عقیدے سے ٹیکنالوجی کی رسوائی
آج بھی امریکا اور اس کے اتحادی جو علاقہ چھوڑ رہے ہیں ان پر طالبان قبضہ کر رہے ہیں۔
بیسویں صدی کے آخر سے لے کر آج تک ساری دنیا میں ایک ہی شور، ایک ہی رولا اور ایک ہی ہاہا کارمچی ہوئی ہے، امریکا، امریکا اور بس امریکا۔
ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیلی ہوئی زمین کی وسعت کی بات کریں یا فضاؤں، ہواؤں اور پانیوں کی، ظاہراً ایسا لگتا جیسے ہر جگہ امریکا کی چودھراہٹ، امریکا کی بادشاہت اور امریکا کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے۔ معیشت کا میدان ہو یا سیاست کا اکھاڑا، ٹیکنالوجی کی بات ہو یا عسکریت کا میدان، ہر میدان امریکا کا میدان نظر آتا ہے۔
طاقت کے نشے میں بدمست یہ سپر طاقت اسلامی دنیا کو روندتی اور بے گناہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہاتی ہوئی 2001ء میں افغانستان آن پہنچی، جہاں اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک آزاد مملکت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور طالبان حکومت کو ختم کرکے کابل کے تخت پر کٹ پتلی تماشہ اسٹیج کیا گیا جو آج بھی جاری ہے۔ طالبان نے امریکا کے غاصبانہ قبضے کو ایک لمحے کے لیے قبول نہیں کیا اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے گزشتہ دو دہائیوں سے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کی سپر طاقت سے مقابلہ کررہے ہیں۔
طالبان کی پاس عقیدہ ہے اور امریکا کے پاس دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی، یہ مفروضہ نہیں کھلی حقیقت ہے جسے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ عقیدے سے ٹیکنالوجی کی رسوائی کیسے ہورہی ہے، یہ بھی مفروضہ نہیں کھلی حقیقت ہے کہ پتھروں اور غاروں میں رہنے والے اللہ کے بندوں کے ہاتھ سے ایک کے بعد دوسری سپر طاقت کی ٹھکائی کیسے ہورہی ہے اور اب ٹھکائی کے بعد نام نہاد سپر طاقت پسپائی کا راستہ اختیار کرچکی ہے۔
افعانستان میں ایک سپر طاقت کی رسوائی نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ آخر کیوں اور کیسے روس جیسی خونخوار سپر پاور کو افعانستان کے مسلمانوں نے رسوا اور معذور کرکے افعانستان سے نکالا، افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کا انہدام عبرتناک تاریخ بن گیا ہے۔ اس کے طفیل وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک آزاد ہوئے، مشرقی یورپ کی کمیونسٹ حکومتیں گرگئیں، اْن ممالک نے بھی سْکھ کا سانس لیا جو 1955ء سے وارسا پیکٹ کے تحت سوویت یونین کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان حائل دیوارِ برلن کا دھڑن تختہ ہوا۔
جرمن، قومی و جغرافیائی وحدت میں جڑگئے، تب جرمنی کے جاسوسی ادارے کے سربراہ نے دیوارِ برلن کا ایک ٹکڑا پاکستانی ہم منصب کو یادگاری تختی میں سجا کردیا، جس پر تحریر تھا کہ ''یہ تحفہ اْن کے لیے جنھوں نے پہلی ضرب لگائی''۔ افغانستان میں روس کی شکست کو تو دنیا یہ کہہ کر"جسٹیفائی " کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ پوری اسلامی دنیا اور دنیا کا چوہدری امریکا بہادر کی مدد سے یہ ممکن ہوا۔ مگر اس بار ایک جانب امریکا ہے جس کے ساتھ چالیس سے زائد ممالک کی مشترکہ فوج نیٹو موجود تھی، بہت سے نان نیٹو اتحادی موجود تھے۔
مقابلے میں افغانستان کے بوری نشین ملا محمد عمر اور ان کے بوری نشین طالبان تھے جن پر امریکا نے افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے سمندراور فضا سے حملے شروع کیے اور پھر اپنے جدید ترین ہتھیاروں سے آگ برساتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوا اور 20سال کے دوران کئی مرتبہ بھاگنے کی کوشش کی مگر طالبان نے بھاگنے نہیں دیا۔
جب امریکا نے طالبان کے قدموں میں سر رکھ کر بھاگنے کے لیے وقت مانگا تو طالبان راضی ہوئے اور آج پوری دنیا کے سپر ڈان امریکا کی رہنمائی میں نیٹو افواج دم دبا کر بھاگنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، یہ اتحادی افواج افغانستان کی فضاؤں میں لہراتے ہوئے اپنے پرچم شکست خوردہ دلوں کے ساتھ اتار رہے ہیں۔
کیونکہ ان کے نئے گرو گھنٹال جوبائیڈن نے اعلان کردیا ہے کہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کو اب ختم کرنے کا وقت آگیا ہے، رواں سال ستمبر کے اوائل میں ہی امریکا اپنی اور اتحادی افواج کا انخلاء مکمل کرلے گا۔ افغان طالبان نے آج اکیسویں صدی میں بھی یہ بات روز روشن کی طرح ثابت کردی کہ جب فضائے بدر پیدا ہوجائے تو اللہ والوں کی نصرت کے لیے فرشتے آج بھی اتر سکتے ہیں۔
دو دہائیوں پر مشتمل اس جنگ میں جہاں سپر طاقت کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا وہاں اس کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس جنگ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 ء سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے لیکن اس میں پاکستان میں آنے والے اخراجات شامل نہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے ' کاسٹ آف وار' منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں امریکا کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ کانگریس نے افغانستان اور پاکستان میں آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔2001 میں جب سے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تب سے اب تک امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک امریکی فوج کے تقریباً تیرہ ہزار اہلکار افغانستان میں تھے لیکن وہاں تقریباً گیارہ ہزار امریکی شہری بھی تھے جو کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ لیکن افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے مقابلے میں امریکی ہلاکتوں کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے پچھلے سال کہا تھا کہ 2014 میں ان کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔ افغان جنگ کے اثرات نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اوردہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہم نے ستر ہزار جانیں لیں اور اربوں ڈالرز کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
دودہائیوں پر مشتمل طویل ترین جنگ نے ایک سپر طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ امریکا بیس سال سے افغانستان پر قابض رہا، یہاں اس نے اپنی کٹ پتلی حکومت بنائی لیکن اس کے باوجود آدھے سے زیادہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول تھا، جہاں ان کے احکامات کے مطابق روز مرہ کے معاملات چلتے تھے۔
آج بھی امریکا اور اس کے اتحادی جو علاقہ چھوڑ رہے ہیں ان پر طالبان قبضہ کر رہے ہیں، اشرف غنی کا اپنا گاؤں طالبان کے کنٹرول میں ہے، طالبان نے افغانستان اور افغان عوام کو سپر طاقت کے جبڑوں سے بچایا ہے، انھوں نے قطر، روس اور دیگر ممالک میں امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکراتی عمل میں بھی اپنی سیاسی بلوغت، دور اندیشی اور بیدار مغزی کا لوہا منوایا جس سے افغان عوام کا طالبان پر مزید اعتماد بڑھ چکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ افغانستان کے لوگ طالبان کے لیے نظریں کیوں بچھائے بیٹھے ہیں؟ ملا عمر کے دور میں میرے باباجان شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان رحمہ اللہ ڈیرھ سال تک جامعہ فاروقیہ کابل کے شیخ التفسیر اور شیخ الحدیث رہے اور ان کے درس قرآن وحدیث میں دنیا کے مختلف ممالک کے ہزاروں مجاہد ین شریک ہوتے تھے اور ریڈیو شریعت سے لائیو شو نشر بھی ہوتے تھے، طالبان کا افغانستان کیسا تھا، اس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہے مگرجب میں نے باباجان رحمہ اللہ سے یہ سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے حضرت عمر کے دور کو کتابوں میں پڑھا لیکن اس کی عملی تفسیرطالبان کے دور میں افغانستان کی گلی کوچوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
انشاء اللہ چمن میں وہ بہاریں پھر سے لوٹ کے آئیں گی، افغانستان کے عوام ایک بار پھر پرامن افغانستان دیکھیں گے۔ امریکا نے طالبان سے ایک پرامن افغانستان چھینا تھا، اصولی طور پر جب امریکا بھاگ رہا ہے اسے لٹا پٹا افغانستان طالبان کے ہی حوالے کرکے جانا چاہیے کیونکہ سب جانتے ہیں افغانستان کی خوشحالی اور امن کی کنجی طالبان کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے۔
ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیلی ہوئی زمین کی وسعت کی بات کریں یا فضاؤں، ہواؤں اور پانیوں کی، ظاہراً ایسا لگتا جیسے ہر جگہ امریکا کی چودھراہٹ، امریکا کی بادشاہت اور امریکا کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے۔ معیشت کا میدان ہو یا سیاست کا اکھاڑا، ٹیکنالوجی کی بات ہو یا عسکریت کا میدان، ہر میدان امریکا کا میدان نظر آتا ہے۔
طاقت کے نشے میں بدمست یہ سپر طاقت اسلامی دنیا کو روندتی اور بے گناہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہاتی ہوئی 2001ء میں افغانستان آن پہنچی، جہاں اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک آزاد مملکت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور طالبان حکومت کو ختم کرکے کابل کے تخت پر کٹ پتلی تماشہ اسٹیج کیا گیا جو آج بھی جاری ہے۔ طالبان نے امریکا کے غاصبانہ قبضے کو ایک لمحے کے لیے قبول نہیں کیا اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے گزشتہ دو دہائیوں سے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کی سپر طاقت سے مقابلہ کررہے ہیں۔
طالبان کی پاس عقیدہ ہے اور امریکا کے پاس دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی، یہ مفروضہ نہیں کھلی حقیقت ہے جسے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ عقیدے سے ٹیکنالوجی کی رسوائی کیسے ہورہی ہے، یہ بھی مفروضہ نہیں کھلی حقیقت ہے کہ پتھروں اور غاروں میں رہنے والے اللہ کے بندوں کے ہاتھ سے ایک کے بعد دوسری سپر طاقت کی ٹھکائی کیسے ہورہی ہے اور اب ٹھکائی کے بعد نام نہاد سپر طاقت پسپائی کا راستہ اختیار کرچکی ہے۔
افعانستان میں ایک سپر طاقت کی رسوائی نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ آخر کیوں اور کیسے روس جیسی خونخوار سپر پاور کو افعانستان کے مسلمانوں نے رسوا اور معذور کرکے افعانستان سے نکالا، افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کا انہدام عبرتناک تاریخ بن گیا ہے۔ اس کے طفیل وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک آزاد ہوئے، مشرقی یورپ کی کمیونسٹ حکومتیں گرگئیں، اْن ممالک نے بھی سْکھ کا سانس لیا جو 1955ء سے وارسا پیکٹ کے تحت سوویت یونین کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان حائل دیوارِ برلن کا دھڑن تختہ ہوا۔
جرمن، قومی و جغرافیائی وحدت میں جڑگئے، تب جرمنی کے جاسوسی ادارے کے سربراہ نے دیوارِ برلن کا ایک ٹکڑا پاکستانی ہم منصب کو یادگاری تختی میں سجا کردیا، جس پر تحریر تھا کہ ''یہ تحفہ اْن کے لیے جنھوں نے پہلی ضرب لگائی''۔ افغانستان میں روس کی شکست کو تو دنیا یہ کہہ کر"جسٹیفائی " کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ پوری اسلامی دنیا اور دنیا کا چوہدری امریکا بہادر کی مدد سے یہ ممکن ہوا۔ مگر اس بار ایک جانب امریکا ہے جس کے ساتھ چالیس سے زائد ممالک کی مشترکہ فوج نیٹو موجود تھی، بہت سے نان نیٹو اتحادی موجود تھے۔
مقابلے میں افغانستان کے بوری نشین ملا محمد عمر اور ان کے بوری نشین طالبان تھے جن پر امریکا نے افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے سمندراور فضا سے حملے شروع کیے اور پھر اپنے جدید ترین ہتھیاروں سے آگ برساتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوا اور 20سال کے دوران کئی مرتبہ بھاگنے کی کوشش کی مگر طالبان نے بھاگنے نہیں دیا۔
جب امریکا نے طالبان کے قدموں میں سر رکھ کر بھاگنے کے لیے وقت مانگا تو طالبان راضی ہوئے اور آج پوری دنیا کے سپر ڈان امریکا کی رہنمائی میں نیٹو افواج دم دبا کر بھاگنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، یہ اتحادی افواج افغانستان کی فضاؤں میں لہراتے ہوئے اپنے پرچم شکست خوردہ دلوں کے ساتھ اتار رہے ہیں۔
کیونکہ ان کے نئے گرو گھنٹال جوبائیڈن نے اعلان کردیا ہے کہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کو اب ختم کرنے کا وقت آگیا ہے، رواں سال ستمبر کے اوائل میں ہی امریکا اپنی اور اتحادی افواج کا انخلاء مکمل کرلے گا۔ افغان طالبان نے آج اکیسویں صدی میں بھی یہ بات روز روشن کی طرح ثابت کردی کہ جب فضائے بدر پیدا ہوجائے تو اللہ والوں کی نصرت کے لیے فرشتے آج بھی اتر سکتے ہیں۔
دو دہائیوں پر مشتمل اس جنگ میں جہاں سپر طاقت کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا وہاں اس کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس جنگ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 ء سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے لیکن اس میں پاکستان میں آنے والے اخراجات شامل نہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے ' کاسٹ آف وار' منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں امریکا کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ کانگریس نے افغانستان اور پاکستان میں آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔2001 میں جب سے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تب سے اب تک امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک امریکی فوج کے تقریباً تیرہ ہزار اہلکار افغانستان میں تھے لیکن وہاں تقریباً گیارہ ہزار امریکی شہری بھی تھے جو کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ لیکن افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے مقابلے میں امریکی ہلاکتوں کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے پچھلے سال کہا تھا کہ 2014 میں ان کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔ افغان جنگ کے اثرات نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اوردہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہم نے ستر ہزار جانیں لیں اور اربوں ڈالرز کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
دودہائیوں پر مشتمل طویل ترین جنگ نے ایک سپر طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ امریکا بیس سال سے افغانستان پر قابض رہا، یہاں اس نے اپنی کٹ پتلی حکومت بنائی لیکن اس کے باوجود آدھے سے زیادہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول تھا، جہاں ان کے احکامات کے مطابق روز مرہ کے معاملات چلتے تھے۔
آج بھی امریکا اور اس کے اتحادی جو علاقہ چھوڑ رہے ہیں ان پر طالبان قبضہ کر رہے ہیں، اشرف غنی کا اپنا گاؤں طالبان کے کنٹرول میں ہے، طالبان نے افغانستان اور افغان عوام کو سپر طاقت کے جبڑوں سے بچایا ہے، انھوں نے قطر، روس اور دیگر ممالک میں امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکراتی عمل میں بھی اپنی سیاسی بلوغت، دور اندیشی اور بیدار مغزی کا لوہا منوایا جس سے افغان عوام کا طالبان پر مزید اعتماد بڑھ چکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ افغانستان کے لوگ طالبان کے لیے نظریں کیوں بچھائے بیٹھے ہیں؟ ملا عمر کے دور میں میرے باباجان شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان رحمہ اللہ ڈیرھ سال تک جامعہ فاروقیہ کابل کے شیخ التفسیر اور شیخ الحدیث رہے اور ان کے درس قرآن وحدیث میں دنیا کے مختلف ممالک کے ہزاروں مجاہد ین شریک ہوتے تھے اور ریڈیو شریعت سے لائیو شو نشر بھی ہوتے تھے، طالبان کا افغانستان کیسا تھا، اس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہے مگرجب میں نے باباجان رحمہ اللہ سے یہ سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے حضرت عمر کے دور کو کتابوں میں پڑھا لیکن اس کی عملی تفسیرطالبان کے دور میں افغانستان کی گلی کوچوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
انشاء اللہ چمن میں وہ بہاریں پھر سے لوٹ کے آئیں گی، افغانستان کے عوام ایک بار پھر پرامن افغانستان دیکھیں گے۔ امریکا نے طالبان سے ایک پرامن افغانستان چھینا تھا، اصولی طور پر جب امریکا بھاگ رہا ہے اسے لٹا پٹا افغانستان طالبان کے ہی حوالے کرکے جانا چاہیے کیونکہ سب جانتے ہیں افغانستان کی خوشحالی اور امن کی کنجی طالبان کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے۔