چاندنی کی ٹہنی
حکمران اورامیرطبقے کی عملی حالت دیکھیے۔آپ کووہ اخلاقی انحطاط نظرآئیگاکہ انسان چکرا جاتا ہے۔
ہارون الرشید،مسلمانوں کے حددرجہ عالی شان خلیفہ تھے۔عباسی خلفاء ہی میں نہیں،اسلامی تاریخ کے ناقابل فراموش کردار۔ان کی دولت کااندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔دنیاوی بادشاہوں میں شائدسب سے متمول۔ شاہی قافلہ چلتاتوہزاروں گھڑسوارساتھ آسودہ ہوتے۔ تلواروں سے آراستہ اَن گنت محافظ،بیش قیمت لباس پہنے ساتھ ہوتے۔خلیفہ نے بغداد کو دنیا کا مرکز بنا دیا تھا۔
علم دوست مگرجفاکش۔آج جوحیثیت نیویارک، پیرس اورلندن کو ہے،وہی اس کے زمانے میں بغداد کو تھی۔کرہِ اَرض پرسب سے خوشحال شہر۔اَل طبری لکھتا ہے کہ رومیوں کوایک جنگ میں شکست دیکرجب خلیفہ کا لشکر واپس آیاتوبیس ہزارخچروں پرمالِ غنیمت لدا ہوا تھا۔ ہیرے جواہرات، سونا،چاندی،ہرطرح کا محیرالعقول خزانہ موجودتھا۔اسی پرشکوہ سلطان کاایک بیٹا فقر اور درویشی کی راہ پرگامزن ہوگیا۔
موٹے اور کھردرے کپڑے پہنتا۔سارادن قرآن شریف کی تلاوت کرتا۔ قبرستانوں میں بیٹھ کروقت گزارتا اورزندگی کی بے ثباتی پر غورکرتارہتا۔ایک دن،ہارون دربار میں موجود تھا۔ بھرپور،سجاہوادربار۔وزراء قیمتی لباس میں ملبوس قطار اندر قطار موجودتھے۔فوجی جرنیل اپنے جلالی اندازمیں مودب کھڑے ہوئے تھے۔اچانک شہزادہ دربارمیں داخل ہوا۔
اس نے ایک پھٹے ہوئے کمبل کا بنا ہوا لباس زیب تن کیاہواتھا۔سرپرایک سفیدرنگ کی میلی کچیلی پگڑی تھی۔پورے جسم پرایک بھی قیمتی چیزموجود نہیں تھی۔ وزراء اوردرباریوں نے جب اتنے خستہ حال میں شہزادہ کو دربارمیں آتے دیکھاتوکہنے لگے کہ یہ لڑکا، اپنے باپ کی عزت کوہرجگہ کم کرتا ہے۔
کہاں ہارون الرشید جیسا عالی شان اورعالی مرتبت بادشاہ اورکہاں یہ فقیروں جیسے حلیے والابیٹا۔یہ تو شہزادہ لگتاہی نہیں ہے۔یہ تو کم ظرف ہے جو ہرجگہ اپنے بادشاہ کوذلیل کرواتاپھرتاہے۔بہرحال شہزادہ، خلیفہ کے نزدیک جا کرکھڑاہوگیا۔بادشاہ کوبھی اس کاادنیٰ لباس پسندنہ آیا۔اس نے درشت طریقے سے ڈانٹا اور پوچھاکہ کیامسئلہ ہے۔تم اس حال میں کیوں یہاں آئے ہو۔تمام درباری دم بخود تھے کہ اب کیا ہوگا۔ شہزادہ نے سلطان سے کہاکہ اَبا حضور! آپ سے اجازت لینے آیا ہوں۔شہرچھوڑکرکسی اورجگہ جانا چاہتا ہوں۔محنت مزدوری کرکے روزی کمانا چاہتا ہوں۔
اور خدا کے کام میں زندگی وقف کرناچاہتا ہوں۔ مگرکیوں،تم خلیفہ کے بیٹے ہو۔کس چیزکی کمی ہے۔ شہزادے کے اصرار پر بادشاہ نے فیصلے کے لیے ایک دن کا وقت مانگا اور حکم دیا کہ کل آنا۔مفلوک الحال شہزادہ نے دربارمیں ایک عجیب حرکت کی۔نزدیک بیٹھے ہوئے پرندے کوکہاکہ میں خداکے توسط سے تجھے حکم دیتاہوں کہ میرے کندھے پرآکربیٹھ جاؤ۔اسی طرح ہوا۔
اذن الہی سے وہ پرندہ آیا۔شہزادہ کے کندھے پر بیٹھا اور جب اس نے کہاکہ واپس چلے جاؤ،تواُڑکردرخت پرواپس چلا گیا۔ ہارون الرشیدیہ منظردیکھ کرحیران رہ گیا۔ خیر اگلے دن، اسے محل میں بلایا۔حددرجہ بحث کے بعداسے بغداد سے جانے کی اجازت دی۔
چلتے ہوئے ایک انتہائی قیمتی انگوٹھی حوالے کردی کہ ضرورت پڑی تواسے فروخت کرکے گزارہ کرلینا۔شہزادہ انتہائی مفلسی میں بغداد سے نکلا اور بصرہ کے نزدیک ایک ویرانے میں گوشہ نشین ہوگیا۔ وہ سات دنوں میں صرف ہفتہ والے دن مزدوری کے لیے شہر جاتاتھااورصرف ایک درہم معاوضہ لیتا تھا۔ باقی چھ دن یادِ الہی میں بسرکرتاتھا۔کسی کوبھی علم نہ تھاکہ وہ خلیفہ وقت کا بیٹا ہے ۔
شہرمیںابوعامرنام کے ایک امیرآدمی کواپنی دیوار بنوانی تھی۔اتفاق سے ہفتہ کادن تھا۔شہزادہ بازارمیں مزدوروں کے ہمراہ روزی کمانے کے لیے بیٹھاہوا تھا۔ ابو عامرنے دیواربنانے کے لیے بلایاتواس نے دوشرائط پیش کیں۔ایک یہ کہ نمازکے وقت کام نہیں کریگا۔ دوسرا، اُجرت صرف ایک درہم لیگا۔ ابو عامر نے کہاکہ درست۔ دیواربننی شروع ہوئی۔شام تک کافی کام ہوگیا۔
ابو عامرجب کام دیکھنے آیاتوحیران رہ گیا۔ایسے لگتاتھاکہ دس بارہ لوگ مسلسل کام کرتے رہے ہیں۔خوش ہوکر مزدور شہزادے کودس درہم دیے۔تواس نے صرف ایک درہم رکھااورباقی واپس کردیے۔طے یہ پایاکہ وہ مزدورہفتے والے دن آکر دیوار بنایا کریگا۔ اگلے ہفتہ دوبارہ یہی سلسلہ ہوا۔ابوعامرنے تجسس سے چھپ کردیکھاتومعلوم ہواکہ مزدورکام کرتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کر رہاہے۔کام اس تیزی سے ہورہاہے جیسے مزدورکے ساتھ کوئی غیبی طاقت ہو۔اوردرجنوں لوگ کام کررہے ہوں۔بہرحال اگلے ہفتے جب مزدورنہ آیا۔ تو ابو عامر اس کی تلاش میں جنگل تک پہنچ گیا۔وہاں شہزادہ بیماری کی بدولت جانکنی کی حالت میں تھا۔ایک اینٹ تکیہ کی جگہ رکھی ہوئی تھی۔ابوعامرکی آوازسنکرکہاکہ آؤ،مجھے آپکاہی انتظار تھا۔دیکھ میں دنیاسے جارہا ہوں۔
مجھے پرانے کپڑوں کے کفن میں دفنانا۔کیونکہ نئے کپڑوں پرزندہ آدمیوں کاحق ہے اوریہ انگوٹھی،خلیفہ وقت،ہارون الرشید کودے دینا۔ابوعامرکویادآیاکہ نئے کپڑوں والاجملہ تو حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے منسوب تھا۔اس نے مزدورکی وصیت پرعمل کیا۔پرانے کپڑوں میںتدفین کی اوربغداد روانہ ہوگیا۔خلیفہ کی خدمت میں پیش ہوااوراسے انگوٹھی دیدی۔ہارون الرشیدنے دربار موقوف کیااور ابو عامر کو اپنے ذاتی محل میں لے گیا۔وہاں تمام ملازمین کوباہر نکال دیا۔
پوچھاکہ یہ انگوٹھی کہاں سے آئی۔جب ابوعامرنے قصہ بیان کیاتوخلیفہ پررقت طاری ہوگئی۔زاروقطارگریہ کرنے لگا۔ابوعامرکوکہاکہ وہ میرا بیٹاتھا۔مجھے بہت بڑا سبق سکھاگیاہے۔پھرہارون نے روتے ہوئے کہاکہ میرابیٹاتوٹھنڈی روشنی اورچاندنی کی ٹہنی تھا۔بہت جلد، اپنے خالق کے پاس چلا گیا۔ بتایا جاتاہے کہ اس واقعہ کے بعدہارون الرشیدمیں اَزحد تبدیلی آگئی۔خداخوفی حددرجہ بڑھ گئی۔زندگی کے بعدکے معاملات میںحددرجہ سنجیدہ ہوگیا۔
یہ واقعہ یاحکایت چنددن پہلے نظرسے گزری ہے۔مگراس وقت سے گہری سوچ میں ہوں۔بنیادی طور پرسائنس کاآدمی ہوں۔عمل اورردِعمل کی دنیا کا آدمی۔ حددرجہ یقین ہے کہ خدانے یہ زندگی انسان کو سخت محنت کے لیے عطاکی ہے۔تاریخ اسلام پڑھتا رہا ہوں۔یہی سمجھاہوں کہ رسول کریمؐکی تمام زندگی عمل کی زندگی تھی۔ ایک ایک لمحہ، ایک ایک دن،صرف اورصرف شدیدمشقت سے گزراہے۔پھراعلیٰ کرداراوربلندترین اخلاقی اُصولوں پرکام کرتے ہوئے ہردنیاوی مصیبت کا سامنا کیا تھا۔ جنگ بدرسخت کوشش سے لڑی تھی۔
آقاﷺ کی زندگی کاکوئی ایسالمحہ نہیں ہے جہاں تن آسانی،آرام اوردنیاسے محبت کاسبق ملتاہو۔اگرجوہری طورپردیکھاجائے تورسول کریمؐبھی قبرستان جاکرقبروں میں سوئے ہوئے لوگوںکویادکرتے تھے۔صحابہ کوفرماتے تھے کہ تمہیں علم نہیں کہ قبروں میں ان پرکیاگزررہی ہے۔ موت کو اکثر یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ مگر زندگی میں عمل کی قوت کوکبھی کم نہ ہونے دیا۔ایسا خوبصورت توازن دوبارہ کسی انسان کونصیب نہ ہوپایا۔ تاریخ ہی سے کشید کیا ہوا اُصول ہے کہ انسان کی زندگی محنت سے بھرپور ہونی چاہیے۔مگریہاں ایک لمحے کے لیے ٹھہرجائیے۔ انسان کی زندگی کسی نہ کسی انجانے مرحلے پرختم ہونی ہے۔ ہمارے پاس یہی چنددہائیاں ہی توہیں اوراس کے بعد، ابدی زندگی ہے جس سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔
اردگرددیکھیے۔اَن گنت لوگ مصروفِ کارنظر آئینگے۔ ہرطرح کے کام میں مشغول۔کوئی پیسہ کمانے میں برباد ہے اورکوئی جائیدادکواتنابڑھاوادینے میں،کہ اس کی سات پشتیں سنورجائیں۔مگرایک چیزمجھے نظرنہیں آئی۔کہ ہمارے عمل میں انتی زیادہ کجی ہے کہ لگتاہے کہ کسی کوموت پر واقعی یقین ہی نہیں ہے۔معلوم ہوتاہے کہ انھیں خداکی عدالت دیکھنی ہی نہیں ہے۔ شائد آپ کو یہ جملہ مناسب نہ لگے۔مگرمیں ناانصافی،ظلم،ایک دوسرے کے حقوق کو غضب کرنے کاوطیرہ اور ہر ناجائز طریقے سے دولت کمانے کی ہوس میں مبتلالوگوں کودیکھ کرکچھ اورنہیں کہہ سکتا۔
بات حکمرانوں کے مظالم تک محدودنہیں ہے۔ غریب بھی اتناہی ظالم ہے۔عوام کے کردارمیں ہرسطح پر ظلم کی گہری چھاپ موجودہے۔اوپرسے نیچے تک تقریباًہر شخص دولت کمانے کی دوڑمیں ایک دوسرے کاگلاکاٹنے پرآمادہ ہے۔کسی بازارمیں چلے جائیں۔آپکواکثریت دکاندارحددرجہ دیندارنظرآئینگے۔مگرجب آپ مال یاجنس خریدیں گے تومعلوم ہوگاکہ یاتونرخ زیادہ ہے اوریاپھر اسکامعیارحددرجہ کمزورہے۔پھل بیچنے والا،آپکو اچھا پھل دکھائے گا۔
مگرآپکودیگاانتہائی گلاسڑا فروٹ۔ گوشت بیچنے والے کی مکمل کوشش ہوگی کہ آپکواچھا گوشت نہ فروخت کرے۔دودھ بیچنے والاآپکوخالص دودھ دیناگناہ سمجھے گا۔یہ تمام باتیں ہرایک کے علم میں ہیں۔آپکی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کررہا۔ مگر کیاوجوہات پرغور کرنا ضروری نہیں؟کیااس اخلاقی بگاڑ کے اس باب پرفکرکرنالازم نہیں؟ بالکل ہے۔ دیکھا جائے توہمیں موت پربالکل یقین نہیں ہے۔ہم روزِ قیامت کے حساب کوبھی اس سنجیدگی سے نہیں لیتے جو بطور مسلمان ہم پرفرض ہے۔
متوسط اورغریب طبقے کوتوخیرچھوڑیے۔حکمران اورامیرطبقے کی عملی حالت دیکھیے۔آپکووہ اخلاقی انحطاط نظرآئیگاکہ انسان چکراجاتاہے۔ہمارے مذہب میں جائزدولت کمانابالکل مستحسن فعل ہے۔مگر ناجائز دولت کی پکڑحددرجہ زیادہ ہے۔پھراس دانش مندشہزادے کی بات یادآتی ہے جواپنے باپ یعنی خلیفہ ہارون الرشیدکی پوری سلطنت کوٹھکرا کر ویرانے میںچلاگیاتھا۔اسے زندگی کی بے ثباتی پر یقین تھا اور اپنی دنیاوی زندگی کے لیے محنت مزدوری کرنے پر بھی۔ وہی شہزادہ،جسکے متعلق خلیفہ نے کہا تھاکہ وہ توچاندنی کی ٹہنی کی مانندتھا!