کَکھ پتی اب لَکھ پتی
خدا جانے آپ کو دوبارہ اس مکان میں آنا نصیب ہو کہ نہ ہو۔ شہر میں عجب افراتفری کا عالم تھا۔
میں اس وقت اسکول کی دوسری کلاس میں ہوں گا جب رشتے کے ایک ماموںنے والد صاحب کو بتایا کہ اپنا ضروری سامان ایک باکس میں رکھ لیں، پرسوں میں ایک ٹرک لے کر آئوں گا اور پانچ چھ رشتہ داروں کو گورداسپور سے لاہور لے جائوں گا۔ تقسیم ِ ہند ہو چکی ہے۔
خدا جانے آپ کو دوبارہ اس مکان میں آنا نصیب ہو کہ نہ ہو۔ شہر میں عجب افراتفری کا عالم تھا۔ قافلے تیزی سے نقل مکانی کر رہے تھے۔ ہم نے بھی تیسرے دن ایک عدد بستہ ماموں انوار کے لائے ہوئے ٹرک میں رکھا اور پانچ چھ فیملیز ٹرک میں گھس بیٹھیں۔ والد صاحب نے اپنے حساب سے ضروری سامان ایک کمرے میں رکھ کر اسے مقفل کر دیا۔ بعد دوپہر تیسرے دن مفلوک الحال بندوں سے لدا ٹرک لاہور کی طرف روانہ ہوا۔
ماموں انوار فوجی تھے نہ معلوم انھوں نے کیسے ٹرک کا انتظام کیا تھا۔ رات ہوئی تو بندوقوں کی فائرنگ نے دہشت زدہ کر دیا۔ ڈرائیور نے ٹرک درختوں میں روک کر آواز لگائی، ''سب لوگ ٹرک کے نیچے لیٹ جائیں''۔ کچھ دیر بعد ٹرک پھر چل پڑا۔ آدھے گھنٹے بعد پھر فائرنگ سے ٹرک رُک گیا اور سب مسافر پھر ٹرک کے نیچے لیٹ گئے۔
اب صبح ہونے کو تھی۔ بیشمار لوگ جو انڈیا سے واہگہ لاہور کی طرف پیدل، جانوروں پر سوار، ٹھیلوں پر لدے گورداسپور کی طرف یعنی واہگہ کی طرف چلے تھے، لیٹے ہوئے، بیہوشی میں، چلنے کے قابل نہ رہے تھے، رستے میں پڑے تھے۔ہمارا ٹرک سُست رفتاری سے چل رہا تھا۔ رستوں میں بیٹھے، لیٹے، حسرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کچھ کمزور نظر آتے تھے، کچھ بیمار، ان کے ارد گرد بچے بیچارگی کی صورت میں ہمیں دیکھ کر شکل و صورت سے بے حد بُری شکلیں بنائے بہت سے قریب المرگ بھی دکھائی پڑتے، ان کے ریڑھے اور ٹھیلے بھی نہایت خستہ حالت میںتھے۔
غرضیکہ ہم نیم قبرستان کے پاس سے ذہنی کیفیت میں نیم مردہ لیکن پھر بھی اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے ٹرک میں چھپے بیٹھے تھے۔ بہت پرانی باتیں اور یادیںبھول جاتی ہیں اور گورداسپور سے واہگہ تک کا چوبیس گھنٹے کا سفر جسے آج Suffer کہہ کر یاد کرتا ہوں، کم عمری کے باوجود وہ اتنا یاد ہے کہ اس کا ایک ایک منٹ ذہن پرنقش ہے۔ اس سفر میں اب تک یاد ہے بوجہ خوف، میرے سمیت کوئی بھی مسافر سونے کی سوچ کے قریب تک نہ گیا ہو گا۔
رات کے سفر میں تو تاریکی کی وجہ سے صرف تاریکی خوف زدہ کرتی رہی یا پھر کبھی فائرنگ کا شور اپنی طرف متوجہ کرتا رہا لیکن تاریکی چھٹنے لگی تو خوفزدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اگر کوئی اپنے ہوش وحواس کے ساتھ اس طرح کے سفر پر روانہ ہو تو اس کی ہر حس باخبر اور ہوشیار رہ کر سُنتی، دیکھتی، سونگھتی اور سوچتی تو ہے بلکہ جو نہیں ہوتا اُن کو بھی دل و دماغ تک لے جاتی اور خوف کے عالم میں لاتی، لے جاتی ہے۔ ٹرک میں سوار چوبیس گھنٹے کا سفر کرنے والے جوان، نو عمر، بوڑھے اور مرد و زن کی جسمانی اور ذہنی حالت کیا ہو گی؟ وہ زندگی کا نیا سفر کب، کہاں اور کیسے شروع کریں گے؟ ان کے سامنے تو پتھریلے پہاڑ تھے جب کہ دوسری جانب مٹی میں لتھڑے، کیچڑ سے بھرے بدنما میدان تھے۔
اپنے گھر اور سامان چھوڑ کر تہی دست ، بے سروسامانی کی حالت میںایک طرح پناہ گزینی کے سمندر میں اُترنے والے بے آسرا لوگ ٹرک سے اُتارے گئے۔ اُن لوگوں کی حالت یوں تھی جیسے نہ اُن کے سر پر آسمان ہے نہ پائوں تلے زمین۔واہگہ سرحد پر اس ٹرک سے مسافروں کو اُتاردیا گیا۔ وہاں ہر طرف بے یارومددگار افراد کا ہجوم تھا۔ وہ سب انڈیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے پناہ گزین تھے۔ کسی کونہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جائیں۔
سیکیورٹی پر معمور ڈیوٹی دینے والے انھیں چلے جانے اور جگہ خالی کرنے کا کہہ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ آپس میں رشتہ دار لوگ اکٹھے ہو کر شہر کی طرف اپنا اپنا ٹرنک یا سامان اُٹھائے چلتے رہے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی منزل کہاں ہے۔ جو لوگ کسی آبادی کے پاس پہنچتے، وہاںکوئی کمرہ یا مکان خالی دیکھتے تو اس میں گھُس جاتے۔
دِن گُزرتے گئے اور ہندوئوں کے خالی مکان لوگوں سے بھرتے رہے۔ ایک وقت آیا کہ پاکستان کی سرکار نے سیٹلمنٹ کا محکمہ بنا دیا۔ وہاں سیٹلمنٹ افسر کے پاس انڈیا سے آیا وہ شخص دو گواہ لے کر جاتا، وہ بیان دیتا کہ اس نے انڈیا میں مکان اور زمین چھوڑی ہے۔ مجاز افسر اسے یونٹ الاٹ کر دیتا۔ یہ یونٹ اسے انڈیامیں چھوڑی جائیداد کے بدلے میں الاٹ ہوتے۔ وہ الاٹی پٹواری، تحصیل دار سے مل کر ہندووں اور سکھوں کا مکان اور رقبہ الاٹ کرتا۔
پھر چالاک، سمجھدار لوگوں کی ملاقات چالبازوں سے ہوئی تو ایک کنال، دو مربع انڈیا میں چھوڑ کر آنے والا ریونیو عملے سے سودے بازی کر کے اپنی چار کنال کوٹھی اور بیس مربع اراضی کا بیان دے کر یونٹ الاٹمنٹ کراتا۔ پھر چالاک، ہوشیار، فراڈیے سیٹلمنٹ افسر پٹواری، تحصیلدار کے ساتھ ملی بھگت کر کے کَکھ سے لَکھ کا مالک بن جاتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور بھوکے ، ننگے کروڑوں کے مالک بن گئے اوریہ کرپشن اب اہل ثروت کے خمیر میں بھی داخل ہو چکی ہے۔ اگر آج بھی کُریدیں ، مٹی میں سے نکلا سونا آپ کوآج بھی مل جائے گا۔
خدا جانے آپ کو دوبارہ اس مکان میں آنا نصیب ہو کہ نہ ہو۔ شہر میں عجب افراتفری کا عالم تھا۔ قافلے تیزی سے نقل مکانی کر رہے تھے۔ ہم نے بھی تیسرے دن ایک عدد بستہ ماموں انوار کے لائے ہوئے ٹرک میں رکھا اور پانچ چھ فیملیز ٹرک میں گھس بیٹھیں۔ والد صاحب نے اپنے حساب سے ضروری سامان ایک کمرے میں رکھ کر اسے مقفل کر دیا۔ بعد دوپہر تیسرے دن مفلوک الحال بندوں سے لدا ٹرک لاہور کی طرف روانہ ہوا۔
ماموں انوار فوجی تھے نہ معلوم انھوں نے کیسے ٹرک کا انتظام کیا تھا۔ رات ہوئی تو بندوقوں کی فائرنگ نے دہشت زدہ کر دیا۔ ڈرائیور نے ٹرک درختوں میں روک کر آواز لگائی، ''سب لوگ ٹرک کے نیچے لیٹ جائیں''۔ کچھ دیر بعد ٹرک پھر چل پڑا۔ آدھے گھنٹے بعد پھر فائرنگ سے ٹرک رُک گیا اور سب مسافر پھر ٹرک کے نیچے لیٹ گئے۔
اب صبح ہونے کو تھی۔ بیشمار لوگ جو انڈیا سے واہگہ لاہور کی طرف پیدل، جانوروں پر سوار، ٹھیلوں پر لدے گورداسپور کی طرف یعنی واہگہ کی طرف چلے تھے، لیٹے ہوئے، بیہوشی میں، چلنے کے قابل نہ رہے تھے، رستے میں پڑے تھے۔ہمارا ٹرک سُست رفتاری سے چل رہا تھا۔ رستوں میں بیٹھے، لیٹے، حسرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کچھ کمزور نظر آتے تھے، کچھ بیمار، ان کے ارد گرد بچے بیچارگی کی صورت میں ہمیں دیکھ کر شکل و صورت سے بے حد بُری شکلیں بنائے بہت سے قریب المرگ بھی دکھائی پڑتے، ان کے ریڑھے اور ٹھیلے بھی نہایت خستہ حالت میںتھے۔
غرضیکہ ہم نیم قبرستان کے پاس سے ذہنی کیفیت میں نیم مردہ لیکن پھر بھی اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے ٹرک میں چھپے بیٹھے تھے۔ بہت پرانی باتیں اور یادیںبھول جاتی ہیں اور گورداسپور سے واہگہ تک کا چوبیس گھنٹے کا سفر جسے آج Suffer کہہ کر یاد کرتا ہوں، کم عمری کے باوجود وہ اتنا یاد ہے کہ اس کا ایک ایک منٹ ذہن پرنقش ہے۔ اس سفر میں اب تک یاد ہے بوجہ خوف، میرے سمیت کوئی بھی مسافر سونے کی سوچ کے قریب تک نہ گیا ہو گا۔
رات کے سفر میں تو تاریکی کی وجہ سے صرف تاریکی خوف زدہ کرتی رہی یا پھر کبھی فائرنگ کا شور اپنی طرف متوجہ کرتا رہا لیکن تاریکی چھٹنے لگی تو خوفزدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اگر کوئی اپنے ہوش وحواس کے ساتھ اس طرح کے سفر پر روانہ ہو تو اس کی ہر حس باخبر اور ہوشیار رہ کر سُنتی، دیکھتی، سونگھتی اور سوچتی تو ہے بلکہ جو نہیں ہوتا اُن کو بھی دل و دماغ تک لے جاتی اور خوف کے عالم میں لاتی، لے جاتی ہے۔ ٹرک میں سوار چوبیس گھنٹے کا سفر کرنے والے جوان، نو عمر، بوڑھے اور مرد و زن کی جسمانی اور ذہنی حالت کیا ہو گی؟ وہ زندگی کا نیا سفر کب، کہاں اور کیسے شروع کریں گے؟ ان کے سامنے تو پتھریلے پہاڑ تھے جب کہ دوسری جانب مٹی میں لتھڑے، کیچڑ سے بھرے بدنما میدان تھے۔
اپنے گھر اور سامان چھوڑ کر تہی دست ، بے سروسامانی کی حالت میںایک طرح پناہ گزینی کے سمندر میں اُترنے والے بے آسرا لوگ ٹرک سے اُتارے گئے۔ اُن لوگوں کی حالت یوں تھی جیسے نہ اُن کے سر پر آسمان ہے نہ پائوں تلے زمین۔واہگہ سرحد پر اس ٹرک سے مسافروں کو اُتاردیا گیا۔ وہاں ہر طرف بے یارومددگار افراد کا ہجوم تھا۔ وہ سب انڈیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے پناہ گزین تھے۔ کسی کونہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جائیں۔
سیکیورٹی پر معمور ڈیوٹی دینے والے انھیں چلے جانے اور جگہ خالی کرنے کا کہہ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ آپس میں رشتہ دار لوگ اکٹھے ہو کر شہر کی طرف اپنا اپنا ٹرنک یا سامان اُٹھائے چلتے رہے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی منزل کہاں ہے۔ جو لوگ کسی آبادی کے پاس پہنچتے، وہاںکوئی کمرہ یا مکان خالی دیکھتے تو اس میں گھُس جاتے۔
دِن گُزرتے گئے اور ہندوئوں کے خالی مکان لوگوں سے بھرتے رہے۔ ایک وقت آیا کہ پاکستان کی سرکار نے سیٹلمنٹ کا محکمہ بنا دیا۔ وہاں سیٹلمنٹ افسر کے پاس انڈیا سے آیا وہ شخص دو گواہ لے کر جاتا، وہ بیان دیتا کہ اس نے انڈیا میں مکان اور زمین چھوڑی ہے۔ مجاز افسر اسے یونٹ الاٹ کر دیتا۔ یہ یونٹ اسے انڈیامیں چھوڑی جائیداد کے بدلے میں الاٹ ہوتے۔ وہ الاٹی پٹواری، تحصیل دار سے مل کر ہندووں اور سکھوں کا مکان اور رقبہ الاٹ کرتا۔
پھر چالاک، سمجھدار لوگوں کی ملاقات چالبازوں سے ہوئی تو ایک کنال، دو مربع انڈیا میں چھوڑ کر آنے والا ریونیو عملے سے سودے بازی کر کے اپنی چار کنال کوٹھی اور بیس مربع اراضی کا بیان دے کر یونٹ الاٹمنٹ کراتا۔ پھر چالاک، ہوشیار، فراڈیے سیٹلمنٹ افسر پٹواری، تحصیلدار کے ساتھ ملی بھگت کر کے کَکھ سے لَکھ کا مالک بن جاتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور بھوکے ، ننگے کروڑوں کے مالک بن گئے اوریہ کرپشن اب اہل ثروت کے خمیر میں بھی داخل ہو چکی ہے۔ اگر آج بھی کُریدیں ، مٹی میں سے نکلا سونا آپ کوآج بھی مل جائے گا۔