ٹریفک اور ہمارے اخلاقی تقاضے

عام زندگی میں ہم مجموعی طور پر آرام طلب ، کاہل اور سست کسی حیوانی قبیلہ کی رعایا معلوم ہوتے ہیں۔


قمر عباس نقوی June 04, 2021

ہارن بجانا پوری مہذب دنیا میں ممنوع فعل ہے جو نہ صرف ٹریفک کے حادثات کا سبب ہے بلکہ فضائی آلودگی میں اضافہ کا سب سے بڑا سبب بھی ہے۔ مہذب معاشروں میں یہ ایک نہایت گھناؤنا ، غیر انسانی مجرمانہ و مکروہ فعل اور حیوانیت سے ملتا جلتا فعل شمار کیا جاتا ہے۔

عام زندگی میں ہم مجموعی طور پر آرام طلب ، کاہل اور سست کسی حیوانی قبیلہ کی رعایا معلوم ہوتے ہیں۔ اس میگا سٹی میں تقریباً کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا جس میں نئی یا سیکنڈ ہینڈ گاڑی موجود نہ ہو۔ ظاہر ہے چار پہیوں کی گاڑی کی موجودگی ہر گھر کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے تو طرز زندگی میں نزاکت تو ضرور آئے گی۔ سادہ طرز زندگی اب کوسوں دور ہے۔

یہ چیزیں ساتھ ساتھ اخلاقی روایات کے دائرہ میں تہذیب یافتہ ہونے کی متقاضی بھی ہیں۔ روپے پیسے کے بل بوتے پر ہمارا معیار زندگی بلند تو ضرور ہو رہا ہے اور نمود و نمائش کی اندھی تقلید ہمارا وطیرہ بن چکی ہے۔ روے پیسے کی تقلید میں ہم اپنے اخلاقی روایات کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔

سڑک پر چلتے ہوئے ہر شخص اپنے آپ کو ہر شے سے بالاتر سمجھ رہا ہے۔ خواہ وہ موٹر سائیکل پر سوار ہو یا دیگر فور وہیکل میں۔ ٹریفک سگنل ہم توڑنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ صبر نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ پیدل چلنا صحت کے لیے بہت ضروری ہے خواہ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں۔ ایسی سڑکوں یا مقامات پر جہاں آپ کی گاڑی دوسروں کے آمد و رفت میں تکلیف کا باعث ہو وہاں آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ فاصلہ پر اتر کر کچھ پیدل ہی چل لیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی گاڑیوں کو ایمبولینس یا میت گاڑی کی شکل نہ دیں۔

یاد رکھیے! بوڑھے اور لاغر افراد ، زخمی افراد یا میت گاڑیاں ہی گھر کے دروازے پر رکنے کی مجاز ہوا کرتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا غیر منقسم برصغیر جس میں گاڑی چلانا صرف اچھے خاندانوں تک محدود ہوا کرتا تھا۔ امیر اور غریب کے درمیان بہت فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ غریب زیادہ تر پیدل ، سائیکل ، سائیکل رکشہ یا سرکاری سطح پر بسیں چلا کرتی تھی۔ آٹو کا دور تک نہیں تھا۔ کہیں اکا دکا موٹر سائیکل چلتی ہوئی نظر آتی تھی۔ سڑکوں پر ٹریفک کا یہ حال نہیں تھا جیسا کہ آج ہے۔

ظاہر ہے ایسے پر سکون ماحول میں ٹریفک نام کی پولیس تک کا تصور نہ تھا۔ وہاں صرف ایمبولینس حسب ضرورت وہ بھی دھیمی آواز میں ہارن کا استعمال کرتے تھے اور یہاں کیا عجب دنیا ہے کہ حیوان، بے زبان جانور، گائے ، بھینس ، بکرے سڑک کراس کر رہے ہوں گے تو بھائی لوگ ان پر بھی ہارن کی بوچھاڑ کر رہے ہو نگے ۔

ایسا معلوم ہوتا ہے ہارن بجانا کا تذکرہ کسی مقدس قول کا حصہ ہو۔ اپنی منزل پر جلدی پہنچنے کی پاداش میں اگلے جہان پہنچ جانا اور اپنا حق سمجھتے ہوئے بلاوجہ ہارن بجانا اس قوم کا مزاج بن چکا ہے جو فضائی آلودگی پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سڑک اور راہداریاں عوام کی آمدو رفت کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں اور ان سڑکوں پر چلنے کو کچھ ادب و آداب اور اخلاقی ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر انسان برابر ہے۔

کوئی قانون سے برتر نہیں۔ ہمیں سڑک پر چلتے ہوئے اپنا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ دوسروں کو سہولت فراہم کرنا چاہیے۔ حال ہی میں ایس پی سٹی ٹریفک کی ہدایت پر ڈی ایس پیز ٹریفک سٹی کی نگرانی میں تمام ایس اوز اور چالا ننگ افسران نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چالان کیے۔ ڈبل پارکنگ اور رانگ وے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف 28رنگین شیشے اور فینسی نمبر پلیٹس والوں کے خلاف 182 جب کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس والے افراد کے خلاف 34 اور مجموعی طور پر 696 چالان کیے گئے۔

گاڑی کی ملکیت کے حوالہ سے گاڑی کے مستند کاغذات کے نا ہونے اور سڑکوں پر ہونے والی قانونی بے ضابطگیوں کے خلاف کیے گئے چالان کے تحت نہ صرف چالان کاٹے گئے بلکہ سنگین قانونی خلاف ورزیوں پر گاڑیاں بھی ضبط کی گئیں اور ان گاڑیوں کے مالکان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مختلف عدالتوں میں مقدمات بھی قائم کیے گئے جو غالباً ایک طویل عرصہ سے زیر التوا بھی ہیں۔

اس وقت شہر کا کوئی پولیس سٹیشن ایسا نہیں ملے گا جہاں ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں زمیں بوس ہو چکی ہیں اور ان کے ورثا کا شاید اس لیے نہیں پتا ہوگا کہ وہ چوروں کی گرفتاری کے موقع پر ان سے برآمد کی گئی ہوں یا حادثات کی صورت میں زیر حراست کی گئی ہوں۔

ان ضبط شدہ گاڑیوں کے مالکان کی نشاندہی نہ ہوسکی یا وہ فرار ہیں۔ شہر میں آسان قسطوں پر موٹر سائیکلوں کی فروخت کا سلسلہ عروج پر ہے۔ بسا اوقات اقساط کی طے شدہ شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی یا ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں دونوں فریقوں کے درمیان تھانہ کچہری تک نوبت آجاتی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں علاقہ پولیس کی طرف سے گاڑیوں کی پارکنگ کی وقفہ وقفہ سے چیکنگ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

شہر کے اکثر رہائشی علاقوں میں آپ کو ایسی تباہ شدہ گاڑیاں کچرے کے ڈھیر کی طرح کھڑ ی نظر آئیں گی جو ایک عرصہ سے وہیں پڑے پڑے زمیں بوس ہوگئیں۔ شنید ہے کہ یا تو یہ گاڑیاں چوری شدہ ہیں یا لا وارث ہیں جو نہ صرف علاقے کے حسن میں بگاڑ پیدا کر رہی ہیں بلکہ ٹریفک کی روانی کے تسلسل میں بھی تعطل پیدا کر رہی ہیں۔

عین ممکن ہے کہ یہ گاڑیاں امن و امان کی صورت حال پیدا کرنے میں بھی ممد ثابت ہو سکیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے یہ امر کہ ان علاقوں کی ضلعی انتظامیہ بشمول علاقہ یونین کونسلیں اور علاقہ پولیس کہاں غائب ہیں۔ ہاں البتہ کسی بندر کی طرح بھو پو بجاتی پولیس موبائلیں ضرور گشت کرتے دیکھی گئی ہیں۔ ایسی فرسودہ اور مشکوک گاڑیوں کی بیخ کنی کی اشد ضرورت ہے۔

ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے لوگوں میں اخلاقیات کے دائرہ میں رہتے ہوئے سوک سینس کی آگاہی اور اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں کے دونوں اطراف گاڑیوں کی پارکنگ کو ممنوع قرار دیا جائے۔ ٹریفک جام بالخصوص پیک آورز میں طویل فاصلوں پر محیط یو ٹرن کا ہونا بھی ٹریفک جام کی بنیادی وجہ ہے۔

اکثر و بیشتر ان ہی مقامات پر گھنٹوں گھنٹوں لوگو ں کو سخت اذیت کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ گاڑی میں فیول کی مقدار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جو بلا ضرورت جیب پر اضافی مالی بو جھ پڑنے کے سوا کچھ نہیں۔دیکھا گیا ہے شہر کی سڑکوں پر بے شمار کالے شیشے اور جعلی گورنمنٹ آف سندھ کی نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں دندناتی پھر رہی ہونگی ۔ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں موجود کمرشل مارکیٹس کے علاقوں میں ٹریفک پولیس کی کرینیں غلط پارکنگ سے گاڑیاں اٹھاتی ہوئی نظر آ رہی ہوں گی۔

شہر کی سڑکوں کو سگنل فری بنانے کے لیے گز شتہ حکومت نے شہر کی مین شاہراہوں اور مصروف سڑکوں پر فلائی اوورز تعمیر کر وا دیے ہیں اس کے باوجود سڑکوں پر ٹریفک کا ایک اژدہام دکھائی دیتا ہے۔ جا بجا ٹریفک جام کی اذیت اپنی جگہ جوں کی توں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں