ماہرین کی زرعی پیداوار میں اضافے کیلیے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو 8 بجٹ تجاویز
کاشتکاروں کو انتہائی آسان شرائط اورکم شرح سود پرقرضوں کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی، ماہرین کی تجویز
پنجاب کے ترقی پسند کسانوں ،کاشتکاروں اورزرعی ماہرین کی طرف سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو آئندہ بجٹ میں زرعی پیداوار بڑھانے اور کاشتکاروں کی خوشحالی کے لئے 8 تجاویزدی گئی ہیں۔
ترقی پسند کسانوں، کاشتکاروں اور زرعی ماہرین پر مشتمل ایگریکلچر ریپبلک فورم کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں زرعی موجودہ حالات کے تناظر میں زرعی شعبے میں بہتری، اصلاحات ، پیداوارمیں اضافے اورکاشتکاروں کی خوشحالی کے لئے تجاویزدی گئی ہیں۔
ایگریکلچر ری پبلک کے سربراہ عامرحیات بھنڈارا نے ٹربیون کوبتایا ،ہم نے وزیراعظم عمران خان سمیت وزیراعلی پنجاب، وفاقی اور صوبائی وزرا کو خط لکھا ہے جس میں انہیں مختلف تجاویزدی گئی ہیں۔ جن میں کہاگیا ہے کہ زراعت ملک کاسب سے بڑا شعبہ ہے، 42 فیصد افراد کو روزگار مہیا کررہا ہے۔ ملکی آبادی میں ہرسال دو اعشاریہ چار فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہماری زرعی پیداوار کم ہورہی ہے، جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ بتدریج کم ہورہا ہے جو اس وقت 19.3 فیصد رہ گیا ہے۔
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ زرعی شعبے میں بہتری کے لئے کاشتکاروں کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر انتہائی آسان شرائط اورکم شرح سود پرقرضوں کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی ،جس طرح گزشتہ برس ملک میں تعمیراتی شعبے کو سہولتیں دی گئی تھیں۔ اس اقدام سے چھوٹے کاشتکاروں کو ان کی پیداوار اور منافع میں اضافہ کرنے کی ترغیب ملے گی۔ موسمیاتی تبدیلوں کے تناظرمیں ریگولیٹری فریم ورک تیارکرناہوگا۔ موسم میں تبدیلی کی وجہ سے فصلوں کی کاشت،تیاری اوران کونقصان پہنچانے والے کیڑوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ڈرون سمیت مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو فروغ دیناہوگا،ابھی حالیہ دنوں آنیوالی آندھی اورطوفان سے فصلوں کو نقصان پہنچاہے۔ ڈرون اور اے آر ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم درست طور پر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے رقبے پر کون سے فصلیں کاشت کی گئی ہیں، نقصان کا درست تخمینہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
عامر حیات بھنڈارانے بتایا انہوں نے وزیراعظم کویہ تجویزبھی دی ہے کہ ہمیں ملکی ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنی پیداوار بڑھاناہوگی ،جس طرح حکومت نے بھی یہ کہا ہے کہ ملک میں مکئی کا پیداواری رقبہ بڑھایا جائے گا۔ ہمیں پیداواری رقبہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایسے جدیدبیج استعمال کرنے کی ضرورت سے جس سے زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے اسی طرح فصلوں کی کاشت کے روایتی طریقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں موجودہ زیرکاشت رقبے سے زیادہ پیداوارحاصل کرنے کی طرف آناہوگا۔اسی طرح یہ بھی تجویزدی گئی ہے کہ دیہی علاقوں میں موبائل فون سروس اورانٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائے جائےتاکہ کسان اپنی فصلوں کی صحت ،ان کی پیداوارسے متعلق بروقت اورآسانی سے معلومات حاصل کرسکیں۔ آج دنیابھرمیں زرعی شعبے کے اندرجدیدٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔ حکومت سیلولر نیٹ ورک کمپنیوں کو حوصلہ افزائی کرے کہ وہ دیہی علاقوں میں اپنا نیٹ ورک بڑھا سکے اور کسانوں کے لئے دوستانہ انٹرنیٹ کے منصوبے مہیا کریں تاکہ وہ انٹرنیٹ سے رابطے کے ثمرات حاصل کرسکیں۔
لائیو اسٹاک جوملکی معیشت اورزراعت کاایک اہم جزہے اس حوالے سے تجویزدی گئی ہے کہ لائیواسٹاک کاملکی جی ڈی پی میں 12 فیصد حصہ ہے۔ لائیواسٹاک میں بہتری کے لئے جنین ٹرانسفرٹیکنالوجی کوفروغ دیناہوگا،اس سے اعلی نسل اورزیادہ دودھ دینے والے جانوروں کی افزائش میں اضافہ ہوگا، پاکستان دودھ اورگوشت کی پیداوارمیں خودکفیل ہوگا۔اس کے علاوہ حکومت کوتجویزدی گئی ہے کاشتکاروں کواس طرف راغب کیاجائے کہ وہ چھوٹے پیمانے پرزیادہ سبزیاں کاشت کرنے کی طرف آئیں، ہائبرڈ سبزیوں کی اقسام کی اعلی پیداواراوران کی مختصرشیلف لائف کودیکھتے ہوئے ضلعی سطح پر پروسیسنگ پالنتس لگائے جائیں تاکہ تازہ سبزیوں کوضائع ہونے کے نقصان سے بچاجاسکے۔ سب سے اہم تجویز پانی کی بچت کے حوالے سے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت زراعت تو دور کی بات پینے کے صاف پانی کی دستیابی بھی ایک بڑامسلہ بنتا جارہا ہے۔ زرعی شعبے میں 27 فیصد استعال شدہ پانی یا پھر بارشی پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ 73 فیصد رقبے کو سیراب کرنے کے لئے زیرزمین پانی استعمال میں لایاجاتا ہے۔ زیرزمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں، اسی صورتحال میں ہمیں ایسی فصلوں کی کاشت کو فروغ دینا ہوگا جو کم پانی استعمال کرتی ہیں۔ آبپاشی کے جدید طریقوں کو اپنانا ہوگا جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ روایتی طریقے کے مقابلے میں پانی کی چالیس فیصد تک بچت کی جاسکتی ہے۔ اس میں ڈرپ اریگیشن سب سے اہم ہے جس سے پانی کی بچت میں مددمل سکتی ہے۔
ترقی پسند کسانوں، کاشتکاروں اور زرعی ماہرین پر مشتمل ایگریکلچر ریپبلک فورم کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں زرعی موجودہ حالات کے تناظر میں زرعی شعبے میں بہتری، اصلاحات ، پیداوارمیں اضافے اورکاشتکاروں کی خوشحالی کے لئے تجاویزدی گئی ہیں۔
ایگریکلچر ری پبلک کے سربراہ عامرحیات بھنڈارا نے ٹربیون کوبتایا ،ہم نے وزیراعظم عمران خان سمیت وزیراعلی پنجاب، وفاقی اور صوبائی وزرا کو خط لکھا ہے جس میں انہیں مختلف تجاویزدی گئی ہیں۔ جن میں کہاگیا ہے کہ زراعت ملک کاسب سے بڑا شعبہ ہے، 42 فیصد افراد کو روزگار مہیا کررہا ہے۔ ملکی آبادی میں ہرسال دو اعشاریہ چار فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہماری زرعی پیداوار کم ہورہی ہے، جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ بتدریج کم ہورہا ہے جو اس وقت 19.3 فیصد رہ گیا ہے۔
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ زرعی شعبے میں بہتری کے لئے کاشتکاروں کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر انتہائی آسان شرائط اورکم شرح سود پرقرضوں کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی ،جس طرح گزشتہ برس ملک میں تعمیراتی شعبے کو سہولتیں دی گئی تھیں۔ اس اقدام سے چھوٹے کاشتکاروں کو ان کی پیداوار اور منافع میں اضافہ کرنے کی ترغیب ملے گی۔ موسمیاتی تبدیلوں کے تناظرمیں ریگولیٹری فریم ورک تیارکرناہوگا۔ موسم میں تبدیلی کی وجہ سے فصلوں کی کاشت،تیاری اوران کونقصان پہنچانے والے کیڑوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ڈرون سمیت مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو فروغ دیناہوگا،ابھی حالیہ دنوں آنیوالی آندھی اورطوفان سے فصلوں کو نقصان پہنچاہے۔ ڈرون اور اے آر ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم درست طور پر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے رقبے پر کون سے فصلیں کاشت کی گئی ہیں، نقصان کا درست تخمینہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
عامر حیات بھنڈارانے بتایا انہوں نے وزیراعظم کویہ تجویزبھی دی ہے کہ ہمیں ملکی ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنی پیداوار بڑھاناہوگی ،جس طرح حکومت نے بھی یہ کہا ہے کہ ملک میں مکئی کا پیداواری رقبہ بڑھایا جائے گا۔ ہمیں پیداواری رقبہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایسے جدیدبیج استعمال کرنے کی ضرورت سے جس سے زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے اسی طرح فصلوں کی کاشت کے روایتی طریقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں موجودہ زیرکاشت رقبے سے زیادہ پیداوارحاصل کرنے کی طرف آناہوگا۔اسی طرح یہ بھی تجویزدی گئی ہے کہ دیہی علاقوں میں موبائل فون سروس اورانٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائے جائےتاکہ کسان اپنی فصلوں کی صحت ،ان کی پیداوارسے متعلق بروقت اورآسانی سے معلومات حاصل کرسکیں۔ آج دنیابھرمیں زرعی شعبے کے اندرجدیدٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔ حکومت سیلولر نیٹ ورک کمپنیوں کو حوصلہ افزائی کرے کہ وہ دیہی علاقوں میں اپنا نیٹ ورک بڑھا سکے اور کسانوں کے لئے دوستانہ انٹرنیٹ کے منصوبے مہیا کریں تاکہ وہ انٹرنیٹ سے رابطے کے ثمرات حاصل کرسکیں۔
لائیو اسٹاک جوملکی معیشت اورزراعت کاایک اہم جزہے اس حوالے سے تجویزدی گئی ہے کہ لائیواسٹاک کاملکی جی ڈی پی میں 12 فیصد حصہ ہے۔ لائیواسٹاک میں بہتری کے لئے جنین ٹرانسفرٹیکنالوجی کوفروغ دیناہوگا،اس سے اعلی نسل اورزیادہ دودھ دینے والے جانوروں کی افزائش میں اضافہ ہوگا، پاکستان دودھ اورگوشت کی پیداوارمیں خودکفیل ہوگا۔اس کے علاوہ حکومت کوتجویزدی گئی ہے کاشتکاروں کواس طرف راغب کیاجائے کہ وہ چھوٹے پیمانے پرزیادہ سبزیاں کاشت کرنے کی طرف آئیں، ہائبرڈ سبزیوں کی اقسام کی اعلی پیداواراوران کی مختصرشیلف لائف کودیکھتے ہوئے ضلعی سطح پر پروسیسنگ پالنتس لگائے جائیں تاکہ تازہ سبزیوں کوضائع ہونے کے نقصان سے بچاجاسکے۔ سب سے اہم تجویز پانی کی بچت کے حوالے سے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت زراعت تو دور کی بات پینے کے صاف پانی کی دستیابی بھی ایک بڑامسلہ بنتا جارہا ہے۔ زرعی شعبے میں 27 فیصد استعال شدہ پانی یا پھر بارشی پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ 73 فیصد رقبے کو سیراب کرنے کے لئے زیرزمین پانی استعمال میں لایاجاتا ہے۔ زیرزمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں، اسی صورتحال میں ہمیں ایسی فصلوں کی کاشت کو فروغ دینا ہوگا جو کم پانی استعمال کرتی ہیں۔ آبپاشی کے جدید طریقوں کو اپنانا ہوگا جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ روایتی طریقے کے مقابلے میں پانی کی چالیس فیصد تک بچت کی جاسکتی ہے۔ اس میں ڈرپ اریگیشن سب سے اہم ہے جس سے پانی کی بچت میں مددمل سکتی ہے۔