حکومت وزراء کی تعداد آئینی حدود کے مطابق کرنے میں کامیاب
اپوزیشن لیڈر اور ان کے ہم خیال حکومت کوٹف ٹائم دینے کے خواہاں ہیں اس لیے اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے۔
چونکہ پی ڈی ایم کے معاملات اب کافی حد تک واضح ہوچکے ہیں کہ اس میں پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی اسی لیے پیپلزپارٹی اور اے این پی اپنے طور پر حکومت مخالفت میں سرگرم ہوگئی ہیں۔
گوکہ وہ بیگم نسیم ولی خان کی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے تاہم اس موقع پر ملکی سیاسی صورت حال اور پی ڈی ایم کے معاملات پر بھی زیر بحث آئے۔ بلاول بھٹو کی ولی باغ آمد سے قبل ہی پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوچکا تھا جس نے ان دو جماعتوں کی پی ڈی ایم میں واپسی کے امکان کا خاتمہ کر دیا تھا۔
اب پیپلزپارٹی اور اے این پی نے آپس میں رابطے شروع کرتے ہوئے الگ تحریک شروع کرنے اور پی ڈی ایم سے باہر جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سیاست قوم پرستی پر مبنی نہیں ،پونم جیسا اتحاد جب بنا تھا تب اس میں صرف اور صرف قوم پرست جماعتیں شامل تھیں ،وہ جماعتیں جو پنجاب مخالف سیاست کرتے ہوئے صوبائی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں لیکن خود پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم منظور کراتے ہوئے قوم پرستانہ سیاست کے لیے راستے بند کر دیئے تھے ۔
اب اگر پیپلزپارٹی اسی ٹریک پر چلتے ہوئے پی ڈی ایم کے متوازی حکومت مخالف اتحاد بھی قائم کرنے کی خواہاں ہے اور ساتھ ہی حکومت کو بھی ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے تو یقینی طور پر اس کے لیے یہ صورت حال مشکل ہوگی۔
قوم پرست جماعتوں میں سے اس کے ساتھ اس وقت صرف اے این پی ہی کھڑی ہے،قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پی ڈی ایم کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑی نہیں ہونگی۔ جماعت اسلامی فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ اپنے طور پر ہی حکومت مخالف تحریک جاری رکھے گی لیکن یہ بہر حال ممکن ہے کہ جماعت مشترکہ نکات پر اتفاق رائے کرتے ہوئے حکومت مخالف تحریک کا حصہ بن جائے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پیپلزپارٹی ،جماعت اسلامی کے ساتھ ہاتھ ملاکر اکٹھے چل پائے گی؟ ان حالات میں ان دونوں پارٹیوں کے لیے چند تانگہ پارٹیاں ہی بچ رہتی ہیں۔
اس لیے یا تو یہ دونوں اپنا الگ اتحاد بنانے کے لیے ان تانگوں پارٹیوں کو اپنے ساتھ شریک سفر کریں گی یا پھر پی ڈی ایم کی تحریک اور حکومتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرینگی جس کے لیے پیپلزپارٹی سندھ حکومت کے مورچے کا بخوبی استعمال کرے گی جبکہ اے این پی خیبرپختونخوا میں اپنی افرادی قوت کا استعمال کرے گی۔
خیبرپختونخوا حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ آئینی طور پر مقررہ وزراء کی تعداد سے ایک زائد وزیر کابینہ میں شامل کرنے کا معاملہ حکومت کے لیے درد سر بنا بناہواتھا لیکن کنفیوژن کی وجہ سے حکومت اس سے نجات نہیں پا رہی تھی۔
اصولی طور پرتو درکار یہ تھا کہ جب کابینہ میں چار نئے وزراء کوشامل کیا جا رہا تھا تو یہ معاملہ اسی وقت زیر غورآنا چاہیے کیونکہ انہی آئینی وقانونی امور پر غور کرنے اور مشاورت کے لیے حکومت کے پاس پوری لیگل ٹیم موجود ہے لیکن لیگل ٹیم نے اس وقت حکومت کو مشورہ نہیں دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب یہ معاملہ صوبائی اسمبلی میں زیر بحث آیا تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں کیونکہ اپوزیشن یہ ایشو لیے میدان میں آگئی جس کی وجہ سے اسمبلی کی کاروائی میں رخنہ اندازی ہونے لگی اور حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا کہ پہلے یہ ایشو ختم کیاجائے اس لیے ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ مشاورت کے بعد بات کابینہ میں آئی اور کابینہ ارکان میں سے ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے قلندرلودھی نے رضاکارانہ طور پر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔
انھیں وزارت سے فارغ ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کا مشیر مقرر کر دیا گیا ہے اور وہ بدستور محکمہ مال ہی کو دیکھیں گے۔ قلندر لودھی صوبائی اسمبلی کے سینئر ترین رکن ہیں اور وہ سابقہ پرویزخٹک حکومت میں بھی پانچ سال وزیر کے عہدہ پر رہے ہیں۔
قلندر لودھی نے استعفیٰ رضاکارانہ طور پر دیا یا ان سے لیاگیا؟ یہ راز اپنی جگہ موجود ہے تاہم وزارت سے فارغ ہونے سے قبل قلندر لودھی سے پی ٹی آئی کے چیف وہپ کا عہدہ بھی واپس لیاگیا ،ان کی جگہ یہ عہدہ صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی کے حوالے کیاگیا تھا جبکہ اب قلندرلودھی کے کابینہ سے باہر ہونے کے بعد کابینہ کاحجم آئینی حدود کے اندر واپس آگیا ہے البتہ تاحال فیصل امین گنڈاپور کو تاحال کسی محکمہ کا قلم دان نہیں سونپا گیا جس کے لیے مشاورت جاری ہے اور مشاورت جاری ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کے بھائی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے صاحبزادے کو بھی حکومتی ٹیم کاحصہ بنایاجانا ہے جن میں سے کسی ایک کو مشیر اور ایک کو معاون خصوصی بنایاجائے گا اورحکومتی ٹیم میں دو نئے کھلاڑیوں کو شامل کرنے کے بعد انھیں بھی محکمے تفویض کیے جانے ہیں اسی لیے مشاورت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اس حوالے سے یقینی طور پر حکومت مشکل کا شکار ہے لیکن ساتھ ہی اس نے اپوزیشن کو بھی صوبائی اسمبلی میں مشکلات سے دوچار کررکھا ہے ۔چونکہ صوبائی اسمبلی کا جاری اٹھارواں سیشن اپوزیشن کی جانب سے ریکوزٹ ہے اس لیے مذکورہ اجلاس میں کورم پورا کرنا بھی بنیادی طور پر اپوزیشن ہی کی ذمہ داری ہے لیکن اپوزیشن ایوان میں37ارکان کی موجودگی یقینی بنانے میں ناکامی کا شکار ہو رہی ہے اور اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی بنچوں سے تعلق رکھنے والے ارکان ایوان سے کھسک جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی رکن کورم کی نشاندہی کرتے ہوئے اجلاس کو ملتوی کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ حکومت پہلے ہی سپیکر کے توسط سے اپوزیشن سے استدعا کر چکی ہے کہ چونکہ صوبائی وزراء سمیت پوری حکومتی ٹیم اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے اس لیے ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ انتہائی مصروفیات کے ان ایام میں اپوزیشن کو بھی نمٹائیں۔
18جون کو بجٹ پیش ہونے کے بعد اس پر بحث اورمطالبات زر پرکٹوتی کی تحاریک کے دوران ویسے بھی انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ ہی نمٹنا ہے لیکن اپوزیشن نے حکومت کی استدعا نہیں مانی حالانکہ اس معاملے میں اپوزیشن میں بھی تقسیم موجود ہے کیونکہ کچھ ارکان خود اس بات کے خواہش مند ہیں کہ حکومت کو تنگ نہیں کرنا چاہیے تاکہ بجٹ اور اے ڈی پی میں ان پر شفقت کی نظر کی جاسکے۔ اپوزیشن لیڈر اور ان کے ہم خیال حکومت کوٹف ٹائم دینے کے خواہاں ہیں اس لیے اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے اور کورم ،کورم کا کھیل بھی چل رہا ہے ۔
گوکہ وہ بیگم نسیم ولی خان کی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے تاہم اس موقع پر ملکی سیاسی صورت حال اور پی ڈی ایم کے معاملات پر بھی زیر بحث آئے۔ بلاول بھٹو کی ولی باغ آمد سے قبل ہی پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوچکا تھا جس نے ان دو جماعتوں کی پی ڈی ایم میں واپسی کے امکان کا خاتمہ کر دیا تھا۔
اب پیپلزپارٹی اور اے این پی نے آپس میں رابطے شروع کرتے ہوئے الگ تحریک شروع کرنے اور پی ڈی ایم سے باہر جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سیاست قوم پرستی پر مبنی نہیں ،پونم جیسا اتحاد جب بنا تھا تب اس میں صرف اور صرف قوم پرست جماعتیں شامل تھیں ،وہ جماعتیں جو پنجاب مخالف سیاست کرتے ہوئے صوبائی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں لیکن خود پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم منظور کراتے ہوئے قوم پرستانہ سیاست کے لیے راستے بند کر دیئے تھے ۔
اب اگر پیپلزپارٹی اسی ٹریک پر چلتے ہوئے پی ڈی ایم کے متوازی حکومت مخالف اتحاد بھی قائم کرنے کی خواہاں ہے اور ساتھ ہی حکومت کو بھی ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے تو یقینی طور پر اس کے لیے یہ صورت حال مشکل ہوگی۔
قوم پرست جماعتوں میں سے اس کے ساتھ اس وقت صرف اے این پی ہی کھڑی ہے،قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پی ڈی ایم کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑی نہیں ہونگی۔ جماعت اسلامی فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ اپنے طور پر ہی حکومت مخالف تحریک جاری رکھے گی لیکن یہ بہر حال ممکن ہے کہ جماعت مشترکہ نکات پر اتفاق رائے کرتے ہوئے حکومت مخالف تحریک کا حصہ بن جائے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پیپلزپارٹی ،جماعت اسلامی کے ساتھ ہاتھ ملاکر اکٹھے چل پائے گی؟ ان حالات میں ان دونوں پارٹیوں کے لیے چند تانگہ پارٹیاں ہی بچ رہتی ہیں۔
اس لیے یا تو یہ دونوں اپنا الگ اتحاد بنانے کے لیے ان تانگوں پارٹیوں کو اپنے ساتھ شریک سفر کریں گی یا پھر پی ڈی ایم کی تحریک اور حکومتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرینگی جس کے لیے پیپلزپارٹی سندھ حکومت کے مورچے کا بخوبی استعمال کرے گی جبکہ اے این پی خیبرپختونخوا میں اپنی افرادی قوت کا استعمال کرے گی۔
خیبرپختونخوا حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ آئینی طور پر مقررہ وزراء کی تعداد سے ایک زائد وزیر کابینہ میں شامل کرنے کا معاملہ حکومت کے لیے درد سر بنا بناہواتھا لیکن کنفیوژن کی وجہ سے حکومت اس سے نجات نہیں پا رہی تھی۔
اصولی طور پرتو درکار یہ تھا کہ جب کابینہ میں چار نئے وزراء کوشامل کیا جا رہا تھا تو یہ معاملہ اسی وقت زیر غورآنا چاہیے کیونکہ انہی آئینی وقانونی امور پر غور کرنے اور مشاورت کے لیے حکومت کے پاس پوری لیگل ٹیم موجود ہے لیکن لیگل ٹیم نے اس وقت حکومت کو مشورہ نہیں دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب یہ معاملہ صوبائی اسمبلی میں زیر بحث آیا تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں کیونکہ اپوزیشن یہ ایشو لیے میدان میں آگئی جس کی وجہ سے اسمبلی کی کاروائی میں رخنہ اندازی ہونے لگی اور حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا کہ پہلے یہ ایشو ختم کیاجائے اس لیے ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ مشاورت کے بعد بات کابینہ میں آئی اور کابینہ ارکان میں سے ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے قلندرلودھی نے رضاکارانہ طور پر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔
انھیں وزارت سے فارغ ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کا مشیر مقرر کر دیا گیا ہے اور وہ بدستور محکمہ مال ہی کو دیکھیں گے۔ قلندر لودھی صوبائی اسمبلی کے سینئر ترین رکن ہیں اور وہ سابقہ پرویزخٹک حکومت میں بھی پانچ سال وزیر کے عہدہ پر رہے ہیں۔
قلندر لودھی نے استعفیٰ رضاکارانہ طور پر دیا یا ان سے لیاگیا؟ یہ راز اپنی جگہ موجود ہے تاہم وزارت سے فارغ ہونے سے قبل قلندر لودھی سے پی ٹی آئی کے چیف وہپ کا عہدہ بھی واپس لیاگیا ،ان کی جگہ یہ عہدہ صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی کے حوالے کیاگیا تھا جبکہ اب قلندرلودھی کے کابینہ سے باہر ہونے کے بعد کابینہ کاحجم آئینی حدود کے اندر واپس آگیا ہے البتہ تاحال فیصل امین گنڈاپور کو تاحال کسی محکمہ کا قلم دان نہیں سونپا گیا جس کے لیے مشاورت جاری ہے اور مشاورت جاری ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کے بھائی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے صاحبزادے کو بھی حکومتی ٹیم کاحصہ بنایاجانا ہے جن میں سے کسی ایک کو مشیر اور ایک کو معاون خصوصی بنایاجائے گا اورحکومتی ٹیم میں دو نئے کھلاڑیوں کو شامل کرنے کے بعد انھیں بھی محکمے تفویض کیے جانے ہیں اسی لیے مشاورت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اس حوالے سے یقینی طور پر حکومت مشکل کا شکار ہے لیکن ساتھ ہی اس نے اپوزیشن کو بھی صوبائی اسمبلی میں مشکلات سے دوچار کررکھا ہے ۔چونکہ صوبائی اسمبلی کا جاری اٹھارواں سیشن اپوزیشن کی جانب سے ریکوزٹ ہے اس لیے مذکورہ اجلاس میں کورم پورا کرنا بھی بنیادی طور پر اپوزیشن ہی کی ذمہ داری ہے لیکن اپوزیشن ایوان میں37ارکان کی موجودگی یقینی بنانے میں ناکامی کا شکار ہو رہی ہے اور اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی بنچوں سے تعلق رکھنے والے ارکان ایوان سے کھسک جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی رکن کورم کی نشاندہی کرتے ہوئے اجلاس کو ملتوی کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ حکومت پہلے ہی سپیکر کے توسط سے اپوزیشن سے استدعا کر چکی ہے کہ چونکہ صوبائی وزراء سمیت پوری حکومتی ٹیم اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے اس لیے ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ انتہائی مصروفیات کے ان ایام میں اپوزیشن کو بھی نمٹائیں۔
18جون کو بجٹ پیش ہونے کے بعد اس پر بحث اورمطالبات زر پرکٹوتی کی تحاریک کے دوران ویسے بھی انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ ہی نمٹنا ہے لیکن اپوزیشن نے حکومت کی استدعا نہیں مانی حالانکہ اس معاملے میں اپوزیشن میں بھی تقسیم موجود ہے کیونکہ کچھ ارکان خود اس بات کے خواہش مند ہیں کہ حکومت کو تنگ نہیں کرنا چاہیے تاکہ بجٹ اور اے ڈی پی میں ان پر شفقت کی نظر کی جاسکے۔ اپوزیشن لیڈر اور ان کے ہم خیال حکومت کوٹف ٹائم دینے کے خواہاں ہیں اس لیے اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے اور کورم ،کورم کا کھیل بھی چل رہا ہے ۔