علم و عدل کی چھٹی
کسی بھی قوم کے نوجوانوں کا روشن مستقبل درحقیقت اس ملک کی ترقی و کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا نے جہاں پوری دنیا کے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کیا ہے وہیں تعلیمی شعبے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ چین وہ پہلا ملک ہے جہاں اس مہلک وبا نے 31 دسمبر 2019 کو ووہان نامی شہر میں جنم لیا۔ چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے۔
چینی قیادت نے بڑی سرعت کے ساتھ کورونا وائرس کی روک تھام کے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جو اس وبا کو پورے چین میں پھیلنے سے روکنے کی بنیاد بنے اور چین میں تقریباً ساڑھے چار ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بنے جب کہ یورپ امریکا اور دیگر ممالک میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ کورونا کی دوسری اور تیسری لہر نے پوری دنیا کے نظام زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
پڑوسی ملک بھارت میں روزانہ ہزاروں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ مودی کی کورونا پالیسی کو میڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں صورتحال بہت بہتر ہے۔ اگر عوام احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کریں تو چین کی طرح پاکستان بھی جلد اس مہلک مرض کے چنگل سے آزادی حاصل کرسکتا ہے۔کورونا کے باعث دنیا بھر میں بار بار ہونیوالے لاک ڈاؤن کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش سے تعلیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ طلبا کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ تعلیم سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق سو سے زائد ممالک میں تمام اسکول اور کالج بند پڑے ہیں جس سے دنیا کے تقریباً ایک ارب طلبا و طالبات بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی تعلیم کا برا حال ہے اس پہ مستزاد کورونا کے باعث اسکول کالجز کی بار بار بندش کے باعث طلبا اور تعلیم میں فاصلے پیدا ہو رہے ہیں، آن لائن تعلیم سے والدین، طلبا اور اساتذہ دونوں غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ شہروں سے دور گاؤں دیہات میں رہتا ہے جہاں جدید سہولتیں نایاب ہیں۔
قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے انتہائی قلیل رقم مختص کی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ارباب اختیار کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نتیجتاً تعلیمی میدان میں پاکستان اپنے پڑوسی ملکوں بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا وغیرہ سے بہت پیچھے ہے۔ 50 فیصد شرح خواندگی کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن حقیقی شرح خواندگی 25 فیصد سے زائد نہیں ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیمی میدان میں خطے کے 9 ممالک میں 8 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالدیپ میں شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔ سری لنکا میں 91 فیصد، ایران میں 86 فیصد، بنگلادیش میں 73 فیصد، بھارت میں 69 فیصد اور پاکستان میں 57 فیصد ہے۔ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جس قوم کے سرپرستوں نے اس راز حقیقت کو پا لیا وہ بام عروج پر پہنچ گئے اور جو قوم تعلیم کی سچائی اور حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہی وہ رو بہ زوال ہوگئی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ آزادی حاصل کیے سات دہائیاں بیت چکی ہیں، ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن تعلیم کے میدان میں ہمارے بڑوں نے آگے بڑھنے اور نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیمی میدان میں سرگرم ہونے کے لیے مہمیز نہیں کیا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
کسی بھی قوم کے نوجوانوں کا روشن مستقبل درحقیقت اس ملک کی ترقی و کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کروڑوں بچے اسکول کی شکل دیکھنے سے محروم ہیں۔ ملک میں غربت و بے روزگاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ماں باپ اپنے نونہالوں کو اسکول بھیجنے کی بجائے کسی دکان یا ورکشاپ پر کام سیکھنے کے لیے بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ جلد آمدنی کا ایک ذریعہ بن جائیں۔
یونیسکو کی ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان 2015 میں تعلیمی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان میں اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بہت کم تعداد ہے جو بچے دسویں جماعت تک پہنچ پاتے ہیں۔ نظام تعلیم میں خامیوں کا کوئی شمار نہیں۔ نصاب تعلیم سے لے کر طریقہ تدریس تک گوناگوں مسائل کا ایک انبار ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کوشاں ہے کہ ملک میں نظام تعلیم میں اصلاحات لائی جائیں۔
وزیر اعظم عمران خان ملک میں ہر امیر و غریب کے لیے یکساں تعلیمی نظام کے حامی ہیں۔ جب کہ تعلیم کے شعبے پر قابض مافیا اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پوری طرح ''سرگرم'' ہے۔ ہم اپنی غلامانہ ذہنیت کے باعث انگریزی کلچر سے باہر نہیں آ سکے۔ تعلیم کا مطلب تو شعور و آگہی ہے لیکن ہمارے ہاں جو اچھی انگریزی بولتا ہے وہ تعلیم یافتہ اور جو شستہ اُردو بولے وہ نرا جاہل قرار دیا جاتا ہے۔ گویا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا معیار انگریزی بولنا قرار پایا ہے تو پھر قومی زبان اردو کا زوال کیوں نہ ہو؟
عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود آج تک اردو ہماری دفتری زبان نہ بن سکی۔ بات عدالت کی چل نکلی ہے تو ان دنوں سوشل میڈیا پر یہ خبر موضوع بحث ہے کہ عدالتوں میں ڈھائی ماہ کی چھٹیاں بہت زیادہ ہیں۔ یہ چھٹیاں ختم ہونی چاہئیں یا ان کا دورانیہ کم ہونا چاہیے۔ کیونکہ عدالتوں میں ہزاروں کے حساب سے مقدمات زیرسماعت ہیں۔ سائلین پر ڈھائی ماہ تک انصاف کے دروازے بند کردینا دانش مندانہ طرز عمل نہیں۔
گرمیوں کے موسم میں تعلیمی اداروں میں جون و جولائی کے دو مہینوں کی چھٹیاں بھی تعلیمی نقصان کے مترادف قرار دی جا رہی ہیں کہ طلبا مختلف النوع وجوہات کی بنا پر پہلے ہی کئی کئی دنوں کی چھٹیاں مناتے ہیں۔ کبھی ہڑتال، کبھی احتجاج، کبھی بارش اور کبھی سیلاب و دیگر وجوہات کے طفیل طلبا کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے۔ اس مرتبہ سال 2020 اور 2021 میں کورونا کی وجہ سے بار بار تعلیمی اداروں کی بندش سے تعلیمی نقصان ہوا۔ تاہم عدالتوں میں کام جاری رہا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 18 لاکھ سے زائد مقدمات ماتحت عدالتوں سے اعلیٰ عدالتوں تک زیر سماعت ہیں۔ ایک کیس کا فیصلہ ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ نسل در نسل کیس چلتا رہتا ہے جو ہماری عدالتی خامیوں، کمزوریوں اور نقائص کا عکاس ہے۔ اس پہ مستزاد سائلین پر ڈھائی ماہ تک انصاف کے دروازے بند کردینا ریاست مدینہ کے اصولوں کے خلاف ہے۔ عدل کے دروازے ہر سائل پر 24 گھنٹے کھلے رہنے چاہئیں۔ پاکستان میں عدالتی نظام پر ہمیشہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی و خودمختاری پر بحث کی جاتی رہی۔
علم و عدل قوموں کی ترقی کے دو اہم ستون ہیں۔ برطانوی وزیر سرونسٹن چرچل کا یہ قول ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر عدلیہ انصاف کر رہی ہے تو ہم جنگ جیت سکتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ہم اپنے درمیان خدائے جبار کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس پاک ذات نے ہمیں علم سے نوازا اور جاہلوں کو مال و زر دیا۔ اس پس منظر میں علم و عدل اگر تین تین چار چار ماہ چھٹیوں پر ہوں گے تو ملک قوم کیسے ترقی کرے گی؟