قیدی ماؤں کے ساتھ زندگی گزارنے والے بچوں کو حکومتی سرپرستی میں لینے کا فیصلہ

پاکستان بھر کی جیلوں میں 134 ایسی خواتین قیدی ہیں جن کے ساتھ ان کے 195 بچے بھی موجود ہیں


آصف محمود June 08, 2021
جیلوں میں قیدی ماؤں کے ساتھ رہنے والے بچوں کی ذہنی اورجسمانی نشوونما متاثرہوتی ہے، ماہر نفسیات فوٹو: فائل

KARACHI: چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے پنجاب کی جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ رہنے والے ان کے 6 سال سے زائد عمر کے بچوں کو اپنی سرپرستی میں لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان بچوں کی بہتر طریقے سے تعلیم وتربیت اورنگہداشت کی کی جاسکے۔

لاہور کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے حال ہی میں ایک ایسی بچی کو سرپرستی میں لیا ہے جس کی والدہ لاہورکی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں اور انہیں قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ یہ بچی کئی ہفتوں سے یہاں ہے تاہم ابھی تک عام بچوں کی طرح کھیل کود اورشرارتوں میں حصہ نہیں لیتی ہے۔ چائلڈپروٹیکشن اینڈویلفیئربیورو لاہور کی انتظامیہ کوامید ہے کہ یہ بچی جلد ہی دوسرے بچوں میں گھل مل جائے گی اور پڑھائی،کھیل کود میں حصہ لینے لگے گی۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کی چیئرپرسن سارہ احمد نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئےبتایا کہ یہ ہماری بدقسمتی اور المیہ ہے کہ مختلف جرائم کی وجہ سے جب خواتین جیلوں میں جاتی ہیں تو بعض اوقات ان کے شیرخواربچوں کوبھی ان کے ساتھ جاناپڑتاہے، بعض واقعات میں اس خاتون کے خاندان کے لوگ اس کے بچوں کی ذمہ داری لے لیتے ہیں لیکں کئی خواتین ایسی بھی ہیں جن کے خاندان میں کوئی اس کے بچے یابچوں کی ذمہ داری لینے کوتیارنہیں ہوتا یا پھروہ خاتون خود اپنے بچے کوکسی کے حوالے کرنے پرراضی نہیں ہوتی ہیں

سارہ احمد نے بتایا کہ ان کی آئی جی جیل خانہ جات سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے خود بھی کوٹ لکھپت جیل میں ایسی خواتین سے ملاقات کی ہے جن کے کم سن بچے ان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ 6 برس سے بڑی عمر کے بچوں کو حکومتی سرپرستی میں لیاجائے تاکہ ان بچوں کی بہتر طریقے سے تعلیم وتربیت کی جاسکے۔ ان کا کہناتھا ملک کاقانون چھ،سات سال برس تک کی عمرکوبچے کو ماں کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے تاہم اگرکوئی خاتون اپنے 6 سال سے کم عمرکے بچے کوبھی بیوروکی سرپرستی میں دیناچاہیں گی توایسے بچوں کو ہم اپنی سرپرستی میں لےلیں گے۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن نے بتایا کہ سرپرستی میں لئے جانے والے بچوں کو شیڈول کے مطابق مہینے میں ایک یادوباراس کی والدہ سے ملوایاجائیگا، ان کی ٹیلی فون پربات بھی کروائی جاسکے گی تاکہ بچے اورماں دونوں ایک دوسرے کی جدائی سے پریشان نہ ہوں اوردونوں کوایک دوسرے کے احوال سے آگاہی ملتی رہے۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے اعدادوشمارکے مطابق اس وقت پاکستان میں کل 134 ایسی خواتین قیدی ہیں جن کے ساتھ انکے 195 بچے بھی موجود ہیں۔ پنجاب کی بات کی جائے تویہاں 83 قیدی خواتین کے ساتھ انکے 125 بچے موجود ہیں۔ سندھ میں 16 ماؤں کے ساتھ 26، خیبر پختونخوا میں 29 ماؤں کے ساتھ 38، بلوچستان میں 4 ماؤں کے ساتھ 5 بچے ہیں۔ سارہ احمد نے بتایا کہ وہ بہت جلدپنجاب کی تمام جیلوں کا وزٹ کریں گی اوروہاں قید خواتین کواس بات پرراضی کیاجائیگاکہ وہ اپنے بچوں کو چائلڈپروٹیکشن بیوروکی نگرانی میں دے دیں تاکہ ان کے بچوں کی بہترطریقے سے پرورش کی جاسکے،بے شک ایک ماں کے لئے اپنے بچے کوخود سے الگ کرناایک مشکل کام ہوگالیکن اپنے بچے کے بہترمستقل کے لئے وہ ایساضرورکریں گی ، اورپھرجب وہ خواتین اپنی سزائیں مکمل کرکے واپس آئیں گی توانکے بچے ان کے حوالے کردیئے جائیں گے

بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنیوالی معروف سماجی کارکن راشدہ قریشی کہتی ہیں ،جیلوں میں جوبچے اپنی ماؤں کے ساتھ رہتے ہیں ان کو وہاں تعلیم ،علاج معالجے اورکھیل کود کی سہولت دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بچہ ایک جیل میں ہی ہوتا ہے۔ حکومت اگرچاہتی ہے کہ یہ بچے جیلوں میں نہ رہیں توٌ پھراس کے لئےبہترین طریقہ یہ ہے کہ ان بچوں کو ان کےوالدکے حوالے کردیاجائے،اگروالدنہیں ہے توپھرخاندان کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ بچے کے لئے صرف تعلیم،رہائش اور کھیل کود ہی سب کچھ نہیں ہے بچے کو اپنا خاندان، اپنی پہچان اور سوسائٹی میں گھومنا پھرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ بچے کے بہترین مفاد میں یہ ضروری ہے۔اگرآپ اسے جیل سے نکال کربیورومیں لے آتے ہیں تو یہ بھی توایک طرح قید ہی ہے۔ یہاں بچے کو رہائش، اچھی خوراک، تعلیم ملے گی مگریہ چیزیں توبچوں کو جیل میں بھی مل رہی ہیں اورجیل میں بچے کے پاس اس کی ماں بھی ہوتی ہےجواس کے دکھ درد،خوشی غمی کوسمجھ سکتی ہے، بیورومیں توایسانہیں ہوگا۔ راشدہ قریشی کے مطابق اگرکسی بچے کواس کووالداورخاندان بھی قبول نہیں کرتا ہے یا ماں کے علاوہ اس دنیا میں اس کا کوئی عزیز رشتہ دار نہیں ہے تو پھر آخری آپشن کے طور پر ان بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی تحویل میں دیا جاسکتا ہے۔

بچوں کی نفسیات کی ماہررابعہ یوسف کہتی ہیں جیلوں میں اپنی قیدی ماؤں کے ساتھ رہنے والے بچوں کی ذہنی اورجسمانی نشوونما متاثرہوتی ہے، ایسے بچے ضدی،احساس کمتری کاشکار،تنہائی پسنداور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں، ان کے دماغ میں خاندان، معاشرے اوروالدجیسے رشتے سے متعلق نفرت پیداہوتی ہے۔اس کے علاوہ ایک چاردیواری کے اندررہتے ہوئے بچے کوروایتی سکول، پارک،کھیل کے میدان اورسیروتفریح کے مواقع بھی میسرنہیں آتے جس کے بچے کی شخصیت پرشارٹ اورلانگ ٹرم دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوتےہیں۔

رابعہ یوسف کے مطابق اس حوالے سے پالیسی سازی اورجیل ریفارمزمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان بچوں کی کونسلنگ ہونی چاہیے انہیں مختلف مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرناچاہیے ورنہ یہ خدشہ زیادہ ہوگا کہ جیلوں کے اندر اپنی ماؤں کے ساتھ رہنے والے یہ بچے بڑے ہوکرجرائم کی طرف راغب ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں