تباہی کا شکار کراچی
سائیں سرکار نے کراچی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی, جس کے کراچی دشمن اقدامات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں
''کراچی پاکستان کا معاشی ہب ہے۔''
''کراچی کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔''
''سی پیک سے کراچی کو مزید ترقی ملے گی۔''
یہ اور اس طرح کے کئی جملے اکثر وبیشتر سننے کو ملتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی سیاستدان آئے روز کراچی سے متعلق کچھ ایسے الفاظ کا انتخاب کرتا نظر آتا ہے۔ تاہم کراچی کی پرواہ سائیں سرکار سمیت کسی کو نہیں ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کراچی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے والی سائیں سرکار ہی ہے، جس کے کراچی دشمن اقدامات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔
بے جا لاک ڈاؤن نے جہاں شہر کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، وہیں امن وامان کی صورت حال بھی بگڑتی جارہی ہے۔ شہر قائد میں روزانہ درجنوں ڈکیتیوں کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ ان میں پکڑے جانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جن ڈکیتوں کو پکڑا جارہا ہے ان کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں، وہ نوجوان ہی ہیں، جو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت اس گھناؤنے کام میں آگئے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ لوگ کہیں نہ کہیں کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرکے اپنے کنبے کو پال رہے تھے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس بات کو سمجھنے کےلیے حکومت قطعی تیار نہیں۔ الٹا پولیس کو سختی سے پابند کردیا گیا ہے کہ رات آٹھ بجے کراچی کو بلاک کردیا جائے۔ جس کے باعث اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ پولیس سڑکوں پر بیریئر لگا کر سکون کی بانسری بجارہی ہے اور علاقے میں ڈکیتوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
گزشتہ روز ایک دوست کی پرچون کی شاپ پر جانا ہوا۔ اسی دوران ایک شخض آیا اور دکاندار دوست سے کہا کہ بھائی آج کام پر نہیں جاسکا، اس لیے پیسے نہیں، صرف ایک کلو آٹا، آدھا پاؤ گھی، اور بیس روپے کی چینی چاہیے تاکہ بچوں کو کھانا کھلا سکوں۔ میرا دکاندار دوست اسے جانتا تھا، اس لیے اس نے فوراً اسے مطلوبہ سامان دے دیا۔ اس کے جانے کے بعد میرے دوست نے مجھے بتایا کہ یہ لیاری میں خاکروب ہے اور گھروں سے کچرا اٹھاتا ہے۔ اسے روزانہ کی بنیاد پر پیسے ملتے ہیں اور یہ روزانہ یہیں سے سودا لے جاتا ہے۔ لیکن حالات دیکھو کہ صرف ایک دن یہ کام پر نہیں جاسکا اور گھر میں فاقے کی نوبت آگئی۔ میں اس کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ حقیقت میں اس کی ذمے داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وفاق کے اقدامات کی وجہ سے مہنگائی کا جن بے قابو ہوا ہے، وفاق کی پالیسیوں کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں وفاق کا کوئی کردار نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کئی اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ لیکن عوام کو شعور وآگاہی سے دور رکھنے والی سندھ حکومت اس کو وفاق کے کھاتے میں ڈال کر سکون سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ جس کی تازہ مثال ارسا کی وہ رپورٹ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سندھ نے اضافی پانی کو روک کر کوٹری بیراج کو پیاسا رکھا اور الزام وفاق پر یہ لگایا کہ وہ پنجاب کو پانی دے رہا ہے اور سندھ کو پیاسا رکھا ہوا ہے۔
پورے ملک میں کہیں اس طرح کاروبار کو تباہ نہیں کیا گیا جس طرح جان بوجھ کر کراچی کے کاروبار کو تباہ کیا جارہا ہے۔ شام چھ بجے کا کہہ کر ساڑھے پانچ بجے ہی پولیس کی گاڑیاں آکر کاروبار بند کرانا شروع کردیتی ہیں۔ جب کہ ساتھ میں کبھی اے سی اور کبھی ڈی سی صاحبان بھی موجود ہوتے ہیں، جو موقع پر ہی دکانوں اور شاپنگ مالز کو سیل کررہے ہیں، ساتھ ہی ان پر بھاری بھرکم جرمانہ عائد کرکے رہی سہی کسر وہ لوگ پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان ڈی سی اور اے سی صاحبان نے کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ مرغی کا گوشت کس نرخ پر بک رہا ہے، دالیں کس نرخ پر بک رہی ہیں۔ کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے اپنے علاقے میں سرکاری اسکولوں کی حالت زار کیا ہے۔ کبھی یہ دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ آیا یہاں کے لوگ کس طرح کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز سے ایک دودھ والا کنٹرول نہیں ہوتا مگر وہ آئے روز صبح سے شام تک دیہاڑی لگانے کےلیے مختلف شاپنگ مالز اور دکانوں کو سیل کرتے نظر آتے رہتے ہیں۔
ٹیکس کی مد میں دیکھا جائے تو کراچی ستر فیصد ٹیکس ادا کررہا ہے۔ اس حساب سے یہاں کی سڑکیں اور ہر محلے کی گلیاں تک پکی ہونی چاہیے تھیں، پانی کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے تھی، بجلی چوبیس گھنٹے دستیاب ہونی چاہیے تھی، سرکاری اسکولوں کی حالت بہترین ہونی چاہیے تھی۔ یہاں تک کے پولیس اسٹیشن میں عوام کی عزت کی جانی چاہیے تھی۔ مگر افسوس کہ یہاں سب الٹا ہورہا ہے۔ جو جتنا ٹیکس دے رہا ہے وہ اتنا ہی خوار ہورہا ہے۔ عوام کے ٹیکس پر پلنے والی حکومت کو محض ٹیکس سے سروکار ہے، اسے عوام کی اور کراچی کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں ترقی کے نام پر جو چورن آئے روز بکتا ہے وہ صرف اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ کراچی میں ترقی صرف وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس اور پوش ایریاز میں ہی نظرآتی ہے۔ جب کہ کراچی کے دیگر علاقوں اور مضافات میں ترقی کے نام پر سوائے کرپشن کے کچھ نہیں۔
جہاں سائیں سرکار نے کراچی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، وہیں شہر قائد کو تباہ کرنے کےلیے کے الیکٹرک نے بھی پورا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں کاروبار چھ بجے ہی بند ہوجاتا ہے، کارخانے، فیکٹریاں، دکانیں، شاپنگ مالز سب کچھ بند ہونے کے باوجود بجلی کی کمی پوری نہیں ہوپارہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چھ بجے کے بعد کراچی کو لوڈشیڈنگ فری کردیا جاتا، مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کراچی کے ہر علاقے میں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ گزشتہ دو ماہ سے جاری ہے، اور اب یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ جس سے صبح جلدی کام پر جانے والے مزدور انتہائی اذیت کا شکار ہیں۔ شہر قائد میں لوگ ایک ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں، جہاں بجلی کے بغیر رہنا انسان کےلیے انتہائی دشوار ہے۔ لیکن کے الیکٹرک کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ایک طرف لوڈشیڈنگ اور دوسری طرف اووربلنگ کے ذریعے کراچی کے ہی لوگوں سے ماہانہ اربوں روپے کی چوری کرکے وہ اطمینان سے شہر قائد کی تباہی کو دیکھ رہی ہے۔ اس پر نہ تو سائیں سرکار کچھ کہنے کو تیار ہے اور نہ ہی وفاق اس معاملے پر کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کے موڈ میں نظر آرہا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات بھی کے الیکٹرک آئے روز ہوا میں اڑاتی نظر آتی ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کے الیکٹرک کو کہنے والا اس ملک میں کوئی نہیں۔ یہ تمام اداروں پر بھاری ثابت ہورہا ہے۔ کے الیکٹرک کو اس ملک میں اب کسی ادارے کا ڈر نہیں، وہ بے خوف کراچی کو تباہ کرنے میں جتا ہوا ہے۔
سندھ سرکار اگر کراچی کے لوگوں کو روزگار نہیں دے سکتی تو کم از کم ان سے کچھ چھیننے کا حق بھی اسے کسی نے نہیں دیا۔ کبھی انکروچمنٹ کے نام پر تو کبھی ٹیکس کی آڑ میں تو کبھی بے جا لاک ڈاؤن کے نام پر لوگوں کے روزگار پر قدغن لگانا درست عمل نہیں۔ اگر کراچی تباہ ہوا تو پھر یقین کریں پاکستان کی تباہی بھی یقینی ہے۔ اس وقت کراچی کے نوجوان اس سسٹم سے باغی ہوتے جارہے ہیں، اس نظام اور اس نظام کو چلانے والوں سے دل برداشتہ نظرآرہے ہیں۔ انہیں انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے بھی اب کوئی امید باقی نہیں رہی۔ کل کو کہیں ایسا نہ کہ یہاں کا نوجوان جو اب تک ڈکیتی کرکے اپنا کنبہ چلا رہا ہے کل وہ کسی اور جرم میں بھی شریک ہوکر اس ملک کی تباہی کا باعث بن جائے۔
حکومت اور اداروں سے گزارش ہے کہ وہ کراچی کے نوجوانوں کو باغی بنانے کے بجائے اپنی پالیسی پر توجہ دے کر اسے بہتر کرنے پر اپنی توانائی صرف کرے۔ کیوں کہ کراچی سے پاکستان کا مستقبل جڑا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''کراچی کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔''
''سی پیک سے کراچی کو مزید ترقی ملے گی۔''
یہ اور اس طرح کے کئی جملے اکثر وبیشتر سننے کو ملتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی سیاستدان آئے روز کراچی سے متعلق کچھ ایسے الفاظ کا انتخاب کرتا نظر آتا ہے۔ تاہم کراچی کی پرواہ سائیں سرکار سمیت کسی کو نہیں ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کراچی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے والی سائیں سرکار ہی ہے، جس کے کراچی دشمن اقدامات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔
بے جا لاک ڈاؤن نے جہاں شہر کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، وہیں امن وامان کی صورت حال بھی بگڑتی جارہی ہے۔ شہر قائد میں روزانہ درجنوں ڈکیتیوں کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ ان میں پکڑے جانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جن ڈکیتوں کو پکڑا جارہا ہے ان کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں، وہ نوجوان ہی ہیں، جو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت اس گھناؤنے کام میں آگئے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ لوگ کہیں نہ کہیں کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرکے اپنے کنبے کو پال رہے تھے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس بات کو سمجھنے کےلیے حکومت قطعی تیار نہیں۔ الٹا پولیس کو سختی سے پابند کردیا گیا ہے کہ رات آٹھ بجے کراچی کو بلاک کردیا جائے۔ جس کے باعث اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ پولیس سڑکوں پر بیریئر لگا کر سکون کی بانسری بجارہی ہے اور علاقے میں ڈکیتوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
گزشتہ روز ایک دوست کی پرچون کی شاپ پر جانا ہوا۔ اسی دوران ایک شخض آیا اور دکاندار دوست سے کہا کہ بھائی آج کام پر نہیں جاسکا، اس لیے پیسے نہیں، صرف ایک کلو آٹا، آدھا پاؤ گھی، اور بیس روپے کی چینی چاہیے تاکہ بچوں کو کھانا کھلا سکوں۔ میرا دکاندار دوست اسے جانتا تھا، اس لیے اس نے فوراً اسے مطلوبہ سامان دے دیا۔ اس کے جانے کے بعد میرے دوست نے مجھے بتایا کہ یہ لیاری میں خاکروب ہے اور گھروں سے کچرا اٹھاتا ہے۔ اسے روزانہ کی بنیاد پر پیسے ملتے ہیں اور یہ روزانہ یہیں سے سودا لے جاتا ہے۔ لیکن حالات دیکھو کہ صرف ایک دن یہ کام پر نہیں جاسکا اور گھر میں فاقے کی نوبت آگئی۔ میں اس کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ حقیقت میں اس کی ذمے داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وفاق کے اقدامات کی وجہ سے مہنگائی کا جن بے قابو ہوا ہے، وفاق کی پالیسیوں کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں وفاق کا کوئی کردار نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کئی اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ لیکن عوام کو شعور وآگاہی سے دور رکھنے والی سندھ حکومت اس کو وفاق کے کھاتے میں ڈال کر سکون سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ جس کی تازہ مثال ارسا کی وہ رپورٹ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سندھ نے اضافی پانی کو روک کر کوٹری بیراج کو پیاسا رکھا اور الزام وفاق پر یہ لگایا کہ وہ پنجاب کو پانی دے رہا ہے اور سندھ کو پیاسا رکھا ہوا ہے۔
پورے ملک میں کہیں اس طرح کاروبار کو تباہ نہیں کیا گیا جس طرح جان بوجھ کر کراچی کے کاروبار کو تباہ کیا جارہا ہے۔ شام چھ بجے کا کہہ کر ساڑھے پانچ بجے ہی پولیس کی گاڑیاں آکر کاروبار بند کرانا شروع کردیتی ہیں۔ جب کہ ساتھ میں کبھی اے سی اور کبھی ڈی سی صاحبان بھی موجود ہوتے ہیں، جو موقع پر ہی دکانوں اور شاپنگ مالز کو سیل کررہے ہیں، ساتھ ہی ان پر بھاری بھرکم جرمانہ عائد کرکے رہی سہی کسر وہ لوگ پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان ڈی سی اور اے سی صاحبان نے کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ مرغی کا گوشت کس نرخ پر بک رہا ہے، دالیں کس نرخ پر بک رہی ہیں۔ کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے اپنے علاقے میں سرکاری اسکولوں کی حالت زار کیا ہے۔ کبھی یہ دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ آیا یہاں کے لوگ کس طرح کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز سے ایک دودھ والا کنٹرول نہیں ہوتا مگر وہ آئے روز صبح سے شام تک دیہاڑی لگانے کےلیے مختلف شاپنگ مالز اور دکانوں کو سیل کرتے نظر آتے رہتے ہیں۔
ٹیکس کی مد میں دیکھا جائے تو کراچی ستر فیصد ٹیکس ادا کررہا ہے۔ اس حساب سے یہاں کی سڑکیں اور ہر محلے کی گلیاں تک پکی ہونی چاہیے تھیں، پانی کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے تھی، بجلی چوبیس گھنٹے دستیاب ہونی چاہیے تھی، سرکاری اسکولوں کی حالت بہترین ہونی چاہیے تھی۔ یہاں تک کے پولیس اسٹیشن میں عوام کی عزت کی جانی چاہیے تھی۔ مگر افسوس کہ یہاں سب الٹا ہورہا ہے۔ جو جتنا ٹیکس دے رہا ہے وہ اتنا ہی خوار ہورہا ہے۔ عوام کے ٹیکس پر پلنے والی حکومت کو محض ٹیکس سے سروکار ہے، اسے عوام کی اور کراچی کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں ترقی کے نام پر جو چورن آئے روز بکتا ہے وہ صرف اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ کراچی میں ترقی صرف وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس اور پوش ایریاز میں ہی نظرآتی ہے۔ جب کہ کراچی کے دیگر علاقوں اور مضافات میں ترقی کے نام پر سوائے کرپشن کے کچھ نہیں۔
جہاں سائیں سرکار نے کراچی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، وہیں شہر قائد کو تباہ کرنے کےلیے کے الیکٹرک نے بھی پورا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں کاروبار چھ بجے ہی بند ہوجاتا ہے، کارخانے، فیکٹریاں، دکانیں، شاپنگ مالز سب کچھ بند ہونے کے باوجود بجلی کی کمی پوری نہیں ہوپارہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چھ بجے کے بعد کراچی کو لوڈشیڈنگ فری کردیا جاتا، مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کراچی کے ہر علاقے میں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ گزشتہ دو ماہ سے جاری ہے، اور اب یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ جس سے صبح جلدی کام پر جانے والے مزدور انتہائی اذیت کا شکار ہیں۔ شہر قائد میں لوگ ایک ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں، جہاں بجلی کے بغیر رہنا انسان کےلیے انتہائی دشوار ہے۔ لیکن کے الیکٹرک کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ایک طرف لوڈشیڈنگ اور دوسری طرف اووربلنگ کے ذریعے کراچی کے ہی لوگوں سے ماہانہ اربوں روپے کی چوری کرکے وہ اطمینان سے شہر قائد کی تباہی کو دیکھ رہی ہے۔ اس پر نہ تو سائیں سرکار کچھ کہنے کو تیار ہے اور نہ ہی وفاق اس معاملے پر کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کے موڈ میں نظر آرہا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات بھی کے الیکٹرک آئے روز ہوا میں اڑاتی نظر آتی ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کے الیکٹرک کو کہنے والا اس ملک میں کوئی نہیں۔ یہ تمام اداروں پر بھاری ثابت ہورہا ہے۔ کے الیکٹرک کو اس ملک میں اب کسی ادارے کا ڈر نہیں، وہ بے خوف کراچی کو تباہ کرنے میں جتا ہوا ہے۔
سندھ سرکار اگر کراچی کے لوگوں کو روزگار نہیں دے سکتی تو کم از کم ان سے کچھ چھیننے کا حق بھی اسے کسی نے نہیں دیا۔ کبھی انکروچمنٹ کے نام پر تو کبھی ٹیکس کی آڑ میں تو کبھی بے جا لاک ڈاؤن کے نام پر لوگوں کے روزگار پر قدغن لگانا درست عمل نہیں۔ اگر کراچی تباہ ہوا تو پھر یقین کریں پاکستان کی تباہی بھی یقینی ہے۔ اس وقت کراچی کے نوجوان اس سسٹم سے باغی ہوتے جارہے ہیں، اس نظام اور اس نظام کو چلانے والوں سے دل برداشتہ نظرآرہے ہیں۔ انہیں انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے بھی اب کوئی امید باقی نہیں رہی۔ کل کو کہیں ایسا نہ کہ یہاں کا نوجوان جو اب تک ڈکیتی کرکے اپنا کنبہ چلا رہا ہے کل وہ کسی اور جرم میں بھی شریک ہوکر اس ملک کی تباہی کا باعث بن جائے۔
حکومت اور اداروں سے گزارش ہے کہ وہ کراچی کے نوجوانوں کو باغی بنانے کے بجائے اپنی پالیسی پر توجہ دے کر اسے بہتر کرنے پر اپنی توانائی صرف کرے۔ کیوں کہ کراچی سے پاکستان کا مستقبل جڑا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔