھی کیا۔ اس نے اپنے روز و شب پر بھی بات کی۔ لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ اس انٹرویو کو متنازع بنانے کےلیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بیٹیوں کو سر پر بٹھا کر رکھنے والے باپ، بہنوں کے نخرے اٹھانے والے بھائی بھی ملالہ کے خلاف لٹھ لے کر میدان میں ہیں۔ لیکن یاد رکھیے! ملالہ ابھی بھی سوات کی وہی گل مکئی ہے۔ معصوم سی، کتابوں سے پیار کرنے والی، تعلیم کے ضیاع پر افسردہ ننھی پری۔
یہ میرے پاکستان کی بیٹی ہے۔ جس نے گھنٹوں چادر میں سسکیاں لینے والی عورت کو آواز بخشی ہے۔ جس نے مہندی لگے ہاتھوں میں قلم تھمایا ہے۔ جس نے کم عمری میں ماں بننے والی بچیوں کے ہاتھوں کندھوں پر بستے اپنا مشن بنا لیا ہے۔ جو دلہن کے جوڑے کے بجائے اسکول یونیفارم کی حامی ہے۔ آئیے ملالہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ کم عمری میں شادی کے رجحان میں رکاوٹ بن کر، بچیوں کو اسکول بھیج کر، جنسی درندگی کا راستہ روک کر، ہراسانی کے واقعات کا تدارک کرکے۔
آئیے، معاشرہ بدلیں تاکہ ہمیں تبدیلی کےلیے کسی لڑکی کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لکیر کا فقیر بن کر اندھی تقلید کے بجائے ٹیڑھے راستوں کو صراط مسقتیم بناتے ہیں۔ اس ارض مقدس میں محبتوں کے گلاب کھلائیے۔
ملالہ، میرے دیس کی بیٹی ہے، اسے آزادی حاصل ہے، وہ جب چاہے، جس سے چاہے شادی کرے۔ کیونکہ اسے یہ آزادی مذہب دیتا ہے، آئین دیتا ہے، بین الاقوامی قانون دیتا ہے۔ میں اور آپ اس کی اس آزادی کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ووگ میگزین کے سرورق پر ملالہ کی دوپٹہ اوڑھے تصویر جہاں پختون روایات کی آئینہ دار ہے۔ وہیں حجاب کے مخالف مغربی میڈیا کےلیے بھی اسے ہضم کرنا مشکل ہے۔ نوبل انعام یافتہ پاکستان کی بیٹی کے انٹرویو کا ایک خاص حصہ سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ ایک لمحے کو ملالہ کا تذکرہ چھوڑتے ہیں۔ تصور کرتے ہیں ایک ایسی بیٹی کا، جو شعور کی منازل ایک ایسے معاشرے میں طے کرتی ہے، جہاں زندگی کے اسباق نہیں پڑھائے جاتے۔ جسے والدہ سے گفتگو کا انتہائی کم موقع ملتا ہے۔ جس کی سہلیاں بھی زندگی کے تصور سے لاعلم ہیں۔ کیا ایسی بیٹی زندگی کا علم حاصل کرپائے گی؟ کیا اسے شعور حیات حاصل ہوپائے گا؟ ملالہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس کے ذہن میں بھی ایسے ہی سوالات تھے۔ یہ سوالات اس نے اپنی ماں کے سامنے رکھے۔ جس نے ایک روایتی ماں کی طرح جواب دیا کہ شادی تو تمھیں کرنا ہی پڑے گی۔ شادی کے سوال پر ملالہ کی ماں نے بھی یہی کہا کہ یہ خوبصورت ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں پیار کا اظہار بھی لٹھ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جہاں محبت کے لطیف جذبات کو بھی کانٹوں کا لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ جہاں سوال پوچھنے پر گلے کاٹ دیے جاتے ہیں۔ جہاں اپنا اخلاق بہتر کرنے کے بجائے دوسروں کو اخلاقیات کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ گل مکئی جس وقت تک گل مکئی تھی، سب کےلیے قابل قبول تھی۔ ایک ایسی بچی جسے اپنے اسکول سے جدائی برداشت نہیں ہورہی تھی۔ لیکن جب یہی گل مکئی ملالہ یوسفزئی کے نام سے سامنے آئی، حکومت پاکستان نے اعزاز سے نوازا تو ملالہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہوگئی۔ کیونکہ اسے پہچان مل گئی تھی۔ وہ پاکستان کا مثبت چہرہ بن کر سامنے آئی تھی۔ پاکستانی لڑکیوں کےلیے امید کا استعارہ بن چکی تھی۔ بھلا ہم ایسی لڑکیوں کو کیونکر قبول کرتے۔ سوات کی سڑکوں پر اسی ملالہ کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے، اسے علاج کےلیے بیرون ملک روانہ کردیا جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملالہ پاکستانی معاشرے کےلیے ناقابل برداشت ہوگئی۔
ملالہ یوسفزئی کے حالیہ انٹرویو کی بات کرتے ہیں۔ جس کے بعد پاکستان میں اسے ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انٹرویو کے دوران صحافی کی جانب سے بار بار مختلف زاویوں سے ایک ہی سوال پوچھا جارہا ہے۔
''شادی کب کر رہی ہیں؟''
''شادی کا کوئی پرپوزل آیا ہے؟''
''کیسے پارٹنر کو پسند کریں گی؟''
یہ وہ سوالات ہیں جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ہر لڑکی سے پوچھے جاتے ہیں۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی لڑکیاں ان سوالات سے چڑ سی جاتی ہیں۔ ان کا چڑچڑا پن ان کے لہجوں سے جھلکتا ہے۔ انہیں اس لفظ سے نفرت سی ہوجاتی ہے۔ وہ ایسے سوالات پوچھنے والوں کے سر پھاڑنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ یقیناً صحافی کے ایسے سوالات ملالہ کےلیے بھی ناقابل برداشت تھے۔ اس نے بھی عام مشرقی لڑکیوں کی طرح جواب دیا کہ شادی کرنا کیوں ضروری ہے؟
اس انٹرویو کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرتے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ہمیشہ متنازع باتوں کو شہ سرخی بنایا جاتا ہے۔ یہ خبر بیچنے کا سب سے بنیاد ی اصول ہے۔ اکثر اوقات شہ سرخی متن سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ یہی اصول ان دنوں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ملالہ کے انٹرویو کے اس حصے کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، تاکہ اپنی پروڈکٹ کو بیچا جاسکے۔
ملالہ نے اپنے انٹرویو میں لاک ڈاؤن کی مصروفیات کا تذکرہ کیا۔ اس نے پختون روایات پر بات کی۔ قوم کی بیٹی نے ماں کے ہاتھوں کھانے کا ذکر بھی کیا۔ اس نے اپنے روز و شب پر بھی بات کی۔ لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ اس انٹرویو کو متنازع بنانے کےلیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بیٹیوں کو سر پر بٹھا کر رکھنے والے باپ، بہنوں کے نخرے اٹھانے والے بھائی بھی ملالہ کے خلاف لٹھ لے کر میدان میں ہیں۔ لیکن یاد رکھیے! ملالہ ابھی بھی سوات کی وہی گل مکئی ہے۔ معصوم سی، کتابوں سے پیار کرنے والی، تعلیم کے ضیاع پر افسردہ ننھی پری۔
یہ میرے پاکستان کی بیٹی ہے۔ جس نے گھنٹوں چادر میں سسکیاں لینے والی عورت کو آواز بخشی ہے۔ جس نے مہندی لگے ہاتھوں میں قلم تھمایا ہے۔ جس نے کم عمری میں ماں بننے والی بچیوں کے ہاتھوں کندھوں پر بستے اپنا مشن بنا لیا ہے۔ جو دلہن کے جوڑے کے بجائے اسکول یونیفارم کی حامی ہے۔ آئیے ملالہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ کم عمری میں شادی کے رجحان میں رکاوٹ بن کر، بچیوں کو اسکول بھیج کر، جنسی درندگی کا راستہ روک کر، ہراسانی کے واقعات کا تدارک کرکے۔
آئیے، معاشرہ بدلیں تاکہ ہمیں تبدیلی کےلیے کسی لڑکی کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لکیر کا فقیر بن کر اندھی تقلید کے بجائے ٹیڑھے راستوں کو صراط مسقتیم بناتے ہیں۔ اس ارض مقدس میں محبتوں کے گلاب کھلائیے۔
ملالہ، میرے دیس کی بیٹی ہے، اسے آزادی حاصل ہے، وہ جب چاہے، جس سے چاہے شادی کرے۔ کیونکہ اسے یہ آزادی مذہب دیتا ہے، آئین دیتا ہے، بین الاقوامی قانون دیتا ہے۔ میں اور آپ اس کی اس آزادی کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔