ایلوویرا اورفائٹ بیک
فائٹربیک کے لیے رکنااورپلٹنا ضروری نہیں،آدمی بھاگتے ہوئے بھی فائٹربیک کرسکتا ہے۔
پڑوسی چینلوں پران دنوں دوہی چیزوں کابول سب سے بالا ہے ان میں ایک ''ایلوویرا''ہے جو کھانے پینے، اوڑھنے، بچھونے دھونے، دھلانے اورنچوڑنے کے علاوہ بھی ہرہرچیزمیں ڈالاجارہاہے بلکہ کبھی کبھی تو ہم جب مودی اورامیت شاہ کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتاہے جیسے دو مختلف قسم کے ایلوویرے ہوں اورتو اورگزشتہ دنوں ہم نے ایک فلم میں دپیکااورپریانکا کو دیکھا،ان میں بھی کچھ کچھ نشانیاں ''ایلوویرا'' کی دکھائی دیں اوربابارام دیوتوابتداء ہی سے ایک لال قسم کاایلوویرا تھا۔
مشتاق احمد یوسفی کاوہ مضمون تو آپ نے پڑھا ہو گاجس میں انھوں نے ساہیوال یااوکاڑہ کاسفرنامہ لکھاہے،ہوٹل میں بیرے نے جب مینیوسنانا شروع کیاتوہرچیزمیں ''آلو''تھا۔آلوگوشت ،آلوقیمہ، آلوگو بھی، آلو مٹر ،آلو گاجر ،آلودال ،آلو بھرتہ ۔۔۔میں نے اسے آلو کا پہاڑہ سنانے سے روکتے ہوئے پوچھا۔۔ کوئی ایسی چیزبھی ہے جس میں آلو کانام نہ ہو۔اس نے کہا ہاں ہے پوٹیٹوچپس۔وہ تو اس نے بتایاکہ ہوٹل کے مالک نے تجارت کے لیے آلو اسٹاک کیے تھے لیکن بھاؤ گرگیا،تو اب وہ ہوٹل میں لوگوں کو کھلاتا رہا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ پڑوسی ملک میں ایلو ویرا کابھی ہے،وجہ معلوم نہیں کہ انھوں نے ایلو ویرا کے کھیت بوئے ہیں یاکسی بابانے اسے دیوتا قرار دیاہو۔لیکن ہمیں تومعلوم ہے کہ تبدیلی کی اتنی بہتات کیوں ہے، دراصل یہاں علامہ اقبال کی عقیدت زیادہ ہے اور انھوں نے تبدیلی پر بہت زوردیاہواہے جسے ۔۔
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
اورادھر خداکے فضل سے صالحین بلکہ صادقوں اورامینوں کی بھی بہتات ہوگئی،اس لیے ہرصبح ہر شام تبدیلی۔ ہے صحت کا ''پیغام تبدیلی''۔ویسے بھی علامہ نے تو یہ بھی کہاہے کہ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
لیکن ہم اصل بات نہ ''آلو'' کی کررہے ہیں نہ ایلوویرا کی اورنہ تبدیلی کی بلکہ پڑوسی چینلوں کے ایک اورنعرے پر کچھ کہنا مقصود ہے ۔
کوئڈنائنٹین...''انڈیافائٹ بیک''
یہ اتنا زیادہ جلوہ گر ہے کہ اداکاروں، ہدایت کاروں اورگانے والوں کے ماتھے پر بھی لکھا ہوانظر آرہا ہے۔کوئڈ نائنٹین...انڈیافائٹ بیک''
ہم انگریزی کے ماہرتو نہیں لیکن فائٹ بیک اور فائربیک میں فرق کرسکتے ہیں اورجہاں تک ہماراخیال ہے دوسال ہونے کو آئے لیکن انڈیانے اب تک ''فائٹ بیک'' نہیں کیاہے ،کوئڈنائنٹین ہی مسلسل فائرنگ یافائٹنگ کررہاہے۔
اس سے ہمیں پشاورکاایک لطیفہ اوراس لطیفے سے برآمد ہونے والا ایک فقرہ یاجملہ یادآرہاہے ''تو وت مار'' وت مار۔لطیفہ یوں ہے کہ ایک صاحب جو خود کو ''بیک فائٹر''فائٹ بیک کاعلم بردار سمجھ رہاتھا ،ایک دن کسی نے اس کی ہوائی بدمعاشی کی ہوانکالتے ہوئے اسے ایک مکا،لات یاتھپڑ مارا۔اس نے کہا،تو وت مار،وہ مارتا جاتا تھا اوریہ وت مار،وت مارکہہ کر خود کو پٹوارہاتھا،لیکن وہ قیامت یافائٹ بیک نہیں آئی جو اس کے وت مار میں تھی۔
ویسے بھی ٹیکنیکلی''فائٹ بیک'' کے لیے پلٹنا ضروری ہے جب کہ فائٹربیک کے لیے رکنااورپلٹنا ضروری نہیں،آدمی بھاگتے ہوئے بھی فائٹربیک کرسکتا ہے لیکن فائٹ بیک کے لیے تو رکنا اورپلٹ کر لڑنا ضروری ہوتاہے جب کہ ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہاہے لیکن فائیٹ بیک یاوت مارجاری ہے، اب یہ فائٹ بیک کب ہوگا، کب نہیں ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
انڈیاکے عوام سے ہمیں ہمدردی ہے اورکوئڈ نائنٹین کی اس تباہ کاریوں پر ہمیںبھی دکھ ہے کیوں کہ عام آدمی کہیں کابھی ہو،ایک جیسا بے بس ،مظلوم اور دکھی ہوتاہے اوریہ توثابت شدہ حقیقت ہے کہ۔۔ غیروں کے مرنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے بھی مرتے ہیں اورمرسکتے ہیں۔ آج تم، کل ہماری باری ہے۔ پنجاب کے معروف صوفی بزرگ بابا بلھے شاہ نے کیا خوب کہا ہے۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے
سجنا وی مرجانا
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیاکی حکومت کورونا کے بارے میں سنجیدہ بالکل نہیں ہے ، ادھر کورونا کی تباہ کاری زوروں پرتھی اورادھر حکومت اپنا تمام لاؤلشکراورہتھیار لے کر بچاری ''ممتابینرجی''پر چڑھ دوڑ رہی تھی بلکہ اس کے خلاف فائٹ بیک کررہی تھی کہ وہاں بھی ''بھاجپا''کے ہشت پاجیت جائیں۔
ویسے سیاست کے معاملے میں اپنے یہاں کے حالات بھی کچھ قابل تعریف نہیں،خاص طور''سیاسوں '' کے کہ ان کے کانوں پر بھی ابھی تک کورونا کی جوں نہیں رینگی ہے اوربدستوراپنے مشعلے میں مصروف ہیں لیکن وہاں حکومت اورسیاسیوں نے انتہاکی بے حسی دکھائی ہے۔ کبھی کبھی تو ہمیں شبہ ہوتاہے کہ زبانی کلامی شورمیں کہیں آبادی کم کرنے کاکوئی سلسلہ تو نہیں چل رہاہے ۔جو کچھ بھی ہو ہماری الجھن تو بدستوررہے گی کہ فائٹ بیک کامطلب کیاہے ۔یہ وت مارتو نہیں۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازومرے آزمائے ہوئے ہیں
البتہ صابن ،سینی ٹائزراورطرح طرح کی دوسری چیزیں...یہ نائنٹی نائن عشاریہ نائنٹی نائن فی صد کورونا سے لڑے، نائنٹی نائن عشاریہ نائنٹی نائن فی صد اثر دارسے لڑے ،لڑے اورلڑے۔
مشتاق احمد یوسفی کاوہ مضمون تو آپ نے پڑھا ہو گاجس میں انھوں نے ساہیوال یااوکاڑہ کاسفرنامہ لکھاہے،ہوٹل میں بیرے نے جب مینیوسنانا شروع کیاتوہرچیزمیں ''آلو''تھا۔آلوگوشت ،آلوقیمہ، آلوگو بھی، آلو مٹر ،آلو گاجر ،آلودال ،آلو بھرتہ ۔۔۔میں نے اسے آلو کا پہاڑہ سنانے سے روکتے ہوئے پوچھا۔۔ کوئی ایسی چیزبھی ہے جس میں آلو کانام نہ ہو۔اس نے کہا ہاں ہے پوٹیٹوچپس۔وہ تو اس نے بتایاکہ ہوٹل کے مالک نے تجارت کے لیے آلو اسٹاک کیے تھے لیکن بھاؤ گرگیا،تو اب وہ ہوٹل میں لوگوں کو کھلاتا رہا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ پڑوسی ملک میں ایلو ویرا کابھی ہے،وجہ معلوم نہیں کہ انھوں نے ایلو ویرا کے کھیت بوئے ہیں یاکسی بابانے اسے دیوتا قرار دیاہو۔لیکن ہمیں تومعلوم ہے کہ تبدیلی کی اتنی بہتات کیوں ہے، دراصل یہاں علامہ اقبال کی عقیدت زیادہ ہے اور انھوں نے تبدیلی پر بہت زوردیاہواہے جسے ۔۔
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
اورادھر خداکے فضل سے صالحین بلکہ صادقوں اورامینوں کی بھی بہتات ہوگئی،اس لیے ہرصبح ہر شام تبدیلی۔ ہے صحت کا ''پیغام تبدیلی''۔ویسے بھی علامہ نے تو یہ بھی کہاہے کہ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
لیکن ہم اصل بات نہ ''آلو'' کی کررہے ہیں نہ ایلوویرا کی اورنہ تبدیلی کی بلکہ پڑوسی چینلوں کے ایک اورنعرے پر کچھ کہنا مقصود ہے ۔
کوئڈنائنٹین...''انڈیافائٹ بیک''
یہ اتنا زیادہ جلوہ گر ہے کہ اداکاروں، ہدایت کاروں اورگانے والوں کے ماتھے پر بھی لکھا ہوانظر آرہا ہے۔کوئڈ نائنٹین...انڈیافائٹ بیک''
ہم انگریزی کے ماہرتو نہیں لیکن فائٹ بیک اور فائربیک میں فرق کرسکتے ہیں اورجہاں تک ہماراخیال ہے دوسال ہونے کو آئے لیکن انڈیانے اب تک ''فائٹ بیک'' نہیں کیاہے ،کوئڈنائنٹین ہی مسلسل فائرنگ یافائٹنگ کررہاہے۔
اس سے ہمیں پشاورکاایک لطیفہ اوراس لطیفے سے برآمد ہونے والا ایک فقرہ یاجملہ یادآرہاہے ''تو وت مار'' وت مار۔لطیفہ یوں ہے کہ ایک صاحب جو خود کو ''بیک فائٹر''فائٹ بیک کاعلم بردار سمجھ رہاتھا ،ایک دن کسی نے اس کی ہوائی بدمعاشی کی ہوانکالتے ہوئے اسے ایک مکا،لات یاتھپڑ مارا۔اس نے کہا،تو وت مار،وہ مارتا جاتا تھا اوریہ وت مار،وت مارکہہ کر خود کو پٹوارہاتھا،لیکن وہ قیامت یافائٹ بیک نہیں آئی جو اس کے وت مار میں تھی۔
ویسے بھی ٹیکنیکلی''فائٹ بیک'' کے لیے پلٹنا ضروری ہے جب کہ فائٹربیک کے لیے رکنااورپلٹنا ضروری نہیں،آدمی بھاگتے ہوئے بھی فائٹربیک کرسکتا ہے لیکن فائٹ بیک کے لیے تو رکنا اورپلٹ کر لڑنا ضروری ہوتاہے جب کہ ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہاہے لیکن فائیٹ بیک یاوت مارجاری ہے، اب یہ فائٹ بیک کب ہوگا، کب نہیں ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
انڈیاکے عوام سے ہمیں ہمدردی ہے اورکوئڈ نائنٹین کی اس تباہ کاریوں پر ہمیںبھی دکھ ہے کیوں کہ عام آدمی کہیں کابھی ہو،ایک جیسا بے بس ،مظلوم اور دکھی ہوتاہے اوریہ توثابت شدہ حقیقت ہے کہ۔۔ غیروں کے مرنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے بھی مرتے ہیں اورمرسکتے ہیں۔ آج تم، کل ہماری باری ہے۔ پنجاب کے معروف صوفی بزرگ بابا بلھے شاہ نے کیا خوب کہا ہے۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے
سجنا وی مرجانا
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیاکی حکومت کورونا کے بارے میں سنجیدہ بالکل نہیں ہے ، ادھر کورونا کی تباہ کاری زوروں پرتھی اورادھر حکومت اپنا تمام لاؤلشکراورہتھیار لے کر بچاری ''ممتابینرجی''پر چڑھ دوڑ رہی تھی بلکہ اس کے خلاف فائٹ بیک کررہی تھی کہ وہاں بھی ''بھاجپا''کے ہشت پاجیت جائیں۔
ویسے سیاست کے معاملے میں اپنے یہاں کے حالات بھی کچھ قابل تعریف نہیں،خاص طور''سیاسوں '' کے کہ ان کے کانوں پر بھی ابھی تک کورونا کی جوں نہیں رینگی ہے اوربدستوراپنے مشعلے میں مصروف ہیں لیکن وہاں حکومت اورسیاسیوں نے انتہاکی بے حسی دکھائی ہے۔ کبھی کبھی تو ہمیں شبہ ہوتاہے کہ زبانی کلامی شورمیں کہیں آبادی کم کرنے کاکوئی سلسلہ تو نہیں چل رہاہے ۔جو کچھ بھی ہو ہماری الجھن تو بدستوررہے گی کہ فائٹ بیک کامطلب کیاہے ۔یہ وت مارتو نہیں۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازومرے آزمائے ہوئے ہیں
البتہ صابن ،سینی ٹائزراورطرح طرح کی دوسری چیزیں...یہ نائنٹی نائن عشاریہ نائنٹی نائن فی صد کورونا سے لڑے، نائنٹی نائن عشاریہ نائنٹی نائن فی صد اثر دارسے لڑے ،لڑے اورلڑے۔