وسائل کا استعمال اور بجٹ
حکومت کہتی ہے کہ اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ذرا اس جانب بھی کوئی چھوٹی سی تبدیلی لا کر دیکھیں۔
مہماں پر نظر پڑی، چہرہ کھل اٹھا، استقبالیہ کلمات کہہ کر اٹھ ہی رہے تھے کہ مہمان انتہائی قریبی دوست بھی تھا اس سے ابھی معانقہ ہوا ہی چاہتا تھا کہ میزبان نے دفعتاً اپنا رخ چراغ کی طرف موڑ لیا اور اسے گل کردیا۔ دور کہیں چاند بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ بھیگی ہوئی رات کے اس لمحے چراغ کے گل ہونے سے مہمان پر کیا گزری ہوگی؟ شاید چاند نے اپنا رخ مہمان کے چہرے کی جانب کردیا ہوگا۔
لیکن مہمان کے چہرے پر نہ کوئی حیرت تھی نہ تعجب، نہ پشیمانی۔ ہوتی بھی کیسے آخر؟ لاکھوں مربع میل کے سربراہ حکومت کی جانب سے اتنی زیادہ خندہ پیشانی اتنا پرجوش استقبال۔ لہٰذا مہمان کو نہ تھا کوئی ملال نہ چراغ کے خاموش ہونے کا کوئی خیال۔ ایسا اس لیے ضروری تھا کیونکہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رات کے اس پہر میں سرکاری کام میں مصروف تھے اور اب ذاتی دوست کے ساتھ محو گفتگو ہیں تو بیت المال کا تیل آخر کیوں صرف کریں۔
انھی کا ڈھائی سالہ دور تھا جب زکوٰۃ دینے والے بے شمار تھے زکوٰۃ لینے والے انتہائی قلیل تھے۔ اس لیے کہ انھوں نے یہ سبق سکھایا کہ سرکاری حکام سرکاری خزانے کے مال کی ہر طرح سے بچت کریں اور کسی طور پر بے جا اصراف نہ کریں۔ تو سرکاری خزانہ اتنا بھر جائے گا کہ پھر بے جا اخراجات اور غیر ضروری اخراجات کے باعث اخراجات زیادہ آمدن کم لہٰذا اس خلا کو پورا کرنے کے لیے قرض لینے کی ضرورت۔ عوام پر اضافی ٹیکس لادنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔
ہمارے ملک میں سرکار اپنے عمال اپنے حکام اپنے افسران اپنے وزرائے کرام اور دیگر کو صوابدیدی فنڈز اور مختلف فنڈز وغیرہ وغیرہ کے نام پر اربوں روپے صرف کیا جاتا ہے۔ کہیں مختلف صاحبان کو غیر ملکی دوروں پر بھیج دیا جاتا ہے، کہیں سرکاری حکام دوروں کی گنجائش نکال لیتے ہیں، کہیں ایک شہر سے دوسرے شہر جاکر مہنگے ہوٹلوں میں قیام و طعام اور دیگر اخراجات کے نام پر ہر سال بجٹ میں کروڑوں روپے رکھے جاتے ہیں۔ ان امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا تجزیہ ہے کہ کہیں کہیں، کبھی کبھی تو ان دوروں کے فوائد نظر آتے ہیں، ورنہ زیادہ تر کو سیر سپاٹوں کے کھاتے میں سمجھنا چاہیے۔
حکومت کہتی ہے کہ اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ذرا اس جانب بھی کوئی چھوٹی سی تبدیلی لا کر دیکھیں شاید اتنی رقم بچ جائے کہ عوام پر یا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔
اس طرح ترقیاتی اخراجات کے نام پر جتنی بھی رقوم رکھی جاتی ہیں پھر ان کا کس طرح استعمال ہوتا ہے۔ حصہ بقدر جثہ اور حسب مراتب کمیشن اور کک بیکس اور کئی باتیں ہیں جن کے بارے میں وقتاً فوقتاً خبریں وغیرہ شایع ہوتی رہتی ہیں۔
بہرحال آنے والے بجٹ میں اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں پر 900 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے اور ٹیکس وصولی کا ہدف 5892 ارب روپے مقرر کیا جاسکتا ہے۔ بجٹ کے حجم کے بارے میں یہ اندازہ پیش کیا جا رہا ہے کہ 84 ہزار ارب کا ہوگا۔ ملک میں براہ راست ٹیکس جسے انکم ٹیکس بھی کہا جاتا ہے اس کا حجم کم ہی ہوتا ہے۔ سرکاری خزانے میں اتنی رقوم جمع نہیں ہوتی۔ ملکی اور عالمی ذرایع ابلاغ تحقیقی ادارے جائزہ رپورٹس وغیرہ ببانگ دہل اعلان کرتی رہتی ہیں کہ ملک میں اگر کسی چیز نے گزشتہ پون صدی میں ترقی کی ہے تو وہ کرپشن ہے۔ اس سے قبل کی ہر حکومت عوام پر ٹیکس کا بوجھ لادنے میں کھلے دل سے کام لیتی رہی ہے۔
حالانکہ پوش علاقے ہوں یا بڑے بڑے فارم ہاؤسز ہوں یا اور بہت سی نشانیاں ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں اور واشگاف الفاظ میں بیان کر رہی ہیں کہ ہم ہیں کرپشن، جس کے باعث یہ بنگلے اور کیا کیا وغیرہ وغیرہ آباد ہیں۔ بہرحال بجٹ آتے رہیں گے یہ بجٹ چونکہ مالی سال کے آغاز سے قبل پیش کیا جاتا ہے لہٰذا اس کے بعد آنے والے بجٹوں کو منی بجٹ کہا جاتا ہے۔ ہر بجٹ کو سیٹ کرکے جب پیش کیا جاتا ہے تو عام آدمی کا بجٹ اپ سیٹ ہو جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کہتے ہیں۔ بجٹ اگر امیر دوست ہو تو امرا کا دھندا خوب چل نکلتا ہے۔
اسمگلنگ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ بجٹ کے نام پر ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ہر وہ شے انھوں نے چھپائی، ذخیرہ کی ہوتی ہے۔ بجٹ کے نام پر مہنگا فروخت کردیتے ہیں۔ اس بجٹ میں انکم ٹیکس کی مد میں 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے۔ باالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں وصولی کا ہدف اندازہ ہے کہ ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہوگا۔
ابھی بجٹ پیش نہیں کیا گیا جب کہ اندازہ ہے کہ سیمنٹ سیکٹر سے ڈیوٹی کی مد میں وصولی کا ہدف ایک کھرب روپے سے زائد ہوگا۔ شاید اس خبر کے سنتے ہی سیمنٹ فی بوری 10روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح قدرتی گیس سیکٹر سے وصولی کا ہدف 12 ارب روپے تک مقرر کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک گیس بلوں کا تعلق ہے تو چند ماہ سے گیس بل بڑھا کر دیے جا رہے ہیں جس میں ایک خاص قسم کے اخراجات بھی وصول کیے جا رہے ہیں اسی طرح بجلی بل میں بھی مزید اضافی بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔
حکومت ٹیکسوں کے ذریعے جو آمدن حاصل کرتی ہے اگر اس میں سے صحیح معنوں میں صحت عامہ اور عوامی فلاح و بہبود کے دیگر پروگرامز پر خرچ کرے، صحت تعلیم کے شعبوں کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھائے، پاکستان کے ہر سرکاری اسپتال کی کیا حالت زار ہے، 7 عشروں سے عوام ان کا برا حال دیکھ رہے ہیں، اربوں روپے کے فنڈز ملتے ہیں جب کہ عوام کو اسپتالوں میں برائے نام کہیں سہولت ملتی ہے اور کہیں وہ بھی نہیں ہے۔
حکومت بھی بجٹ پیش کرتی ہے۔ پھر صحت عامہ جیسے صوبائی حکومت کے حوالے کیا گیا وہ بھی بجٹ پیش کرتے ہیں۔ کم ازکم صحت، تعلیم، پانی اور دیگر عوام کے فلاح و بہبود کے کام اس طرح کیے جائیں کہ نظر آئیں کہ عوام ان سے بھرپور مستفید بھی ہو سکیں۔