11 روزہ اسرائیل فلسطین جنگ

نئی سرد جنگ کا پہلا اسٹیج ، جس میں روس چین کے مقابلے میں امریکا کمزور دکھائی دیا۔


نئی سرد جنگ کا پہلا اسٹیج ، جس میں روس چین کے مقابلے میں امریکا کمزور دکھائی دیا۔ فوٹو: فائل

جمعہ 21 مئی 2021 ء کو جب اسرائیل اور غزہ کی پٹی پر جنگ بند ی کا اعلان ہوا تو غزہ کی پٹی پر فلسطینیوں نے اپنی فتح کا جشن منایا، میں نے بھی اسے لڑائی کی بجائے جنگ اور پھر عالمی سطح کی فتح اس لیے قرار دیا ہے کہ اس کو دنیا کے ایک ارب اسی کروڑ عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق پر سچائی اور حقیقی انداز سے یقین رکھنے والے اربوں انسانوں نے بھی اپنی فتح قرار دیا۔

اگر اسے عام فوجی اور عسکری قاعدے سے دیکھا جائے تو یہ کسی محاذ پر لڑی جانے والی ایک سادہ سی لڑائی دکھا ئی دیتی ہے جس میں حماس کے 266 افراد شہید ہوئے اور تقریباً 12 اسرائیلی فوجی مارے گئے ، لیکن عا لمی تاریخ اور سیاست کے اعتبار سے یہ ایک بڑی جنگ کا منظر نامہ ہے جو بڑی قوتوں کے بالکل آمنے سامنے آنے کی وجہ سے فی الحال روک دی گئی اور یہ اس وقت اس اعتبار سے حق پر قائم انسانیت کے حامی اربوں انسانوں کی بڑی فتح ہے کہ لاکھوں انسانوں نے امریکہ یورپ اور دیگر ملکوں میں اپنی حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کی مجرمانہ طرفداری، جانبداری اور حمایت کے خلاف اورکرونا کی وبائی بیماری کے باوجود شاہراہوں سڑکوں اور حکومتی ایوانو ں کے سامنے ایسا شدید احتجاج کیا۔

امریکی صدر جو پہلے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کو موخر اور ویٹو کر کے اسرئیل کو زیادہ سے زیادہ وقت اورحوصلہ دے رہے تھے تاکہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر اپنے مقاصد حاصل کر لے جیسا کہ وہ ماضی میں کرتا آیا ہے انہیں پسپا ہونا پڑا، اگرچہ اس بار بھی اسرائیل نے شروع میں صدر جو بائڈن اور ان کی حکومت کے شکریہ کے ساتھ غزہ میں 66 معصوم بچوں سمیت 266 عام شہریوں کو اپنی توپوں، میزائلوں اور جدید لڑاکا طیاروں کی بمباری سے شہید کر دیا اور سینکڑوں عمارتوں سمیت فلسطینیوں کا تقریباً پورا انفراسٹریکچر تباہ کر دیا، مگرآج کے سوشل میڈیا کے دور میں اخلاقی طور پر فلسطینیوں کو عالمی سطح پر ایک بڑی اور یادگار فتح حاصل ہوئی کہ امریکی صدر نے اس شدید عالمی عوامی دبائو سے مجبور ہو کر دھمکی آمیز انداز میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو فوری جنگ بندی کا حکم دیا اور جنگ بندی کر دی گئی۔

مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی ہے کیا اب دنیا حق وصداقت پر مبنی عالمی انصاف کے لیے اسی طرح مستحکم انداز میں آواز بلند کرتے ہوئے پوری انسانیت اور دنیا کو جنگ اور تباہی سے بچا سکی گی؟ یا پھر عارضی طور اخلاقی شکست کھانے والے ماضی قریب کی طرح دنیا کے اربوں امن پسند اور انسان دوست افراد کی نیک خواہشات کو جلد اور ایک بار پھر پامال کردیں گے۔

جب اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہوا تو ترکی کے ایک اخبار نے لکھا کہ پاکستان نے کشمیر کو بھلا دیا ہے کیونکہ ایک دن قبل ہی مقبوضہ بھارتی کشمیر میں مظلوم فسلطینیوں کے حق میں مظلوم کشمیریوں نے زبردست مظاہرے کئے تھے جس کو بھارت کی اسرائیل نواز مودی حکومت نے پوری قوت اور ظلم کے ساتھ روکنے کی کوشش کی تھی اور ایک کشمیری بچہ جس نے دیوار پر انگریزی میں یہ لکھ دیا تھا کہ ''ہم فلسطین ہیں '' اُسے بھارتی فوج نے گرفتار کر لیا تھا۔

اس گیارہ روزہ فلسطین اسرائیل جنگ کا آغاز اس تنازعہ سے ہوا تھاکہ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے قریب کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے اور جب سے اسرائیل نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور حمایت اور مدد سے تل ابیب سے دارالحکومت کو یروشلم منتقل کیا اور امریکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم لے گیا تو اسرائیل یہودیت کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ مسجد اقصیٰ ہی کے مقام پر ہیکل ِ سلیما نی تھا اور اسی کے نیچے کہیں تابوت سکینہ دفن ہے اور اس کے ڈھونڈنے کے لیے اِ ن لوگوں نے مسجد اقصیٰ کے نیچے کئی سرنگیں بھی کھودی ہیں ۔

اب وہ مسجد اقصیٰ کے اردگرد کے علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں اِن سے علاقے خالی کروا رہے ہیں تاکہ یہاں وہ مستقبل قریب میں تیسری مرتبہ ہیکلِ سلیمانی تعمیرکر سکیں۔ یوں انہوں نے شیخ جراح کے مسلم اکثریت کے علاقے کو خالی کروانا شروع کیا تو کئی نسلوں سے یہاں کی شہریت رکھنے والے اِن فلسطینی مسلمانوں نے اسرائیل کی سپریم کورٹ میں اس ناانصافی کے خلاف درخواست دی تو اس کورٹ نے بھی انصاف کو نظرانداز کرتے ہوئے یہودیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اس کے بعد جب اسرائیلی فوجیوں اور پولیس نے رمضان المبارک میں زبردستی یہاں سے مسلم آبادی کی بے دخلی شروع کی تو مسلمانوں نے احتجاج اور مزاحمت کی جس پر اسرائیلی فوجیوں اور پولیس نے تشدد کیا اور یہاں تک ہوا کہ مسجد اقصیٰ میں27 ویں روزے کو نہ صرف نمازیوں پر ظالمانہ تشدد کیا گیا بلکہ مسجد کو آگ لگا دی گئی ۔

عرب سرزمین خصوصاً مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بیت المقدس ، مصر، شام ، عراق اور فلسطین الہامی مذاہب کے ہزاروں سال پرانے مراکز ہیں۔ فسطین کو انبیاء کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے اور توریت، زبور، انجیل اور قرآن مجید میں بھی اس حوالے سے کثرت کے ساتھ ذکر ہے جس کے مطابق ہزاروں سال قبل حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کے ساتھ مل کر اُس مقام پر جہاں حضرت آدم ؑ نے پہلی مر تبہ خانہ کعبہ کی عمارت تعمیر کی تھی جو زمانوں کے گزر جانے کے بعد غائب ہو گئی تھی۔

اس کی بنیادیں تلاش کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی دوبارہ عمارت تعمیر کی، پھر حضرت ابراہیمؑ بی بی حاجرہؑ اور اسماعیل ؑ کو یہاں سے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فلسطین آگئے، جہاں اُن کی دوسری بیوی بی بی سارہؑ سے حضرت اسحاقؑ پیدا ہوئے اور پھر ان کی نسل سے باقی نبی پیدا ہوئے۔ دوسری جانب حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد آخری نبی حضرت محمدﷺ مکہ میں حضرت اسماعیل ؑ کی نسل سے پیدا ہوئے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب عرب ملکوں سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم کراتے ہوئے اِن کے درمیان تعاون اور دوستی کا معاہدہ کر وایا تو عربوں اور یہودیوں کو سامی النسل ہونے اور حضرت ابر اہیمؑ کے ماننے والوں کے طور پر کزن قراردیا تھا اور معاہدہ کا نام ابراہیم معاہدہ رکھا۔

مورخین فلسطین اور یہودیوں کے اعتبار سے فلسطین کی تاریخ کو ساڑھے چار ہزار سال سے زیادہ قدیم قرار دیتے ہیں، اس دوران دو مرتبہ یروشلم سمیت فلسطین مکمل تباہ ہوا ، ہیکلِ سلیمانی کے بارے میں روایت ہے کہ اس کی تعمیر حضرت دائود ؑ نے شروع کی تھی جن کواللہ تعالیٰ نے بادشاہت عطا کی تھی مگر اس ہیکل کی تعمیر اُن کے دور میں مکمل نہ ہو سکی اور پھر اُن کے بعد بادشاہ حضرت سلیمان ؑ نے اس کی تعمیر شروع کروائی جو جنوں اور انسانوں اور دیگر مخلوق کے لیے بھی پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ اُنہوں نے اس ہیکل کی تعمیر جنات سے کروائی اور روایت ہے کہ جب ہیکل ِ سلیمانی کی تعمیر آخری مراحل میں تھی تو اُن کی موت کا وقت آگیا تو اُنہوں نے موت کے فرشتے سے کہا کہ وہ اپنے عصا کے سہارے کھڑے رہیں گے اور اس حالت میں اُن کی روح قبض کر لی جائے تاکہ اُن کے انتقال کر جانے کے بعد بھی جنات یہ سمجھیں کہ وہ زندہ ہیں اور کھڑے نگرانی کر رہے ہیں ۔

جب ہیکل کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اُن کے عصا کو دیمک نے کھانا شروع کردیا اور یوں عصا کے ٹوٹتے ہی حضرت سلیمانؑ زمین پر گر گئے اور جن وہاں سے رخصت ہو گئے۔ یہودیوں کے عقائد کے مطابق تابوت ِ سکینہ بھی اسی پہلے ٹیمپل یعنی پہلے ہیکل ِسلیمانی کے نیچے کہیں دفن ہے جس میں حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوہ طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی پتھر پر لکھی آیات کی دو سلیں ، اُن کی پوشاک ، عصا اور وہ برتن ہے جس میں یہودیوں کے لیے آسمان سے من سلویٰ آیا کرتا تھا۔

یہودیوں کا عقید ہ ہے کہ وہ تابوت ِسکینہ قیامت سے پہلے اُن کو مل جائے گا اور اُس وقت پوری دنیا پر اُن حکمرانی ہوگی۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق توریت ، زبور، انجیل برحق اور واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کر دہ آسمانی کتابیں ہیں مگر تاریخ یہ بتاتی اور اس کاا عتراف خود یہودی بھی کرتے ہیں کہ وہ حضرت موسٰیؑ سمیت کئی پیغمبراں کے خلاف ہوئے، اُن پر ظلم ڈھائے جادوگروں اور سرمایہ داروں پر یقین کیا اور اللہ تعالٰی کی ہدایات سے منہ موڑا، یوں بعد میں اُنہوں نے اِن آسمانی کتابوں میں بھی تحریف کی اور اپنے مذہب میں کئی من گھڑت داستانوں کو شامل کر لیا ، پھر عیسائیت اور اسلام کے برعکس یہودیوں نےاپنے مذہب کو یہودی نسل تک محدود رکھا ہے یعنی دنیا کا کوئی شخص یہودی نہیں ہو سکتا، یہودی صرف وہی ہو گا جو پیدا ئشی یہودی یعنی نسلاً یہودی ہو اور فلسطین اور یروشلم کے مطابق یہ توریت کا حوالہ دیتے ہو ئے کہتے ہیں کہ اللہ نے یہودیوں کے تین قبائل کو یہ سرزمین دینے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ درست ہے کہ ہزراوں سال قبل یہودی یہاں آباد ہوئے مگر چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نہایت نافرمان ہوتے رہے اس لیے اِن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب اور تباہیاں ملتی رہیں پھر پیغمبر آتے رہے اِن کی اجتماعی معافیاں بھی ہوتی رہیں۔ اب جہاں تک پہلے ہیکل ِ سلیمانی کا تعلق ہے تو بابل کے نہایت طاقتور بادشاہ بخت نصر نے 586-87 قبل مسیح میں فلسطین جسے یہودی اسرائیل کہتے ہیں اِس پر حملہ کر کے ہیکلِ سلیمانی کو بالکل تباہ وبرباد کر دیا اور تابوت ِ سکینہ کے بارے میں معلوم نہیں کہ اُسے وہ کہاں لے گیا ؟

بخت نصر نے یہودیوں کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی کو قتل کر دیا اور باقی کو غلام اور کنیزیں بنا کر بابل یعنی آج کے عراق لے آیا اور یہاں اِن کی حالت جانوروں سے بھی بدتر رہی ، پھر روایت کے مطابق وہاں حضرت دانیالؑ اِن کے درمیان اللہ کے نبی ہوئے اور وہ یہو یوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ایران کے عظیم بادشاہ سائرس اعظم جس نے 539 قبل مسیح سے 530 قبل مسیح تک اُس وقت کی آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کیا تھا یہاں بھی بھیجا اور سائرس نے بابل کی عظیم سلطنت کو شکست دی اور اس پورے عرب علاقے کو فتح کیا اور یہودیوں پر رحم کھاتے ہوئے اُن کو دوبارہ فلسطین لا کر آباد کیا۔ یہودی آج بھی اپنے پیغمبروں کے بعد سب سے زیادہ احترام ایران کے اِس قدیم شہنشاہ سائرس اعظم کا کرتے ہیں۔

اس کے بعد یہودیوں نے یہاں ٹمپل یعنی ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا مگر یہاںیہ ثبوت نہیں ملتا کہ اُس وقت یہاں اُن کو تابوت ِ سکینہ مل گیا تھا یا نہیں؟ اس دوران حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد تک بھی یہودیوں کی اللہ تعالیٰ سے نافرمانی کے کئی واقعات ملتے ہیں ، لیکن ان کی بڑی تباہی کا دوسرا واقعہ پہلی یہودی ، رومی جنگ کا ہے۔ 68 ء میں رومی بادشاہ Titus Caesar ٹائیٹس سیزر نے یروشلم پر حملہ کر کے نہ صرف یہاں قتل عام کیا بلکہ ہیکل ِ سلیمانی کو دوسری مرتبہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا اس کے بعد بہت سے یہودی دوسرے عرب ملکوں میں آباد ہو گئے اور روایت کے مطابق اِن کے مذہبی رہنماؤں کو یہ معلوم تھا کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ مدینہ میں رہائش پذیر ہوں گے تو اِن یہودیوں کے کچھ قبائل یہاں آکر آباد ہو گئے اُن کو یہ گمان تھا کہ جس طرح باقی انبیاء بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے آئے اسی طرح آخر نبیﷺ بھی اِن ہی کی نسل سے آئیں گے جب کہ نبی کریم حضرت محمد ﷺ حضرت اسماعیل ؑ کی نسل سے یعنی عرب کے قبیلے بنو ہاشم سے آئے تو اِن میں سے بعض حق پرست تو بعد میں حضرت محمدﷺ پر ایمان لے آئے مگر بد قستمی دیکھئے کہ عرب اور مدینے میں رہنے والے یہودیوں کی اکثریت نبی ﷺ کے خلاف اس لیے ہو گئی کہ اُن کا تعلق کسی یہودی قبیلے سے نہیں تھا ۔

635 ء میں حضرت عمرؓ کے دور میں یروشلم سمیت فلسطین فتح ہو گیا تو جب مسلم فوجیں یہاں پہنچیں تو یروشلم اور خصوصاً ہیکلِ سلیمانی کے مقام پر عیسائی قابض تھے اور پورے فلسطین پر اِن کی حکومت تھی، عیسائی حکمرانوں نے بھی بھانپ لیا تھا کہ یہ اسلامی لشکر چاہے تو چند گھنٹوں میں شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے۔

دوسری جانب اسلامی فوج کے سپاہ سالار اور تمام فوجی دین ِاسلام کے مطابق اس شہر کی حرمت اور تقدس سے واقف تھے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی رہا اور یہی وہ مقام تھا جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے، عیسائی راہبوں نے یہ شرط رکھی کہ وہ شہر کا قبضہ مسلمانوں کے بادشاہ کو دیں گے، یوں جب خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو وہ ایک اونٹ پر اپنے غلام کے ساتھ روانہ ہوئے اور دونوں اونٹ پر دورانِ سفرباری باری سواری کرتے رہے، جب وہ شہر کے قریب پہنچے تو اسلامی لشکر نے اُنہیں دیکھ کر نعرے لگائے تو عیسائی بادشاہ اور راہبوں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ تمارا خلیفہ ہے جو اونٹ پر سوار ہے؟جواب ملا نہیں وہ تو اُن کا غلام ہے اور جس نے مہار تھا م رکھی ہے وہ خلیفہ ِوقت حضرت عمرؓ ہیں۔

روایت ہے کہ جب نہایت احترام و عقیدت سے حضرت عمرؓ سمیت اسلامی لشکر یروشلم میں داخل ہوا تویہاں سب کو امان دی گئی اور خون کی ایک بوند بھی نہیں گری، بالکل اُسی طرح جیسے نبیﷺ کے زمانے میں فتح مکہ پر سب کو امان تھی یہاں پر بھی سب کو امان ملی۔ نماز کا وقت تھا تو عیسائی راہبوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ وہ یہاں کلیسا ہی میں نماز ادا کر لیں جس پر اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اگر آج میں نے ایسا کر دیا تو مستقبل میں مسلمان کلیساؤں کو مسمار کر کے مساجد تعمیر کر یں گے پھر دوسرے مقام پر آکر حضرت عمرؓ نے حضرت بلالؓ سے درخواست کی کہ وہ اذان دیں اور یہاں بھی عشاقاں نبی ﷺ کے سردار حضرت بلال ؓجو بلالِ حبشیؓ بھی کہلاتے ہیں۔

اُنہوں نے کعبہ کی پہلی اذان کی طرح یہاں بھی اذان دی، یہاں اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے وہ انسانوں کی برابری اور مساوات کا درس دیتا ہے اور اس میں کسی کے بڑے ہونے کا معیار علم اور تقویٰ پر ہے جسے کوئی بھی مسلمان ایمان کی قوت کے ساتھ محنت اور کوشش سے حاصل کر سکتا ہے۔

635 ء کے بعد اگلے 1300 سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کی حکومتوں میں رہا۔ اموی، عباسی خلافت صلیبی جنگوں کے بعد 1260 ء میں یہاں مملوک خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔ 1516 ء میںیہ پورا علاقہ خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا اور پہلی جنگِ عظیم (1914 ء تا1918 ) جس میں ایک طرف ترکی اور جرمنی اور دوسری جانب برطانیہ ، روس ، دیگر یورپی ممالک اور امریکہ تھا۔

اس جنگ میں عرب سرداروں اور شیوخ نے دوران جنگ انگریزوں، فرانسسیوں اور امریکہ کے حق میں اور ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی اور مشہور زمانہ برطانوی ایجنٹ لارڈ لارنس جسے عرف عام میں لارنس آف عریبیہ بھی کہا جاتا ہے اُس سے ہزاروں پونڈ سونا لے کر ترکوں کے خلاف جنگ کی، بعد میں اِن ہی سرداروں، امیروں اور شیوخ کو اردن، مصر، شام ، لیبیا ، عراق، سعودی عرب اور دیگر ملکوں میں بادشاہتیں عطا کی گئیں، جنگِ عظیم اوّل ہی کے فوراً بعد 1920 ء میں یہاں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ جنگ عظیم اوّل میں یہودی سرمایہ داروں نے انگریزوں کی بہت مالی مدد کی تھی اور برطانوی وزیرخارجہ بالفور نے عالمی صیہونی تنظیم کو فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ دیا تھا جس پر عرب بادشاہوں کی جانب سے مجرمانہ خاموشی رہی جنہوں نے عرب نیشنل ازم کے نام سے ترکی کی خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ جب کہ اُس زمانے میں مقبوضہ برطانوی انڈیا سے تحریکِ خلافت اٹھی تو دوسری جانب 1920 ء ہی سے پہلے ہی موہن داس گاندھی اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے بالفور اعلامیہ کی مخالفت کی اور یہاں کسی اسرائیلی ریاست کے قیام کی شدید مخالفت کی۔ اس دوران یہاں دنیا کے مختلف ملکوں میں صدیوں سے آباد یہودی جو اپنی عبرانی زبان بھی بھول چکے تھے یہاں آکر آباد ہونے لگے۔

اُس وقت دنیا میں صرف دو یہودی ایسے تھے جن کو عبرانی زبان آتی تھی اُنہوں نے اس قدیم زبان کو دوبارہ شروع کیا اور آج اسرائیل کی سرکاری قومی زبان عبرانی ہے۔ دوسری جنگ عظیم جو1939 ء سے اگست1945ء تک جاری رہی، اس جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے قیام پر طے پا گیا کہ دنیا سے سیاسی نو آبادیاتی نظام کو مرحلہ وار ختم کیا جائے اور مقبوضہ ملکوں کو آزادی اور خود مختاری دی جائے۔ پا کستان اور بھارت 14 اور15 اگست 1947 ء کوآزاد اور خود مختار ممالک بنے اور ہندوستان کو ہندو مسلم اکثریت کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا ۔اور 14 مئی 1948 ء کو انگریز فلسطین کے بڑے علاقے کو اسرائیل بنا کر رخصت ہو گئے۔ اس کے اگلے دن چار عرب ملکوں مصر، شام ، اردن اور عراق کی فوجیں فلسطین میں داخل ہو گئیں۔

سعودی عرب نے مصر کی سربراہی میں فوجی بھیجے، یمن نے جنگ کا اعلان تو کیا مگر عملی طور پر شریک نہیں ہوا، تقریباً ایک سال بعد جنگ بندی ہوئی تو موجودہ ویسٹ بنک جنوبی یروشلم پر اردن کا قبضہ رہا جب کہ مصر کے قبضے میں غزہ کی پٹی آئی۔

اقوام متحدہ کے مطابق اُس وقت اسرائیلی علاقے سے 700000 فلسطینی نکالے گئے یا مہاجر ہوئے۔ واضح رہے کہ 1517میں فلسطین کی کل آبادی تین لاکھ تھی جس میں یہودی صرف پانچ ہزار یعنی1.7% تھے۔اس کے بعد 1922 ء میں فلسطین کی کل آبادی 757182 ہوگئی جس میں اکثریت مسلم آبادی کی تھی اور یہودیوں کی کل تعداد 83794 یعنی 17 فیصد ہو گئی۔

1946ء میں فلسطین کی کل آبادی 1810036 تھی اور اس میں 543000 یہودی تھے یوں اِن کا تناسب 30 فیصد تھا۔ 1948 ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل یعنی سابق فلسطینی علاقے کی کل آبادی 872700 تھی جس میں یہودیوں کی تعداد 716700 ہو گئی اور یہودی آبادی کا تناسب 82.1 فیصد ہو گیا۔ واضح رہے کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں یہاں سے 700000 فلسطینی مسلمان نکال دیئے گئے تھے ، حوالے کے لیے یہ درج بالا اعداد وشمار Jewishvirtulibrary کے ہیں۔

یہ جد ید انسانی تاریخ کا وہ المیہ ہے جو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے لیے روز اوّل ہی سے تنقید کا نشان ہے اور خصوصاً امریکہ ، بر طانیہ اور فرانس کے لئے انصاف ، عدل اور انسانی بنیادی حقوق کے اعتبار سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ 2019 ء کے مطابق اسرائیل کی کل آبادی 9020600 ہے جس میں سے یہودی آبادی 6697000 ہے اور اس کا تناسب 74.2% اور مسلم آبادی 1605700 ہے اور تناسب 17.8% ہے، باقی عیسائی دروز اور دیگر ہیں ۔11 مئی 1949 ء کو اقوام متحدہ کی اکثریت نے اسرائیل کو آزاد وخود مختار ملک کی حیثیت سے رکنیت دے دی اور اس کے بعد دنیا بھر سے یہودی اسرائیل منتقل ہونے لگے۔

1950 ء اور1960 کی دہائی میں مصر، عراق، شام اور لیبیا وغیرہ میں سابق سوویت یونین کی پشت پناہی سے انقلابات آئے اور بادشاہوں کے تختے الٹ دیئے گئے۔ مصر میں صدر جمال عبدالناصر کے دور کے آغاز ہی میں اضوان ڈیم کی تعمیر پر مغرب کی جانب سے فنڈز روک دیئے گئے جس پر صدر ناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ نہر سوئز کے حقوق برطانیہ اور فرانس کے پاس تھے۔

اس پر 29 اکتوبر 1956 ء کو اسرائیل، فرانس اور برطانیہ نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا، ظاہر ہے کہ مصر اِن کے مقابلے میں فوجی لحاظ سے کمزور تھا اِن کی فوجیں مصر میں نہر سوئز پر اتریں تو تھوڑے عرصے بعد ہی سوویت یونین کے خروشیف نے بھی واضح کر دیا کہ وہ مصر کے خلاف اس جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا اور جس طرح 20 مئی 2021 ء کو امریکی صدر جو بائڈن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو فون کر کے دھمکی آمیز انداز میں واضح کر دیا کہ وہ بغیر کسی شرط کے ا پنی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کر دے اور غزہ میں فلسطینیوں پر حملے بند کرے اسی طرح اُس وقت بھی امریکہ کے صدر آئزن ہاور نے اسرائیل، فرانس اور برطانیہ کو دھمکی دی کہ اگر مصر کے خلاف فوری طور پر جنگ بند نہ کی گئی تو وہ اِن ملکوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں گے اور پھر یہاں جنگ بندی ہو گئی۔ اس پر بر طانیہ کے وزیراعظم رابٹ انتھونی ایڈن مستفٰعی ہو گئے۔

امریکہ کا خیال تھا کہ نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کے بعد صدر ناصر امریکہ کے اتحادی بن جائیں گے مگر جب امریکہ نے اپنے اسلحہ کی فروخت کے ساتھ یہ شرط عائد کی کہ یہ اسلحہ اسرائیل کے خلا ف استعمال نہیں ہو گا تو صدر ناصر نے امریکہ کی بجائے روس سے اسلحہ خریدا اور سوویت یونین ہی کی امداد سے اضوان ڈیم کی تعمیر کی۔

1964 ء میں ایک جانب اسرائیل کو تسلیم کرکے خطے میں امن کے قیام کی باتیں ہو رہی تھیں تو دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے یہ خدشات بڑھنے لگے کہ اسرائیل دریائے اردن کا رخ موڑ کر ہمسایہ ملکوں کو پانی سے محروم کر دے گا۔ 1967 ء تک حالات اتنے خراب ہوئے کہ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی قیادت میں اردن ، شام اور عراق نے اپنی فوجوں کو متحرک کرنا شروع کر دیا، اس موقع پر اسرائیل نے پہل کرتے ہوئے اچانک اپنی پوری فضائی قوت کے ساتھ اِن پر حملہ کر دیا اور اِن ملکوں کی فضائیہ کو مکمل طور پر ناکارہ کر دیا۔

اس چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی ، ویسٹ بینک ، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا اور یروشلم کی حدود کو بڑھا کر مشرقی یروشلم پر قبضہ بھی کر لیا ۔ واضح رہے کہ 22 مارچ1945 ء کو جب اسرائیل کے قیام کا فیصلہ برطانیہ امریکہ اور فرانس کر چکے تھے تو عرب لیگ قائم ہوئی تھی جو اب تک مو جود ہے لیکن عرب اسرائیل تنازعہ کے تناظر میں کوئی کردار ادا نہ کر سکی۔

1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد 1969 ء میں لیبیا میں کرنل معمر قدافی نے لیبیا کے بادشاہ، شاہ ادریس کا تختہ الٹ دیا،21 ستمبر 1969ء کو اسرائیل نے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے مرحلے طے کرنے کے ارادے سے یروشلم میں مسجد اقصٰی کو آگ لگا دی جس پر اسرائیل میں موجود مسلمان اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہو ئے گھروں سے نکل آئے۔ پوری دنیا کے مسلمان تڑپ اٹھے تو فسلطین کے مفتی اعظم نے عرب لیگ یا عرب ملکوں کے سربراہوں کی بجائے دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کے سربراہوں سے کانفرنس بلوانے کی اپیل کی تو او آئی سی OIC کا پہلا اجلاس مراکش کے شہر رباط میں منعقد ہوا تھا جس میں پہلی بار دنیا بھر کے اسلامی ممالک نے بیک آواز اسرائیل کی مذمت کی تھی۔

1967 ء کی جنگ کے بعد کہا جاتا ہے کہ مصر کے صدر جمال ناصر نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں سویت یونین سے دوٹوک انداز میں بات کی تھی اور پورا دباؤ ڈالتے ہوئے اُس وقت کے جدید ترین سام میزائل حاصل کر لیئے تھے جوچھ سو کلومیٹر دور تک مار کرتے تھے ، 6 اکتوبر 1973 ء کو یہودیوں کے یوم کپور کے تہوار کے موقع پر مصر اور شام کی فوجوں نے جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ 26 اکتوبر کو ختم ہوئی تو اسرائیل کو اگر چہ اس میں شکست نہیں ہوئی لیکن سینیا میں مصر نے کچھ علاقے واپس لے لیئے اور فوجی لحاظ سے اسرائیل کا جانی مالی نقصان زیادہ ہوا ، اس کو مصر اور شام نے اپنی فتح اس لیے قرار دیا کہ اس جنگ میں اِن دونوں ملکوں نے خوب مقابلہ کیا تھا۔ جنگ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم مستعفٰی ہو گئیں۔

اس جنگ کے فوراً بعد 1974 ء میں لاہور میں OIC کی سربراہ کانفرنس ہوئی۔ یہ او آئی سی کی تاریخ کی کامیاب ترین کانفرنس تھی جس میں پا کستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کانفرنس کے فیصلوں میں تیل کی قیمتوں کے بڑھانے سے تیل پیدا کر نے والے ملکوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوا اور ان ملکوں کی تیز رفتار تعمیر و ترقی کے لیے افرادی قوت پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ملکوں سے گئی۔

یوں یہ ممالک بھی امریکہ اور یورپ کے قرضوں اور امداد سے کافی حد تک آزاد ہو ئے ، لیکن عالمی سطح پر دو طاقتی نظام کے دو بڑے ملک سوویت یونین اور امریکہ جنہوں نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا یہ اسلامی اتحاد دونوں کے حق میں نہیں تھا اس لیے دونوں ہی نے اپنی اسٹرٹیجی ترتیب دی اور آنے والے دہائیوں میں اس کے اہم لیڈ ر بھٹو ، شاہ فیصل اور بعد میں قدافی مار دئیے گئے۔ 1979 ء میں سوویت یونین کی افغا نستان میں فوجی مداخلت اور جارحیت کی وجہ سے سرد جنگ اپنے فائنل مرحلے میں داخل ہو گئی اور 1990 ء میں نہ صرف سوویت یونین ٹوٹ گئی بلکہ مشرقی یورپ اور وارسا پیکٹ کے اشتراکی ممالک میں بغاوتیں ہوئیں اور دنیا سے اشتراکی نظام رخصت ہو گیا۔

ایران میں 1979 ء کا انقلاب روس کے1917 ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد آخری انقلاب تھا۔ 1990 ء سے گیارہ ستمبر 2001 ء تک ایک جانب روس معاشی اقتصادی ، سیاسی طور پر شدید بحران سے گزرا تو دوسری جانب افغانستان میں صورتحال کو بحرانی بنا دیا گیا اور پھر نائن الیون کے سانحہ کے بعد امریکہ اور نیٹو کو اقوام متحدہ کی چند منٹوں میں منظور ہونے والی قراردادوں کے تحت پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کلنگ لا ئسنس دے دیا گیا، پھر عراق، شام، لیبیا، ا فغانستان اور کئی مقامات پر امریکہ اور نیٹو کی کارو ائیوں میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے، کئی ملک ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئے۔

اس دوران اقتصادی صنعتی طور پر چین نے ون چائلڈ پالیسی کے نفاذ سے بہت تیز رفتاری سے ترقی کی اور 2002 ء میں روس بھی مستحکم ہونے لگا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک نے ہمارے ریجن میں پا کستان کی بجائے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بناتے ہوئے پاکستان پر اقتصادی ، سیاسی دباؤ میں اضافہ کیا کہ پاکستان افغانستان اور چین کے خلاف بھارت کی بالا دستی کو قبول کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کا ساتھ دے۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں مضبوط اور طاقتور ملک عراق ، شام اور لیبیا کو تباہ و برباد کیا اور مصر کو بھی سیاسی و معاشی اعتبار سے زیر نگیں کر لیا جب کہ سعودی عرب ، عرب امارت اور دیگر عرب ملکوں پر دباؤ ڈالتے ہوئے اِ ن کے اسرائیل سے تعلقات کو بہتر کیا جا نے لگا۔ عرب ملک ماضی کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت اور مدد سے دستبردار ہوتے گئے اور 2018-19ء سے یہ مالی امداد بہت ہی کم ہو گئی ۔

اسرائیل کا قیام ہی اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن رائٹ ڈیکلیریشن کے خلاف تھا پھر 1948 ء کی جنگ میں سات لاکھ فلسطینیوں کے ملک سے نکال دیئے جانے کے بعد یہودی اکثریت میں آگئے۔ 1990 ء میں سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین اور اشتراکیت کے خاتمے کے بعد اور خصوصاً جب مصر ، شام ، عراق اور لیبیاکی طاقت کو ختم کیا گیا تو اسرائیل کی پالیسی یہ رہی کہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں اور غزہ اور لبنان وغیر ہ میں ایسی کاروائیا ں کرے جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی عمارتیں انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوتا رہے اور اِن کی نسل کشی بھی جاری رہے۔

یوں اس حوالے سے بدترین کاروائی 2014 ء میں کی گئی، یہی وہ سال ہے جب سعودی عرب کے عیاد بن امین مدنی اسلامی تعاون تنظیم OIC کے سیکرٹری بنے، ان کے بعد 2016 ء سے سعودی عرب ہی کے یوسف الوتا یمین سیکرٹری جنرل ہیں، اسی زمانے میں اسرائیل نواز ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہو ئے، او آئی سی نے نہ تو کشمیر پر اسلامی دنیا کے جذبات کی ترجمانی کی اور نہ ہی اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کوئی موقف اختیار کیا یہاں تک کہ پاکستان وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے کشمیر پر بھارتی مظالم کے خلاف او آئی سی کی نہایت سرد مہر ی پر جب بات ہوئی تو سعودی عرب نے قرضوں کی فوری واپسی اور سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانیوںکے انخلا تک کا شارہ دے دیا۔

گیارہ مئی 2021 ء کو جب اسرائیل اور غزہ میں حالات خراب ہوئے تو بھی یہ تلخ حقیقت ہے کہ پہلے ہفتے خود اسلامی ممالک کی سرد مہر ی یہ چغلی کھا رہی تھی کہ فلسطینیوں کی بہت بڑی تباہی ہو گی جب کہ اس سے قبل ساوتھ چائنا سی میں چین کے مقابلے پر امریکہ ،جاپان، آسٹریلیا اور بھارت سامنے ہیں اور یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ روسی فوج کھڑی ہے، ساتھ بلیک سی اور آبنائے بالفورس پر امریکہ برطانیہ بحری بیڑے لائے ہیں، لیکن 15 مئی 2021 ء سے غزہ اور اسرئیل میں صورتحال تبدیل ہوتی نظرآئی۔

حماس کے راکٹوں میں سے پانچ فیصد ہی سہی اسرائیلی دفاع کے ناقابل تسخیر نظام'' آئرن ڈوم سسٹم'' کو توڑتے ہوئے اسرائیل میں گرے اور 12 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، چین اور روسی ٹیلی ویژن کے انگریزی چیلنوں نے اسرائیل کی وحشیانہ میزائل لانچنگ اور بمباری کو دکھایا جس میں 66 معصوم بچے شہید ہوئے، ذہنی معذور بچوںکے مرکزکو بھی تباہ کیا اور آٹھ بچے ہلاک ہوئے اور پھر بعض اطلاعات کے مطابق روس کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم کو فون پر بتا دیا گیا کہ اگر اسرائیل یہاں نہیں رکتا تو روس کے لیے یہ سیکورٹی رسک ہوگا یعنی روس کاروائی کر سکتا ہے۔

امریکہ اور یورپی ملکوں میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے اتنے شدید ہو گئے کہ اِن ملکوں کے سربراہوں نے بھی اسرائیل پر زور دیا کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور پھر وہی صدر جو بائڈن جو امریکہ کی جانب سے سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کر رہے تھے انہوں نے اپنی آخری فون کال میں وزیراعظم نیتن یاہو کو کہا کہ اسی وقت جنگ بندی کا اعلان کیا جائے ۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں اٹھائے جانے کا بھی اعلان ہونے کو ہے اور روس جرمنی گیس پائپ لائن جس کی شدید مخالفت امریکہ کر رہا تھا اور اس کے لیے جرمنی کو اجازت نہیں دے رہا تھا وہ معاہد ہ بھی جرمنی کے ساتھ فائنل ہو رہا ہے۔

اس صورتحال میں یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف کوریل نے تذبذب کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ لیڈ یعنی دنیا کی سربراہی کر رہا ہے یا نہیں؟ یوں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ اب دنیا میں امریکہ واحد سپر پاور نہیں رہا اور اس کے مقابلے میں روس اور چین آچکے ہیں ۔

ماضی میں سوویت یونین کو اپنے اشتراکی نظام اور نظریات کی وجہ سے اسلامی ملکوں اور تحریکوں سے شدید اختلاف تھا اور اُس کی کیمونسٹ معیشت تھی جس کا آزاد مارکیٹ اور سرمایہ داری سے کوئی واسطہ نہیں تھا اب چین اور روس اپنے ون پارٹی منظم سیاسی نظام کے ساتھ مقابلے پر ہیں اور چین جو اس وقت دنیا کی دوسری اقتصادی قوت ہے سات سال بعد دنیا کی پہلی قوت بن رہا ہے، یوں یہ گیارہ روزہ اسرائیل فلسطین جنگ ایسی جنگ ہے جس نے پوری دنیا کو سیاسی ، عسکری، اقتصادی طور پر جھنجوڑ دیا ہے، اس گیارہ روزہ جنگ کے آخری چار دنوں ہی میں یہ محسوس ہو نے لگا تھا کہ اب دنیا میں جو نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے اس میں امریکہ کو ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں گی اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب اس کے مقابلے میں کمیونزم معیشت اور ممالک نہیں ہیں۔

اب چین بھی ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ دوسری جانب روس کے S400 دفاعی سسٹم نے امریکی اسٹلتھ ٹیکنالوجی کو چیلنج کر دیا ہے اور غالباً اسی لیے امریکہ اپنے F35 طیارے اُن ملکوں کو نہیں دے رہا جن کے بارے میں اُنہیں شبہ بھی ہو جائے کہ وہ روس سے S400 ڈیفنس سسٹم خریدیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس گیارہ روزہ جنگ پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ اگر جنگ بڑھی تو شام اور لبنان سے حزب اللہ بھی جدید میزائل سسٹم اور کسی جدید ڈیفنس سسٹم کے ساتھ جنگ میں داخل ہو جاتا جس کی پشت پر روس ہوتا ، پھر ماضی کے بر عکس اس گیارہ روزہ جنگ میں فلسطین میں وہاں کے فلسطینی مسلمانوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسرائیل کی فوج اور پولیس سے پتھروں سے مقابلے کیا اور جنگ کے فوراً بعد بھی مسجداقصٰی میں جب اسرائیلی پولیس نے اِن کو مسجد میں نماز ِ جمعہ پڑھنے سے روکا تواُنہوں نے مقابلہ کیا۔

یوں اس بار اسرائیل کو اس اعتبار سے خانہ جنگی کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ اس گیارہ روزہ اسرائیل فلسطین جنگ کے آخری دنوں میں سعودی عرب ، عرب امارات ، بحرین ، قطر اور کویت کی پوزیشن بھی کچھ تبدیل ہوتی دکھائی دی اور او آئی سی کے وزراء خارجہ کے اجلاس کے مشترکہ اعلانیے میں سخت الفاظ کے ساتھ اسرائیل کی پُر زور مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ پر بھی دباؤ ڈالا گیا ۔ مگر یہ یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان زبانی اورمیڈیا پر کیا گیا یعنی حماس اور اسرائیلی حکومت کے نمائندوں نے کسی جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے، یہاں ایک تکنیکی نکتہ یہ بھی ہے کہ حماس کو امریکہ اسرائیل اور اس کے ہم نوا ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں اور کسی بھی جنگ میں ایک ملک دوسرے ملک یا اُس کی حکومت سے جنگ بندی کا معاہد ہ کرتا ہے یوں اگر امریکہ کے کہنے پر اسرائیل نے زبانی ہی سہی لفظ جنگ بندی استعمال کیا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ کم سطح پر سہی حماس کو اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے تسلیم کر لیا گیا ہے ۔

طالبان سے مذکرات کے بعد اب حماس سے جنگ بندی کا معاہدہ اس بات کی نشاندہی ہو سکتا ہے کہ 2001 ء کے بعد سے انقلاب اور محکوم قوموں کی جدوجہد آزادی پر امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور یورپی ممالک کی جانب سے جو دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے، نئی سرد جنگ کے آغاز پر ایک بار پھر آزادی کی حقیقی تحریکیں سامنے لائیں گی اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ فلسطین اور کشمیر کو ہو گا کیونکہ یہ 72 سال سے اقوام متحدہ کی ٹیبل پراُ س کی منظور شدہ قرار دادوں کی صورت میں موجود اور زندہ ہیں، غالباً یہی وجہ ہے کہ ترکی کے اخبار نے طنزیہ انداز میں اس گیارہ روزہ جنگ کی جنگ بندی کے موقع پر یہ لکھا کہ پاکستان کشمیر کو بھول چکا ہے؟۔ اب یوں یہ نظر آرہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اپنی مخلوط حکومت کے ساتھ زیادہ دیر وزیراعظم نہیں رہیں گے۔

اور اب فوراً ہی امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے۔ اس کے بعد قوی امکان ہے کہ امریکی صدر جو بائڈن یہاں اپنے عرب اتحادیوں سے ملاقاتیں کریں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب امریکہ کو عالمی سطح پر پہلے کے مقابلے میں کمزور سمجھا جا رہا ہے اور دوسری جانب امریکہ نے ماضی قریب میں جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی طاقت کے نشے میں تھے تو اپنے اتحادیوں کے ساتھ اُن کا رویہ اکثر ہتک آمیز بھی ہوا اور اُنہوں نے بہت سے معاہدے توڑ کر اور وعدوں کی خلاف ورزی کر کے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

جب کہ روس جب آخر میں شام میں بشار ت الاسد کے ساتھ کھڑا ہوا تو اُس نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مشرق وسطٰی میں موجود ہے، اسی طرح چین اور روس نے ایران کے ساتھ بھی بہتر تعلقات کی بنیاد پر ثابت کر دیا کہ یہ دونوں طاقتیں ملکوں کے ساتھ تعلقات کے اعتبار سے اپنی ساکھ کو مستحکم رکھتی ہیں۔ حماس کے لیڈر محمد دائف جو ایک کیمیکل انجینیئر بھی ہیں اسرائیل اُن کو شہید کر نے میں ناکام رہا جنہوں نے یہ راکٹ بنائے اور اسرائیل پر داغے، وہ پہلے بھی فلسطین کی خاطر بیوی بچے قربان کر چکے ہیں، اُن کی ٹانگ اور بازو بھی جنگ میں کام آئے۔

اس پورے تناظر میں ایک بات جو غالباً صرف محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک جانب تو اب امریکہ اسرائیل اور مغربی قوتیں یہاں نئی اسٹرٹیجی ترتیب دیں گی اور اُن کی یہ کوشش ہو گی کہ پی ایل اوPLO اور حماس سے تو بات کی جائے مگر یہ کوشش ہو کہ حماس کو حزب اللہ سے دور کر دیا جائے بلکہ کے اس کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یہ کوششیں کی جائیں گی مگر اب سعودی عرب ، عرب امارات ، سلطنت عمان کی طرح حکمت و دانائی سے کام لیں گے، واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو انتخابات سے پہلے سلطنتِ عمان کا دورہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ یہ تاثر دیں کہ اب سلطنت عمان بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والی ہے مگر عمان نے یاہو کو کہا کہ وہ انتخابات کے بعد دورہ کریں ۔

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس کی معدافینہ جنگ اور کامیابی کے مقابلے میں 2014 ء سے جاری عرب ملکوں کی سرد مہری کو فلسطینی اور عرب عوام محسوس کر رہے ہیں اور یہ اندازہ نہیں کہ وہ اپنے اسلامی عقائد اور عرب جنگجویانہ فطرت کے باوجود اپنی بادشاہتوں کے زیر کنٹرول کس طرح اپنے سچے اظہا ر سے محروم رہے ہیں۔

اب نئی سرد جنگ کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں اب ایک نئی عرب اسپرنگ کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی یہاں اب یہ کوشش ہو گی کہ فوری طور پر عرب ممالک کے ذریعے ایک دور ارب ڈالر خرچ کر کے نہ صرف یہاں فوراً تباہ شدید عمارتیں انفر اسٹرکچر تعمیر کر دیا جائے بلکہ یہاں شہدا کے لواحقین کی فوری مالی مدد کی جائے تاکہ عرب بادشاہتیں اِن فلسطینیوں کے دل جیت لیں، اسی طرح آنے والے دنوں میں یہاں ترکی کے کردار کو کم کرتے ہوئے طیب اردگان کی بجائے مصر کے جنرل سسی کو مقبول بنایا جائے۔ اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اب پاکستا ن کو اپنی خارجہ پالیسی پرتوجہ دینی ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں