ٹرینوں میں المناک حادثہ

ریلوے کو محفوظ بنانا مشکل کام نہیں‘بس نیک نیتی اور ایمانداری سے انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے۔


Editorial June 08, 2021
ریلوے کو محفوظ بنانا مشکل کام نہیں‘بس نیک نیتی اور ایمانداری سے انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

صوبہ سندھ میں ڈہرکی کے قریب پاکستان ریلوے کی ملت ایکسپریس اور سرسید ایکسپریس کے تصادم میں کئی بوگیاں الٹ گئیں جس کے نتیجے میں 62 مسافر جاں بحق ہوگئے۔

حادثے کے اسباب، جانوں کے ضیاع اور جدید سفری سہولتوں کی فراہمی میں پاکستان ریلوے کے پورے تاریخی اور انتظامی جائزہ رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حادثہ انسانی کوتاہی، فنی خرابی اور تغافل کے تسلسل کا شاخسانہ ہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ریلوے حادثات کی کوئی شفاف، جامع تحقیقاتی رپورٹ عوام کے سامنے اس طرز پر اب تک پیش ہی نہیں ہوئی جو ریلوے کے شاندار تہذیبی ماضی اور حال کی گھناؤنی صورتحال کی آئینہ دار ہو۔

متعدد مسافر بوگیوں کے نیچے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔ گھوٹکی انتظامیہ کے مطابق ٹرین حادثے میں بیسیوں مسافر زخمی ہیں، زخمیوں کو سول اسپتال گھوٹکی، ڈہرکی، رحیم یار خان اور پنوعاقل منتقل کیا گیا ہے۔

دشوار گزار علاقہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں بے پناہ مشکلات درپیش رہیں، صبح سویرے ہونے والے اس حادثے میں کتنی ہولناکی، افراتفری، پریشانی، ذہنی دباؤ کا ان مسافروں اور غم واندوہ میں پھنسے افراد نے سامنا نہ کیا ہوگا، یہ درد کے روح فرسا لمحات تھے، بڑی آزمائش تھی، ٹرین حادثے کے بعد امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار رہیں، سندھ رینجرز کے جوان بھی امدادی کاموں میں مصروف رہے۔

ریلوے کے متعلقہ اہلکار کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ دو ماہ قبل حکومت کو خط لکھ کر بتایا گیا تھا کہ سکھر ڈویژن کا ٹریک درست نہیں، ہنگامی بنیادوں پر مرمت ضروری ہے مگر کسی نے کارروائی نہ کی اور نتیجے کی صورت میں یہ حادثہ ہو گیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے ٹرین حادثہ اور اس میں جاں بحق ہونے والوں پر دلی صدمہ کا اظہار کیا، وزیر اعظم عمران خان نے وزیر ریلوے اعظم سواتی سے رابطہ کرکے گھوٹکی ٹرین حادثے کے بارے میں دریافت کیا، اعظم سواتی نے وزیر اعظم کو حادثے سے متعلق ابتدائی معلومات فراہم کیں۔

وزیر اعظم کی ہدایت پر وزیر ریلوے ہنگامی طور پر اسلام آباد سے گھوٹکی آئے اور جائے حادثہ پرپہنچ گئے۔ اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا حادثہ ہے، 62 افراد کے جاں بحق ہونے اور کئی مسافروں کے زخمی ہونے پر افسوس ہے، انھوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن زخمیوں کے علاج معالجہ کی نگرانی خود کروں گا۔

وزیر ریلوے کا مزید کہنا تھا کہ باقی مسافروں کو بروقت ان کے گھروں تک پہنچانے کے انتظامات کیے گئے ہیں، ٹرین حادثے کی خود ہنگامی بنیادوں پر تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے، حادثے کے ذمے داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

گھوٹکی حادثے پر وزیر ریلوے اعظم سواتی نے 24 گھنٹوں کے اندر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر ریلوے اعظم سواتی کو ہدایت کی کہ وہ زخمیوں کے علاج میں ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کو یقینی بنائیں، حادثہ کے فنی اسباب اور دیگر پہلوؤں پر ریلوے کی جانب سے کوئی عبوری تحقیقاتی رپورٹ جاری نہیں کی گئی، دونوں ٹرینوں کے ڈرائیور محفوظ رہے.

ترجمان ریلوے کا کہنا ہے کہ ریلوے و مقامی پولیس اور مقامی انتظامیہ ریلیف کے لیے موقع پر موجود تھی، مسافروں کی سہولت کے لیے کراچی، سکھر، فیصل آباد اور راولپنڈی میں ہیلپ سینٹر قائم کر دیے گئے ہیں۔

ریلوے ترجمان کے مطابق ٹرین حادثے کے زخمیوں کو تعلقہ اسپتال روہڑی، پنو عاقل اور سول اسپتال سکھر منتقل کیا گیا ہے، زیادہ تر زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے۔

ٹرین سرسید ایکسپریس کے ڈرائیور اعجاز احمد نے حادثے سے متعلق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حادثہ صبح 3 بجکر 45 منٹ پر ہوا، میں اور میرا اسسٹنٹ ڈرائیور افتخار ڈاؤن ٹریک پر اپنے سامنے بوگیاں گری دیکھ کر گھبرا گئے، لیکن ہم نے خود پر قابو کیا، ہنگامی بریک لگائی، تاہم اس کے باوجود حادثہ ہو گیا۔

ٹرین ڈرائیور کا مزید کہنا تھا کہ سرسید ایکسپریس کی دو ایئرکنڈیشنڈ بزنس کلاس بوگیاں اور ایک ڈائننگ کار حادثے میں متاثر ہوئی ہے جب کہ حادثے کا شکار ہوئی دوسری ٹرین ملت ایکسپریس کی 3 اے سی بزنس، 8 اکانومی کلاس بوگیاں ڈاؤن ٹریک پر گری ہیں۔

واضح رہے کہ حادثے کا شکار بدقسمت ٹرین ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا جب کہ دوسری ٹرین سرسید ایکسپریس راولپنڈی سے کراچی جا رہی تھی۔ حادثے کے بعد ملت ایکسپریس کی 8 اور سرسید ایکسپریس کی انجن سمیت 3 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں، جب کہ کچھ بوگیاں کھائی میں جا گریں۔

حکام کا بتانا ہے کہ حادثے کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے ڈہرکی کے قریب ٹرین حادثے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔

حادثہ سے متعلق بعض حقائق کا انکشاف ہوا ہے، صوبائی وزیر اویس شاہ کا بیان بھی میڈیا میں وائرل ہوا، ان کا کہنا تھا کہ ارباب اختیار کو مکتوبات اور بیانات کے ذریع ٹرینوں کی ازکار رفتہ صورتحال سے آگاہ کیا گیا، یہ کہا گیا کہ ٹرینیں بار بار پٹڑی سے اتر جاتی ہیں۔

ان ٹرینوں کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے، جو کسی بھی وقت بڑے دردناک حادثے کا سبب بن سکتی ہیں، لیکن ریلوے حکام نے کسی قسم کی کارروائی نہیں کی، مگر یہ حقیقت ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے بھی اپنے ایک ابتدائی انٹرویو میں ریلوے میں لائی جانے والی تبدیلیوں اور اصلاحات کے جو دعوے کیے تھے وہ بھی شرمندہ تعبیر ہوتے نظر نہ آئے، ریلوے کی حالت زار میں کوئی فرق نہیں آیا، صرف چہرے بدلتے رہے حادثات اور المیوں کا تسلسل جاری رہا۔

یاد رہے ان ریلوے ٹریکس پر کئی الم ناک حادثات رونما ہو چکے ہیں جن میں سیکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوگئے تھے۔ دنیا میں جدید ترین ٹرینوں کے کئی ڈیزائن ترقی یافتہ ملکوں نے متعارف کرائے ہیں، بلٹ اور تیز رفتار ٹرینیں، ان کا نیٹ ورک ایک مہذب ملک کی شناخت ہوتے ہیں، چین نے حال ہی میں ایک حیران کن ٹرین بنائی ہے۔

پاکستان میں ریلویز کی تاریخ کو ملک میں قومی یکجہتی اور تمدنی، تجارتی و تاریخی حوالوں سے ایک کلیدی انفرادیت حاصل تھی مگر رفتہ رفتہ پاکستان ریلویز کی کارکردگی اور شاندار ماضی کو قصہ پارینہ بنا دیا گیا۔

ارباب اختیار کو نہ صرف ریلوے کی ری اسٹرکچرنگ، نئے انجنوں اور بوگیوں کی شمولیت، ٹریکس کی مرمت اور مسافروں کو سفری سہولتوں میں پیش رفت کا نیا اصلاحات پیکیج بھی جاری کرنا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرین کے حادثات کی روک تھام، ریلوے سسٹم میں تطہیر اور تبدیلی کے امکانات کا جائزہ بھی لینا چاہیے، حکومت ملک کے تمام ریلوے اسٹیشنوں کے ٹریکس کے قریب سے گزرنے والے اہم مقامات پر ریسکیو آپریشن، ہنگامی کیمپ قائم کرے اور اسی تناظر میں کراچی سرکلر ریلوے کو جلد ز جلد فنکشنل بنانے کا اعلان کرے۔ ریلوے محکمہ کو ہر ممکن سہولتوں سے آراستہ کرنے میں کوئی کمی نہ لائی جائے، یہ قوم کی یک جہتی اور خطے کی تاریخ سے جڑی بہت اہم قیمتی یادگار ہے۔

پاکستان میں ریلوے مسلسل زوال کا شکار ہوتی رہی ہے۔ سابق دور میں ریلوے کو بحال کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہوتی نظر آئیں اور یہ امید پیدا ہوئی کہ اگر مسلسل اور انتھک محنت کی جائے تو ریلوے کو فعال بنایا جا سکتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ایک مخصوص گروپ ریلوے کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے حالانکہ کسی بھی ملک میں ریلوے قومی اثاثہ ہوتا ہے اور یہ کسی ملک کی مختلف قوموں اور علاقوں کو آپس میں جوڑنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ریلوے تجارتی مقاصد کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ادارہ ہے۔

تجارتی مقاصد میں ریلوے مفید اس لیے ہے کہ ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات انتہائی کم ہوتے ہیں اور اس کا سفر محفوظ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ریلوے کی کمائی کا انحصار اس کے تجارتی شعبے پر ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ریلوے تجارتی شعبے میں تنزل کا شکار ہوا'اس کے علاوہ مختلف ادوار میں اس ادارے نے سیاسی اور سفارشی بھرتیوں کی بھرمار رہی ہے۔ اس وجہ سے ریلوے کی آمدنی تو کم ہوئی اور اس کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہونا شروع ہوا۔

روڈ ٹرانسپورٹ کا تجارتی استعمال جیسے جیسے بڑھتا گیا' ریلوے کا استعمال کم ہوتا گیا۔ اب بھی اگر حکومت اپنی اشیا کی نقل و حمل روڈ ٹرانسپورٹ سے واپس لے کر ریلوے کو منتقل کر دے تو چند برسوں میں ریلوے ایک منافع بخش ادارہ بن جائے گا۔ ریلوے کو بچانے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔

ریلوے کسی بھی ریاست کا ایک انتہائی اہم اور حساس اثاثہ ہوتا ہے۔اس کا نیٹ ورک جتنا زیادہ فعال 'مربوط'سبک رفتار اور محفوظ ہو گا ملک اتنا ہی زیادہ ترقی کی طرف بڑھے گا۔ ریلوے کو محفوظ بنانا مشکل کام نہیں'بس نیک نیتی اور ایمانداری سے انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں