جرنلسٹس پروٹیکشن بل کی منظوری
اس بل کے پاس ہونے کے بعد صحافیوں کو سہولتوں کا جو فقدان تھا اسے سماجی مرتبے کے تحت روشن کیا گیا۔
ہم وہ قوم ہیں جنھیں کبھی خوشی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اگر کبھی کوئی خوشی دامن میں بکھر جائے تو دل اپنی ہی خاطر مدارت میں نہال ہو جاتا ہے جب کوئی خوبصورت سرگرمیوں کا آغاز کرتا ہے تو دل عوامی پذیرائی کے لیے مچل جاتا ہے۔
دیانت اور تندہی سے کام کرنے والے جب قواعد و ضوابط کے پرچم کو اٹھا لیتے ہیں تو دلوں سے اداس رنگ نکل جاتے ہیں اور پھر انسان رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتا ہے اگر ترجیحات نیک ہوں تو گراں قدرخدمات انجام دینے والے باضابطہ ذمے داری کے ساتھ سرخرو ہوتے ہیں بالغ نظری کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسے حضرات کو قدر و منزلت کے نیک ترازو میں تولا جائے کہ وہ لائق تحسین تھے جنھوں نے ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر محنت اور انصاف کے علم اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
باتیں تو بہت ہوں گی مگر آج اپنے کالم کا آغاز میں صحافیوں کی معروف تنظیم KUJ سے کروں گا جس کے اراکین خود کو ہمیشہ بہتر اور تعمیری کاموں میں مصروف رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی سے جرنلسٹس پروٹیکشن بل کی منظوری دی گئی۔
یہ اعزاز و اکرام KUJ کے صدر اعجاز احمد اور جنرل سیکریٹری عاجز جمالی اور دیگر ساتھیوں کی دانشورانہ بصیرت کے تحت باخیر و خوبی انجام پایا اور مزے کی بات دیکھیں کہ وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ صحافیوں کے لیے ناقابل تسخیر بن کر کھڑے ہوئے اور صحافیوں کے مشاورتی عمل کے تحت اسمبلی سے جرنلسٹ پروٹیکشن بل 2021 کو ذہن و قلب کی محبت کے ناطے اسے واجب الاحترام سمجھتے ہوئے سندھ اسمبلی سے منظور کروایا۔
اس بل کے پاس ہونے کے بعد صحافیوں کو سہولتوں کا جو فقدان تھا اسے سماجی مرتبے کے تحت روشن کیا گیا مسودے کے تحت صحافیوں کو پیشہ ورانہ مسائل سے دور رکھنے کی پوری کوششیں کی گئیں ہیں جن میں ہراساں کرنے، جان سے مارنے کی دھمکی دینے پر سزا ہوگی اور اس میں ملوث ملزمان کے کیس پر ترجیحی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے اور اس مجوزہ ترمیم کی حمایت سید ناصر حسین شاہ نے بھرپور طریقے سے کی اس بل کی سندھ اسمبلی سے منظوری کے بعد کے یو جے کے صدر اعجاز احمد جنرل سیکریٹری عاجز جمالی جو ادب پرور شجر ہیں نے بلاول بھٹو، وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ کو اس حکمت و دانشمندی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی اور کہا کہ اس سے صحافیوں کے طرز زندگی میں نئے چراغ روشن ہوں گے اس شاندار بل کی منظوری پر کے یو جے کے دیگر ساتھیوں نے بلاول بھٹو، وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ کو خراج تحسین پیش کیا۔
راقم نے کے یو جے کے صدر اعجاز احمد اور جنرل سیکریٹری عاجز جمالی اور دیگر ساتھیوں کو جب اس بل کی مبارک باد دی تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا اصل زندگی یہ نہیں کہ آپ کتنے خوش ہیں بلکہ اصل زندگی یہ ہے کہ زندگی میں لوگ آپ سے کتنے خوش ہیں۔ ویسے یہ بات تو راقم برملا کہہ سکتا ہے کہ روزنامہ ایکسپریس نے ہمیشہ صحافیوں کے ساتھ آبرومندانہ راستہ اختیار کیا ہے۔
راقم بحیثیت کالم نگار کے 2004 سے روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہے مگر اس کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میرے قدموں میں کبھی لرزش نہیں آئی اور شکر ہے کہ کراچی سے لے کر خیبر تک روزنامہ ایکسپریس قارئین کے دلوں میں پسندیدہ فہرست کے تحت درخشندہ ستارے کی طرح چمک رہا ہے۔ دوسرا فیصلہ پی پی پی کے ارباب اختیار نے جو کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
تنقید ضرور کریں مگر جو کام کوئی بھی سیاسی پارٹی دیانت اور تندہی سے کرے اس کا تذکرہ بھی ایک صحافی کو متحرک انداز میں بیان کرنا چاہیے کہ یہ بھی باضابطہ ذمے داری ہے کہ معتبر جمہوری نظام اس کو کہتے ہیں گزشتہ دنوں پی پی پی نے یہ بڑا اہم فیصلہ سندھ اسمبلی سے کروایا کہ بزرگ شہری (سینئر سٹیزن) تمام نجی اسپتالوں میں 25 فیصد مراعات کے حق دار ہوں گے کیونکہ آج کل علاج بہت مہنگا ہو گیا ہے مگر شہری امیر ہو یا غریب بنیادی نقطہ اس کے معاشی حالات پر ہوتا ہے اور اکثریت تو آپ کو غریبوں ہی کی ملے گی پاکستان میں علاج کے حوالے سے نظام بہت پیچیدہ ہے جب اس ملک میں شہری عمر رسیدہ ہوتا ہے تو اس کی میڈیکل سہولت ختم کردی جاتی ہے۔
جب کوئی پاکستانی سینئر سٹیزن (عمر رسیدہ) ہوتا ہے تو اس کا میڈیکل ختم کردیا جاتا ہے مگر پی پی پی نے بزرگ شہریوں کو جو یہ سہولت دینے کی کوشش کی ہے کہ تمام نجی اسپتالوں میں عمر رسیدہ افراد کو 25 فیصد مراعات دی جائیں گی یہ ایک اچھی مراعات ہے اگر کسی کا 40,000 ہزار کا بل ہے تو اس عمر رسیدہ شہری کو 10,000 ہزار دینے ہوں گے آپ سوچیں جس کی تنخواہ 35,000 ہزار ہے اور وہ اسپتال کا رخ کرتا ہے تو کسی سے 10,000 قرض لے کر بھی اپنی جان چھڑا سکتا ہے۔
عمر رسیدہ افراد اس ملک میں بہت بدحالی کا شکار ہیں۔ آدھی سے زیادہ اسمبلی سینیٹ بزرگوں پر مشتمل ہے مگر وہ ہر قسم کی مراعات وصول کرتے ہیں تو انھیں ان غریبوں اور پریشان حال عمر رسیدہ افراد کی فکر کیوں نہیں؟ اور نہ ہی وہ ذکر کرتے ہیں۔ اس ملک میں غربت سے لپٹے ہوئے بزرگ حضرات کی تعداد کروڑوں میں ہے جو بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بہ خیر زندگی بہت جلد اس پر کالم تحریر کروں گا کہ ہمارے ملک میں ان غریب عمر رسیدہ افراد کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے مگر پی پی پی نے 25 فیصد کی مراعات کا جو فیصلہ کیا ہے عمر رسیدہ افراد کے لیے وہ ایک بہتر فیصلہ ہے اور مملکت خداداد کو عمر رسیدہ افراد کے لیے بہتر فیصلے کرنا ہوں گے۔
دیانت اور تندہی سے کام کرنے والے جب قواعد و ضوابط کے پرچم کو اٹھا لیتے ہیں تو دلوں سے اداس رنگ نکل جاتے ہیں اور پھر انسان رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتا ہے اگر ترجیحات نیک ہوں تو گراں قدرخدمات انجام دینے والے باضابطہ ذمے داری کے ساتھ سرخرو ہوتے ہیں بالغ نظری کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسے حضرات کو قدر و منزلت کے نیک ترازو میں تولا جائے کہ وہ لائق تحسین تھے جنھوں نے ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر محنت اور انصاف کے علم اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
باتیں تو بہت ہوں گی مگر آج اپنے کالم کا آغاز میں صحافیوں کی معروف تنظیم KUJ سے کروں گا جس کے اراکین خود کو ہمیشہ بہتر اور تعمیری کاموں میں مصروف رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی سے جرنلسٹس پروٹیکشن بل کی منظوری دی گئی۔
یہ اعزاز و اکرام KUJ کے صدر اعجاز احمد اور جنرل سیکریٹری عاجز جمالی اور دیگر ساتھیوں کی دانشورانہ بصیرت کے تحت باخیر و خوبی انجام پایا اور مزے کی بات دیکھیں کہ وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ صحافیوں کے لیے ناقابل تسخیر بن کر کھڑے ہوئے اور صحافیوں کے مشاورتی عمل کے تحت اسمبلی سے جرنلسٹ پروٹیکشن بل 2021 کو ذہن و قلب کی محبت کے ناطے اسے واجب الاحترام سمجھتے ہوئے سندھ اسمبلی سے منظور کروایا۔
اس بل کے پاس ہونے کے بعد صحافیوں کو سہولتوں کا جو فقدان تھا اسے سماجی مرتبے کے تحت روشن کیا گیا مسودے کے تحت صحافیوں کو پیشہ ورانہ مسائل سے دور رکھنے کی پوری کوششیں کی گئیں ہیں جن میں ہراساں کرنے، جان سے مارنے کی دھمکی دینے پر سزا ہوگی اور اس میں ملوث ملزمان کے کیس پر ترجیحی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے اور اس مجوزہ ترمیم کی حمایت سید ناصر حسین شاہ نے بھرپور طریقے سے کی اس بل کی سندھ اسمبلی سے منظوری کے بعد کے یو جے کے صدر اعجاز احمد جنرل سیکریٹری عاجز جمالی جو ادب پرور شجر ہیں نے بلاول بھٹو، وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ کو اس حکمت و دانشمندی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی اور کہا کہ اس سے صحافیوں کے طرز زندگی میں نئے چراغ روشن ہوں گے اس شاندار بل کی منظوری پر کے یو جے کے دیگر ساتھیوں نے بلاول بھٹو، وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ کو خراج تحسین پیش کیا۔
راقم نے کے یو جے کے صدر اعجاز احمد اور جنرل سیکریٹری عاجز جمالی اور دیگر ساتھیوں کو جب اس بل کی مبارک باد دی تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا اصل زندگی یہ نہیں کہ آپ کتنے خوش ہیں بلکہ اصل زندگی یہ ہے کہ زندگی میں لوگ آپ سے کتنے خوش ہیں۔ ویسے یہ بات تو راقم برملا کہہ سکتا ہے کہ روزنامہ ایکسپریس نے ہمیشہ صحافیوں کے ساتھ آبرومندانہ راستہ اختیار کیا ہے۔
راقم بحیثیت کالم نگار کے 2004 سے روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہے مگر اس کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میرے قدموں میں کبھی لرزش نہیں آئی اور شکر ہے کہ کراچی سے لے کر خیبر تک روزنامہ ایکسپریس قارئین کے دلوں میں پسندیدہ فہرست کے تحت درخشندہ ستارے کی طرح چمک رہا ہے۔ دوسرا فیصلہ پی پی پی کے ارباب اختیار نے جو کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
تنقید ضرور کریں مگر جو کام کوئی بھی سیاسی پارٹی دیانت اور تندہی سے کرے اس کا تذکرہ بھی ایک صحافی کو متحرک انداز میں بیان کرنا چاہیے کہ یہ بھی باضابطہ ذمے داری ہے کہ معتبر جمہوری نظام اس کو کہتے ہیں گزشتہ دنوں پی پی پی نے یہ بڑا اہم فیصلہ سندھ اسمبلی سے کروایا کہ بزرگ شہری (سینئر سٹیزن) تمام نجی اسپتالوں میں 25 فیصد مراعات کے حق دار ہوں گے کیونکہ آج کل علاج بہت مہنگا ہو گیا ہے مگر شہری امیر ہو یا غریب بنیادی نقطہ اس کے معاشی حالات پر ہوتا ہے اور اکثریت تو آپ کو غریبوں ہی کی ملے گی پاکستان میں علاج کے حوالے سے نظام بہت پیچیدہ ہے جب اس ملک میں شہری عمر رسیدہ ہوتا ہے تو اس کی میڈیکل سہولت ختم کردی جاتی ہے۔
جب کوئی پاکستانی سینئر سٹیزن (عمر رسیدہ) ہوتا ہے تو اس کا میڈیکل ختم کردیا جاتا ہے مگر پی پی پی نے بزرگ شہریوں کو جو یہ سہولت دینے کی کوشش کی ہے کہ تمام نجی اسپتالوں میں عمر رسیدہ افراد کو 25 فیصد مراعات دی جائیں گی یہ ایک اچھی مراعات ہے اگر کسی کا 40,000 ہزار کا بل ہے تو اس عمر رسیدہ شہری کو 10,000 ہزار دینے ہوں گے آپ سوچیں جس کی تنخواہ 35,000 ہزار ہے اور وہ اسپتال کا رخ کرتا ہے تو کسی سے 10,000 قرض لے کر بھی اپنی جان چھڑا سکتا ہے۔
عمر رسیدہ افراد اس ملک میں بہت بدحالی کا شکار ہیں۔ آدھی سے زیادہ اسمبلی سینیٹ بزرگوں پر مشتمل ہے مگر وہ ہر قسم کی مراعات وصول کرتے ہیں تو انھیں ان غریبوں اور پریشان حال عمر رسیدہ افراد کی فکر کیوں نہیں؟ اور نہ ہی وہ ذکر کرتے ہیں۔ اس ملک میں غربت سے لپٹے ہوئے بزرگ حضرات کی تعداد کروڑوں میں ہے جو بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بہ خیر زندگی بہت جلد اس پر کالم تحریر کروں گا کہ ہمارے ملک میں ان غریب عمر رسیدہ افراد کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے مگر پی پی پی نے 25 فیصد کی مراعات کا جو فیصلہ کیا ہے عمر رسیدہ افراد کے لیے وہ ایک بہتر فیصلہ ہے اور مملکت خداداد کو عمر رسیدہ افراد کے لیے بہتر فیصلے کرنا ہوں گے۔