حالات سے لڑ کر منزل پائی
ضیاء اﷲ ہمدرد نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں افلاس اور فاقوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔
KARACHI:
عموماً دیکھا گیا ہے کہ بہت سے نوجوان حالات کا رونا روتے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں، جب کہ بعض ایک برائیوں کی راہ پر نکل کر خون خوار درندوں کے شکنجے میں پھنستے ہیں پھر وہ کٹھ پتلی بن کر اغیار اور سامراج کے لیے بھی آلۂ کار بن جاتے ہیں۔
لیکن ضیاء اﷲ ہمدرد ان میں سے نہیں جو مشکلات، سنگین حالات سے دلبرداشتہ اور قسمت کا رونا رو کر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر کھیلتے ہیں جو اس مٹی اور دھرتی پر سوائے بوجھ کے کچھ بھی بن نہیں پاتے، بل کہ وہ تندی باد مخالف کا جواں مردی اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کر کے اپنی اڑان اونچائی سے اونچائی پر لے جانے کے لیے سعی پیہم میں لگے رہتے ہیں۔
ضیاء اﷲ ہمدرد نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں افلاس اور فاقوں کے سوا کچھ نہیں تھا، تھوڑی سمجھ بوجھ آنے کے بعد وہ دیہاڑی پر لگ گئے۔ تعلیم کا سلسلہ بھی تنگ دامنی کے باوجود چلتا رہا۔ ٹھوکریں کھاتے اور سنبھل کر آگے بڑھتے رہے۔ اس دشت کی سیاحی میں رنگ سازی، ٹیوشن پڑھانا، پینٹنگ بنانا، خطاطی اور کمپوزنگ سے اپنی تعلیمی اخراجات کرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کا بھی ہاتھ بٹاتے رہے۔ اس دوران وہ جیسے تیسے تعلیم جاری رکھ کر ہر کلاس میں اول پوزیشن پر براجمان ہوتے رہے اور آخرکار اپنی اور غریب والدین کی خوابوں کو تعبیر دیتے ہوئے لیکچرر بن گئے۔ آئیے ضیاء اﷲ ہمدردکی کہانی ان کی زبانی سنتے ہیں، جوعبدالولی خان یونی ورسٹی میں بطور لیکچرر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
عزم ویقین کے مجسم پیکرضیاء اﷲ ہمدرد کہتے ہیں کہ پاکستان کے نوے فی صد عوام کی طرح میں نے بھی جس گھر میں آنکھ کھولی وہ خاندان غربت کی لکیر سے بہت نیچے تھا۔ خیبر پختون خوا کے زرخیز اور مردم خیز علاقے صوابی کے ایک تاریخی گاؤں شیوا اڈا میں ٹاٹ اسکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا ، میں نے بھی ایک دو نے دونا، دو دونے چار کی بنیادی ریاضی پانچ روپے والی سلیٹ پر لکھتے لکھتے سیکھی، سلیٹ پر ریاضی سیکھنے کے بے شمار فوائد ہوتے تھے مثلاً ہمیں نوٹ بک کے جھنجھٹ سے نجات حاصل تھی، لکھائی مٹانے کے لیے پرانے کپڑوں سے والدہ کے ہاتھوں کا سلا ہوا چھوٹا سا جھاڑن، کسی گاڑی کی سیٹ سے چرایا ہوا اسفنج یا پھر قمیص کا دامن استعمال ہوتا تھا اور پانی کی جگہ اکثر تھوک سے کام نکال لیتے تھے۔ اس طرح تختی سے بھی ہمارے ماضی اور معصوم بچپن کی حسین یادیں وابستہ ہیں، میری تختی گاؤں کے ایک مشہور ترکھان جمعہ گل بابا کے ہاتھ کی بنی ہوئی تھی۔ جمعہ گل بابا میرے والد کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے تھے اور شاید یہ اسی دوستی کا کمال تھا کہ میری تختی موٹی، کشادہ اور وزنی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط لکڑی کی بنی ہوئی تھی، چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے تختیاں لڑانا ہمارا پسندیدہ کھیل تھا۔ میری تختی کو چار پانچ تختیاں توڑنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل تھا۔
اسکول بیگ خریدنے کی ہماری استطاعت نہیں تھی، لہٰذا کتابیں ایک گز لمبے کپڑے میں باندھ کر کندھے سے لٹکا لیتے، دوات کی بجائے اپنی دادی اماں یا گھر میں کسی دوسرے بیمار کی دوائی کی استعمال شدہ چھوٹی بوتل استعمال کرنا پڑتی، سلیٹ دھونے کے لیے ہم قطار بنا کر ایک بارانی نالے کی طرف جایا کرتے۔ اسی بہانے پانچ دس منٹ کا بریک ملتا، برساتی نالے میں مون سون کے دنوں میں طغیانی آجاتی تو ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے، کیوں کہ ہمارے پرائمری اسکول کی ایک دیوار عین اس نالے میں تھی اور اسکول کے تمام بچوں کی دلی آرزو تھی کہ ہمارا اسکول سیلاب کی نذر ہو جائے اور یوں ہمیں اسکول سے طویل چھٹیاں ملنے کا موقع ملے، لیکن یہ دعا کبھی بھی پوری نہیں ہوئی، کیوں کہ یہ بچپنے کی دعا ہر گز ہمارے حق میں نہ تھی۔ قلم کا خرچہ بچانے کے لیے برساتی نالے کے کنارے نل کے پودے توڑ کر قلم بناتے، روزانہ صبح سویرے کالا جوڑا اور کالی ٹوپی ہم عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی (ایک گانے کی طرف اشارہ) کی فرمائش پر نہیں بل کہ استاد کی مار کھانے کے خوف سے پہنتے تھے، یونی فارم کی حد تک تو بات ٹھیک تھی، لیکن میری بدقسمتی یہ تھی کہ میرے والد عید پر بھی مجھے کالے رنگ کا جوڑا سلوا کر دیتے کیوں کہ وہ اپنی غربت کے باعث ایک تیر سے دو شکار کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔
اپنے زمانے کے آٹھویں پاس تھے اس لیے دیگر کی نسبت ذرا زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک تھے، اس لیے عید پر نئے کپڑے پہننے کو ملتے اور یونی فارم کی شکل میں نیا جوڑا بھی ملتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہر بار عید پر میرے والد کی طرف سے ملیشیا کا جوڑا پانا مجھے کس قدر ناگوار گزرتا، لیکن ایک آدھ آنسو بہانے کے بعد اتنی زور سے بھوک ستاتی کہ ہم رونا چھوڑ دیتے اور بالآخر اپنے والدین کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے، ویسے بھی گھر میں ہمارا احتجاج کبھی کام یاب نہیں ہوتا تھا، میرا جو بھی بھائی بشمول میرے اگر کسی بات پر ناراض ہو کر بھوک ہڑتال کرتا تو اسے بھوکا ہی سونا پڑتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے والدین خواہ مخواہ ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے بل کہ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس ہمارے احتجاج اور ہڑتال کو ناکام بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔ کس قدر مشکل ہوتا ہے ایک غریب باپ کے لیے اپنے بچوں کو اپنی غربت کا احساس دلانا، یہ تو غریب والدین ہی بتا سکتے ہیں۔
فرض کیجیے ایک غریب عورت بازار سے گزرتی ہے اور اس کا بچہ کسی کھلونے یا کھانے کی چیز کے لیے رونے لگتا ہے لیکن اس کی ماں وہ چیز اسے خرید کر نہیں دے سکتی، لیکن بچہ رو رو کر ہلکان ہو جاتا ہے ایک لمحے کے لیے، اس عورت کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنے لخت جگر کے لیے نہ تو کھلونا خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے اور نہ ہی اسے اپنی مجبوری کا احساس دلا سکتی ہے۔ میرے والدین کی بھی یہی حالت تھی اور یہ حالت تب تک رہی جب تک ہمارا بچپن رہا، رنگ برنگے کپڑوں کے علاوہ اچھے جوتے بھی میرے بچپن کی بہت بڑی آرزو تھی۔ میرے والد ہم بھائیوں کو لے کر گاؤں کے ایک دکان دار صادق کاکا کے پاس لے جاتے جہاں سے ہمارے لیے پلاسٹک کے جوتے خریدتے، جن کی قیمت تین اقساط میں ادا کرنا پڑتی۔ جب ہم پلاسٹک کے شوز پہنے خوشی خوشی گھر لوٹتے تو گھر اور گلی محلے میں جتنی مبارک بادیں ملتیں آج قیمتی جوتے خریدنے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نئے جوتے خریدنے کا جشن مناتے۔
انتہائی غریب کا ایک اور فائدہ جو ایلیٹ کلاس یا متوسط گھرانوں کے بچوں کو شاید کم نصیب ہوتا ہے وہ روایتی کھیل ہیں جو صرف کم خرچ کے باعث غریب کا بچہ کھیل اور اسے سے محظوظ ہو سکتا ہے، جس میں غلان سپایان (چور سپاہی)، بلوری (بنٹے کھیلنا ) دوپہر کی تیز دھوپ میں برتھ ڈے سوٹ میں نہر میں تیرنا، اپنا قیمتی ہتھیار یعنی غلیل سے چڑیوں کا شکار کرنا، درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے اور بچے اتارنا، گلی میں کتا دیکھ کر اس پر پتھروں کی بارش کرنا، قریبی باغ سے تریوکے (ایک قسم کی ترش گھاس جس پر نمک ڈال کر کچا چبانا) کھانا، گلی ڈنڈا کھیلنا، پلاسٹک کے لفافوں کو آگ سے پگھلا کر گیند بنانا اور گاؤں کے ترکھان کے ہاتھوں بنے بیٹ سے کھیتوں میں کرکٹ کھیلنا اور ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے لٹک کر سواری کے مزے لینا، وہ لوغڑے (کھیل) ہیں، جسے ایک غریب کی زندگی سے جدا نہیں کیا جا سکتا، جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا میرے والد ضعیف العمری کی بنا مختلف سگریٹ کے کارخانوں میں مزدوری سے اکتا بھی چکے تھے اور بیمار بھی رہنے لگے تھے، نے ہمارے اسکول کے سامنے پٹ سن کے پھٹے پرانے بورے پر بیٹھ کر کھیر، چھولے اور ٹافیاں وغیرہ بیچنا شروع کردی، میں اور میرا بھائی بھی آدھی چھٹی کے دوران ان کی مدد کرتے، ضعیف العمری کے باعث ان کی نظر کم زور ہو گئی تھی، جس کا فائدہ اٹھا کر ہم اپنی جیبیں ٹافیوں سے بھر لیتے، کبھی کبھار چند سکے بھی ان سے چرا لیتے، لیکن پھر اچانک یہ کل کائنات لٹ گئی۔
جنوری 1994ء کی ایک رات جب ہر سو گھپ اندھیرا پڑ گیا۔ اسی طرح غربت نے ہمارا سہارا ہم سے چھین لیا اور ہم نو بچوں اور دو بیواؤں کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا، والد کی وفات کے اگلے ہی ماہ کویت، قطر اور سوئٹزرلینڈ کے تعاون سے پشاور میں مرسی ایجوکیشنل کمپلیکس کے نام سے ایک یتیم خانے کا افتتاح ہوا، مذکورہ ادارے میں ایک ایڈمن منیجر استفتانوش کا تعلق میرے پڑوس کے گاؤں شیخ جانہ سے تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اپنے علاقے کے یتیم بچوں کو اس ادارے میں مفت تعلیم دلوائیں لہٰذا اس مقصد کے لیے علاقے کے 25 لڑکوں کو منتخب کر لیا گیا، جن میں، میں اور میرا بھائی بھی شامل تھے۔ ہم سب کو موسم بہار کی ایک دوپہر گاڑی میں بٹھایا گیا اور تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد پشاور سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ پر واقع اس اسکول پہنچایا گیا جس نے میری زندگی پر ان منٹ نقوش چھوڑے، اس اسکول میں ہمیں آزاد کشمیر، افغانستان اور پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے دوست ملے۔ ہمارے اساتذہ میں افغان، عرب اور پاکستانی شامل تھے۔
27 اپریل 1994ء کو اسکول کا باضابطہ افتتاح ہونا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ روایت کے طور پر ایک طالب علم کو مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کرنا تھا جس کے لیے سب کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ اس لیے ایک تعریفی کلمات پر مشتمل تقریر مجھے یاد کرنے کو دی گئی، جسے میں نے اچھی طرح ازبر کر لیا۔ مقررہ تاریخ کو اچانک ہمارے کلاس روم کا دروازہ کھلا اور لوگوں کا جم غفیر کلاس میں داخل ہوا میرے ٹیچر نے مجھے اشارہ کیا کہ شروع ہو جاؤ میں نے ابتدائی دو تین کلمات پڑھے ہی تھے کہ باقی ماندہ تقریر یکسر بھول گیا اور ساکت کھڑا رہا۔ فاروق لغاری صاحب نے یہ دیکھتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور شاباش دی۔ اس کے بعد مجھے اسکول میں جو پروٹوکول ملا اس نے مجھے اور بھی اعتماد دیا، اگلے دن ڈائریکٹر فقیرمحمد انور نے آفس بلایا اور میری ہمت بندھائی، ظاہر ہے جب آپ کو ایسے اساتذہ ملیں گے جو ناکامی میں بھی آپ کا حوصلہ بڑھاتے ہوں تو پھر کوئی بھی چیز آپ کو کام یابی سے نہیں روک سکتی۔ اسی طرح اسکول میں ہر جماعت میں اول پوزیشن لیتا رہا میں یہاں 9 سال تک ہاسٹل میں رہا، وہاں زندگی ہمارے پرائمری اسکول کے برعکس تھی۔ تختی کی جگہ نوٹ بک، نل سے بنے قلم کی جگہ پنسل اور بال پوائنٹ نے لے لی، سلیٹ اور تختی کا تو نام و نشان تک نہ تھا۔ ہمیں اتنی ساری نوٹ بکس ملنے لگیں کہ میں نے ان میں پینٹنگ شروع کردی، اسکول سے نکلتے نکلتے میں آدھا پینٹر بھی بن چکا تھا، کیوں کہ ہم ''مال مفت دل بے رحم'' کی عملی مثال بن گئے تھے۔ مجھے مرسی انٹرنیشنل اسکول ہی میں اس حقیقت کا ادراک ہو چکا تھا کہ ''اوپر والا جب بھی دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔''
مرسی انٹرنیشنل اسکول کے بعد قائداعظم کالج صوابی میں داخلہ لیا۔ اس دوران ایک دوست عبدالمتین نے مجھے کمپیوٹر خرید کر دیا، دوسرے دوست شہاب یامین نے فیس معافی میں مدد دی، فرسٹ ایئر میں پری میڈیکل گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی، لیکن فیس کی عدم ادائیگی پر مجھے کالج چھوڑنا پڑا، جب کہ بھائی کے دوست کی وساطت سے مجھے مردان ماڈل اسکول میں داخلہ مل گیا، لیکن یہاں یونی فارم کا مسئلہ آڑے آگیا، لہٰذا پھر دوستوں نے یہاں بھی فراخ دلی دکھائی۔ یہاں سے ایف ایس سی نمایاں نمبروں سے پاس کرنے کے بعد بھائی کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میرا اس جانب رجحان نہ تھا، لہٰذا ایک مہربان استاد کے مشورے پر عظیم درس گاہ اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، لیکن یہاں بھی حالات نے میرا پیچھا نہ چھوڑا اور کافی پاپڑ بیلنے پڑے، چوں کہ میں ایک پروفیشنل بھی پینٹر تھا۔ اس لیے شروع میں ایک ادارے کے لیے دیواروں پر اشتہارات وغیرہ لکھنا شروع کیا، کلاس کے بعد اپنے برش اور پینٹ کے ڈبوں کے ساتھ شہر کی دیواروں پر اشتہارات لکھ دیتا، اس دوران اوور ٹائم بھی کر لیتا، خیر نتیجہ آنے پر میں نے اپنے گروپ میں ٹاپ کیا تھا، لیکن یہ خوشی بھی زیادہ دیر راس نہ آئی۔ میرا ایک بھائی کینسر کا مریض تھا، اس کی طبیعت بگڑنے لگی یہ میرے لیے کافی کٹھن دن تھے کلاس جانا اور وہاں سے سیدھا اسپتال جا کر اپنے بھائی کی تیمار داری کرنا میرے لیے کافی مشکل تھا، انہی دنوں پشاور کے ایک مقامی اخبار میں آرٹیکل وغیرہ لکھنا شروع کیے۔
اس دوران فائنل کا امتحان بھی سر پر آگیا، ہاسٹل کے چارجز اور دیگر فیس وغیرہ ملا کر میرے ذمے کالج کے سترہ ہزار روپے بقایاجات تھے، لیکن یہ مشکل میرے مہربان استاد بخت زمان نے حل کر دی اور مجھے وی سی کے نام درخواست لکھنے کی ہمت بندھائی۔ خیر اس کے بعد مجھے رول نمبر سلپ جاری ہوئی۔ اس دوران میرا بھائی زندگی سے جنگ لڑتے لڑتے راہیِ عدم ہو چکا تھا۔ میں ان کا جنازہ پڑھنے کے بعد سیدھا کالج پہنچا، کیوں کہ اگلے دن میرا پرچہ تھا، امتحان دے ڈالا اور اپنے گروپ میں پھر سے ٹاپ کیا، زندگی کے حوادث، لوگوں کے بے حس رویے اور غریب کے لیے ہر جگہ دھتکار یہی باتیں میرا حوصلہ اور بھی بڑھاتیں اور میں اپنے غصے، انتقام اور تکالیف کو بطور انرجی استعمال کرتا رہا اور یہ مصمم ارادہ کیا کہ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا، لیکن کسی بھی حال میں تعلیم ادھوری نہیں چھوڑوں گا اور میں آگے بڑھتا گیا، محترم بخت زمان اور ہردل عزیز استاد انعام الرحمن پشکلاوتی کی راہ نمائی اور کاوشوں سے پشاور یونی ورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ میں داخلہ لیا، اس عظیم درس گاہ میں داخلہ لیتے ہی مجھے پر اﷲ کی رحمتوں اور عنایات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ٹی وی میں نیوز ٹرانسلیٹر کی عارضی جاب مل گئی یہاں سے ماسٹرز کرتے ہوئے مجھے جاپان کی طرف سے جیکا اسکالر شپ ملی جو ایک لاکھ بائیس ہزار روپے بنتی تھی۔ اس دوران سکالر شپ پر امریکہ اور دو مرتبہ جرمنی بھی جانا ہوا، مجھ جسے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے والے طالب علم کو حصول علم کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑے خدا کسی غریب کے بچے کو اس کے سائے سے بھی دور رکھے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پرخار راہ گزر میں حصول تعلیم کے لیے جو تجربہ اور حوصلہ ملا وہ اس قدر منافع بخش ہے کہ میں اکثر قسم کھا کر دوستوں سے کہتا ہوں کہ اگر مجھے دوبارہ اس دنیا میں آنے کی آپشن دی تو میں بلا جھجک دوبارہ اسی گھر اور انہی مسائل کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا پسندوں کروں گا۔
پیشہ ورانہ خدمات
ریڈیو پرزنٹر ، آر جے (پختون خوا ریڈیو مردان)
نیوز ٹرانسیلٹر، ایڈیٹر، پی ٹی وی پشاور، ریڈیو پاکستان
میڈیا ٹیکنیکل ایڈوائزر (ایم ٹی اے)
پراجیکٹ کوآرڈینیٹر (پشاور یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ایر فورٹ جرمنی)
میڈیا ایڈوائزر (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)
پروڈیوسر ، رپورٹر (KCSF ریڈیو سان فرانسسکو)
پروڈیوسر، رپورٹر (IDTY سان فرانسسکو)
ریڈیو پریزنٹر، آؑر جے (ریڈیو پاکستان ، ایم ایف 101)
فری لانس کالمسٹ (مختلف اخبارات، میگزین، ویب سائٹ)
اعزازات
فل برائٹ پروفیشنل ایوارڈ 2010-11ء
Bologna اٹلی آئی پی ایس آئی ایوارڈ
Jacka سکالر شپ ایوارڈ 2008-09 ء
پوئٹ آف دی کیمپس ایوارڈ 2007ء
نیشنل انٹی گریشن ایوارڈ
بیسٹ پریزنٹر ایوارڈ
ایمنسٹی انٹرنیشنل ایوارڈ (بچوں کے حقوق)
صدر لیٹریری سوسائٹی، اسلامیہ کالج پشاور
صدر خیبر لیٹریری کلب، پشاور یونیورسٹی
ممبر سٹیٹ ایلومینائی (یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ)
ممبر پیس اینڈ کولیبریٹ نیٹ ورک
جن زبانوں پر مکمل دسترس حاصل ہے
پشتو، اردو، انگریزی، دری، فارسی، عربی، ہندکو، اسپینش
عموماً دیکھا گیا ہے کہ بہت سے نوجوان حالات کا رونا روتے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں، جب کہ بعض ایک برائیوں کی راہ پر نکل کر خون خوار درندوں کے شکنجے میں پھنستے ہیں پھر وہ کٹھ پتلی بن کر اغیار اور سامراج کے لیے بھی آلۂ کار بن جاتے ہیں۔
لیکن ضیاء اﷲ ہمدرد ان میں سے نہیں جو مشکلات، سنگین حالات سے دلبرداشتہ اور قسمت کا رونا رو کر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر کھیلتے ہیں جو اس مٹی اور دھرتی پر سوائے بوجھ کے کچھ بھی بن نہیں پاتے، بل کہ وہ تندی باد مخالف کا جواں مردی اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کر کے اپنی اڑان اونچائی سے اونچائی پر لے جانے کے لیے سعی پیہم میں لگے رہتے ہیں۔
ضیاء اﷲ ہمدرد نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں افلاس اور فاقوں کے سوا کچھ نہیں تھا، تھوڑی سمجھ بوجھ آنے کے بعد وہ دیہاڑی پر لگ گئے۔ تعلیم کا سلسلہ بھی تنگ دامنی کے باوجود چلتا رہا۔ ٹھوکریں کھاتے اور سنبھل کر آگے بڑھتے رہے۔ اس دشت کی سیاحی میں رنگ سازی، ٹیوشن پڑھانا، پینٹنگ بنانا، خطاطی اور کمپوزنگ سے اپنی تعلیمی اخراجات کرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کا بھی ہاتھ بٹاتے رہے۔ اس دوران وہ جیسے تیسے تعلیم جاری رکھ کر ہر کلاس میں اول پوزیشن پر براجمان ہوتے رہے اور آخرکار اپنی اور غریب والدین کی خوابوں کو تعبیر دیتے ہوئے لیکچرر بن گئے۔ آئیے ضیاء اﷲ ہمدردکی کہانی ان کی زبانی سنتے ہیں، جوعبدالولی خان یونی ورسٹی میں بطور لیکچرر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
عزم ویقین کے مجسم پیکرضیاء اﷲ ہمدرد کہتے ہیں کہ پاکستان کے نوے فی صد عوام کی طرح میں نے بھی جس گھر میں آنکھ کھولی وہ خاندان غربت کی لکیر سے بہت نیچے تھا۔ خیبر پختون خوا کے زرخیز اور مردم خیز علاقے صوابی کے ایک تاریخی گاؤں شیوا اڈا میں ٹاٹ اسکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا ، میں نے بھی ایک دو نے دونا، دو دونے چار کی بنیادی ریاضی پانچ روپے والی سلیٹ پر لکھتے لکھتے سیکھی، سلیٹ پر ریاضی سیکھنے کے بے شمار فوائد ہوتے تھے مثلاً ہمیں نوٹ بک کے جھنجھٹ سے نجات حاصل تھی، لکھائی مٹانے کے لیے پرانے کپڑوں سے والدہ کے ہاتھوں کا سلا ہوا چھوٹا سا جھاڑن، کسی گاڑی کی سیٹ سے چرایا ہوا اسفنج یا پھر قمیص کا دامن استعمال ہوتا تھا اور پانی کی جگہ اکثر تھوک سے کام نکال لیتے تھے۔ اس طرح تختی سے بھی ہمارے ماضی اور معصوم بچپن کی حسین یادیں وابستہ ہیں، میری تختی گاؤں کے ایک مشہور ترکھان جمعہ گل بابا کے ہاتھ کی بنی ہوئی تھی۔ جمعہ گل بابا میرے والد کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے تھے اور شاید یہ اسی دوستی کا کمال تھا کہ میری تختی موٹی، کشادہ اور وزنی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط لکڑی کی بنی ہوئی تھی، چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے تختیاں لڑانا ہمارا پسندیدہ کھیل تھا۔ میری تختی کو چار پانچ تختیاں توڑنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل تھا۔
اسکول بیگ خریدنے کی ہماری استطاعت نہیں تھی، لہٰذا کتابیں ایک گز لمبے کپڑے میں باندھ کر کندھے سے لٹکا لیتے، دوات کی بجائے اپنی دادی اماں یا گھر میں کسی دوسرے بیمار کی دوائی کی استعمال شدہ چھوٹی بوتل استعمال کرنا پڑتی، سلیٹ دھونے کے لیے ہم قطار بنا کر ایک بارانی نالے کی طرف جایا کرتے۔ اسی بہانے پانچ دس منٹ کا بریک ملتا، برساتی نالے میں مون سون کے دنوں میں طغیانی آجاتی تو ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے، کیوں کہ ہمارے پرائمری اسکول کی ایک دیوار عین اس نالے میں تھی اور اسکول کے تمام بچوں کی دلی آرزو تھی کہ ہمارا اسکول سیلاب کی نذر ہو جائے اور یوں ہمیں اسکول سے طویل چھٹیاں ملنے کا موقع ملے، لیکن یہ دعا کبھی بھی پوری نہیں ہوئی، کیوں کہ یہ بچپنے کی دعا ہر گز ہمارے حق میں نہ تھی۔ قلم کا خرچہ بچانے کے لیے برساتی نالے کے کنارے نل کے پودے توڑ کر قلم بناتے، روزانہ صبح سویرے کالا جوڑا اور کالی ٹوپی ہم عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی (ایک گانے کی طرف اشارہ) کی فرمائش پر نہیں بل کہ استاد کی مار کھانے کے خوف سے پہنتے تھے، یونی فارم کی حد تک تو بات ٹھیک تھی، لیکن میری بدقسمتی یہ تھی کہ میرے والد عید پر بھی مجھے کالے رنگ کا جوڑا سلوا کر دیتے کیوں کہ وہ اپنی غربت کے باعث ایک تیر سے دو شکار کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔
اپنے زمانے کے آٹھویں پاس تھے اس لیے دیگر کی نسبت ذرا زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک تھے، اس لیے عید پر نئے کپڑے پہننے کو ملتے اور یونی فارم کی شکل میں نیا جوڑا بھی ملتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہر بار عید پر میرے والد کی طرف سے ملیشیا کا جوڑا پانا مجھے کس قدر ناگوار گزرتا، لیکن ایک آدھ آنسو بہانے کے بعد اتنی زور سے بھوک ستاتی کہ ہم رونا چھوڑ دیتے اور بالآخر اپنے والدین کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے، ویسے بھی گھر میں ہمارا احتجاج کبھی کام یاب نہیں ہوتا تھا، میرا جو بھی بھائی بشمول میرے اگر کسی بات پر ناراض ہو کر بھوک ہڑتال کرتا تو اسے بھوکا ہی سونا پڑتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے والدین خواہ مخواہ ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے بل کہ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس ہمارے احتجاج اور ہڑتال کو ناکام بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔ کس قدر مشکل ہوتا ہے ایک غریب باپ کے لیے اپنے بچوں کو اپنی غربت کا احساس دلانا، یہ تو غریب والدین ہی بتا سکتے ہیں۔
فرض کیجیے ایک غریب عورت بازار سے گزرتی ہے اور اس کا بچہ کسی کھلونے یا کھانے کی چیز کے لیے رونے لگتا ہے لیکن اس کی ماں وہ چیز اسے خرید کر نہیں دے سکتی، لیکن بچہ رو رو کر ہلکان ہو جاتا ہے ایک لمحے کے لیے، اس عورت کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنے لخت جگر کے لیے نہ تو کھلونا خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے اور نہ ہی اسے اپنی مجبوری کا احساس دلا سکتی ہے۔ میرے والدین کی بھی یہی حالت تھی اور یہ حالت تب تک رہی جب تک ہمارا بچپن رہا، رنگ برنگے کپڑوں کے علاوہ اچھے جوتے بھی میرے بچپن کی بہت بڑی آرزو تھی۔ میرے والد ہم بھائیوں کو لے کر گاؤں کے ایک دکان دار صادق کاکا کے پاس لے جاتے جہاں سے ہمارے لیے پلاسٹک کے جوتے خریدتے، جن کی قیمت تین اقساط میں ادا کرنا پڑتی۔ جب ہم پلاسٹک کے شوز پہنے خوشی خوشی گھر لوٹتے تو گھر اور گلی محلے میں جتنی مبارک بادیں ملتیں آج قیمتی جوتے خریدنے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نئے جوتے خریدنے کا جشن مناتے۔
انتہائی غریب کا ایک اور فائدہ جو ایلیٹ کلاس یا متوسط گھرانوں کے بچوں کو شاید کم نصیب ہوتا ہے وہ روایتی کھیل ہیں جو صرف کم خرچ کے باعث غریب کا بچہ کھیل اور اسے سے محظوظ ہو سکتا ہے، جس میں غلان سپایان (چور سپاہی)، بلوری (بنٹے کھیلنا ) دوپہر کی تیز دھوپ میں برتھ ڈے سوٹ میں نہر میں تیرنا، اپنا قیمتی ہتھیار یعنی غلیل سے چڑیوں کا شکار کرنا، درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے اور بچے اتارنا، گلی میں کتا دیکھ کر اس پر پتھروں کی بارش کرنا، قریبی باغ سے تریوکے (ایک قسم کی ترش گھاس جس پر نمک ڈال کر کچا چبانا) کھانا، گلی ڈنڈا کھیلنا، پلاسٹک کے لفافوں کو آگ سے پگھلا کر گیند بنانا اور گاؤں کے ترکھان کے ہاتھوں بنے بیٹ سے کھیتوں میں کرکٹ کھیلنا اور ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے لٹک کر سواری کے مزے لینا، وہ لوغڑے (کھیل) ہیں، جسے ایک غریب کی زندگی سے جدا نہیں کیا جا سکتا، جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا میرے والد ضعیف العمری کی بنا مختلف سگریٹ کے کارخانوں میں مزدوری سے اکتا بھی چکے تھے اور بیمار بھی رہنے لگے تھے، نے ہمارے اسکول کے سامنے پٹ سن کے پھٹے پرانے بورے پر بیٹھ کر کھیر، چھولے اور ٹافیاں وغیرہ بیچنا شروع کردی، میں اور میرا بھائی بھی آدھی چھٹی کے دوران ان کی مدد کرتے، ضعیف العمری کے باعث ان کی نظر کم زور ہو گئی تھی، جس کا فائدہ اٹھا کر ہم اپنی جیبیں ٹافیوں سے بھر لیتے، کبھی کبھار چند سکے بھی ان سے چرا لیتے، لیکن پھر اچانک یہ کل کائنات لٹ گئی۔
جنوری 1994ء کی ایک رات جب ہر سو گھپ اندھیرا پڑ گیا۔ اسی طرح غربت نے ہمارا سہارا ہم سے چھین لیا اور ہم نو بچوں اور دو بیواؤں کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا، والد کی وفات کے اگلے ہی ماہ کویت، قطر اور سوئٹزرلینڈ کے تعاون سے پشاور میں مرسی ایجوکیشنل کمپلیکس کے نام سے ایک یتیم خانے کا افتتاح ہوا، مذکورہ ادارے میں ایک ایڈمن منیجر استفتانوش کا تعلق میرے پڑوس کے گاؤں شیخ جانہ سے تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اپنے علاقے کے یتیم بچوں کو اس ادارے میں مفت تعلیم دلوائیں لہٰذا اس مقصد کے لیے علاقے کے 25 لڑکوں کو منتخب کر لیا گیا، جن میں، میں اور میرا بھائی بھی شامل تھے۔ ہم سب کو موسم بہار کی ایک دوپہر گاڑی میں بٹھایا گیا اور تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد پشاور سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ پر واقع اس اسکول پہنچایا گیا جس نے میری زندگی پر ان منٹ نقوش چھوڑے، اس اسکول میں ہمیں آزاد کشمیر، افغانستان اور پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے دوست ملے۔ ہمارے اساتذہ میں افغان، عرب اور پاکستانی شامل تھے۔
27 اپریل 1994ء کو اسکول کا باضابطہ افتتاح ہونا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ روایت کے طور پر ایک طالب علم کو مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کرنا تھا جس کے لیے سب کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ اس لیے ایک تعریفی کلمات پر مشتمل تقریر مجھے یاد کرنے کو دی گئی، جسے میں نے اچھی طرح ازبر کر لیا۔ مقررہ تاریخ کو اچانک ہمارے کلاس روم کا دروازہ کھلا اور لوگوں کا جم غفیر کلاس میں داخل ہوا میرے ٹیچر نے مجھے اشارہ کیا کہ شروع ہو جاؤ میں نے ابتدائی دو تین کلمات پڑھے ہی تھے کہ باقی ماندہ تقریر یکسر بھول گیا اور ساکت کھڑا رہا۔ فاروق لغاری صاحب نے یہ دیکھتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور شاباش دی۔ اس کے بعد مجھے اسکول میں جو پروٹوکول ملا اس نے مجھے اور بھی اعتماد دیا، اگلے دن ڈائریکٹر فقیرمحمد انور نے آفس بلایا اور میری ہمت بندھائی، ظاہر ہے جب آپ کو ایسے اساتذہ ملیں گے جو ناکامی میں بھی آپ کا حوصلہ بڑھاتے ہوں تو پھر کوئی بھی چیز آپ کو کام یابی سے نہیں روک سکتی۔ اسی طرح اسکول میں ہر جماعت میں اول پوزیشن لیتا رہا میں یہاں 9 سال تک ہاسٹل میں رہا، وہاں زندگی ہمارے پرائمری اسکول کے برعکس تھی۔ تختی کی جگہ نوٹ بک، نل سے بنے قلم کی جگہ پنسل اور بال پوائنٹ نے لے لی، سلیٹ اور تختی کا تو نام و نشان تک نہ تھا۔ ہمیں اتنی ساری نوٹ بکس ملنے لگیں کہ میں نے ان میں پینٹنگ شروع کردی، اسکول سے نکلتے نکلتے میں آدھا پینٹر بھی بن چکا تھا، کیوں کہ ہم ''مال مفت دل بے رحم'' کی عملی مثال بن گئے تھے۔ مجھے مرسی انٹرنیشنل اسکول ہی میں اس حقیقت کا ادراک ہو چکا تھا کہ ''اوپر والا جب بھی دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔''
مرسی انٹرنیشنل اسکول کے بعد قائداعظم کالج صوابی میں داخلہ لیا۔ اس دوران ایک دوست عبدالمتین نے مجھے کمپیوٹر خرید کر دیا، دوسرے دوست شہاب یامین نے فیس معافی میں مدد دی، فرسٹ ایئر میں پری میڈیکل گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی، لیکن فیس کی عدم ادائیگی پر مجھے کالج چھوڑنا پڑا، جب کہ بھائی کے دوست کی وساطت سے مجھے مردان ماڈل اسکول میں داخلہ مل گیا، لیکن یہاں یونی فارم کا مسئلہ آڑے آگیا، لہٰذا پھر دوستوں نے یہاں بھی فراخ دلی دکھائی۔ یہاں سے ایف ایس سی نمایاں نمبروں سے پاس کرنے کے بعد بھائی کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میرا اس جانب رجحان نہ تھا، لہٰذا ایک مہربان استاد کے مشورے پر عظیم درس گاہ اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، لیکن یہاں بھی حالات نے میرا پیچھا نہ چھوڑا اور کافی پاپڑ بیلنے پڑے، چوں کہ میں ایک پروفیشنل بھی پینٹر تھا۔ اس لیے شروع میں ایک ادارے کے لیے دیواروں پر اشتہارات وغیرہ لکھنا شروع کیا، کلاس کے بعد اپنے برش اور پینٹ کے ڈبوں کے ساتھ شہر کی دیواروں پر اشتہارات لکھ دیتا، اس دوران اوور ٹائم بھی کر لیتا، خیر نتیجہ آنے پر میں نے اپنے گروپ میں ٹاپ کیا تھا، لیکن یہ خوشی بھی زیادہ دیر راس نہ آئی۔ میرا ایک بھائی کینسر کا مریض تھا، اس کی طبیعت بگڑنے لگی یہ میرے لیے کافی کٹھن دن تھے کلاس جانا اور وہاں سے سیدھا اسپتال جا کر اپنے بھائی کی تیمار داری کرنا میرے لیے کافی مشکل تھا، انہی دنوں پشاور کے ایک مقامی اخبار میں آرٹیکل وغیرہ لکھنا شروع کیے۔
اس دوران فائنل کا امتحان بھی سر پر آگیا، ہاسٹل کے چارجز اور دیگر فیس وغیرہ ملا کر میرے ذمے کالج کے سترہ ہزار روپے بقایاجات تھے، لیکن یہ مشکل میرے مہربان استاد بخت زمان نے حل کر دی اور مجھے وی سی کے نام درخواست لکھنے کی ہمت بندھائی۔ خیر اس کے بعد مجھے رول نمبر سلپ جاری ہوئی۔ اس دوران میرا بھائی زندگی سے جنگ لڑتے لڑتے راہیِ عدم ہو چکا تھا۔ میں ان کا جنازہ پڑھنے کے بعد سیدھا کالج پہنچا، کیوں کہ اگلے دن میرا پرچہ تھا، امتحان دے ڈالا اور اپنے گروپ میں پھر سے ٹاپ کیا، زندگی کے حوادث، لوگوں کے بے حس رویے اور غریب کے لیے ہر جگہ دھتکار یہی باتیں میرا حوصلہ اور بھی بڑھاتیں اور میں اپنے غصے، انتقام اور تکالیف کو بطور انرجی استعمال کرتا رہا اور یہ مصمم ارادہ کیا کہ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا، لیکن کسی بھی حال میں تعلیم ادھوری نہیں چھوڑوں گا اور میں آگے بڑھتا گیا، محترم بخت زمان اور ہردل عزیز استاد انعام الرحمن پشکلاوتی کی راہ نمائی اور کاوشوں سے پشاور یونی ورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ میں داخلہ لیا، اس عظیم درس گاہ میں داخلہ لیتے ہی مجھے پر اﷲ کی رحمتوں اور عنایات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ٹی وی میں نیوز ٹرانسلیٹر کی عارضی جاب مل گئی یہاں سے ماسٹرز کرتے ہوئے مجھے جاپان کی طرف سے جیکا اسکالر شپ ملی جو ایک لاکھ بائیس ہزار روپے بنتی تھی۔ اس دوران سکالر شپ پر امریکہ اور دو مرتبہ جرمنی بھی جانا ہوا، مجھ جسے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے والے طالب علم کو حصول علم کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑے خدا کسی غریب کے بچے کو اس کے سائے سے بھی دور رکھے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پرخار راہ گزر میں حصول تعلیم کے لیے جو تجربہ اور حوصلہ ملا وہ اس قدر منافع بخش ہے کہ میں اکثر قسم کھا کر دوستوں سے کہتا ہوں کہ اگر مجھے دوبارہ اس دنیا میں آنے کی آپشن دی تو میں بلا جھجک دوبارہ اسی گھر اور انہی مسائل کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا پسندوں کروں گا۔
پیشہ ورانہ خدمات
ریڈیو پرزنٹر ، آر جے (پختون خوا ریڈیو مردان)
نیوز ٹرانسیلٹر، ایڈیٹر، پی ٹی وی پشاور، ریڈیو پاکستان
میڈیا ٹیکنیکل ایڈوائزر (ایم ٹی اے)
پراجیکٹ کوآرڈینیٹر (پشاور یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ایر فورٹ جرمنی)
میڈیا ایڈوائزر (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)
پروڈیوسر ، رپورٹر (KCSF ریڈیو سان فرانسسکو)
پروڈیوسر، رپورٹر (IDTY سان فرانسسکو)
ریڈیو پریزنٹر، آؑر جے (ریڈیو پاکستان ، ایم ایف 101)
فری لانس کالمسٹ (مختلف اخبارات، میگزین، ویب سائٹ)
اعزازات
فل برائٹ پروفیشنل ایوارڈ 2010-11ء
Bologna اٹلی آئی پی ایس آئی ایوارڈ
Jacka سکالر شپ ایوارڈ 2008-09 ء
پوئٹ آف دی کیمپس ایوارڈ 2007ء
نیشنل انٹی گریشن ایوارڈ
بیسٹ پریزنٹر ایوارڈ
ایمنسٹی انٹرنیشنل ایوارڈ (بچوں کے حقوق)
صدر لیٹریری سوسائٹی، اسلامیہ کالج پشاور
صدر خیبر لیٹریری کلب، پشاور یونیورسٹی
ممبر سٹیٹ ایلومینائی (یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ)
ممبر پیس اینڈ کولیبریٹ نیٹ ورک
جن زبانوں پر مکمل دسترس حاصل ہے
پشتو، اردو، انگریزی، دری، فارسی، عربی، ہندکو، اسپینش