وہ سات سال تک پیدل سفر کرے گا

ال سالوپک بھی مغرب کا ایک ایسا ہی سپوت ہے جس کے اندر تخلیق اور تحقیق کی روح پوری طرح بیدار ہے

پال سالوپک اپنے الف لیلوی سفر میں ان راستوں پر چلے گا جو قبل از تاریخ انسانی ہجرت کے لیے استعمال ہوئے۔ فوٹو: فائل

اہل مغرب کی تخلیقی اور تحقیقی رو ح پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ایک مثال ہے۔وہ جستجو ، تلاش اور جدوجہد کا سفر ہمیشہ جاری رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج اس جہان رنگ و بو پر انہی کا سکہ چلتا ہے۔

۔اہل مغرب سے تحقیق و جستجو کا سبق سیکھ کر باقی دنیا کے انسان بھی ایسی کامیابی حاصل کرسکتے ہیںلیکن اس کے لیے انہیں قدامت کی تاریکیوں کو الوداع کہہ کر تحقیق و تخلیق کی روح کو اختیار کرنا ہوگا۔پال سالوپک بھی مغرب کا ایک ایسا ہی سپوت ہے جس کے اندر تخلیق اور تحقیق کی روح پوری طرح بیدار ہے اور اسے بے چین کیے ہوئے ہے۔

پال سالوپک پلٹزر انعام یافتہ صحافی ہے۔ وہ 2016 میں ایک کتاب لکھے گا۔وہ سات سال تک دنیا کا پیدل سفر کرے گا اور اس سفر کے بارے میں اپنے مشاہدات اور تجربات اس کتاب میں بیان کرے گا۔اس نے کتاب کا نام ''آئوٹ آف ایڈن'' رکھا ہے جس کا لفظی ترجمہ ''عدن سے اخراج'' ہے اور یہ حضرت آدم کے جنت سے نکالے جانے کی جانب اشارہ ہے۔ یہ کتاب عالمی اشاعتی ادارہ رینڈم ہائوس شائع کرے گا۔ سالوپک کا یہ سفر کوئی عام پیدل سفر نہیں بلکہ اس کے دوران وہ دنیا کے ان راستوں پر چل کر اپنی منزل پر پہنچے گا جن پر گذشتہ ساٹھ ہزار سال کے دوران قدیم زمانے کے انسانوں نے سفر کیا تھا اور ان راستوں پر چلتے ہوئے پوری دنیا میں پھیل گئے تھے۔وہ اس سفر کا آغاز افریقہ کے مشہور لیکن غریب ترین ملک ایتھوپیا (حبشہ) سے کرچکا ہے جسے قدیم انسانوں کی اولین آبادی قرار دیا جاتا ہے۔



اس کے سفر کی تفصیل کچھ یوں ہے: 2013 میں ایتھوپیا سے اپنے سفر کا آغاز کرکے وہ مختلف افریقی و ایشیائی ملکوں جبوتی ، اریٹیریا ، یمن اور سعودی عرب سے گذرتا ہوا اسرائیل پہنچے گا ۔ اس کے بعد وہ منزلیں مارتا ہوا 2013 کے اختتام تک اردن پہنچ جائے گا۔ 2014 تک وہ تاجکستان پہنچ جائے گا اور 2015 میں دھرم شالہ انڈیا پہنچے گا۔دھرم شالہ سے چلتا ہوا وہ 2016 میں چینی صوبے یونان پہنچے گا جو کہ برما کے ساتھ واقع ہے۔وہاں سے وہ چین کے وسیع وعریض ملک سے گذرتا ہوا 2017 کے لگ بھگ روس پہنچ جائے گا۔ روس کے وسیع میدانوں اور سلسلہ کوہ سے گذر کر 2018 میں وہ کشتی کے ذریعے برفانی براعظم الاسکا پہنچے گا اور 2019 میں نیومیکسیکو کے شہر کولمبس پہنچ جائے گا اور اسی سال وہاں سے اپنی آخری منزل چلی کے شہر ٹیرا ڈیل فیوگو پہنچے گا۔

پال سالوپک کا یہ سفر اکیس ہزار میل فاصلے پر مشتمل ہوگا۔اس سفر میں وہ چار براعظموں سے گذرے گا۔ہومو سیپی این یعنی ابتدائی انسان نے بھی ساٹھ ہزار سال قبل دنیا کو اسی طرح دریافت کرنا شروع کیا تھا اور قافلوں اور گروہوں کی شکل میں انہی راستوں پر چل کر دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہوئے تھے۔سالوپک نے اپنے سفر کا روٹ تازہ ترین فاسلز کے نمونوں اور جینیاتی دریافتوں کو استعمال کرکے طے کیا ہے۔ اس کے سفر کا ریکارڈ باقاعدگی کے ساتھ عالمی سائنسی و تحقیقی جریدے ''نیشنل جیوگرافک'' کی ویب سائٹ بعنوان outofedenwalk.nationalgeographic.com. پر پیش کیا جارہا ہے۔اس کے اس الف لیلوی سفر کا ابتدائی بیان ''نیشنل جیوگرافک'' میگزین نے ٹائٹل سٹوری کے طورپر شائع کیا ہے جو کچھ یوں ہے:

میں ٹھوکریں کھاتا ، گرتا پڑتا اور بچتا سنبھلتا آگے بڑھ رہا ہوں۔ میں چلتا جارہا ہوں۔میں روزانہ اس طرح چلتا جارہا ہوں۔اگلے سات سال تک میں یوں ہی چلتا رہوں گا۔میں اس سفر کے دوران چار آباد براعظموں سے گذروں گا جو کہ لگ بھگ پوری دنیا ہے۔



میں ایک سفر پر ہوں۔ یہ سفر نہیں بلکہ ایک تصوراتی خیال ہے۔ایک کہانی ہے۔ایک دیومالا ہے۔ شاید ایک بے وقوفی بھی۔ میں بھوتوں کے تعاقب میں ہوں۔میں نے جہاں سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے وہ انسانیت کا گہوارہ ہے ۔ اسے مشرقی افریقہ کی عظیم وادی کہا جاتا ہے۔میں ان نقوش پا پر چل رہا ہوں جن پر ساٹھ ہزار سال پہلے ہمارے آباواجداد نے سفر کرکے دنیا کو دریافت کیا تھا۔ہم ان قدیم انسانوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔لیکن فاسلز سے ملنے والے شواہد اور جینو گرافی کے ذریعے میں اس روٹ کو متعین کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں جو کہ قدیم انسانوں کے سفرکا راستہ تھا۔

آپ پوچھیں گے کہ میں یہ سفر پیدل کیوں کررہا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ ایک انسان کی رفتار کے ساتھ سفر کروں جو کہ تین میل فی گھنٹہ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔اس دوران جب چاہوں اپنی رفتار کو کم کردوں۔کچھ سوچوں ۔ کچھ لکھوں۔واقعات کو بیان کروں۔تیزرفتار مصنوعی سفر کے دوران جو بہت کچھ دیکھنے سے رہ جاتا ہے، اس کو دیکھوں۔میں اسی طرح چلتا ہوں جس طرح سب چلتے ہیں ۔ میں یاد رکھنے کے لیے چلتا ہوں۔

ایتھوپیا میں جو صحرا ہے۔ وہ انسان کا قدیم ترین راستہ ہے جسے اس نے اپنی ہجرت کے لیے استعمال کیا۔لوگ آج بھی اس صحرا میں سفرکرتے ہیں۔وہ بھوکے ، غریب ، موسم کے مارے اور جنگ سے بھاگتے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں کوئی ایک ارب انسان ہجرت کے راستوں پر چل رہے ہیں۔ہم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اجتماعی ہجرت کے زمانے میں جی رہے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ہمیشہ کی طرح آخری منزل تاحال دکھائی نہیں دے رہی۔جبوتی شہر میں افریقی مہاجرین کوڑے کرکٹ سے اٹے ساحل پر کھڑے اپنے موبائل ہوا میں لہرا رہے ہیں اور ہمسایہ ملک صومالیہ سے سگنل پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔میں نے انہیں بڑبڑاتے ہوئے سنا: اوسلو ، میلبورن ، مینیسوٹا۔



ہیرتو بوری ، ایتھوپیا میں

اب ہم ایتھوپیا کے صحرائی قصبے ہیرتو بوری میں ہیں جو کہ ملک کے ایفاری خطے میں واقع ہے۔

''آپ کہاں جارہے ہیں؟'' ایک ایفاری باشندے نے پوچھا۔

''شمال میں جبوتی کی طرف۔۔۔۔'' میں نے جواب دیا۔ اب میں چلی کے شہر ٹیراڈیل فیوگو کا نام تو نہیں لے سکتا کیونکہ چلی یہاں سے بہت دور ہے۔۔۔۔۔بہت دور۔۔۔۔

''آپ کا دماغ تو نہیں خراب۔۔۔۔'' ایفاری باشندے نے کہا۔

اس کے جواب میں میرا ایتھوپین گائیڈ محمد علامہ حسن ہنسنے لگا۔ وہ ہمارے چھوٹے سے قافلے جو کہ ہم لوگوں اور دو اونٹوں پر مشتمل ہے ، کی رہنمائی کررہا ہے۔وہ کئی بار میرا مذاق اڑا چکا ہے۔اس کے نزدیک میرا سفر ایک مذاق دکھائی دیتا ہے۔بھلا کوئی سات سال تک پیدل بھی چل سکتا ہے۔بھلا اتنا طویل سفر اوراس کے دوران آنے والی تکالیف ، تنہائی ، بے یقینی ، خوف ، تھکاوٹ اور بیماری کو کون برداشت کرسکتا ہے۔وہ میرے سفر کے خیال کا باتوں باتوں میں ٹھٹھہ اڑائے جارہا تھا۔جس بے ڈھنگے انداز میں ایتھوپیا سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا ، اس کو دیکھتے ہوئے اس کا مذاق اڑانا بنتا بھی تھا۔ لیکن بہرحال۔۔۔۔۔

اگلی صبح فجر کے وقت میں جاگا تو ہم گرد سے اٹے ہوئے تھے۔یہ علاقہ علامہ کا گائوں بھی تھا۔میں ، علامہ اور وہاں پر موجود دیگر جانورگرد میں چھپ چکے تھے۔ وہاں اور بہت سے مویشی موجود تھے لیکن بدقسمتی سے ہمارے اونٹ نہیں تھے۔میں نے اس سفر کے لیے جو اونٹ کرائے پر حاصل کیے تھے ، وہ اور ان کے دو خانہ بدوش اونٹ بان محمد اداحس اور قادر یاری بھی غائب تھے۔وہ کہیں دکھائی نہ دیے تو ہم وہیں مٹی میں بیٹھ گئے اور ان کاانتظار کرنے لگے۔سورج نکل آیا اور دھیرے دھیرے گرم ہونے لگا۔مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔مشرق میں وادی کے پار ہمارا پہلا سرحدی علاقہ جبوتی کا بارڈر تھا۔جبوتی کے بارے میں آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ ہر سال ایک انچ کے تین چوتھائی کے برابر پیچھے کھسک رہا ہے اور یہ وہ رفتار ہے جس کے ساتھ جزیرہ نما عرب ، افریقہ سے دور ہٹ رہا تھا۔



''کیا تمہارا دماغ خراب ہے؟''

''نہیں؟''۔۔۔۔''ہاں؟''۔۔۔۔''شاید؟''

ایفار کی تکون شمال مشرقی افریقہ کا وہ خطہ ہے جو پانی سے محروم چاند کا خطہ دکھائی دیتا ہے۔یہاں کا درجہ حرارت ایک سو بیس فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ نمک کی چٹانیں اس قدر چمک دار ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔تاہم آج یہاں پر بارش ہوئی ہے۔علامہ اور میرے پاس واٹر پروف ٹینٹ موجود نہیں۔ہمارے پاس ایتھوپیا کا ایک جھنڈا ہے جسے علامہ نے اپنے جسم کے ساتھ لپیٹ رکھا ہے۔ہمیں دو اونٹ مل گئے ہیں جنہیں ہم نے کرائے پر لے لیا ہے۔

بارہ تیرہ میل کا سفر کرنے کے بعد علامہ واپس جانے کی بات کررہا ہے۔اصل میں وہ پیدل چلنے کے لیے امریکہ کے بنے جوتے لانا بھول گیا ہے۔وہ فلیش لائٹ ، ہیٹ اور سیل فون بھی بھول آیا ہے۔چنانچہ اس نے ایک گاڑی پر لفٹ لی اور واپس اپنے گائوں یہ چیزیں لینے چلا گیا۔اب وہ واپس پہنچ چکا ہے۔وہ کبھی ہنس رہا ہے اور کبھی منہ بسور رہا ہے۔

یہ غائب دماغی کوئی انوکھی چیز نہیں۔ اس قسم کے بڑے پیدل سفر پر جاتے ہوئے ہر چیز کو یاد رکھنا ممکن نہیں۔میں خود بھی کچھ چیزیں بھول گیا تھا جیسے کہ نائلون کا تھیلا۔یہی وجہ ہے کہ اب میں ہوائی جہاز میں استعمال کیے جانے والے سامان کا بیگ استعمال کررہا ہوں جسے میں نے اونٹ پر لٹکا رکھا ہے۔

یہ ''مڈل اواش ریسرچ پراجیکٹ '' کے سائنس دان تھے جنہوں نے مجھے اس سفر کا آغاز ایتھوپیا کے اس علاقے یعنی ہیرٹو بوری سے کرنے کامشورہ دیا تھا۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے انسانوں کی قدیم ترین باقیات ملیں جنہوں نے اس خطے کو انسان کی قدیم ترین آبادی ثابت کیا۔ان میں انسانوں کی قدیم ترین نسل ''ہوموسیپی این اڈالٹو'' بھی تھے جو کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سال پہلے دنیا میں موجود تھے جن کی جدید ترین شکل آج کا انسان ہے۔میرا گائیڈ علامہ بھی ان سائنس دانوں کے ساتھ کام کرچکا ہے اور فاسلز کی تلاش میں ان کا بہت مددگار رہا ہے۔ علامہ کا تعلق خانہ بدوشوں کے ایک ایسے قبیلے سے ہے جس کے جنگجو بہت جی دار رہے ہیں۔علامہ تین زبانیں بول سکتا ہے جن میں ایفار ، امہارک اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی شامل ہے جو کہ اس نے مڈل اواش پراجیکٹ کے سائنس دانوں کے ساتھ کام کے دوران سیکھی۔وہ انگریزی کے کچھ الفاظ جیسے ''وائو''، ''کریزی مین'' اور ''جیزز'' تواتر سے بولتا ہے۔مجھے وہ مذاق میں ''گورا گدھا'' کہتا ہے تو میں اسے ''کالا گدھا'' کہتا ہوں۔



ڈالی فاگی ، ایتھوپیا


اب ہم ڈالی فاگی کے علاقے میں ہیں۔ یہ بھی ایتھوپیا کا علاقہ ہے۔اس خطے میں پانی سونے کی طرح قیمتی ہے۔اس میں حیرانی کی بات نہیں۔یہ دنیا کا گرم ترین صحرا ہے۔ اس علاقے میں تین دن کے سفر کے بعد ہمیں صرف ایک مرتبہ معجزاتی طورپر پانی کا گڑھا دکھائی دیا جس سے ہم نے اپنے اونٹوں کی پیاس بجھائی۔لیکن صرف ایک دن بعد ہمیں پانی کا ایک اور تالاب دکھائی دیا۔یہ نخلستان تھا جو ڈالی فاگی گائوں میں واقع تھا۔

یہ گائوں ایتھوپیا ، جبوتی اور اریٹیریا کے سنگم پر واقع ہے اور 1920 کی دہائی تک اس علاقے کا نقشہ تک نہیں بنا تھا۔صدیوں تک اس علاقے کے ایفار باشندوں نے یہاں حکومت کی اور بیرونی حملوں کی بے جگری کے ساتھ مزاحمت کی۔یہ آج بھی مسلح رہتے ہیں۔ایک تیزدھار خنجر اور کلاشنکوف رائفل ان کے محبوب ہتھیار ہیں لیکن ساتھ ہی ایک موبائل فون بھی ہروقت اپنے پاس رکھتے ہیں۔ڈالی فاگی گائوں میں ایک پاور پلانٹ پر کام کرنے والے سرکاری اہلکار ملوکان ایالو کے بقول موبائل فون ان لوگوں کو طاقت دیتا ہے۔اس کے ذریعے بکروں کے بیوپاریوں سے رابطہ کرسکتے ہیں اور کاروبار کرسکتے ہیں۔

ڈالی فاگی کا ڈیزل سے چلنے والا پاور پلانٹ روزانہ چھ گھنٹے بجلی فراہم کرتا ہے۔ایالو یہاں پرخانہ بدوشوں کے موبائل فونز کی بیٹریاں بھی چارج کرتا ہے اور اس کے لیے چند سینٹ قیمت وصول کرتا ہے۔پیر کے دن جب مارکیٹیں دوبارہ کھلتی ہیں تو اس کے دفتر کے باہر موبائل فون چارج کرانے کے لیے آنے والوں کا رش لگا ہوتا ہے۔ان کی جیبوں میں دوردراز کے رشتے داروں کے موبائل فون بھرے ہوتے ہیں جن کو وہ چارج کرانے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔یہ خانہ بدوش لوگ موبائل فون کے بری طرح عادی ہوچکے ہیں۔

تلالاک دریا کے قریب

جوتے جدید شناخت کا اہم ترین نشان بن چکے ہیں۔آج لوگوں کے پیروں میں موجود جوتوں کو دیکھ کر ان کے رتبے کا اندزہ لگالیا جاتا ہے۔لیکن ایتھوپیا کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پر تمام مرد ، عورتیں اور بچے ہر موقع پر ایک ہی قسم کی پلاسٹک کی چپل پہنتے ہیں۔ چمڑے اور دیگر سامان سے بنے فیشن ایبل جوتوں کی ورائٹی کا یہاں کوئی تصور نہیں۔یہاں پر سستے جوتے سب کے لیے عام ہوچکے ہیں۔یہ ٹھنڈے ہیں اور ان میں ہوا آسانی سے آتی جاتی ہے۔ یہ ری سائیکل ہوسکتے ہیں۔ یہاں پر ایک اور واقعہ ہوا۔ہمارے پہلے کرائے والے اونٹ اور اونٹ بان محمد اداحس اور قادر یاری ہمیں یہاں پر آن ملے۔ یہاں کی روایت کے مطابق نہ ہم نے ان سے کچھ پوچھا اور نہ ہی انہوں نے بتایا کہ وہ اتنے دن کہاں رہے۔وہ بہت تاخیر سے آئے تھے لیکن اب ہمارے ساتھ تھے۔انہوں نے بھی پیروں میں وہی پلاسٹ کے چپل پہن رکھے تھے۔اگلے روز علامہ زمین پر بنے چپل کے نشان کو غور سے دیکھنے لگا۔

''لاد ہووینی ہمارا انتظار کررہا ہوگا۔'' وہ چپل کے نشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔لاد ڈالی فاگی میں تھا۔



ایتھوپیا میں ہادار کے قریب

ہم وارنسو کی سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ میں اور علامہ سخت گرمی میں بیس میل کاسفر کرچکے ہیں۔آثار قدیمہ کے مقام کا معائنہ کرنے کے لیے ہم اپنے اونٹوں سے الگ ہوگئے۔گونا نامی یہ مقام وہ جگہ ہے کہ جہاں سے چھبیس لاکھ سال پرانے انسانی اوزار دریافت ہوچکے ہیں۔لیکن اس وقت ہمیں ایک اور فکر لاحق ہے۔ہماری پانی کی بوتلیں خالی ہوچکی ہیں۔ہمیں شدید پیاس لگی ہوئی ہے۔سورج سر پر ہے۔یہاں پر پیاس لگنے کی صورت میں لازمی ہے کہ آپ چلتے رہیں۔چلتے رہنے کی صورت میں امکان ہے کہ کوئی آپ کومل جائے گا۔اگر آپ کہیں کسی درخت کے سائے میں رک گئے تو سمجھیں مارے گئے کیونکہ کوئی آپ کو ڈھونڈ نہیں سکے گا۔چنانچہ ہم بھی چلتے رہے ۔ آخرکار ہمیں بکریوں کے ممیانے کی آوازیں سنائی دیں۔ہم مسکرائے۔ اب ہم سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔بکریوں کا مطلب ہے کہ وہاں لوگ موجود ہیں۔

یہاں ہماری میزبان دو ایفاری عورتیں ہیں جو ایک پہاڑی پرموجود ہیں۔وہاں آٹھ بچے جنہوں نے چیتھڑوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے ، بھی کھیل رہے ہیں۔اس کے علاوہ ایک انتہائی بوڑھی عورت ہے جسے اپنی عمر کا بھی علم نہیں۔اس کا نام حسنہ ہے اوروہ کوئی شے بْن رہی ہے۔بوڑھی عورت نے ہمیں قریب آنے کو کہا۔ان عورتوں نے ہمیں پانی پلایا اور کچھ جنگلی بیریاں کھلائیں۔ہمیں کچھ توانائی ملی۔ حسنہ اس وقت ہمیں اپنی ماں معلوم ہورہی ہے۔اس کی شفقت بھری آواز سے میری آنکھ لگ گئی۔

آج سے ساٹھ ہزار سال پہلے جب ہمارے آبائو اجداد افریقہ سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلے تو ان کا سامنا اپنے جیسے نیم انسانوں سے ہوا۔یہ انسانوں کی مختلف قسمیں تھیں جیسے ہومو نینڈر تھل، ہومو فلوریسائنس اور ڈینی سووانز وغیرہ، یا اور کئی قسم کے انسان جو ہمارے جیسے بالکل نہ تھے۔

ڈبٹی ، ایتھوپیا

شمال اور پھر مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے ہم نے صحرا کو الوداع کہا۔اب ہمارے پائوں نے جدید انسان کی ایک نشانی کو چھولیا ہے۔یہ اسفالٹ سے بنی سڑک ہے۔

یہ سڑک جبوتی ایتھوپیا روڈ کہلاتی ہے۔اس پر سے بھاری ٹرک گذر رہے ہیں۔ہم چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کے قریب سے گذرتے رہے۔ گرد اور ڈیزل کا دھواں ، شراب خانے ، دکانیں ، ٹھیلے۔اصل میں یہ ایک ایسا علاقہ ہے جسے مصنوعی طورپر سیراب کرکے گنے کی فصل لگائی گئی ہے۔یہ لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے شروع کیا جانے والا بھارت اور ایتھوپیا کا مشترکہ منصوبہ ہے۔یہاں شوگر ملیں ہیں اور ان ملوں کی وجہ سے یہ علاقہ باقی علاقے سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔یہاں پر جلد پچاس ہزار کے قریب مزدور کام کررہے ہوں گے۔ اواش دریا سے پانی نکال کر یہاں پر گنے کی فصلوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔اس منصوبے کی وجہ سے ایتھوپیا چینی پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن سکتا ہے۔یہ ایتھوپیا کے لیے بہت اچھا ہے۔اس سے ملک کا غیرملکی امداد پر انحصار کم ہوگا۔

لیکن اس منصوبے کی وجہ سے ایک مسئلہ نے بھی جنم لیا ہے۔گنے کی فصلیں کاشت کرنے کے لیے علاقے کو تحویل میں لینے کے بعد کمپنی وہاں پر رہنے والوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کررہی ہے۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جب اقتصادی ترقی ہوتی ہے تو اس میں کچھ لوگ جیتتے اور کچھ ہارتے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔علاقے کے لوگوں اور کمپنی میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور دونوں طرف سے خون بہتا ہے۔بہرحال ڈبٹی ایک ابھرتا ہوا علاقہ ہے۔ایتھوپیائی لوگ تیزی سے یہاں آرہے ہیں اور اپنے ساتھ نئی امیدیں ، ذائقے ، عزائم ، آوازیں ، ایک نیامستقبل او ر ایک نئی تاریخ بھی لارہے ہیں۔تبدیلی اسی کا نام ہے۔

ڈشوٹو کے قصبے میں پہنچ کر میں نے ایک پولیس سٹیشن پر اپنے لیپ ٹاپ کو ری چارج کیا۔یہاں تمام افسر باہر کے ہیں۔ یہ غیرایفاری ہیں۔تاہم یہ دوستانہ ، پرتجسس اور فراخ دل ہیں۔ انہوںنے مجھے اور علامہ کو چائے بھی پلائی جس میں چینی بہت تیز ہے ۔یہاں پر ایک ٹی وی بھی ہے جس پر حکومتی اشتہار چل رہے ہیں جن میں ایتھوپیا کو ترقی کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہے۔ پولیس افسران شوق سے ان اشتہارات کو دیکھ رہے ہیں۔ چائے پینے اور کچھ گپ شپ کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔



ایتھوپیا جبوتی بارڈر کے قریب

یہاں ہم نے فاطومہ پہاڑی کے دامن میں کیمپ لگایا۔ یہاں سے نیچے کی جانب چھوٹی سی جمہوریہ جبوتی پھیلی ہوئی ہے۔اس کی زیادہ تر سطح اگرچہ میدانی ہے لیکن یہ ایتھوپیا سے زیادہ گرم اورخشک ہے۔یہاں پر جھیلیں خشک پڑی ہیں۔اگرچہ پہلے جبوتی اور ایتھو پیا ایک ہی ملک تھے لیکن پھر سامراجی طاقتوں نے انہیں الگ کردیا۔یہاں پر میں نے اپنے افریقی گائیڈز علامہ ، ایداحس اور یاری کو خدا حافظ کہا۔ تینوں نے کہا کہ وہ میرے ساتھ آگے جائیں گے۔انہو ں نے خلیج عدن تک میرے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی۔لیکن یہ ممکن نہیں۔ان میں سے دو کے پاس کسی قسم کے پاسپورٹ یا کاغذات موجود نہیں ہیں جس سے ان کی شناخت ہوسکے۔اگرچہ وہ یہی کہے جارہے ہیں کہ یہ سارا ایفار کا علاقہ ہے۔اس کے علاوہ علامہ بیمار بھی ہے۔چنانچہ بارڈر پر واقع قصبے ہائولی میں ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہہ دیا۔

گذشتہ روز ہم نے اٹھارہ میل کا سفر کیا تھا اور ہمارے پاس راشن بہت کم تھا۔ہر ایک کے لیے نوڈلز کا ایک پیالہ اور چند بسکٹ تھے۔میری شادی کی انگوٹھی جو کبھی ہاتھ میں فٹ تھی ، اب ڈھیلی ہوکر جھول رہی ہے۔ایتھوپیا میں میرا ساتھ دینے والی ساتھی جاچکے ہیں۔میں انہیں یادکررہا ہوں۔

جبوتی میں ارد کوبا کا لاوا دیکھنا

اب میں جبوتی میں ہوں۔ جبوتی میں میرے پیدل سفر کو بیالیس واں دن ہوچکا ہے۔اس روز میں نے راستے میں انسانی لاشیں دیکھی ہیں۔یہ کل سات لاشیں ہیں جو سیاہ لاوے میں اس طرح پڑی ہیں جیسے آسمان سے گری ہوں۔زیادہ تر لاشیں برہنہ ہیں۔دراصل یہ لوگ گرمی سے مرے ہیں اور یقیناً گرمی اتنی شدید ہوگی کہ انہوں نے عالم دیوانگی میں اپنے کپڑے اتار پھینکے ہوں گے۔لاشیں گل سڑ چکی ہیں اور ان کا سامان ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے۔ان میں سے کئی کے اعضا غائب ہیں اور یقیناً یہ جنگلی جانوروں کی کارستانی ہے۔یہ لوگ ایتھوپیا، صومالیہ یا اریٹیریا سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ لیکن مرنے کے بعد اب وہ سب ایک ہوچکے ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو روزگار اور اچھے مستقبل کے لیے خلیج عدن کی طرف جارہے تھے۔عام طور پر یمنی سمگلر ان سے پیسہ لیکر انہیں مختلف خلیجی ملکوں کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کوشش میں بڑی تعداد میں لوگ بھوک وپیاس اور بیماریوں سے مرجاتے تھے جبکہ کچھ اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہرسال کوئی ایک لاکھ افراد جزیرہ نما عرب کی طرف آنے کی کوشش کرتے تھے۔

''یہ جرم ہے۔'' حسین محمد حسین نے چلا کر کہا۔''یہ ذلت ہے!''

حسین جبوتی میں میرا گائیڈ ہے۔وہ شاید غصے میں ہے یا شرمسارہے۔وہ اپنی لاٹھی کو ہوا میں لہرا رہا ہے جو کہ اس کے تلخ جذبات کا اظہار ہے۔ وہ لاشوں سے بہت آگے کی طرف چلا گیا ہے۔میں نے ماتھے پر سے پسینہ صاف کیا اور لاشوں کو غور سے دیکھنے لگا۔

ایک مرتبہ آبادیات کے ایک ماہر نے تخمینہ لگایا تھا کہ کرہ ارض پر آباد انسانوں کی ترانوے فیصد آبادی جو کہ لگ بھگ سو ارب بنتی ہے، ہم سے پہلے ختم ہوچکی ہے۔ہم سے زیادہ تعداد میں انسان ہم سے بہت پہلے مرچکے ہیں۔ ہماری بہت سی شکستیں اور بہت سی فتوحات ہم سے پہلے گذرچکی ہیں۔ہم روزانہ انہیں ماضی کے قبرستانوں میں دفن کرتے رہتے ہیں۔ یہ درست بھی ہے۔اگرچہ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ میں چیزوں کو یاد رکھنے کے لیے چل رہا ہوں۔یہ مکمل طورپر سچ نہیں۔جب ہم دنیا کی مختلف دریافتوں کو بار بار دریافت کرتے ہیں تو ہمیں پرانی دریافتوں کو فراموش کرنا ہوتا ہے۔چلتے رہنے کے لیے ، قائم رہنے کے لیے اور بیٹھ کر نہ رہنے کے لیے ہمیں فراموشی کا سفر بھی جاری رکھنا ہوتا ہے۔لگتا ہے حسین اس کو جانتا ہے۔وہ پلٹ کر نہیں دیکھتا۔

ایک روز بعد ہم خلیج عدن پہنچ گئے۔

یہ سرمئی پتھروں کا ساحل ہے۔لہریں چاندنی کی طرح جھاگ بکھیر رہی ہیں۔میں اور حسین مصافحہ کرتے ہیں۔ہم ہنستے ہیں۔حسین ایک پیکٹ کھول کر ذخیرہ شدہ کھجوریں نکالتا ہے۔یہ جشن کا سماں ہے۔ہم اس وقت افریقہ کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ میں یہاں تک پہنچ چکا ہوں ۔ ابھی میں نے بہت آگے جانا ہے۔میرے راستے میں بہت سے ملک آئیں گے جیسے بھارت، چین ، ایران اور روس وغیرہ۔ابھی تو پیدل چلتے ہوئے صرف لگ بھگ ڈیڑھ ماہ ہوا ہے۔یہ سفر سات سال تک جاری رہے گا۔(پال سالوپک کے سفر کاریکارڈ نیشنل جیوگرافک کی ویب سائٹ پر باقاعدگی سے پیش کیا جارہا ہے۔
Load Next Story