ایڈورڈ سعید اور مسئلہ فلسطین آخری حصہ
فلسطین کا مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ کچھ اور پیچیدہ ہوچکا ہے۔
وہ اس بات کا قائل تھا کہ اگر مسائل کو گہرائی میں اتر کر انھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے، ناانصافی کی تاریخ سے آگاہی حاصل کی جائے، نسلی اور لسانی کشمکش اور کشاکش کی حقیقت سے ہمیں واقفیت ہو تو ہم مسائل کو حل کرنے کی طرف قدم آگے بڑھائیں گے۔
اس کا کہنا تھا کہ ہم اگر خیالات کی حقیقت سے آگاہ ہوں، یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انسان دوست خیالات، سائنسی خیالات اور سماجی خیالات کہاں سے آتے ہیں، کن کی نمائندگی کرتے ہیں اور کسی شخص کو ان کی جانب کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان تمام معاملات کو سمجھتے ہوئے ہم مستقبل سے امیدیں قائم کرسکتے ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ الجھتا گیا۔ کئی جنگیں لڑیں اور ہر جنگ ان کے لیے نئے عذابوں کا سبب بنی۔ ایڈورڈ سعید کو فلسطین سے اور اس کے رہنما یاسر عرفات سے گہری محبت تھی۔ اس نے ان کی تقریروں کے انگریزی ترجمے کیے۔ لیکن آہستہ آہستہ اسے نہایت قریب سے فلسطینی رہنمائوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور وہ دلبرداشتہ ہوتا گیا۔
یہ ایک الم ناک بات ہے کہ وہ شخص جس نے فلسطین کا مقدمہ اپنے جسم اور روح کی پوری قوت سے لڑا، یاسر عرفات نے اپنے زیر انتظام علاقے میں اس کی تمام کتابوں پر پابندی عائد کی اور اسے 'امن دشمن' اور 'دہشت گردوں کا حمایتی' کے نام سے یاد کیا گیا۔
ستمبر 2003 میں وہ چلا گیا۔ اس کی کتابیں رہ گئیں۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں شاہد حمید ایسا دانشور اور مترجم ملا جس نے ان کی ایک اہم ترین کتاب کو تلاش کیا، ترجمہ کیا اور پھر ہمارے ہاتھوں میں رکھ دیا۔ شاہد حمید نے اعلیٰ غیر ملکی ادب کے کیسے جواہر پارے ترجمہ کیے اور ہمارے نسلوں کو مالا مال کیا ۔ انھوں نے ایڈورڈ سعید کی کتاب مسئلہ فلسطین کے بارے میں لکھا ہے: ''انھوں نے اپنی اس کتاب میں جس بنیادی مباحث... صہیونیت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی؟ یہودیوں نے اس کے فروغ کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے؟
مغربی سیاستدانوں نے مکر و فریب کے کیا کیا جال بچھائے؟ نام نہاد لبرل دانشوروں، ناول نگاروں، شاعروں، مقابلہ نویسوں، سفر ناموں کے مصنفوں اور صہیونیت کے دیگر ہمدردوں نے کیسے فضا ہموار کی۔ خود صہیونیوں نے فلسطین میں آباد ہونے کے لیے کن کن جتنوں سے کام کیا اور اپنے دعوؤں کو سچا ثابت کرنے کے لیے کن کن تاویلوں کا سہارا لیا؟ جب اسرائیل قائم ہو گیا تو فلسطینیوں کو کیسے ملک بدر کیا گیا؟ اور تمام تر دعوؤں کے باوجود انھیں آج تک کیسے درجہ دم کے شہری بنائے رکھا گیا؟
فلسطینیوں نے تحریک آزادی کیسے منظم کی اور فلسطینی شاعروں، کہانی نویسوں، دوسرے ادیبوں، مصنفوں، دانشوروں نے کیسے اس تحریک کے لیے زمین ہموار کی اور آبیاری کی۔ پی ایل او اور دوسری تحریکیں کیسے وجود میں آئیں۔ جنگ سڑسٹھ کے کیا نتائج مرتب ہوئے؟ کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے کیا گل کھلائے؟ فلسطینیوں کے نقطہ نظر سے فلسطین کے مسئلے کا کیا حل ممکن ہے؟ وغیرہ ... کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے اور ان پر جو سیر حاصل بحث کی ہے وہ ہمیں اس مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد دیتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس مسئلے کو پہلی مرتبہ صحیح انداز میں پیش کیا گیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔
ایڈورڈ سعید نے اپنی یہ کتاب صہیونیت کے اصل چہرے سے نقاب سرکانے اور اس ضمن میں مغرب کے نام نہاد لبرل سیاستدانوں اور دانشوروں نے جو مکروہ کردار ادا کیا ہے، اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑنے کی غرض سے لکھی تھی۔ وہ اپنے اس مقصد میں کہاں تک کامیاب رہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صہیونیوں نے یہ کتاب ہی بازار سے غائب کروا دی اب تو کسی خوش نصیب کو ہی دستیاب ہوتی ہے۔ ہم اگر اس کتاب کو پڑھنے والے خوش نصیب ہیں تو اس کا سہرا شاہد حمید کے سر ہے۔
انھوں نے ''مسئلہ فلسطین'' کے دیباچے میں لکھا ہے کہ: آج جب پریس اتنی ترقی کر چکا ہے اور تو اور نقول تیار کرنے کی مشینیں ہر گلی نکڑ پر موجود ہیں۔ کتاب غائب کرانا اتنا مشکل نہیں۔ اگر کسی حکمران کی جبینِ ناز پر کسی کتاب کی اشاعت سے بل پڑ جائیں تو اس کی اشاعت پر آنا فاناً پابندی لگ جاتی ہے۔ تیسری دنیا کے ہم چوں ما دیگرے نیست قسم کے حکمران یہی طریقہ پسند فرماتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا کرنے سے زیر زمین کام کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔
ایک طریقہ صہیونیوں نے اختیار کیا ہے جونہی ان کے کانوں میں بھنک پڑتی ہے کہ کوئی ایسی تصنیف بازار میں آئی ہے یا آنے والی ہے ، وہ اس کی تمام کاپیاں خریدنے دوڑتے ہیں، کتاب تلف ہوجاتی ہے اور اگر پبلشر مغربی ہے تو پھر ترکش کے تمام تیر آزما کر اس کی مزید اشاعت رکوا دی جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایڈورڈ سعید کی اس کتاب کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کی واردات گزری۔
راقم الحروف کو اپنے قیام لندن کے دوران میں کسی دکان پر بھی، نہ نئی نہ پرانی کتابیں بیچنے والی، اس کا کوئی نسخہ دستیاب نہ ہوسکا حتیٰ کہ Foyles میں بھی نہیں۔ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر وقت پچاس لاکھ کتابیں اسٹاک میں رکھتے ہیں اور دنیا کے سب سے بڑے کتب فروش ہیں۔
معلوم نہیں خالد احمد ڈپٹی ایڈیٹر فرنٹیئر پوسٹ لاہور نے اپنے واشنگٹن قیام کے دوران میں یہ کتاب کیسے اور کہاں سے ڈھونڈ نکالی۔ انھوں نے محمد سلیم الرحمان کو پڑھنے کے لیے دی۔ وہ اسے پڑھ کر چونکے اور فیصلہ کیا کہ اس کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ محمود گیلانی ایسی چیز چھاپنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ فوراً حامی بھرلی۔ ترجمے کے لیے قرعہ فال ناچیز کے نام نکلا اور یوں اسے اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع میسر آیا۔
انھیں یہ موقع میسر آیا اور ہمیں اپنے شعور کی آنکھوں سے 'مسئلہ فلسطین' کو دیکھنے ، سمجھنے کا ۔ اب شاہد حمید جاچکے ہیں لیکن جاتے جاتے انھوں نے ٹالسٹائی کا عظیم ناول ''جنگ اور امن'' دوستوسکی کا ''کراما زوف برادران'' ''مسئلہ فلسطین'' اور ایسی ہی کئی عظیم الشان کتابیں ترجمہ کیں اور ان قارئین پر احسان کیا جو انگریزی سے نابلد ہونے کے باوجود اپنا سینہ اس خزانے سے بھر لینا چاہتے ہیں۔ جو عالمی ادب کہلاتا ہے۔
شاہد حمید نے لکھا ہے کہ جب وہ 1988 میں ریٹائرڈ ہوئے تو ان کے سامنے یہ معاملہ تھا کہ ادب سے ان کی شیفتگی کا اظہار کس طرح ہو۔ بقول ان کے وہ تیسرے درجے کی طبع زاد تحریروں کا ڈھیر لگانے کی بجائے عالمی کلاسیک کا ترجمہ کریں ۔ وہ جانے کون سی شبھ گھڑی تھی جب ان کے ذہن میں یہ خیال آیا اور وہ کاغذ قلم لے کر اپنی آنکھوں کا تیل جلانے کے لیے بیٹھے اور پھر 1988 سے 2018 کے درمیان انھوں نے عالمی ادب کے کیسے کیسے خزائن اردو میں منتقل کرکے ہم پر احسان کیا۔
یہاں ہمیں جہلم کے بک کارنر کے بانی اور ان کی رخصت کے بعد ان کے بیٹوں گگن شاہد اور امر شاہد کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ان ضخیم کتابوں کی اشاعت کو اپنا ایمان بنالیا۔
The Question of Palestine کا ترجمہ 'مسئلہ فلسطین' 2021 میں شائع ہوا۔ ہمارے لیے اس معاملے کو سمجھنے کے لیے اس سے زیادہ مناسب وقت کوئی ہو نہیں سکتا تھا۔ مجھے ہمارے ان سورمائوں سے کوئی غرض نہیں جو ہر جمعہ کو لکڑی کے گھوڑوں پر بیٹھ کر فلسطین فتح کرنے جاتے ہیں اور جن کے بلند آہنگ نعروں سے واشنگٹن اور تل ابیب کے اسلحہ خانوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔
یہ وہ خطیب، علما اور فقہا ہیں جنھیں فلسطینیوں کی در بہ دری اور خاک بسری نظر نہیں آتی اور جو قبلہ اول کی آزادی کے لیے اپنے شہروں کی سڑکیں بند کردیتے ہیں اور ایمبولینسوں کے دل خراش سائرنوں کی آوازیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔
فلسطین کا مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ کچھ اور پیچیدہ ہوچکا ہے۔ فلسطین اپنے سچے عاشق سے محروم ہوچکا ہے لیکن اس کی تحریریں عرصے تک فلسطینیوں کی اور ہماری رہنمائی کرتی رہیں گی۔ آپ بھی اگر اس مسئلے کی گتھیاں کھولنا چاہتے ہیں تو ''مسئلہ فلسطین'' کو ضرور پڑھیں۔ ''بک کارنر'' کو اور اس کے گگن شاہد اور امر شاہد کو دعائیں دیں جنھوں نے صرف کاروبار نہیں کیا، علم و ادب کے چراغ بھی جلائے۔
اس کا کہنا تھا کہ ہم اگر خیالات کی حقیقت سے آگاہ ہوں، یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انسان دوست خیالات، سائنسی خیالات اور سماجی خیالات کہاں سے آتے ہیں، کن کی نمائندگی کرتے ہیں اور کسی شخص کو ان کی جانب کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان تمام معاملات کو سمجھتے ہوئے ہم مستقبل سے امیدیں قائم کرسکتے ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ الجھتا گیا۔ کئی جنگیں لڑیں اور ہر جنگ ان کے لیے نئے عذابوں کا سبب بنی۔ ایڈورڈ سعید کو فلسطین سے اور اس کے رہنما یاسر عرفات سے گہری محبت تھی۔ اس نے ان کی تقریروں کے انگریزی ترجمے کیے۔ لیکن آہستہ آہستہ اسے نہایت قریب سے فلسطینی رہنمائوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور وہ دلبرداشتہ ہوتا گیا۔
یہ ایک الم ناک بات ہے کہ وہ شخص جس نے فلسطین کا مقدمہ اپنے جسم اور روح کی پوری قوت سے لڑا، یاسر عرفات نے اپنے زیر انتظام علاقے میں اس کی تمام کتابوں پر پابندی عائد کی اور اسے 'امن دشمن' اور 'دہشت گردوں کا حمایتی' کے نام سے یاد کیا گیا۔
ستمبر 2003 میں وہ چلا گیا۔ اس کی کتابیں رہ گئیں۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں شاہد حمید ایسا دانشور اور مترجم ملا جس نے ان کی ایک اہم ترین کتاب کو تلاش کیا، ترجمہ کیا اور پھر ہمارے ہاتھوں میں رکھ دیا۔ شاہد حمید نے اعلیٰ غیر ملکی ادب کے کیسے جواہر پارے ترجمہ کیے اور ہمارے نسلوں کو مالا مال کیا ۔ انھوں نے ایڈورڈ سعید کی کتاب مسئلہ فلسطین کے بارے میں لکھا ہے: ''انھوں نے اپنی اس کتاب میں جس بنیادی مباحث... صہیونیت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی؟ یہودیوں نے اس کے فروغ کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے؟
مغربی سیاستدانوں نے مکر و فریب کے کیا کیا جال بچھائے؟ نام نہاد لبرل دانشوروں، ناول نگاروں، شاعروں، مقابلہ نویسوں، سفر ناموں کے مصنفوں اور صہیونیت کے دیگر ہمدردوں نے کیسے فضا ہموار کی۔ خود صہیونیوں نے فلسطین میں آباد ہونے کے لیے کن کن جتنوں سے کام کیا اور اپنے دعوؤں کو سچا ثابت کرنے کے لیے کن کن تاویلوں کا سہارا لیا؟ جب اسرائیل قائم ہو گیا تو فلسطینیوں کو کیسے ملک بدر کیا گیا؟ اور تمام تر دعوؤں کے باوجود انھیں آج تک کیسے درجہ دم کے شہری بنائے رکھا گیا؟
فلسطینیوں نے تحریک آزادی کیسے منظم کی اور فلسطینی شاعروں، کہانی نویسوں، دوسرے ادیبوں، مصنفوں، دانشوروں نے کیسے اس تحریک کے لیے زمین ہموار کی اور آبیاری کی۔ پی ایل او اور دوسری تحریکیں کیسے وجود میں آئیں۔ جنگ سڑسٹھ کے کیا نتائج مرتب ہوئے؟ کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے کیا گل کھلائے؟ فلسطینیوں کے نقطہ نظر سے فلسطین کے مسئلے کا کیا حل ممکن ہے؟ وغیرہ ... کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے اور ان پر جو سیر حاصل بحث کی ہے وہ ہمیں اس مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد دیتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس مسئلے کو پہلی مرتبہ صحیح انداز میں پیش کیا گیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔
ایڈورڈ سعید نے اپنی یہ کتاب صہیونیت کے اصل چہرے سے نقاب سرکانے اور اس ضمن میں مغرب کے نام نہاد لبرل سیاستدانوں اور دانشوروں نے جو مکروہ کردار ادا کیا ہے، اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑنے کی غرض سے لکھی تھی۔ وہ اپنے اس مقصد میں کہاں تک کامیاب رہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صہیونیوں نے یہ کتاب ہی بازار سے غائب کروا دی اب تو کسی خوش نصیب کو ہی دستیاب ہوتی ہے۔ ہم اگر اس کتاب کو پڑھنے والے خوش نصیب ہیں تو اس کا سہرا شاہد حمید کے سر ہے۔
انھوں نے ''مسئلہ فلسطین'' کے دیباچے میں لکھا ہے کہ: آج جب پریس اتنی ترقی کر چکا ہے اور تو اور نقول تیار کرنے کی مشینیں ہر گلی نکڑ پر موجود ہیں۔ کتاب غائب کرانا اتنا مشکل نہیں۔ اگر کسی حکمران کی جبینِ ناز پر کسی کتاب کی اشاعت سے بل پڑ جائیں تو اس کی اشاعت پر آنا فاناً پابندی لگ جاتی ہے۔ تیسری دنیا کے ہم چوں ما دیگرے نیست قسم کے حکمران یہی طریقہ پسند فرماتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا کرنے سے زیر زمین کام کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔
ایک طریقہ صہیونیوں نے اختیار کیا ہے جونہی ان کے کانوں میں بھنک پڑتی ہے کہ کوئی ایسی تصنیف بازار میں آئی ہے یا آنے والی ہے ، وہ اس کی تمام کاپیاں خریدنے دوڑتے ہیں، کتاب تلف ہوجاتی ہے اور اگر پبلشر مغربی ہے تو پھر ترکش کے تمام تیر آزما کر اس کی مزید اشاعت رکوا دی جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایڈورڈ سعید کی اس کتاب کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کی واردات گزری۔
راقم الحروف کو اپنے قیام لندن کے دوران میں کسی دکان پر بھی، نہ نئی نہ پرانی کتابیں بیچنے والی، اس کا کوئی نسخہ دستیاب نہ ہوسکا حتیٰ کہ Foyles میں بھی نہیں۔ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر وقت پچاس لاکھ کتابیں اسٹاک میں رکھتے ہیں اور دنیا کے سب سے بڑے کتب فروش ہیں۔
معلوم نہیں خالد احمد ڈپٹی ایڈیٹر فرنٹیئر پوسٹ لاہور نے اپنے واشنگٹن قیام کے دوران میں یہ کتاب کیسے اور کہاں سے ڈھونڈ نکالی۔ انھوں نے محمد سلیم الرحمان کو پڑھنے کے لیے دی۔ وہ اسے پڑھ کر چونکے اور فیصلہ کیا کہ اس کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ محمود گیلانی ایسی چیز چھاپنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ فوراً حامی بھرلی۔ ترجمے کے لیے قرعہ فال ناچیز کے نام نکلا اور یوں اسے اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع میسر آیا۔
انھیں یہ موقع میسر آیا اور ہمیں اپنے شعور کی آنکھوں سے 'مسئلہ فلسطین' کو دیکھنے ، سمجھنے کا ۔ اب شاہد حمید جاچکے ہیں لیکن جاتے جاتے انھوں نے ٹالسٹائی کا عظیم ناول ''جنگ اور امن'' دوستوسکی کا ''کراما زوف برادران'' ''مسئلہ فلسطین'' اور ایسی ہی کئی عظیم الشان کتابیں ترجمہ کیں اور ان قارئین پر احسان کیا جو انگریزی سے نابلد ہونے کے باوجود اپنا سینہ اس خزانے سے بھر لینا چاہتے ہیں۔ جو عالمی ادب کہلاتا ہے۔
شاہد حمید نے لکھا ہے کہ جب وہ 1988 میں ریٹائرڈ ہوئے تو ان کے سامنے یہ معاملہ تھا کہ ادب سے ان کی شیفتگی کا اظہار کس طرح ہو۔ بقول ان کے وہ تیسرے درجے کی طبع زاد تحریروں کا ڈھیر لگانے کی بجائے عالمی کلاسیک کا ترجمہ کریں ۔ وہ جانے کون سی شبھ گھڑی تھی جب ان کے ذہن میں یہ خیال آیا اور وہ کاغذ قلم لے کر اپنی آنکھوں کا تیل جلانے کے لیے بیٹھے اور پھر 1988 سے 2018 کے درمیان انھوں نے عالمی ادب کے کیسے کیسے خزائن اردو میں منتقل کرکے ہم پر احسان کیا۔
یہاں ہمیں جہلم کے بک کارنر کے بانی اور ان کی رخصت کے بعد ان کے بیٹوں گگن شاہد اور امر شاہد کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ان ضخیم کتابوں کی اشاعت کو اپنا ایمان بنالیا۔
The Question of Palestine کا ترجمہ 'مسئلہ فلسطین' 2021 میں شائع ہوا۔ ہمارے لیے اس معاملے کو سمجھنے کے لیے اس سے زیادہ مناسب وقت کوئی ہو نہیں سکتا تھا۔ مجھے ہمارے ان سورمائوں سے کوئی غرض نہیں جو ہر جمعہ کو لکڑی کے گھوڑوں پر بیٹھ کر فلسطین فتح کرنے جاتے ہیں اور جن کے بلند آہنگ نعروں سے واشنگٹن اور تل ابیب کے اسلحہ خانوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔
یہ وہ خطیب، علما اور فقہا ہیں جنھیں فلسطینیوں کی در بہ دری اور خاک بسری نظر نہیں آتی اور جو قبلہ اول کی آزادی کے لیے اپنے شہروں کی سڑکیں بند کردیتے ہیں اور ایمبولینسوں کے دل خراش سائرنوں کی آوازیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔
فلسطین کا مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ کچھ اور پیچیدہ ہوچکا ہے۔ فلسطین اپنے سچے عاشق سے محروم ہوچکا ہے لیکن اس کی تحریریں عرصے تک فلسطینیوں کی اور ہماری رہنمائی کرتی رہیں گی۔ آپ بھی اگر اس مسئلے کی گتھیاں کھولنا چاہتے ہیں تو ''مسئلہ فلسطین'' کو ضرور پڑھیں۔ ''بک کارنر'' کو اور اس کے گگن شاہد اور امر شاہد کو دعائیں دیں جنھوں نے صرف کاروبار نہیں کیا، علم و ادب کے چراغ بھی جلائے۔