بُک شیلف
دنیا کے کثیر آبادی والے کم ہی شہر ہوں گے جنھیں جرائم، مافیاز اور آبادی کے دباؤ جیسے مسائل کا سامنا نہ ہو
شاعرات
ناشر: بھوپال انٹرنیشنل فورم ،صفحات:176،قیمت:200روپے
جاذب قریشی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہ طور نقاد بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ''شاعرات'' جاذب قریشی کے ان تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے عہد حاضر کی کچھ اردو شاعرات کے بارے میں تحریر کیے۔ ان شاعرات میں ادا جعفری، شاہدہ حسن، صائمہ علی، ریحانہ روحی، رخسانہ صبا، گلنار آفریں، ثروت سلطانہ ثروت، فرزانہ خان، عظمیٰ روحی، ثروت ظفر، حمیرا راحت اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں کے متعلق معروف ادیبہ اور کالم نویس زاہدہ حنا لکھتی ہیں،''جاذب صاحب کی تنقید مجھے اس لیے اچھی لگتی ہے کہ اس میں بے ساختگی ہے اور پڑھنے پڑھنے والوں کو بے سبب مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ جاذب کی تنقید شاعروں کے ساتھ ان کی شاعری کو سماج کے موجودہ تناظر میں دیکھنے کی ایک ایسی تخلیقی کوشش ہے، جس میں نہ بڑے نکتے قائم کیے گئے ہیں اور نہ وہ جنّاتی زبان استعمال کی گئی ہے جو تنقید کو ناقابل فہم بنادیتی ہے، تاکہ کچھ لوگ اپنی کم علمی احساس سے مجبور ہوکر تعریف کریں۔''
ان تنقیدی مضامین میں جو اس کتاب کا حصہ بنے ہیں، صاحب مضمون نے اپنا موضوع بننے والی شاعرات کے کلام کے فنی محاسن اور خصوصیات کو کمال اختصار کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔
امکان سے آگے
ناشر: بھوپال انٹرنیشنل فورم،صفحات:224،قیمت:300روپے
یہ کتاب بھی جناب جاذب قریشی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جن میں انھوں نے مختلف شعراء کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ نقاد کے ساتھ خود شاعر ہونے کی حیثیت سے جاذب قریشی نہ صرف شعر کی فنی باریکیوں سے آگاہی رکھتے ہیں بل کہ شاعر کی کیفیات سے بھی بہ خوبی واقف ہیں۔ یوں کسی شعری کاوش یا کسی شاعر کے کلام کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے وہ خار کی حوالوں کے ساتھ صاحب شعر کے اندر کی دنیا پر نظر ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ مضامین پڑھنے والے کو اس شاعر کے سخن کی جہتوں اور پہلوؤں ہی کی بابت جاننے کا موقع فراہم نہیں کرتے بل کہ شاعری خاص طور پر اردو شاعری کے قواعد اور گہرائیوں سے واقفیت بھی دیتے ہیں۔ جن شعراء پر لکھی گئی تحریریں اس کتاب کا حصہ بنی ہیں، ان میں رضی اختر شوق، سلیم کوثر، سرورجاوید، عارف امام، عارف شفیق، لیاقت علی عاصم، محسن اسرار، طارق سبزواری، رازی فاروقی، جنید آزر، ڈاکٹرنثارترابی، اکمل نوید، اخترسعیدی، خالدمعین، اقبال خاور، سلیم فوز، ہاتف عارفی، عرفان مرتضیٰ، عبیدالرحمان عبید، فیاض الدین صائب، حامد علی سید، انورانصاری، منظرعارفی، عین سین مسلم، احسان سہگل، خورشید اقبال حیدر، قمروارثی اور طاہرسلطانی شامل ہیں۔
نور علیٰ نور (مجموعہ حمدو نعت)
شاعر: خورشید احمر،ناشر:جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمد ونعت ریسرچ سینٹر، کراچی
بلاشبہہ حمد ونعت ایسی اصناف سخن ہیں جن میں احترام وحرمت اور انسانی بلاغت وفصاحت کی اعلیٰ ترین مثالیں ملتی ہیں۔ اردو ادب میں بھی حمدونعت کوعروج حاصل ہوا۔ جہاں نعت گوئی کے فن میں جدتیں بھی آئی ہیں وہیں اﷲ تعالیٰ اور رسول ﷺ سے محبت کے انداز اتنے گہرے اور پختہ ہیں کہ اُنھیں کسی پیمانے پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہر دور میں ایسے عشاق کی کمی نہیں رہی جو اپنا تن من دھن اسمِ محمدصلی اﷲعلیہ وسلم پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا سرمایۂ حیات یہی محبت ہے، مگر یہ محبت اپنی معراج کو اُس وقت پہنچتی ہے جب وہ اتباعِ رسول ﷺ کی سعادتوں سے بہرور ہونے کے لیے عملی مظاہرہ کرنے لگیں، پھر نہ گھر پیارا ہوتا ہے اور نہ سازوسامان۔ ہر محبت، ہر چاہت، ہر خواہش آقائے نامدار ﷺ کے غلاموں میں شامل ہونے کی خواہش کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہے۔ پیغام ِمصطفی ﷺجس مسلمان کے دل میں بس جائے تو پھر وہ یہ پیغام دوسروں کو پہنچانے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔ یہی اتباع، عشقِ محمد ﷺکی معراج ہے۔
خورشید احمرپختہ کار شاعر وادیب ہیں۔ ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ''شہرِچراغاں'' تھا۔ اب دوسرا ''نورٌ علیٰ نور'' (مجموعہ حمدونعت) میںاﷲ اور رسول ﷺ سے محبت نے آپ کے شعری وجدان کوفنی بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔ خورشید احمرکی حمدیہ ونعتیہ شاعری پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن کے اظہارمیں کس قدر شائستگی اور مہارت کے اظہار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
ارض جنت سے مجھے اذن سفر اس نے دیا
کار دنیا کے سمجھنے کا ہنر اس نے دیا
آئینہ اس نے دیا ذوقِ نظر اس نے دیا
دل کو ہر لمحہ تڑپنے کا ہنر اس نے دیا
ان اشعارسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اﷲکی تعریف میں ایسے سرشار ہیں کہ اُنھیں اﷲتعالیٰ نے جو انعام و اکرام دیا ہے اُس پر خوش اور نازاں ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اﷲ! تُو نے مجھے ایسا ہنُر دیا ہے کہ میں دنیا کے سارے ہنُر سمجھ سکتا ہوں اور ایسی تڑپ تُونے میرے دل میں ڈال دی ہے، جس کی وساطت سے میں تیری ہی حمدوثنا کرتا ہوں۔ گنبدِ خضرا کے عنوان سے جو نظم ''نورٌاعلیٰ نور'' کا حصہ ہے، وہ شاعرکی طہارتِ فکر کا آئینہ ہے:
قرار قلب مسلماں ہے اس کا نظارہ
جمال شافع محشر ہے گنبدِخضرا
جہاں سے ملتا ہے دستِ طلب کو جام یقین
اسی یقین کا منظر ہے گنبدِخضرا
خورشید احمرکی حمدونعت پڑھ کر دل کی فضا مسرور ومنور ہوجاتی ہے۔ یہی اُن کے فن کی معراج ہے جو ہمارے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ کتاب صوری ومعنوی اعتبار سے بہت دیدہ زیب ہے۔
کراچی کا مسئلہ کیا ہے
مرتب: رشید جمال،ناشر: لوحِ ادب پبلی کیشنز
صفحات: 196'قیمت: 350روپے
دنیا کے کثیر آبادی والے کم ہی شہر ہوں گے جنھیں جرائم، مافیاز، آبادی کے دباؤ اور ان جیسے دیگر ملتے جلتے مسائل کا سامنا نہ ہو۔ مگر یہ سب مشترکہ کردار ہونے کے باوجود کراچی کی کہانی کچھ الگ ہے۔ اس شہر اپنی ملکیت قرار دینے کی کشمکش اور یہاں ہتھیار بند سیاست نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی وتجارتی مرکز کے مسائل کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔ اس صورت حال کو مجموعی طور پر ''کراچی کا مسئلہ'' کا نام دیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں اور لاتعداد مضامین تحریر کیے جاچکے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس حوالے سے لکھے جانے والے بعض مضامین اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب جن شخصیات کی تحریروں اور انٹرویوز پر مشتمل ہے، ان میں الطاف گوہر، حکیم سعید، ڈاکٹرفاروق ستار، اجمل خٹک، میاں محمد طفیل، محمد صلاح الدین، زاہدہ حنا، سردار شیرباز خان مزاری، جسٹس نسیم حسن شاہ، محمود شام، جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، تاج حیدر، آغا مسعود حسین، فہیم الزماں صدیقی، بشیر جان، میاں زاہد حسین، اشرف شاد اور مشتاق لاشاری شامل ہیں۔
سیاست اور صحافت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کے مضامین اور انٹرویو قاری کو کراچی میں عشروں سے جاری بدامنی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سمیت اس شہر کی صورت حال کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ شہداء
مصنف: اعظم معراج
قیمت:295روپے،ناشر: پیرامائونٹ بکس(پرائیویٹ) لمیٹڈ، کراچی
زیرنظرکتاب وطن کی مٹی کے لئے جانیں قربان کرنے والے مسیحیوں کی داستانوں کا مجموعہ ہے۔ جہاد کشمیر1948ء ہو یا 1965ء کی پاک وہندجنگ ہو یا پھر1971ء کا معرکہ، 1999ء کی جنگ کارگل ہو یا پھر2003ء سے جاری شورش، مسیحی جانبازوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا ہے ۔ مسیحی جانبازوں نے ثابت کیا کہ وہ بھی اس دھرتی سے اسی طرح عشق کرتے ہیں جس طرح مسلمان۔ ان میں کرنل(ر) ڈبلیو ہربرٹ، بریگیڈئر انتھنی لمب، کرنل(ر) سوشیل کمارٹرلسیلر، کرنل کے ایم رائے، بریگیڈئر ڈینئل آسٹن، کرنل ایل سی راتھ، لیفٹننٹ کرنل(ر) ڈیرک جوزف(تمغہ جرات، تمغہ امتیاز)، میجر رامون (رائے) جوشوا(تمغہ بسالت)، لیفٹیننٹ کرنل فلپ عطارد، کرنل(ر) البرٹ نسیم(ستارہ امتیاز ملڑی)، توپچی نعمت مسیح، بریگیڈئر جاویدحیات خان، میجر جوزف شرف، بریگیڈئر (ر) سائمن سیمسن شرف(ستارہ امتیاز ملٹری)، میجر جنرل(ر) جولین پیٹر، میجر جنرل اسرائیل نوئل کھوکھر، ائیرکموڈور(ر) بلونت کمار داس، ائیروائس مارشل ایرک گودڈون ہال(ستارہ جرات)، ائیرکموڈور نذیر لطیف(ستارہ جرات)، اسکواڈرن لیڈر ولیم ڈیمنڈ ہارنی(ستارہ جرات)، اسکواڈرن لیڈر شہید پیٹرکرسٹی(تمغہ جرات،ستارہ جرات)، ونگ کمانڈر(شہید) مارون لیسلے مڈل کوٹ(بارٹودی ستارہ جرات)، گروپ کیپٹن سیسل چوہدری (ستارہ جرات)، جنگ 1971ء میں مشرقی محاذ کا شہید سیکنڈ لیفٹیننٹ ڈینیل عطارد، کیپٹن مائیکل ولسن شہید، شہیدنواز کوٹ میجر سرمس رائوف(تمغہ بسالت) بھی شامل ہیں۔مصنف کو ان جانبازوں اور دلیروں کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے میں خاصی مہم جوئی کرناپڑی۔
یو ڈیم سالا (افسانوں کا مجموعہ)
مصنف۔ نعیم بیگ
ناشر۔ بُک ایج پبلشرزدوسری منزل۔ خورشید بلڈنگ، 10، ایبٹ روڈ، لاہور ,قیمت: 300روپے
یہ کتاب سینیر افسانہ نگار نعیم بیگ کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ عالمی معیشت کے جبر اور ہجرت کے دکھ کا شکار نعیم بیگ کی کہانیوں میں زندگی کا بڑا بھیانک چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں تو بقول غالب ہر نفسِ ہستی سے تا ملکِ عدم اک جادہ ہے لیکن مسافت کے کرب سے جو زندگی کشید کی جاتی ہے اس کا سچ بڑا جان لیوا ہوتا ہے۔ بہ قول طارق اسمعٰیل ساگر اگر افسانہ زندگی کی ایک قاش، وقت کا ایک لمحہ اور سلسلہ واقعات کی ایک کڑی کو مخصوص تکنیک میں پیش کرنے کے فن کا نام ہے تو نعیم بیگ ایک مکمل کہانی کار ہیں۔ '' نعیم بیگ کے افسانوں کا اسلوب اور زبان قاری کو چونکاتی ہے اور اسے نئے پن کا احساس دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک نقاد کے بہ قول نعیم بیگ ایک باغی فن کار ہیں اور انہوں نے ایک باغی کی طرح ہی قواعد و ضوابط کے بندھنوں کو توڑ ڈالا ہے۔
نعیم بیگ کو بیانیہ پر قدرت حاصل ہے۔ الفاظ کے انتخاب میں کافی محتاط نظر آتے ہیں، لہٰذا ان کے افسانوں کے پلاٹ چست اور درست ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی جھول نہیں نظر نہیں آتا ، کوئی ڈھیلا پن دکھائی نہیں دیتا۔ جیسے کسی ماہر سنگتراش کی بنائی ہوئی متناسب کایا کی مورتی۔
نعیم بیگ کے زیرتبصرہ افسانوی مجموعے کے عنوان ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب کھول کر ہم حیرت کے ایک جہاں کی سیر کرنے والے ہیں۔ ان کے افسانے آغاز ہی سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور پھر پڑھنے والا کرداروں کے ساتھ کہانی کا ہم سفر ہوجاتا ہے۔
Criminal Psychology
مصنف: الطاف القدس ایڈووکیٹ
ناشر: سندھیکا اکیڈمی، B 24، نیشنل آٹو پلازہ، مارسٹن روڈ، کراچی
صفحات:224 ،قیمت: 350روپے
پاکستانی سماج کو اس وقت ہر قسم کے جُرم کا سامنا ہے، اسٹریٹ کرائم سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے شیطانی فعل تک اور بھتا خوری سے دہشت گردی تک جرم کی وہ کون سی نوع ہے جو خوف بنی ہم پر مسلط نہ ہو۔ کسی معاشرے میں جرائم پنپنے کے اسباب میں نفسیاتی محرکات بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، غربت، ناخواندگی اور دیگر عوامل دراصل فرد یا گروہ کی مجرمانہ نفسیات کو تقویت دینے اور مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت ہے کہ اس ضمن میں علمی وفکری سطح پر بھی کام کیا جائے اور سائنسی بنیادوں پر تحقیق وجستجو کے ذریعے جرم کے ارتکاب کا باعث بننے والے نفسیاتی عوامل سامنے لائے جائیں، لیکن اس طرف کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ ایسے میں مجرمانہ نفسیات کو موضوع بنانے والی یہ کتاب ہمیں خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیتی ہے کہ جس ملک میں ٹی چینلوں کے ٹاک شوز سے اہل دانش کے باہمی مکالموں تک ہر جگہ سلگتے ہوئے سوالوں اور معاملات پر سطحی سوچ کا اظہار کیا جارہا ہے، وہاں ایسے خردپرور اور مشکل پسند بھی موجود ہیں جو مسائل کے تہہ میں اترنے کا شوق رکھتے ہیں۔
اس کتاب کے مصنف پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ قرطاس وقلم سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مضامین اور کالم مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوتے رہے ہیں۔
Criminal Psychology جرائم کے نفسیاتی پہلو پر بڑی عرق ریزی سے لکھی جانے والی کتاب ہے، جس میں مذہب، فلسفہ اور جدید سائنس کی روشنی میں انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل، انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے منفی اور قانون دشمن خیالات، عدم توازن پر مبنی ذہنی، روحانی، کیمیائی اور جینیاتی تشکیل کے ساتھ خوشی اور ذہنی سکون جیسے موضوعات پر بحث کرتی ہے۔ مصنف نے سائنس اور منطق کے ساتھ مجرمانہ نفسیات سے نجات پانے کے لیے قرآن مجید کی تعلیمات کو بھی بنیاد بنایا ہے۔ یہ کتاب قانون دانوں کے ساتھ جرمیات ونفسیات کے طلبہ اور محققین کے لیے بھی قابل قدر حیثیت کی حامل ہے۔
خدائی خدمت گار تحریک
مصنف: احمد,ترجمہ: قاسم جان،طابع: پختون تھنکرز فورم
صفحات: 511،قیمت: 825
انگریز کی بہ طور حکم راں ہندوستان آمد حکم رانوں کی تبدیلی ہی نہ تھی بل کہ مقتدر قوت کی تبدیلی کے ساتھ اہل ہند کو ایک نئی معاشرت، تہذیب اور اجنبی افکار کا بھی سامنا تھا، اس صورت حال نے درۂ خیبر سے خلیجِ بنگال تک پھیلے رنگارنگ مگر قدامت میں یکساں سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ یہ فکری ٹوٹ پھوٹ اور سماجی اکھاڑ پچھاڑ نے اس خطے کو شعروادب اور علم وفکر کی قدآور شخصیات دینے کا باعث بنی اور اسی گمبھیرتا میں آزادی، تبدیلی اور اصلاح کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ''خدائی خدمت گار'' بھی ایک ایسی ہی تحریک تھی۔ سیاسی تحریکیں اور قیادتیں سماج کی امنگوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرکے مقبولیت پاتی اور اپنے اہداف کا حصول ممکن بناتی ہیں، لیکن اصلاحی تحریکیں اور اصلاح پسند راہ نما بہتے دھارے کے مخالف چلتے اور رجحانات وروایات سے ٹکراتے ہیں۔
خدائی خدمت گار آزادی کے لیے مصروفِ جدوجہد ہونے کے ساتھ اصلاحی تحریک بھی تھی۔ اس تحریک کے بانی خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان نے اس پختون سماج میں عدم تشدد کا نعرہ لگایا جہاں بندوق روایت اور ثقافت کا لازمی جزو تھی۔ اسی طرح وطن کی آزادی کے ساتھ اس تحریک نے اہل وطن میں تعلیم عام کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ یوں خدائی خدمت گار تحریک برصغیر کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں ایک علیحدہ اور روشن باب رکھتی ہے۔ یہ کتاب اس تحریک کے قیام، افکار، جدوجہد اور قربانیوں کی داستان سناتی ہے۔ اصلاً یہ کتاب پشتو میں لکھی گئی، جس کے مصنف اس تحریک کو اپنی زندگی کا ایک حصہ دینے والے احمد کاکا نے تحریر کیا اور یہ ان کے چشم دید واقعات پر مبنی ہے۔ اس کتاب کو قاسم جان نے سادہ اور رواں زبان میں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ہماری تاریخ کی اس بہت اہم اور منفرد تحریک پر لکھی جانے والی یہ کتاب برصغیر کی تاریخ وسیاست سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو مطالعے کی دعوت دے رہی ہے۔
ناشر: بھوپال انٹرنیشنل فورم ،صفحات:176،قیمت:200روپے
جاذب قریشی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہ طور نقاد بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ''شاعرات'' جاذب قریشی کے ان تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے عہد حاضر کی کچھ اردو شاعرات کے بارے میں تحریر کیے۔ ان شاعرات میں ادا جعفری، شاہدہ حسن، صائمہ علی، ریحانہ روحی، رخسانہ صبا، گلنار آفریں، ثروت سلطانہ ثروت، فرزانہ خان، عظمیٰ روحی، ثروت ظفر، حمیرا راحت اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں کے متعلق معروف ادیبہ اور کالم نویس زاہدہ حنا لکھتی ہیں،''جاذب صاحب کی تنقید مجھے اس لیے اچھی لگتی ہے کہ اس میں بے ساختگی ہے اور پڑھنے پڑھنے والوں کو بے سبب مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ جاذب کی تنقید شاعروں کے ساتھ ان کی شاعری کو سماج کے موجودہ تناظر میں دیکھنے کی ایک ایسی تخلیقی کوشش ہے، جس میں نہ بڑے نکتے قائم کیے گئے ہیں اور نہ وہ جنّاتی زبان استعمال کی گئی ہے جو تنقید کو ناقابل فہم بنادیتی ہے، تاکہ کچھ لوگ اپنی کم علمی احساس سے مجبور ہوکر تعریف کریں۔''
ان تنقیدی مضامین میں جو اس کتاب کا حصہ بنے ہیں، صاحب مضمون نے اپنا موضوع بننے والی شاعرات کے کلام کے فنی محاسن اور خصوصیات کو کمال اختصار کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔
امکان سے آگے
ناشر: بھوپال انٹرنیشنل فورم،صفحات:224،قیمت:300روپے
یہ کتاب بھی جناب جاذب قریشی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جن میں انھوں نے مختلف شعراء کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ نقاد کے ساتھ خود شاعر ہونے کی حیثیت سے جاذب قریشی نہ صرف شعر کی فنی باریکیوں سے آگاہی رکھتے ہیں بل کہ شاعر کی کیفیات سے بھی بہ خوبی واقف ہیں۔ یوں کسی شعری کاوش یا کسی شاعر کے کلام کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے وہ خار کی حوالوں کے ساتھ صاحب شعر کے اندر کی دنیا پر نظر ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ مضامین پڑھنے والے کو اس شاعر کے سخن کی جہتوں اور پہلوؤں ہی کی بابت جاننے کا موقع فراہم نہیں کرتے بل کہ شاعری خاص طور پر اردو شاعری کے قواعد اور گہرائیوں سے واقفیت بھی دیتے ہیں۔ جن شعراء پر لکھی گئی تحریریں اس کتاب کا حصہ بنی ہیں، ان میں رضی اختر شوق، سلیم کوثر، سرورجاوید، عارف امام، عارف شفیق، لیاقت علی عاصم، محسن اسرار، طارق سبزواری، رازی فاروقی، جنید آزر، ڈاکٹرنثارترابی، اکمل نوید، اخترسعیدی، خالدمعین، اقبال خاور، سلیم فوز، ہاتف عارفی، عرفان مرتضیٰ، عبیدالرحمان عبید، فیاض الدین صائب، حامد علی سید، انورانصاری، منظرعارفی، عین سین مسلم، احسان سہگل، خورشید اقبال حیدر، قمروارثی اور طاہرسلطانی شامل ہیں۔
نور علیٰ نور (مجموعہ حمدو نعت)
شاعر: خورشید احمر،ناشر:جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمد ونعت ریسرچ سینٹر، کراچی
بلاشبہہ حمد ونعت ایسی اصناف سخن ہیں جن میں احترام وحرمت اور انسانی بلاغت وفصاحت کی اعلیٰ ترین مثالیں ملتی ہیں۔ اردو ادب میں بھی حمدونعت کوعروج حاصل ہوا۔ جہاں نعت گوئی کے فن میں جدتیں بھی آئی ہیں وہیں اﷲ تعالیٰ اور رسول ﷺ سے محبت کے انداز اتنے گہرے اور پختہ ہیں کہ اُنھیں کسی پیمانے پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہر دور میں ایسے عشاق کی کمی نہیں رہی جو اپنا تن من دھن اسمِ محمدصلی اﷲعلیہ وسلم پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا سرمایۂ حیات یہی محبت ہے، مگر یہ محبت اپنی معراج کو اُس وقت پہنچتی ہے جب وہ اتباعِ رسول ﷺ کی سعادتوں سے بہرور ہونے کے لیے عملی مظاہرہ کرنے لگیں، پھر نہ گھر پیارا ہوتا ہے اور نہ سازوسامان۔ ہر محبت، ہر چاہت، ہر خواہش آقائے نامدار ﷺ کے غلاموں میں شامل ہونے کی خواہش کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہے۔ پیغام ِمصطفی ﷺجس مسلمان کے دل میں بس جائے تو پھر وہ یہ پیغام دوسروں کو پہنچانے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔ یہی اتباع، عشقِ محمد ﷺکی معراج ہے۔
خورشید احمرپختہ کار شاعر وادیب ہیں۔ ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ''شہرِچراغاں'' تھا۔ اب دوسرا ''نورٌ علیٰ نور'' (مجموعہ حمدونعت) میںاﷲ اور رسول ﷺ سے محبت نے آپ کے شعری وجدان کوفنی بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔ خورشید احمرکی حمدیہ ونعتیہ شاعری پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن کے اظہارمیں کس قدر شائستگی اور مہارت کے اظہار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
ارض جنت سے مجھے اذن سفر اس نے دیا
کار دنیا کے سمجھنے کا ہنر اس نے دیا
آئینہ اس نے دیا ذوقِ نظر اس نے دیا
دل کو ہر لمحہ تڑپنے کا ہنر اس نے دیا
ان اشعارسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اﷲکی تعریف میں ایسے سرشار ہیں کہ اُنھیں اﷲتعالیٰ نے جو انعام و اکرام دیا ہے اُس پر خوش اور نازاں ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اﷲ! تُو نے مجھے ایسا ہنُر دیا ہے کہ میں دنیا کے سارے ہنُر سمجھ سکتا ہوں اور ایسی تڑپ تُونے میرے دل میں ڈال دی ہے، جس کی وساطت سے میں تیری ہی حمدوثنا کرتا ہوں۔ گنبدِ خضرا کے عنوان سے جو نظم ''نورٌاعلیٰ نور'' کا حصہ ہے، وہ شاعرکی طہارتِ فکر کا آئینہ ہے:
قرار قلب مسلماں ہے اس کا نظارہ
جمال شافع محشر ہے گنبدِخضرا
جہاں سے ملتا ہے دستِ طلب کو جام یقین
اسی یقین کا منظر ہے گنبدِخضرا
خورشید احمرکی حمدونعت پڑھ کر دل کی فضا مسرور ومنور ہوجاتی ہے۔ یہی اُن کے فن کی معراج ہے جو ہمارے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ کتاب صوری ومعنوی اعتبار سے بہت دیدہ زیب ہے۔
کراچی کا مسئلہ کیا ہے
مرتب: رشید جمال،ناشر: لوحِ ادب پبلی کیشنز
صفحات: 196'قیمت: 350روپے
دنیا کے کثیر آبادی والے کم ہی شہر ہوں گے جنھیں جرائم، مافیاز، آبادی کے دباؤ اور ان جیسے دیگر ملتے جلتے مسائل کا سامنا نہ ہو۔ مگر یہ سب مشترکہ کردار ہونے کے باوجود کراچی کی کہانی کچھ الگ ہے۔ اس شہر اپنی ملکیت قرار دینے کی کشمکش اور یہاں ہتھیار بند سیاست نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی وتجارتی مرکز کے مسائل کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔ اس صورت حال کو مجموعی طور پر ''کراچی کا مسئلہ'' کا نام دیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں اور لاتعداد مضامین تحریر کیے جاچکے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس حوالے سے لکھے جانے والے بعض مضامین اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب جن شخصیات کی تحریروں اور انٹرویوز پر مشتمل ہے، ان میں الطاف گوہر، حکیم سعید، ڈاکٹرفاروق ستار، اجمل خٹک، میاں محمد طفیل، محمد صلاح الدین، زاہدہ حنا، سردار شیرباز خان مزاری، جسٹس نسیم حسن شاہ، محمود شام، جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، تاج حیدر، آغا مسعود حسین، فہیم الزماں صدیقی، بشیر جان، میاں زاہد حسین، اشرف شاد اور مشتاق لاشاری شامل ہیں۔
سیاست اور صحافت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کے مضامین اور انٹرویو قاری کو کراچی میں عشروں سے جاری بدامنی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سمیت اس شہر کی صورت حال کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ شہداء
مصنف: اعظم معراج
قیمت:295روپے،ناشر: پیرامائونٹ بکس(پرائیویٹ) لمیٹڈ، کراچی
زیرنظرکتاب وطن کی مٹی کے لئے جانیں قربان کرنے والے مسیحیوں کی داستانوں کا مجموعہ ہے۔ جہاد کشمیر1948ء ہو یا 1965ء کی پاک وہندجنگ ہو یا پھر1971ء کا معرکہ، 1999ء کی جنگ کارگل ہو یا پھر2003ء سے جاری شورش، مسیحی جانبازوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا ہے ۔ مسیحی جانبازوں نے ثابت کیا کہ وہ بھی اس دھرتی سے اسی طرح عشق کرتے ہیں جس طرح مسلمان۔ ان میں کرنل(ر) ڈبلیو ہربرٹ، بریگیڈئر انتھنی لمب، کرنل(ر) سوشیل کمارٹرلسیلر، کرنل کے ایم رائے، بریگیڈئر ڈینئل آسٹن، کرنل ایل سی راتھ، لیفٹننٹ کرنل(ر) ڈیرک جوزف(تمغہ جرات، تمغہ امتیاز)، میجر رامون (رائے) جوشوا(تمغہ بسالت)، لیفٹیننٹ کرنل فلپ عطارد، کرنل(ر) البرٹ نسیم(ستارہ امتیاز ملڑی)، توپچی نعمت مسیح، بریگیڈئر جاویدحیات خان، میجر جوزف شرف، بریگیڈئر (ر) سائمن سیمسن شرف(ستارہ امتیاز ملٹری)، میجر جنرل(ر) جولین پیٹر، میجر جنرل اسرائیل نوئل کھوکھر، ائیرکموڈور(ر) بلونت کمار داس، ائیروائس مارشل ایرک گودڈون ہال(ستارہ جرات)، ائیرکموڈور نذیر لطیف(ستارہ جرات)، اسکواڈرن لیڈر ولیم ڈیمنڈ ہارنی(ستارہ جرات)، اسکواڈرن لیڈر شہید پیٹرکرسٹی(تمغہ جرات،ستارہ جرات)، ونگ کمانڈر(شہید) مارون لیسلے مڈل کوٹ(بارٹودی ستارہ جرات)، گروپ کیپٹن سیسل چوہدری (ستارہ جرات)، جنگ 1971ء میں مشرقی محاذ کا شہید سیکنڈ لیفٹیننٹ ڈینیل عطارد، کیپٹن مائیکل ولسن شہید، شہیدنواز کوٹ میجر سرمس رائوف(تمغہ بسالت) بھی شامل ہیں۔مصنف کو ان جانبازوں اور دلیروں کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے میں خاصی مہم جوئی کرناپڑی۔
یو ڈیم سالا (افسانوں کا مجموعہ)
مصنف۔ نعیم بیگ
ناشر۔ بُک ایج پبلشرزدوسری منزل۔ خورشید بلڈنگ، 10، ایبٹ روڈ، لاہور ,قیمت: 300روپے
یہ کتاب سینیر افسانہ نگار نعیم بیگ کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ عالمی معیشت کے جبر اور ہجرت کے دکھ کا شکار نعیم بیگ کی کہانیوں میں زندگی کا بڑا بھیانک چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں تو بقول غالب ہر نفسِ ہستی سے تا ملکِ عدم اک جادہ ہے لیکن مسافت کے کرب سے جو زندگی کشید کی جاتی ہے اس کا سچ بڑا جان لیوا ہوتا ہے۔ بہ قول طارق اسمعٰیل ساگر اگر افسانہ زندگی کی ایک قاش، وقت کا ایک لمحہ اور سلسلہ واقعات کی ایک کڑی کو مخصوص تکنیک میں پیش کرنے کے فن کا نام ہے تو نعیم بیگ ایک مکمل کہانی کار ہیں۔ '' نعیم بیگ کے افسانوں کا اسلوب اور زبان قاری کو چونکاتی ہے اور اسے نئے پن کا احساس دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک نقاد کے بہ قول نعیم بیگ ایک باغی فن کار ہیں اور انہوں نے ایک باغی کی طرح ہی قواعد و ضوابط کے بندھنوں کو توڑ ڈالا ہے۔
نعیم بیگ کو بیانیہ پر قدرت حاصل ہے۔ الفاظ کے انتخاب میں کافی محتاط نظر آتے ہیں، لہٰذا ان کے افسانوں کے پلاٹ چست اور درست ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی جھول نہیں نظر نہیں آتا ، کوئی ڈھیلا پن دکھائی نہیں دیتا۔ جیسے کسی ماہر سنگتراش کی بنائی ہوئی متناسب کایا کی مورتی۔
نعیم بیگ کے زیرتبصرہ افسانوی مجموعے کے عنوان ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب کھول کر ہم حیرت کے ایک جہاں کی سیر کرنے والے ہیں۔ ان کے افسانے آغاز ہی سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور پھر پڑھنے والا کرداروں کے ساتھ کہانی کا ہم سفر ہوجاتا ہے۔
Criminal Psychology
مصنف: الطاف القدس ایڈووکیٹ
ناشر: سندھیکا اکیڈمی، B 24، نیشنل آٹو پلازہ، مارسٹن روڈ، کراچی
صفحات:224 ،قیمت: 350روپے
پاکستانی سماج کو اس وقت ہر قسم کے جُرم کا سامنا ہے، اسٹریٹ کرائم سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے شیطانی فعل تک اور بھتا خوری سے دہشت گردی تک جرم کی وہ کون سی نوع ہے جو خوف بنی ہم پر مسلط نہ ہو۔ کسی معاشرے میں جرائم پنپنے کے اسباب میں نفسیاتی محرکات بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، غربت، ناخواندگی اور دیگر عوامل دراصل فرد یا گروہ کی مجرمانہ نفسیات کو تقویت دینے اور مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت ہے کہ اس ضمن میں علمی وفکری سطح پر بھی کام کیا جائے اور سائنسی بنیادوں پر تحقیق وجستجو کے ذریعے جرم کے ارتکاب کا باعث بننے والے نفسیاتی عوامل سامنے لائے جائیں، لیکن اس طرف کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ ایسے میں مجرمانہ نفسیات کو موضوع بنانے والی یہ کتاب ہمیں خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیتی ہے کہ جس ملک میں ٹی چینلوں کے ٹاک شوز سے اہل دانش کے باہمی مکالموں تک ہر جگہ سلگتے ہوئے سوالوں اور معاملات پر سطحی سوچ کا اظہار کیا جارہا ہے، وہاں ایسے خردپرور اور مشکل پسند بھی موجود ہیں جو مسائل کے تہہ میں اترنے کا شوق رکھتے ہیں۔
اس کتاب کے مصنف پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ قرطاس وقلم سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مضامین اور کالم مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوتے رہے ہیں۔
Criminal Psychology جرائم کے نفسیاتی پہلو پر بڑی عرق ریزی سے لکھی جانے والی کتاب ہے، جس میں مذہب، فلسفہ اور جدید سائنس کی روشنی میں انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل، انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے منفی اور قانون دشمن خیالات، عدم توازن پر مبنی ذہنی، روحانی، کیمیائی اور جینیاتی تشکیل کے ساتھ خوشی اور ذہنی سکون جیسے موضوعات پر بحث کرتی ہے۔ مصنف نے سائنس اور منطق کے ساتھ مجرمانہ نفسیات سے نجات پانے کے لیے قرآن مجید کی تعلیمات کو بھی بنیاد بنایا ہے۔ یہ کتاب قانون دانوں کے ساتھ جرمیات ونفسیات کے طلبہ اور محققین کے لیے بھی قابل قدر حیثیت کی حامل ہے۔
خدائی خدمت گار تحریک
مصنف: احمد,ترجمہ: قاسم جان،طابع: پختون تھنکرز فورم
صفحات: 511،قیمت: 825
انگریز کی بہ طور حکم راں ہندوستان آمد حکم رانوں کی تبدیلی ہی نہ تھی بل کہ مقتدر قوت کی تبدیلی کے ساتھ اہل ہند کو ایک نئی معاشرت، تہذیب اور اجنبی افکار کا بھی سامنا تھا، اس صورت حال نے درۂ خیبر سے خلیجِ بنگال تک پھیلے رنگارنگ مگر قدامت میں یکساں سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ یہ فکری ٹوٹ پھوٹ اور سماجی اکھاڑ پچھاڑ نے اس خطے کو شعروادب اور علم وفکر کی قدآور شخصیات دینے کا باعث بنی اور اسی گمبھیرتا میں آزادی، تبدیلی اور اصلاح کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ''خدائی خدمت گار'' بھی ایک ایسی ہی تحریک تھی۔ سیاسی تحریکیں اور قیادتیں سماج کی امنگوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرکے مقبولیت پاتی اور اپنے اہداف کا حصول ممکن بناتی ہیں، لیکن اصلاحی تحریکیں اور اصلاح پسند راہ نما بہتے دھارے کے مخالف چلتے اور رجحانات وروایات سے ٹکراتے ہیں۔
خدائی خدمت گار آزادی کے لیے مصروفِ جدوجہد ہونے کے ساتھ اصلاحی تحریک بھی تھی۔ اس تحریک کے بانی خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان نے اس پختون سماج میں عدم تشدد کا نعرہ لگایا جہاں بندوق روایت اور ثقافت کا لازمی جزو تھی۔ اسی طرح وطن کی آزادی کے ساتھ اس تحریک نے اہل وطن میں تعلیم عام کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ یوں خدائی خدمت گار تحریک برصغیر کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں ایک علیحدہ اور روشن باب رکھتی ہے۔ یہ کتاب اس تحریک کے قیام، افکار، جدوجہد اور قربانیوں کی داستان سناتی ہے۔ اصلاً یہ کتاب پشتو میں لکھی گئی، جس کے مصنف اس تحریک کو اپنی زندگی کا ایک حصہ دینے والے احمد کاکا نے تحریر کیا اور یہ ان کے چشم دید واقعات پر مبنی ہے۔ اس کتاب کو قاسم جان نے سادہ اور رواں زبان میں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ہماری تاریخ کی اس بہت اہم اور منفرد تحریک پر لکھی جانے والی یہ کتاب برصغیر کی تاریخ وسیاست سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو مطالعے کی دعوت دے رہی ہے۔