کوچۂ سخن

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

غزل
ویران کر کے آنکھ کی دنیا، اداس ہوں
اے دوست آ کے دیکھ میں کتنا اداس ہوں
اب لٹ چکی ہیں میرے شبستاں کی رونقیں
سُونا ہے اعتبار کا رستا، اداس ہوں
اک یاد ہڈیوں کو جلاتی ہے رات دن
اک شخص کیا گیا کہ سراپا اداس ہوں
وہ چاند میری چھت سے پرے جاگزیں ہوا
جب اس نے مجھ کو جھانک کے دیکھا، اداس ہوں
تم لوگ جا چکے ہو سمندر کو چیر کر
میں ساحلوں کی اوٹ میں بیٹھا اداس ہوں
اب اور میرا دل نہ جلا اے ہوائے شام
اک بار تجھ سے میں نے کہا نا اداس ہوں
شاید زیادہ دور تلک اب نہ چل سکوں
اے راہوارِ شوق و تمنا اداس ہوں
گاؤں بھی تیرے بعد رمق بھر نہیں ہنسا
اور دیکھ میں بھی سارے کا سارا اداس ہوں
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)


۔۔۔
غزل
تھاما نہ اُس نے ہاتھ محبت کی راہ میں
دُنیا کو ہم نے چھوڑ دیا جِس کی چاہ میں
جب فتح تھی قریب تو دشمن سے جا ملے
ایسے بھی چند لوگ تھے اپنی سپاہ میں
اِک پل بھی جن کے ساتھ گزارا محال تھا
اِک عمر ہم نے کاٹ دی اُن سے نباہ کے
ہاتھوں میں ہے قلم نہ نگاہیں کتاب پر
بچوں کو کیا ملے گا سبق درس گاہ میں
ِجس کی نظر حقائقِ کون و مکاں پہ ہے
دنیا تو اِک فریب ہے اُس کی نگاہ میں
قائل مِرے خلوص کی سچائیوں کے ساتھ
اُس کا بھی ہاتھ ہے مِرے حالِ تباہ میں
(پروفیسرڈاکٹرعمرقیازقائل۔ بنوں)


۔۔۔
غزل
پیاس وحشت کی علامت بھی تو ہو سکتی ہے
اس میں پوشیدہ محبت بھی تو ہو سکتی ہے
اپنی اوقات نہیں بھولے ہیں سوچا یہ ہے
کچھ نہ کچھ ہم کو رعایت بھی تو ہو سکتی ہے
ہاں ہوس زاد بھی ہو سکتا ہے یہ عشق ترا
اور اک راہ ِ عبادت بھی تو ہو سکتی ہے
حسن اک ڈھلتا ہوا سایہ ہے ہم جانتے ہیں
روشنی رات کی ظلمت بھی تو ہو سکتی ہے
خوش اگر آپ سمجھتے ہیں تو سمجھیں لیکن
مسکرانا مری فطرت بھی تو ہو سکتی ہے
اس محبت میں خسارے ہی نہیں ہیں روشیؔ
یار کے دل پہ حکومت بھی تو ہو سکتی ہے
(روشین علی روشی۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
خارج نہیں، امکانِ ملاقات ابھی ہے
ممکن ہے وہ آ جائے کہ یہ رات ابھی ہے
ایسے نہیں لوٹاؤں گا تجھ کو مرے سائل
خالی ہوں پہ تیرے لئے خیرات ابھی ہے
اب تک وہی خفگی، وہی لہجے کا تکلف
آثار بتاتے ہیں، کوئی بات ابھی ہے
مجھ دشت کی جانب بھی نکل آنا کسی روز
سنتا ہوں، ترا موسمِ برسات ابھی ہے
اور اس سے زیادہ کی طلب بھی نہیں مجھ کو
سوکھی ہے میسر ، گزر اوقات ابھی ہے
اوروں کی مدارات سے فارغ ذرا ہو لوں
تو رک کہ الگ سے تری سوغات ابھی ہے
دیتا ہوں ضمانت کہ غزل زندہ رہے گی
شہروں پہ نہ جا، فیضِ مضافات ابھی ہے
(رانا غلام محی الدین۔اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل
با خبر، باوفا بندگی، زندگی
میرے اندر رہی جاگتی زندگی
کوئی ڈرتا رہا موت سے ہر گھڑی
کوئی کہتا رہا زندگی، زندگی
کس طرح اب ترا ساتھ میں دے سکوں
اے مری بھاگتی دوڑتی زندگی
سانس جب رک گئی تو سفر رک گیا
سانس جب تک چلی تو چلی زندگی
زندگی سے خفا تم ہو ساگرؔ ابھی
کیا کرو گے اگر کھو گئی زندگی
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
سو بار کہہ چکا ہوں کہ آیا نہ کیجئے
اے یادِ یار روز رلایا نہ کیجئے
پلکوںسے کھینچتے رہے ہم اشک بارہا
ان موتیوں میں آگ لگایا نہ کیجئے
پہلے شکار ہو چکے ہم پنچھیوں کے بیچ
نظروں کے تیر اب کے چلایا نہ کیجئے
یخ بستگی کے ساتھ دسمبر بھی آگیا
لہجے میں برف دوست جمایا نہ کیجئے
پہلے ہی مر رہے ہیں غریبی میں لوگ، تم
ان کو فلک پہ کھینچ کے لایا نہ کیجئے
خوش باش ہوں ولیؔ میں ترے عشق کے بغیر
یہ زہرِ مرگِ ہجر پلایا نہ کیجئے
(شاہ روم خان ولی۔مردان)


۔۔۔
غزل
رنگ موسم کے چرانے کا ہنر آتا ہے
اس کو ہر دل کو لبھانے کا ہنر آتا ہے
آنکھیں پڑھنے میں وہ فنکار بنا پھرتا ہے
اور مجھے خواب چھپانے کا ہنر آتا ہے
مجھ سے ناچیز پہ کَھلتی ہے مری بے ہنری
اس کو ہر ایک زمانے کا ہنر آتا ہے


میں زمیں زاد یہیں شاد ہوں لیکن اس کو
چاند کی سیر کرانے کا ہنر آتا ہے
مجھ کو آتا ہی نہیں شکوے شکایت کرنا
اور اسے خوب ستانے کا ہنر آتا ہے
نظر انداز اسے کیسے کروں گا عامرؔ
جس کو ہر بات منانے کا ہنر آتا ہے
(عامر خان۔ چنیوٹ)


۔۔۔
غزل
ہرایک غم کو سہا خود پہ مسکراتے ہوئے
میں رو پڑا ہوں اسے بات یہ بتاتے ہوئے
اداس جھیل کا منظر بھی رقص کرنے لگا
وہ ہنس پڑی جو مرے شعرگنگناتے ہوئے
بدن کی خاک میں شامل ہوا لہو کا خراج
بدستِ کوزہ گراں چاک پرگھماتے ہوئے
غبارِوقت میں گم ہوگیا ہے سایہ مرا
کسی کے نقشِ قدم سے قدم ملاتے ہوئے
جنوں کی آخری منزل تک آ گیا ہوں میں
صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے
مرے مکان کی چوکھٹ تھی خستہ و غمگیں
کسی کی آس میں ساحل دیے جلاتے ہوئے
(ارسلان ساحل۔ پہاڑپور، ڈی آئی خان)


۔۔۔
غزل
کر کے عشق جہاں سے ڈرنا ٹھیک نہیں
ہجر میں رونا، آہیں بھرنا ٹھیک نہیں
جانتے ہو نا، یہ دل تم پر پاگل ہے
پاگل کو پھر پاگل کرنا ٹھیک نہیں
جیون کا ہر لمحہ، جس نے وار دیا
اس کے پیار سے صاف مکرنا ٹھیک نہیں
جس نے تم سے روح کا ناتا جوڑ لیا
اُس کا تم بن جینا مرنا ٹھیک نہیں
ایک جھلک کی تاب نہیں دیوانوں میں
پھر تیرا بے اَنت سنورنا ٹھیک نہیں
(شاہ نواز سرمد۔جام پور)


۔۔۔
غزل
ہم تو سمجھے تھے اِک اذیت ہے
عشق سب سے بڑی مصیبت ہے
درد دینا تو رسمِ دنیا ہے
درد سہنا مگرقیامت ہے
ہم نے سچ کا علَم اٹھایا ہے
کربلا سے ہمیں بھی نسبت ہے
آپ کے بولنے پہ کیا ہوگا
آپ کی خامشی قیامت ہے
سنگِ دشنام پر دعا دینا
میرے اجداد کی روایت ہے
ہم نے رشتے عزیز رکھے ہیں
تجھ کو نام و نسب کی حاجت ہے
بھوک برداشت کر رہا ہوں میں
سر پہ دستار ابھی سلامت ہے
(عظیم انجم ہانبھی۔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
تمام عمر مرے ساتھ بھی رہا کوئی دوست
میں جس سے کہتا تھا دشمن ہو یار،یا کوئی دوست
میں زخم زخم ہوں گرچہ، مگر ہوں زندہ ابھی
ابھی بھی زخم وہ دے لے جو رہ گیا کوئی دوست
کوئی بھی وار اکارت وہ جانے دیتا نہیں
مگرسمجھتا تھا میں، ہے وہ باوفا کوئی دوست
جو میرے زخم سیے اور میرے دکھ سمجھے
کبھی تو دے گا مجھے بھی مرا خدا کوئی دوست
ہمارا دعویٰ ہے اس کو نہ چین ہو گا نصیب
ہماری یاد سے غافل اگر ہوا کوئی دوست
شدید ربط ہے خالد اگرچہ بیچ اپنے
مگر ملن کا قرینہ نہیں رہا کوئی دوست
(سیف اللہ خالد ۔میاں چنوں)


۔۔۔
غزل
ہر ایک شخص سے کہتی ہے مسجدِ اقصی
ستم کی فوج نے گھیری ہے مسجدِ اقصی
پھر اس کے صحن میں معصوم خون بہتا ہے
لہو میں بچوں کے ڈوبی ہے مسجدِ اقصی
ستم جو ڈھائے درندوں نے روز ِ عید وہاں
تو غرق خون میں دیکھی ہے مسجدِ اقصی
کوئی چھڑائے گا ظالم کی قید سے اس کو
اس انتظار میں بیٹھی ہے مسجدِ اقصی
پلٹ کے آیا نہیں پھر کوئی صلاح الدین
اسی کی یاد میں روتی ہے مسجدِ اقصی
زمانے بھر کے مسلمان اس کو بھول گئے
نہ جانے کب سے اکیلی ہے مسجدِ اقصی
ولا کے دل پہ ہے تحریر شہرِ قدس کا نام
اور اس کی روح میں بستی ہے مسجدِ اقصی
( ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی،قاہرہ۔ مصر)


۔۔۔
غزل
ضروری کام پڑا! رابطے کشید ہوئے
محبتوں کے نئے سلسلے کشید ہوئے
تمہارے ہجر میں دل تار تار ہونے پر
ہوائے اشک چلی، مرثیے کشید ہوئے
ہنسی کی موت ہوئی! زیست ناگوار ہوئی
تمہارے بعد کہاں قہقہے کشید ہوئے
اندھیرا چھید بنانے لگا جب آنکھوں میں
ہوا کے ہاتھ پہ روشن دیے کشید ہوئے
تمہارے چہرے کی تابانی حسنِ عارض کے
تمام رنگ مری چاہ سے کشید ہوئے
ردیف نبھ گئی ادریس! ہے ہنر تیرا
اور اس میں قافیے کتنے ''بھلے'' کشید ہوئے
(محمد ادریس روباص۔ ڈی آئی خان)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story