ڈیکو فرنیچر کی تیاری میں کمی کاریگر اندرون ملک منتقل ہونے لگے

کراچی میں ڈیکو فرنیچر پر رنگ کرنے کے پیشے سے منسلک کاریگر معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔


عامر خان January 19, 2014
ڈیکو فرنیچر میں تھنر کے استعمال کے باعث سیکڑوں کاریگر سانس اور دمے کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس

KARACHI: ڈیکو فرنیچر کی تیاری کے آرڈرز میں کمی، آئرن اور پالش فرنیچر کی مانگ میں اضافے اور فرنیچر سازی کے بیشتر کارخانے اندرون ملک مختلف علاقوں میں منتقل ہونے کے باعث کراچی میں ڈیکو فرنیچر پر رنگ کرنے کے پیشے سے منسلک کاریگر معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔

جبکہ ڈیکو فرنیچر میں تھنر کے استعمال کے باعث سیکڑوں کاریگر سانس اور دمے کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کراچی میں کام کرنے کیلیے آنے والے سیکڑوں کاریگر واپس اپنے آبائی علاقوں میں چلے گئے ہیں اور وہاں انھوں نے مقامی سطح پر یہ کام شروع کردیا ہے، ایکسپریس نے ڈیکو فرنیچر پر رنگ کرنے والے کاریگروں کے حوالے سے ایک سروے کیا، کورنگی میں اس پیشے سے منسلک کاریگر ندیم الدین نے بتایا کہ ڈیکو فرنیچر پر رنگ کرنے والے کاریگروں کو '' ڈیکو پینٹ کاریگر'' کہا جاتا ہے، یہ پیشہ آبائی پیشہ کہلاتا ہے، اس پیشے میں شاگرد کم اور نسل در نسل یہ کام منتقل ہونے کا رجحان زیادہ ہے، اس پیشے کے کاریگروں کی دکانیں اور کارخانے ایف سی ایریا، لیاقت آباد، منظور کالونی، لیاقت آباد، اورنگی ٹاؤن، محمود آباد اور لانڈھی میں واقع ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اس پیشے سے وابستہ کاریگروں کی تعداد10ہزار تک ہے اور تقریباً ایک ہزار کارخانے اور دکانیں ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے70 فیصد اردو کمیونٹی اور30 فیصد دیگر قوموں کے لوگ وابستہ ہیں، کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال کی وجہ سے اندرون ملک سے ڈیکو فرنیچر کی تیاری کے آرڈرز ملنا کم ہوگئے ہیں۔



بیشتر کاروباری افراد نے فرنیچر سازی اور ڈیکو پینٹ کے کارخانے اندرون ملک کے مختلف اضلاع میں کھول لیے ہیں جس کی وجہ سے کراچی میں کاریگر معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں اور بیشتر کاریگر اس پیشے کو خیر آباد کہہ کر شیشہ سازی اور آئرن راڈ کے فرنیچر کے پیشے سے منسلک ہو رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ڈیکو فرنیچر کی مانگ میں کمی واقع ہو رہی ہے کیونکہ شہریوں میں آئرن فرنیچر کی خریداری کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ فرنیچر سستا اور پائیدار ہوتا ہے، انھوں نے بتایا کہ ڈیکو فرنیچر کو رنگ کرنے کے مختلف مراحل ہیں اور ڈیزائن کے حساب سے اس فرنیچر پر رنگ کرنے کا معاوضہ لیا جاتا ہے، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے کے کاریگر کے کام کرنے کی عمر انتہائی کم ہوتی ہے کیونکہ کام کے دوران رنگ میں تھنر ملایا جاتا ہے، کاریگر حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے ہیں، ماسک نہ پہننے کی وجہ سے سیکڑوں کاریگر دمے اور سانس کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ پہلے یہ کام 24 گھنٹے ہوتا تھا اور ماہانہ ایک کاریگر8 سے10 ڈیکو فرنیچر کے سیٹ پر رنگ کرلیتا تھا لیکن اب کام کم ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد 3 سے 4 رہ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں