پُل کنجری
ایک راجا اور طوائف کے عشق کی یادگار
لاہور سے امرتسر کی طرف جائیں تو واہگہ سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور، بھارت میں ایک پل موجود ہے جسے پل کنجری کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ بھارتی گاؤں دھنوعہ کلاں کے پاس ہے اور تاریخی حوالے سے بہت دل چسپ کہانی اس سے منسلک ہے۔
اہم تجارتی منڈی؛
یہ بات ہے رنجیت سنگھ کے دور کی جب امرتسر سے کوئی 35 کلومیٹر دور، دھنوعہ کلاں کے پاس واقع یہ جگہ ایک اہم تجارتی منڈی ہوا کرتی تھی، جہاں قسم قسم کی اجناس بیچنے کے لیے رکھی جاتیں اور لاہور و امرتسر کے لوگ خریداری کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ اس جگہ ہندو، سکھ اور مسلمان مل جل کہ رہا کرتے تھے۔
مہاراجا اپنے قافلوں اور شاہی فوج کے ساتھ گزرتے ہوئے اکثر یہاں پڑاؤ ڈالتا اور یہاں موجود خوب صورت بارہ دری میں آرام کرتا۔
ایک اجڑے ہوئے قلعے کے علاوہ یہاں ایک تالاب، مسجد، مندر اور گوردوارہ بھی موجود تھا جو اس جگہ کی مذہبی اہمیت اور مختلف مذاہب کے اتحاد کو اجاگر کرتا ہے۔
مہارانی موراں؛
مکھن پور گاؤں کی ایک مشہور طوائف تھی جس کا نام موراں تھا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کو اپنی جوانی میں ہی اس سے محبت ہوگئی اور اس نے موراں سے شادی کرنے کی ٹھانی۔
اپنی قوم کی ناراضی اور موراں کے باپ کی کڑی شرائط کے باوجود مہاراجا نے اس سے شادی کی اور اکال تخت سے سزا پائی۔
شادی کے بعد مہاراجا نے موراں کے نام کا سکہ جاری کیا، جس پر وہ عوام میں موراں سرکار کے نام سے مشہور ہوئی۔ موراں اپنی فہم و فراست کی وجہ سے جانی جاتی تھی اور بہت سے اہم معاملات مہاراجا کے گوش گزار کرتی تھی۔
مسجد وزیر خان کے واقعے کے بعد حضرت میراں شاہ کی بددعا سے ڈر کے موراں نے اپنا نام مائی موراں رکھ لیا تھا۔
مائی موراں نے 1862 میں وفات پائی اور لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں حضرت طاہر بندگیؒ کے قریب دفن ہوئی۔ پاپڑ منڈی میں موجود قدیم مسجدِ طوائفاں (موجودہ نام مائی موراں مسجد) بھی مہاراجا نے اپنی اسی بیوی کی خواہش پر تعمیر کروائی تھی۔
پل کنجری کی کہانی؛
مہاراجا جب موراں کی زلفوں کا اسیر ہوا تو مسئلہ درپیش ہوا ملاقاتوں کا۔ عوام الناس کی مخالفت کی وجہ سے دونوں امرتسر یا لاہور میں نہیں مل سکتے تھے، لہٰذا ایک محفوظ جگہ کے طور پر لاہور و امرتسر کے بیچ موجود ایک خوب صورت بارہ دری کا انتخاب ہوا اور دونوں اس بارہ دری میں ملنے لگے۔
ایسے ہی ایک بار جب موراں مہاراجا سے ملنے آ رہی تھی تو اسے مہاراجا کی طرف سے دیا گیا چاندی کا جوتا ہنسلی نہر (جو شاہ جہاں نے شالامار باغ کو سیراب کرنے کے لیے راوی سے نکلوائی تھی ) میں جا گرا۔
اب یہاں دو روایتیں موجود ہیں، پہلی یہ کہ موراں نے آگے جانے سے انکار کردیا اور مہاراجا نے اس کی خواہش پر یہاں ایک پل بنوا دیا۔
دوسری جگہ کہتے ہیں کہ جب وہ ننگے پیر مہاراجا کے دربار میں پہنچی تو اس نے شکایتاً اس واقعے کا تذکرہ کیا جس پر رنجیت سنگھ نے یہاں فوراً ایک پل بنوانے کا حکم دیا۔
چوںکہ طوائف کو پنجابی میں کنجری کہا جاتا تھا اِس وجہ سے اس پل کا نام ''پل کنجری'' پڑ گیا جسے بعد میں بدل کر ''پل موراں'' کردیا گیا تھا۔
موجودہ حالت؛
ایک وقت میں تاریخی اہمیت کا حامل یہ قصبہ پاکستانی سرحد کے ساتھ اب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔
پل موراں یا پل کنجری کا کچھ حصہ اب بھی موجود ہے۔ 1965 اور 71 کی جنگ میں یہ جگہ پاکستانی فوج نے اپنے قبضے میں لے لی تھی لیکن جنگ کے بعد ہونے والے امن معاہدے کے تحت یہ بھارت کو واپس کردی گئی اور آج بھارتی پنجاب کا ایک سیاحتی و تاریخی مقام ہے۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے بارڈر سیکیوریٹی فورس کی ایک چیک پوسٹ بھی یہاں موجود ہے جہاں سے پاکستانی سرحد واضح نظر آتی ہے۔
بھارت نے جنگ میں مارے جانے والے سکھ رجمنٹ کے فوجیوں کی یاد میں ایک جنگی یادگار بھی یہاں بنا رکھی ہے جو ایک طرح کا پکنک اسپاٹ بھی ہے۔
اشنان کے لیے تالاب (جسے اب سرور کہا جاتا ہے)، مسجد، مندر اور گردوارہ اب بھی یہاں موجود ہے جب کہ ہنسلی نہر اب سوکھ چکی ہے۔n
اہم تجارتی منڈی؛
یہ بات ہے رنجیت سنگھ کے دور کی جب امرتسر سے کوئی 35 کلومیٹر دور، دھنوعہ کلاں کے پاس واقع یہ جگہ ایک اہم تجارتی منڈی ہوا کرتی تھی، جہاں قسم قسم کی اجناس بیچنے کے لیے رکھی جاتیں اور لاہور و امرتسر کے لوگ خریداری کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ اس جگہ ہندو، سکھ اور مسلمان مل جل کہ رہا کرتے تھے۔
مہاراجا اپنے قافلوں اور شاہی فوج کے ساتھ گزرتے ہوئے اکثر یہاں پڑاؤ ڈالتا اور یہاں موجود خوب صورت بارہ دری میں آرام کرتا۔
ایک اجڑے ہوئے قلعے کے علاوہ یہاں ایک تالاب، مسجد، مندر اور گوردوارہ بھی موجود تھا جو اس جگہ کی مذہبی اہمیت اور مختلف مذاہب کے اتحاد کو اجاگر کرتا ہے۔
مہارانی موراں؛
مکھن پور گاؤں کی ایک مشہور طوائف تھی جس کا نام موراں تھا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کو اپنی جوانی میں ہی اس سے محبت ہوگئی اور اس نے موراں سے شادی کرنے کی ٹھانی۔
اپنی قوم کی ناراضی اور موراں کے باپ کی کڑی شرائط کے باوجود مہاراجا نے اس سے شادی کی اور اکال تخت سے سزا پائی۔
شادی کے بعد مہاراجا نے موراں کے نام کا سکہ جاری کیا، جس پر وہ عوام میں موراں سرکار کے نام سے مشہور ہوئی۔ موراں اپنی فہم و فراست کی وجہ سے جانی جاتی تھی اور بہت سے اہم معاملات مہاراجا کے گوش گزار کرتی تھی۔
مسجد وزیر خان کے واقعے کے بعد حضرت میراں شاہ کی بددعا سے ڈر کے موراں نے اپنا نام مائی موراں رکھ لیا تھا۔
مائی موراں نے 1862 میں وفات پائی اور لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں حضرت طاہر بندگیؒ کے قریب دفن ہوئی۔ پاپڑ منڈی میں موجود قدیم مسجدِ طوائفاں (موجودہ نام مائی موراں مسجد) بھی مہاراجا نے اپنی اسی بیوی کی خواہش پر تعمیر کروائی تھی۔
پل کنجری کی کہانی؛
مہاراجا جب موراں کی زلفوں کا اسیر ہوا تو مسئلہ درپیش ہوا ملاقاتوں کا۔ عوام الناس کی مخالفت کی وجہ سے دونوں امرتسر یا لاہور میں نہیں مل سکتے تھے، لہٰذا ایک محفوظ جگہ کے طور پر لاہور و امرتسر کے بیچ موجود ایک خوب صورت بارہ دری کا انتخاب ہوا اور دونوں اس بارہ دری میں ملنے لگے۔
ایسے ہی ایک بار جب موراں مہاراجا سے ملنے آ رہی تھی تو اسے مہاراجا کی طرف سے دیا گیا چاندی کا جوتا ہنسلی نہر (جو شاہ جہاں نے شالامار باغ کو سیراب کرنے کے لیے راوی سے نکلوائی تھی ) میں جا گرا۔
اب یہاں دو روایتیں موجود ہیں، پہلی یہ کہ موراں نے آگے جانے سے انکار کردیا اور مہاراجا نے اس کی خواہش پر یہاں ایک پل بنوا دیا۔
دوسری جگہ کہتے ہیں کہ جب وہ ننگے پیر مہاراجا کے دربار میں پہنچی تو اس نے شکایتاً اس واقعے کا تذکرہ کیا جس پر رنجیت سنگھ نے یہاں فوراً ایک پل بنوانے کا حکم دیا۔
چوںکہ طوائف کو پنجابی میں کنجری کہا جاتا تھا اِس وجہ سے اس پل کا نام ''پل کنجری'' پڑ گیا جسے بعد میں بدل کر ''پل موراں'' کردیا گیا تھا۔
موجودہ حالت؛
ایک وقت میں تاریخی اہمیت کا حامل یہ قصبہ پاکستانی سرحد کے ساتھ اب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔
پل موراں یا پل کنجری کا کچھ حصہ اب بھی موجود ہے۔ 1965 اور 71 کی جنگ میں یہ جگہ پاکستانی فوج نے اپنے قبضے میں لے لی تھی لیکن جنگ کے بعد ہونے والے امن معاہدے کے تحت یہ بھارت کو واپس کردی گئی اور آج بھارتی پنجاب کا ایک سیاحتی و تاریخی مقام ہے۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے بارڈر سیکیوریٹی فورس کی ایک چیک پوسٹ بھی یہاں موجود ہے جہاں سے پاکستانی سرحد واضح نظر آتی ہے۔
بھارت نے جنگ میں مارے جانے والے سکھ رجمنٹ کے فوجیوں کی یاد میں ایک جنگی یادگار بھی یہاں بنا رکھی ہے جو ایک طرح کا پکنک اسپاٹ بھی ہے۔
اشنان کے لیے تالاب (جسے اب سرور کہا جاتا ہے)، مسجد، مندر اور گردوارہ اب بھی یہاں موجود ہے جب کہ ہنسلی نہر اب سوکھ چکی ہے۔n