غدار سازی کی قانونی فیکٹری

جب بھی کوئی تادیبی قانون نافذ کرتی ہے تو ایک جملہ ضرور کہا جاتا ہے ’’ یہ قانون عوام کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے‘‘۔

وہ جو کسی نے کہا تھا کہ بدترین قوانین بھی بہترین نیت سے بنائے جاتے ہیں۔اس کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے۔ریاست بھلے جمہوری ہو کہ فسطائی کہ سامراجی کہ آمرانہ کہ نظریاتی۔

جب بھی کوئی تادیبی قانون نافذ کرتی ہے تو ایک جملہ ضرور کہا جاتا ہے '' یہ قانون عوام کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے''۔اور پھر یہی قانون ہر گدھے گھوڑے کو قطار میں رکھنے کے کام آتا ہے۔بس انھی پر لاگو نہیں ہوتا جن کی سرکوبی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ خوف سے آزادی ہی اصل آزادی ہے۔جب انگریز نے انڈین پینل کوڈ میں اب سے ایک سو اکسٹھ برس پہلے غداری سے نپٹنے کے نام پر آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کا ٹیکہ لگایا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ کروڑوں ہندوستانیوں کو انگریز سرکار کے جبر کے خلاف آواز اٹھانے سے روکا جائے۔

انگریز تو چلا گیا، خود برطانیہ میں بھی ایسے قانون کا وجود نہیں مگر انڈیا اور پاکستان کے سانولے آقاؤں نے گورے کے مرتب کردہ لگ بھگ پونے دو سو برس پرانے نوآبادیاتی پینل کوڈ کے اندر سے تادیبی ضوابط کو چن چن کر اماں کے جہیز میں ملے منقش لوٹے کی طرح آج بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔

مثلاً نوآبادیاتی دور کی یادگار پینل کوڈ کا آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کسی بھی شہری کو غدار قرار دے سکتا ہے، اگر حکومت ِ وقت کی نظر میں اس شہری نے اپنی زبان یا تحریر سے، براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں کنایوں میں یا کسی اور طریقے سے سرکار کی توہین کرنے یا اس کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی ہو۔ایسے غدار کو تین برس سے عمر قید تک سزا ہو سکتی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل انیس کے تحت قانون کے دائرے میں آزادیِ اظہار کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے مگر پینل کوڈ کے آرٹیکل ایک سو چوبیس اے، اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے ایکٹ اور اسی کے دیگر چچیرے ممیرے قوانین کے تحت دونوں ملکوں میں اس آئینی آزادی کو بیڑیاں پہنانے کا بھی تسلی بخش انتظام رکھا گیا ہے۔

تادیبی قوانین کو کیسے موم کی ناک بنا کر انھی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے تحفظ کے نام پر یہ قوانین نافذ ہوتے ہیں۔اس کی ایک مثال ایمرجنسی کے تحت ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر) کا قانون تھا۔ جسے نہ صرف ایوبی و یحییٰ آمریت بلکہ بھٹو دور میں بھی سیاسی مخالفین کی تواضع کے لیے استعمال کیا گیا۔اس ایمرجنسی قانون کا حکمران کو سب سے بڑا اور فوری فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کسی بھی منہ پھٹ کی زباں بندی کے لیے اسے بنا کسی فردِ جرم نوے دن کے لیے جیل میں ڈالا جا سکتا تھا۔

ضیا دور میں نفاذِ شریعت کے نام پر جو تعزیری قوانین بنائے گئے اور پینل کوڈ میں جو ترامیم کی گئیں ان کا مقصد بھی یہی بیان کیا گیا کہ عوام ایک نوآبادیاتی قانونی شکنجے سے آزاد ہو کر اس نظام کے تحت محفوظ زندگی بسر کر سکیں جس کے نفاذ کے لیے دراصل یہ ملک بنایا گیا تھا۔مگر ہوا یوں کہ شرعی تعزیری قوانین کو بھی سیاسی مخالفین کو لگام دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پولیس کی چاندی ہو گئی۔ اگر مٹھی گرم ہو گئی تو ملزم کے خلاف اینگلوسیکسن قانون کے تحت پرچہ کٹ گیا۔نہ بات بنی تو ایف آئی آر میں تعزیری دفعات شامل کر دی گئیں۔اب یہ ملزم کا کام ہے کہ وہ کبھی اس عدالت میں تو کبھی اس عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں جوتے گھساتا رہے۔

سرحد پار بھارت میں آرٹیکل دو سو چوبیس اے کے تحت کیسے کیسے غدار اور دہشت گرد پکڑے گئے۔ بال گنگا دھرتلک، گاندھی جی نوآبادیاتی دور میں اس آرٹیکل کے جال میں پھنسے۔ دورِ مودی میں کانگریسی رہنما ششہی تھرور،گجرات کے کسان رہنما ہاردک پٹیل، نامور ادیبہ اور سیاسی نقاد ارودن دھتی رائے، طالبِ علم رہنما کنہیا کمار ، معروف اداکارہ کنگنا رناوت ، سرکردہ صحافی راج دیپ سر ڈیسائی، ونود دعا، مرنال پانڈے، ظفر آغا ، کارٹونسٹ اسیم ترویدی وغیرہ وغیرہ۔


دو ہزار دس سے دو ہزار بیس تک کے دس برس میں انڈیا میں غداری کے آٹھ سو سولہ مقدمے درج کیے گئے۔ان میں سے پینسٹھ فیصد پرچے مئی دو ہزار چودہ میں مودی سرکار بننے کے بعد کاٹے گئے۔ایسے ایسے غدار گرفتار ہوئے کہ اصل غداروں نے بھی دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔

مثلاً گجرات کے ایک صحافی پر اس لیے غداری کا پرچہ کاٹ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنے ایک مضمون میں پیش گوئی کی تھی کہ جلد ہی گجرات کی ریاستی قیادت بدلنے والی ہے۔یو پی میں جب ایک صحافی نے ریپ ہونے والی ایک لڑکی کے گھر جا کر حقیقت جانے کی کوشش کی تو وہ بھی آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کے تحت دھر لیا گیا۔ریاست منی پور میں ایک رپورٹر نے جب سوشل میڈیا پر بی جے پی کے ایک صوبائی رہنما کی بیوی کی پوسٹ کا جواب دیا تو وہ بھی غداری میں پکڑا گیا۔ایک شہری نے فیس بک پر ایک مودی مخالف کارٹون شئیر کیا تو اس کے ساتھ بھی یہی بیتی۔

ماحولیاتی تحریک سے وابستہ بائیس سالہ کارکن دیشا روی گریٹا تھون برگ کا ٹویٹ شئیر کرنے پر پولیس کے ہاتھوں پرچہ کٹوا بیٹھی۔ریاست کرناٹک کے ایک اسکول میں جب بچوں نے شہریت کے نئے قانون سے متعلق ڈرامہ پیش کیا تو ایک دس سالہ بچی کے منہ سے ادا ہونے والے ایک جملے کے جرم میں اس کی ماں کو پکڑ لیا گیا اور اسکول کی پرنسپل اور عملے پر غداری کا پرچہ ہوگیا۔

پاکستان میں ایک سابق وزیرِ اعلیٰ ایوب کھوڑو اور سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی سمیت چوہتر برس میں متعدد سیاسی رہنما ، سماجی و سیاسی کارکن ، صحافی ، ادیب اور دانشور آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کے غدار بنے۔ چند ماہ قبل مسلم لیگ نون کی لاہور میں نکلنے والی ایک ریلی کے بعد لگ بھگ ڈھائی سو لوگوں پر یہ قانون ٹھوک دیا گیا۔سندھ کی جامشورو یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں سہولتوں کی کمی پر وائس چانسلر دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے طلبا اور لاہور میں طلبا یونینوں کی بحالی کے لیے جلوس نکالنے والے بیسیوں نوجوان بھی غداری کے پرچے میں پھنس گئے۔گویا قانون نہ ہوا اندھے کی لاٹھی ہو گئی جیسے چاہے گھمادی۔

اس برس جنوری میں پاکستانی سینیٹ کی قانون و انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی میں سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کو قانون کی کتابوں سے نکالنے کا پیش کردہ بل منظور کیا جانا تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ انڈین سپریم کورٹ کا جانے مانے صحافی ونود دعا کو غداری کے الزام سے بری کرنا بھی خوشی کی خبر ہے۔

ونود دعا پر گزشتہ برس مارچ میں اس وقت غداری کا پرچہ کاٹا گیا جب انھوں نے اپنے یو ٹیوب چینل پر کوویڈ لاک ڈاؤن کے سبب بھارت کے مختلف علاقوں میں پھنس جانے والے لاکھوں مزدوروں کی تکلیف کا ذمے دار سرکاری پالیسیوں کو قرار دیا۔انھیں بری کیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک بار پھر یہ اصول دھرایا گیا ہے کہ سرکاری پالیسیوں اور حکمتِ عملی پر کڑی سے کڑی تنقید بھی غداری کے دائرے میں نہیں آتی۔ ایسی تنقید جو سدھار کی نیت سے کی جائے ایک صحت مند سماج کی نشانی ہے۔

حکومتیں بھی جانتی ہیں کہ ایسے قانون پھٹیچر ہو چکے ہیں۔کوئی بھی اعلیٰ عدالت ان کے تحت بنائے گئے زیادہ تر مقدمات ایک سماعت میں ہی خارج کر دے گی۔مگر ضمانت ہوتے ہوتے ملزم کو کم ازکم دباؤ میں تو رکھا ہی جا سکتا ہے۔اس کی ناک تو رگڑی جا سکتی ہے۔

چنانچہ ایسے قوانین کتابوں سے خارج کرنے کا کسی بھی سرکار کا دل نہیں چاہتا۔دل بس تب چاہتا ہے جب سرکاری پارٹی اپوزیشن کی بنچوں پر جا بیٹھتی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story