یہ کون صاحب ہیں
آمرو ں اور شاہوں کی شان و شوکت اور عالمی سطح پر پذیرائی ان کے اقتدار تک ہی محدود رہتی ہے
زندگی کیسے کیسے تماشے دکھاتی ہے، ان تماشوں کے مرکزی کردار تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ جو دوسروں کی زندگیوں کے مالک و مختار بنے بیٹھے ہیں، وقت ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلے گا۔ جس بازی کو وہ جیتا ہوا سمجھ رہے ہیں، اس کی آخری چال وقت چلے گا اور انھیں شہ مات دے کر مسکرائے گا۔
یہ باتیں ذہن میں اس لیے آئیں کہ گزشتہ ہفتے سعودی وزیر خارجہ پاکستان آئے تو یہ وہ دن تھے جب خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو طلب کیا تھا اور انھوں نے عدالت میں حاضر ہونے کے بجائے امراض قلب کے فوجی اسپتال میں صاحب فراش ہونے کو ترجیح دی تھی۔ یہی وہ لمحے تھے جب سعودی وزیر خارجہ دارالحکومت میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ ایک صحافی نے پوچھ لیا کہ ہز ہائی نس کیا آپ پرویز مشرف کی رہائی کی ڈیل کے لیے پاکستان آئے ہیں؟ ہز ہائی نس نے گردن گھما کر وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ ''کون مشرف؟'' دونوں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی وہ آپ پڑھ چکے۔ لیکن ''کون مشرف؟'' کے سوال میں کئی نکتے پوشیدہ ہیں۔ یہ سفاک بھی ہیں اور المناک بھی۔
ہزاروں برس کے سماجی تجربات نے انسانی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان میں خوف، سب سے غالب عنصر ہے۔ ہزار ہا برس تک انسان مظاہر فطرت سے خوفزدہ رہا۔ طوفان، بارش، برف باری، زلزلہ، خونخوار جانور اسے خوف میں مبتلا کرتے رہے۔ ہزاروں برس گزرنے کے بعد اس نے موسم کی سختیوں، خونخوار جانوروں، اور دوسری صعوبتوں پر قابو پایا تو خوف کے نئے دفتر کھلے۔ وہ جادوگروں، سرداروں، بادشاہوں، آمروں اور ڈکٹیٹروں کا محکوم ہوا، اور ان کی دہشت اس کی رگ رگ میں سرائیت کرگئی۔ طاقت ور عناصر اور مطلق العنان افراد کے رعب اور دبدبے نے اس کے ذہن کو اس طرح شکنجے میں جکڑا کہ آج بھی انسانوں کی اکثریت اس کی گرفت سے رہائی نہ پا سکی ہے۔
بہ طور خاص پاکستان جیسے نو آزاد ملکوں کا یہ حال ہے کہ وہ شخص جو کل تک اقتدار کا سرچشمہ تھا اور اب ایک عام شہری ہے۔ اس کے باوجود لوگ اس کے سر کے گرد سابقہ اقتدار کا ہالہ فرض کر کے اس سے رعب کھاتے ہیں۔ اسی تناظر میں ایک بڑی اکثریت نے یہ فرض کر لیا کہ سعودی وزیر خارجہ پاکستان کے سابق صدر کو ان کی مشکلات سے رہائی دلانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ سوچ کی یہ لہر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی ہے اور لوگوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ شاید اس ملک میں بھی وہ وقت آنے والا ہے جب قانون محکوم اور حاکم کے لیے یکساں ہو گا۔ کچھ لوگ یہ بھی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ یہ صورتحال اس وقت کیوں پیدا نہیں ہوئی تھی جب میاں نواز شریف کو معزول کر دیا گیا تھا اور ان کے سر پر پھانسی کا پھندا جھول رہا تھا؟
اس بارے میں یہ عرض کروں گی کہ سابق صدر کے بارے میں ایک مختلف طرز عمل اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ملک اور ان کی حکومتیں آمروں یا بادشاہوں کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ان کے لیے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس حقیقت کو جانتی ہیں کہ وہ اب دوبارہ کبھی بھی اقتدار میں نہیں آ سکیں گے۔ اس کے برعکس جمہوری طور پر منتخب صدر یا وزیر اعظم کی معزولی چونکہ خلاف قانون ہوتی ہے اور معزول رہنما کے پس پشت عوامی طاقت ہوتی ہے اس لیے ان کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ چند برس بعد ہی سہی عوام کے شانوں پر اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر با اثر سربراہان مملکت اپنے اپنے ملکی مفاد کی خاطر ان کے معاملات سے گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کی معزولی میں یہی بنیادی فرق ہے۔
بیسویں صدی نے کیسے کیسے پر شکوہ شہنشاہ اور باجبروت آمران مطلق نہیں دیکھے لیکن زوال کے بعد ان کی زندگی گم نامی میں بسر ہوئی۔ اس حوالے سے ایران کی مثال کچھ پرانی نہیں۔ اس وقت بھی ہمارے یہاں کروڑوں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اپنے بچپن یا نوجوانی میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا بے مثال عروج دیکھا ہے۔ رضا شاہ دوئم نے 26 برس تک ایران پر اس شان سے حکومت کی کہ شاید و باید۔ انھیں امریکا کی زبردست پشت پناہی حاصل تھی۔ پاکستان کے انقلابی نوجوانوں میں ان کے حوالے سے ایک جملہ مشہور تھا کہ شہنشاہ ایران اس خطے میں امریکا کے تھانیدار ہیں۔ کسی دانش مند نے درست کہا ہے کہ انسان بہت دنوں فاقہ کاٹ سکتا ہے لیکن تاحیات غلامی نہیں جھیل سکتا۔ ایران کے لوگوں کی اکثریت پیٹ بھری تھی لیکن شہنشاہ کی غلامی انھیں برداشت نہیں تھی۔ انھوں نے شہنشاہ کی غلامی سے انکار کیا اور ایک ایسی عظیم بغاوت برپا ہوئی کہ شہنشاہ کو ایران سے فرار ہوتے بنی۔ ایک وہ زمانہ تھا جب دنیا کے بڑے بڑے ملک شاہ کی میزبانی کے لیے آنکھیں بچھاتے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ان کے دوست انھیں پناہ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
وہ جان بچا کر مصر پہنچے جہاں انھیں کچھ مہینوں کے لیے پناہ ملی۔ مصر سے وہ مراکش گئے جہاں ان کے دوست اور مداح شاہ حسن تخت نشین تھے۔ کچھ دنوں بعد انھوں نے بھی نگاہیں پھیر لیں۔ رضا شاہ پہلوی نے اس امریکا میں سیاسی پناہ کی خواستگاری کی جس کی آنکھوں کا کبھی وہ تارا تھے لیکن امریکا کی سرد مہری کا یہ عالم تھا کہ اس نے شاہ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ ایران میں آیت اﷲ خمینی کی حکومت نے امریکا مخالف مہم تیز کی تو امریکا نے سابق شاہ کو ملک میں داخلے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ یہ وہ دن تھے جب رضا شاہ سرطان میں مبتلا ہو چکے تھے۔ ابھی ان کا علاج ڈھنگ سے شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ امریکی حکومت نے انھیں بوریا بستر سمیٹنے کی ہدایت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں ان کے خلاف قتل، تشدد اور قومی دولت کی لوٹ مار کے مقدمے چل رہے تھے۔ سابق شاہ امریکا سے نکل کر ایک بار پھر قاہرہ پہنچے اور وہیں 28 جولائی 1980ء کو موت نے انھیں اس ذلت آمیز زندگی سے نجات دلائی۔
ہم ایک دوسرے مسلمان آمر مطلق عیدی امین کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ جن کا مسخرا پن دنیا بھر میں مشہور تھا۔ 1971ء میں یوگنڈا کے اقتدار پر قبضے کے بعد 8 برس تک انھوں نے بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ یوگنڈا میں نسلوں سے آباد لاکھوں جنوبی ایشیائی لوگوں کے کاروبار اور جائیداد پر انھوں نے بہ جبر قبضہ کیا اور انھیں اپنے ملک سے نکال باہر کیا۔ عیدی امین قذافی کے گہرے دوست اور سوویت یونین کی آنکھوں کا تارا تھے۔ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے انھوں نے اپنے تین لاکھ ہم وطنوں کو قتل کیا اور پھر طاقت کے نشے میں اتنے مخمور ہوئے کہ پڑوسی ملک تنزانیہ پر قبضہ کر لیا۔ تنزانیہ والوں نے عیدی امین کی اس کارروائی کے جواب میں یوگنڈا پر حملہ کیا تو عیدی امین سے تنگ آئے ہوئے یوگنڈا کے شہریوں نے بھی علم بغاوت بلند کر دیا۔ موصوف پسپا ہو کر لیبیا پہنچے تو قذافی نے ان کا استقبال کیا لیکن جلد ہی انھیں وہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ زندگی کے آخری دن جدہ میں بسر کیے تو ان کے گردے ناکارہ ہو چکے تھے۔ اپنے لوگوں پر مظالم ڈھانے والا آمر مطلق جب 2003ء میں دنیا سے رخصت ہوا تو عبرت کی مثال تھا۔
بے پناہ شان و شوکت اور جاہ و جلال کے ساتھ حکمرانی کرنے والے ایشیائی آمروں میں مارکوس کا نام بہت نمایاں ہے۔ دنیا کے بدترین اور بدعنوان ترین فوجی ڈکٹیٹر امریکا کے بہت لاڈلے رہے ہیں۔ مارکوس کا شمار بھی ان ہی لاڈلوں میں ہوتا تھا۔ وہ فلپائن پر 20 برس تک قابض رہے، انھوں نے ملکی خزانے سے دس ارب ڈالر ہڑپ کیے۔ فلپائن کے حکومت مخالف رہنما اکینو کے قتل سے ان کے زوال کا آغاز ہوا۔ امریکا کی مدد سے جزائر ہوائی میں پناہ ملی۔ وطن سے رخصت ہوئے تو ہیرے، جواہرات اور سونے کی اینٹوں سے بھرے ہوئے 24 بڑے سوٹ کیس ساتھ لے گئے۔ ان کی بیگم صاحبہ کے سامان میں ملبوسات اور سامان آرائش و زیبائش کا کوئی حساب نہیں تھا، 2700ء قیمتی سینڈل اس کے علاوہ تھے۔ 72 سال کی عمر تھی جب 1989ء میں مارکوس مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر اس دار فانی سے رخصت ہوئے تو وہ دنیا بھر کے معتوب اور دھتکارے ہوئے انسان تھے۔
بات ایک دوست ملک کے وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان سے شروع ہوئی تھی جس میں ایک صحافی نے پاکستان کے سابق آمر کے بارے میں سوال کیا تو سعودی وزیر خارجہ نے ''کون مشرف؟'' یعنی یہ پوچھ کر یہ کن صاحب کی بات کر رہے ہیں بات تمام کی تھی۔ اس سوال نما جواب میں کیسی سفاک حقیقت سانس لے رہی ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ آمرو ں اور شاہوں کی شان و شوکت اور عالمی سطح پر پذیرائی ان کے اقتدار تک ہی محدود رہتی ہے۔ اقتدار سے وہ رخصت ہوں تو وہ لوگ بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں جو کبھی دیدہ و دل فرش راہ کرتے تھے۔ انھیں وہ بھی شرف میزبانی نہیں بخشتے جو کبھی ان کی مہمان داری کے آرزو مند ہوتے تھے اور اگر کوئی ملک پناہ دیتا ہے تو وہ بھی ''مہمان'' کو کہیں رکھ کر بھول جاتا ہے۔ تب ہی کہا جاتا ہے کہ وقت سے ڈرنا اور اس سے ہر آن پناہ مانگی چاہیے۔