انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا

سنا ہے کہ عروس البلاد کراچی میں ملٹی نیشنل قبرستان بھی تعمیر ہوں گے جو کئی منزل بلند ہوں گے۔۔۔

ایک ہنستا بستا وطن تھا کبھی، جہاں امن کی فاختہ وقت کے شجر پر نغمے سناتی تھی، ہرے بھرے کھیتوں کی شادابی سال بھر موسم بہار کا سراغ دیتی تھی، سکھ کی کوئل جہاں کے بسنے والوں کو آزادی کے سندیسے سناتی تھی، جہاں کی راتوں میں روشنیاں تھیں، زندگی تھی، ہما ہمی تھی، چہل پہل تھی، جہاں نیم شبی کے عالم میں کوئی ماں، کوئی بیٹی، کوئی بہن چوکھٹ کی راہ نہیں تکتی تھی، جہاں لوگوں کا ہجوم تو ہوتا تھا مگر اس ہجوم کے کاندھوں پر جنازے نہیں ہوتے تھے، جہاں کھنکتے ہوئے قہقہوں کی آواز آتی تھی گولی کی نہیں، جہاں شامیں کسی حنائی دلہن کی طرح خوشبو لٹاتی تھیں مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان واقعی پاکستان تھا، ڈاکستان اور قبرستان نہیں بنا تھا۔ مگر اب چشم فلک نے وہ وہ تماشے دیکھے کہ تماشا تو ختم ہوگیا صرف مداری رہ گئے اور مداری بھی وہ جو باری باری اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں مگر کوئی کرتب اس لیے نہیں دکھاتے کہ وہ جانتے ہیں کہ قوم ان کے کرتب بار بار دیکھ چکی ہے اب اس میں کوئی نیا پن نہیں رہا۔

پس منظر وہی رہتا ہے بس منظر بدل جاتے ہیں، اب تو دلوں میں بھی صحرا جیسا سناٹا ہے جہاں دھڑکنیں ہلکی سی سرگوشیاں کرنے کے بعد بند ہوتی رہتی ہیں۔ کب اور کہاں کے درمیان سے گزرتی ہوئی گولیاں جسموں کا تعاقب کرتی ہیں کیونکہ ہاتھوں نے قلم پکڑنا تو چھوڑ دیا ہاں پستول، بندوق اور کلاشنکوف کو چلانا شروع کردیا ہے۔ یہ دلچسپ کھیل ایک عرصے سے جاری ہے مگر ایوان اقتدار کا تقریباً ہر فرد اپنے ہی افسون خدوخال میں گم ہے اور اسی فکر میں غلطاں و پیچاں ہے کہ اس کی لوٹی ہوئی دولت کس طرح بیرون ملک منتقل ہوسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ وقت پیسہ ہے (Time is Money) اور وقت کی قدر کرنا لوگ خوب جانتے ہیں، صرف اس معنی میں کہ جس قدر جلد اور جتنا بھی ممکن ہوسکے دولت سمیٹ لو کیا پتہ کہ کل یہ نادر مواقع ہاتھ آئیں یا نہ آئیں۔

ان دنوں سارے ایماندار، دیانت دار، باضمیر لوگ جنرل پرویز مشرف کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کیونکہ ہر زمانے میں ایک ہاٹ کیک ضرور ہوتا ہے، پرویز مشرف جیسے بھی تھے ان سب سے اچھے تھے جو نورا کشتی میں کبھی ایک دوسرے کو پچھاڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ ایک جماعت اپنی مدت پوری کرتی ہے تو دوسری آگے بڑھ جاتی ہے، پھر یہی نہیں، ان کی آل اولاد بھی اسی طرح الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے جیسے ایک فصل کاٹنے کے بعد دوسری فصل بو دی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ نئی نسل ہی ملک کے مستقبل کی معمار ہے، سو اس میں معترضین کو برا بھلا کہنے کی کیا ضرورت۔ جن کے خیال میں انڈے سے نکلے ہوئے چوزے بھی چوں چوں کرنے لگے بلکہ پوری مرغی کی طرح بولنے لگے اور شاید اتنے جرأت مند ہوگئے کہ کمانڈو کے آگے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے۔ بہرحال ہمارے ملک کی سیاست کا حال تو کوئی حبیب جالب سے پوچھے۔ اپنے وطن میں رہ کر بے وطنی کا احساس سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے مگر یہ سب قسمت کے کھیل ہیں، بقول شاعر:


کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

نفرت کی یہ آگ کروڑوں سینوں کو دہکا رہی ہے۔ مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا خون آلود کھیل جاری ہے، محبتیں خواب و خیال ہوگئیں اور آنکھوں کے سوتے خشک ہوگئے، اب تو تاحد نظر وحشت کے سائے زندگی کے دشت پر کسی بدمست ہاتھی کی طرح ناچ رہے ہیں، ایسے میں ایک خبر نے پوری قوم کو چونکا دیا، یا پھر بیدار کردیا ایک نوجوان طالب علم کی بے مثال قربانی جو اس نے اسکول کے بچوں کو اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے دی۔ جی ہاں یہ اعتزاز حسن تھا جس نے جان پر کھیل کر بے شمار زندگیوں کو بچایا اور خود زندگی کی بازی ہار گیا۔ اسے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا اور عوام نے اس کی دلیری، حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کیا مگر اس کی دہلیز تک جس کے قدم نہ گئے وہ اسی صوبے کے وزیراعلیٰ تھے، تحریک انصاف کے سربراہ شاید اس لیے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے ہاں جب کپتان صاحب برہم ہوئے تو انھیں ہوش آیا۔ مانا کہ یہ نفرتیں اور مذمتیں بھی رسمی ہوتی ہیں مگر رسم دنیا یہی ہے، پتہ نہیں کہ اس ملک اور بالخصوص کراچی میں قبرستانوں کی تعمیر کا کیا اوسط ہے، کیونکہ کنسٹرکشن کمپنیاں تو صرف فلیٹ اور بنگلے بنانے کے اعلانات کرتی ہیں

مگر سنا ہے کہ عروس البلاد کراچی میں ملٹی نیشنل قبرستان بھی تعمیر ہوں گے جو کئی منزل بلند ہوں گے اور اگر جگہ کم پڑگئی تو اجتماعی قبریں بنانے میں کیا حرج ہے، زندگی میں لوگ مل جل کر نہیں رہتے تو کم ازکم لحد میں تو ہر زبان بولنے والا ایک ساتھ آرام کرسکتا ہے، کیونکہ یہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں مہاجر، پٹھان، سندھی، بلوچی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ بغیر لڑے قیام پذیر ہیں۔میڈیا کی آزادی نے بھیانک حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ 2013 کا سورج ڈوب چکا ہے اپنے ساتھ لاشوں کا انبار لیے۔ کبھی کبھی ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کیا سوچ کر یہاں آئے تھے، کتنے اعتماد، کتنی مسرت اور کتنے یقین کے ساتھ، مگر اس جذباتی لگاؤ نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ پھر بھی ہمیں اس زمین سے پیار ہے کہ اس نے ہمیں پناہ دی مگر پھر بھی پاکستانی نہ کہلائے، پناہ گیر بن گئے۔زندگی میں انقلاب آتے رہتے ہیں، ہمیں بھی اس انقلاب کا انتظار ہے جو بغیر خون بہے آجائے- وطن کی مٹی گواہ بن کر یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ یہ لوگ محب وطن، دیانتدار ہوگئے اور اگر یہ پھر بھی باز نہ آئیں تو ان سب کو جلاوطن کردیا جائے مگر شرط یہ ہے کہ ان کو روانہ کرنے سے پہلے غیر ممالک میں ان کے اثاثے چھین لیے جائیں تاکہ یہ امریکا اور برطانیہ، دبئی اور ابوظہبی میں پرتعیش زندگی نہ گزار سکیں، لیکن ایسا کہاں ممکن ہے، کاش! یہ ممکن ہوسکے۔۔۔ اے کاش!
Load Next Story