فراہمی آب کی مصنوعی قلت

واٹر بورڈ نے رمضان المبارک میں حسب سابق پانی کی عدم فراہمی کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔


Muhammad Saeed Arain June 09, 2021
[email protected]

پیپلز پارٹی کے علاوہ کراچی میں پانی کی قلت کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں واٹر بورڈ کی ناقص اور متنازعہ پالیسی کے خلاف احتجاج کرتی آ رہی ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں پانی فراہم نہ کیے جانے پر شہری سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کرکے سڑکوں پر سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کے خلاف نعرے بازی اور فراہمی آب کے مسلسل مطالبات کرتے آ رہے ہیں مگر سندھ میں 13 سالوں سے برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت پر کوئی اثر پڑ رہا ہے نہ کانوں پر جوں رینگی ہے اور فراہمی آب کی اس مصنوعی قلت کے خلاف احتجاج پر سندھ حکومت کان نہیں دھر رہی۔

گزشتہ سال کراچی میں ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں شہریوں کو بتایا گیا تھا کہ حب ڈیم مکمل بھر گیا ہے اور تین سال کا پانی اسٹاک کرلیا گیا ہے جس پر شہریوں کو کچھ تسلی ہوئی تھی کہ کراچی میں شاید پانی کی قلت نہ ہو مگر ایسا نہیں ہوا۔

شہر میں پیدا کی گئی پانی کی قلت نہ صرف جاری ہے بلکہ واٹر بورڈ نے رمضان المبارک میں حسب سابق پانی کی عدم فراہمی کا یہ سلسلہ جاری رکھا جب کہ رمضان سے قبل پانی نہ ملنے کی جن علاقوں میں شکایات نہیں تھیں وہاں بھی شکایات پیدا کی گئیں اور رمضان کے بعد شہر میں پانی فراہم نہ کیے جانے پر احتجاج ہو رہے ہیں۔

واٹر بورڈ میں پہلے بھی ایم کیو ایم کی حمایت یافتہ سی بی اے یونین تھی اب بھی ہے مگر اب یہ یونین سندھ حکومت کی وجہ سے مفلوج ہو چکی ہے اور اپنے ہی مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ضلعی نظام ختم ہونے کے بعد واٹر بورڈ اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور واٹر بورڈ پر اپنا نجی چیئرمین مسلط کردیا تھا جب کہ وزیر بلدیات سندھ نے بھی غیر قانونی طور پر واٹر بورڈ کے سابق انجینئر کو اپنا مشیر بنا کر مسلط کر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم حکومت سندھ میں شامل ہے نہ اب وہ کراچی کی نمایندہ جماعت ہے۔

2018 میں پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کی جگہ لا کر کراچی کی اکثریتی جماعت بنایا گیا تھا جس کا سندھ اسمبلی میں اپنا اپوزیشن لیڈر ہے اور ایم کیو ایم پی ٹی آئی اپوزیشن میں شامل ہے۔

واٹر بورڈ سرکاری طور پر سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہے جہاں پہلے لائن مینوں کی اکثریت ایم کیو ایم والوں کی تھی جو شہریوں کا کچھ احساس کرلیا کرتے تھے مگر بعد میں سرکاری حمایت سے پیپلز پارٹی اور سندھ میں اپوزیشن ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی اور جی ڈی اے نے بھی اپنی اپنی طاقت کے زور پر اپنے اپنے بندے لائن مین بنوا دیے جنھیں نہ علاقوں کا پتا ہے نہ شہریوں کی تکلیف کا کوئی احساس وہ اپنے بڑوں کی ہدایت پر پانی کی من مانی فراہمی میں مصروف ہیں اور واٹر بورڈ کے افسروں کی بھی نہیں سنتے اور شہر میں جان بوجھ کر یہ سیاسی اثر رکھنے والے لائن میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کیے ہوئے ہیں۔

سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 14 سالوں میں کراچی میں فراہمی آب کے نظام میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا جب کہ آبادی بڑھنے سے پانی کی ضرورت بڑھی ہے مگر حکومت نے پانی کی مقدار بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دی اور فراہمی آب کے میگا منصوبہ K-4 بھی سالوں سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کے مطالبے پر توجہ نہیں دی جا رہی اورK-4 کے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتیں کچھ نہیں بتا رہیں کہ K-4 کا کیا ہوا؟ اور فنڈز جاری ہوئے یا نہیں۔ وفاق اور سندھ کی حکومتیں K-4 کے مسئلے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

واٹر بورڈ جب تک کراچی کی جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی دو سٹی حکومتوں کے ماتحت تھا کبھی کراچی میں پانی کی اتنی شدید قلت کا شکار نہیں ہوا جتنا 13 سال سے سندھ حکومت کے کنٹرول میں آنے کے بعد ہوا ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقے سندھ حکومت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر شہر میں پانی کی واقعی قلت ہے تو شہر میں منہ مانگے داموں فروخت کرنے والے ہزاروں واٹر ٹینکر کیوں پانی فروخت کر رہے ہیں اور انھیں پانی کہاں سے مل رہا ہے؟ جب کہ شہری پانی کو ترس رہے ہیں اور مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔

شہر میں واٹر مافیاز سرگرم ہیں جو غیر قانونی طور پر پانی چوری کرکے فروخت کر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں پکڑے بھی گئے ہیں۔ سندھ حکومت اس اہم مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہوگی اور پانی چوروں اور ٹینکر مافیا کو گرفت میں نہیں لائے گی شہر میں پانی کی مصنوعی قلت پر قابو نہیں پایا جاسکے گا اور نہ شہر میں پانی کی منصفانہ فراہمی ممکن ہو سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔