کلبھوشن یادیو سے متعلق قانون سازی پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا شدید احتجاج
بھارتی جاسوس کے لیے قانون سازی کو ہماری نسلیں معاف نہیں کریں گی، احسن اقبال
اپوزیشن نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق قانون سازی پر قومی اسمبلی میں شدید احتجاج کیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں فردوس عاشق اعوان اور قادر خان مندوخیل کے درمیان ہاتھا پائی کے معاملے پر گفتگو ہوئی۔ مسلم لیگ ن کی زہرہ ودود فاطمی نے کورم کی نشاندہی کردی۔
کورم پورا ہونے پر اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ ایوان کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا دوسری طرف تلاوت کے فورا بعد کورم کی نشاندہی کرکے واک آؤٹ کرتے ہو، اس ایوان میں حکومت قانون سازی کیلئے اہم بلز لیکر آئی ہے، اپوزیشن اس قانون سازی کا حصہ بنے۔
پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر محترم نے اعتراض کیا کہ کورم کیوں پوائنٹ آؤٹ ہوا، اسلیے کہ تمام بل بغیر پڑھے ارکان سے پاس کروائیں گے، اس طرح کارروائی بلڈوز ہوتے ہم نے کبھی نہیں دیکھی، یہ بل نہ حکومتی ارکان نے پڑھے نہ اپوزیشن نے پھر بل پاس کرنے کا فائدہ؟
رانا تنویر حسین نے کہا کہ جس طرح دوروز قبل 10 بل ایک ہی روز میں منظور کرلئے گئے، اتنی جلدی اتنے بل منظور کرنا چاہتے ہیں جیسے بجٹ کے بعد آپ نے الیکشن میں جانا ہو، قائمہ کمیٹیاں غیر موثر ہوچکی ہیں۔
مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن کے مطابق قائمہ کمیٹیوں میں کام نہیں ہوتا، الیکشن ایکٹ نو ماہ قائمہ کمیٹی میں رہا اوراپوزیشن کمیٹی میں روڑے اٹکاتی رہی، ایک طرف الیکشن صاف شفاف کرانے کی بات کی جاتی ہے، دوسری طرف الیکشن ایکٹ پر بحث سے اپوزیشن گریزاں رہی۔
احسن اقبال نے کہا کہ آج معمول کی ایجنڈے پر اسی نکات کا شامل ہونا واضح ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، اسی وجہ سے آج حکومتی ارکان کی تعداد بھی زیادہ ہے، لگتا ہے کہ کوئی خاص کام ہونے جارہا ہے، آج حکومت خاموشی سے اس ایوان سے بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کیلئے بل پاس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، میرا ضمیر اور میری جماعت اس قانون کے پاس ہونے کا الزام اپنے سر نہیں اٹھا سکتا، خاص طور پر کلبھوشن کے لیے مخصوص قانون سازی کی اجازت نہیں دیں گے۔
احسن اقبال نے کہا کہ بھارتی جاسوس کے لئے قانون سازی کو ہماری نسلیں معاف نہیں کریں گی، کل تک کلبھوشن کا نام نہ لینا ایشو بنا لیا گیا تھا، ایجنڈے میں ایسے ایشو شامل کئے گئے جو بڑا مسئلہ بن جائیں گے، ہم یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس مقدس ایوان میں جاسوس کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے، حکومت کس طریقے سے یہ قانون سازی کر رہی ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ احسن اقبال آپ جو بات کر رہے ہیں وہ بھارت چاہتا ہے، میں سمجھتا ہوں آپ نے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ نہیں پڑھا، اور اگر پڑھ رکھا ہے تو مجھے بہت حیرت ہے کہ آپ یہ بات کر رہے ہیں، اگر ہم یہ قانون نہیں لے کر آئیںگے تو عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، میں آپکے سامنے یہ سارا فیصلہ پڑھ دیتے ہیں جس کا پیرا 146 یہ ہے کہ کلبھوشن کو پھانسی دینے کے فیصلے کو ریویو کرنا پڑے گا، یہی وہ قانون ہے جو فیصلے پر نظرثانی کو یقینی بنائے گا۔
اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں شدید نعرے بازی کی گئی، مودی اور کلبھوشن کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے، کلبھوشن کو پھانسی دو کے نعرے لگائے گئے۔ اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا اور شدید احتجاج کیا۔
اسپیکر نے اپوزیشن کو فلور دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب متعلقہ بل کی باری آئے گی تب ہی بولنے دوں گا۔
عالمی عدالت انصاف (نظرثانی و غور) بل 2020ء منظور
قومی اسمبلی میں عالمی عدالت انصاف (نظرثانی و غور) بل 2020ء کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس بل کی منظوری سے تمام غیر ملکیوں کو فوجی عدالتوں کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق مل جائے گا۔ اس قانون سے پاکستان میں فوجی عدالت سے سزا پانے والے بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کا حق مل جائے گا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ کلبھوشن کو (ن) لیگ کے دور میں قونصلر رسائی نہیں دی گئی، عالمی عدالت انصاف نے واضح طور پر اپیل کا قانون لانے کا کہا ہے، اگر یہ بل پاس نہ ہوتا تو بھارت یو این میں جاتا اور عالمی عدالت انصاف میں توہین کا مقدمہ درج کراتا۔
فروغ نسیم نے مزید کہا کہ یہ وہ قانون ہے جو اپوزیشن کو پاکستان کے مفاد میں مل کر منظور کرانا چاہیے تھا لیکن اپوزیشن نے آج بھارتی مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں فردوس عاشق اعوان اور قادر خان مندوخیل کے درمیان ہاتھا پائی کے معاملے پر گفتگو ہوئی۔ مسلم لیگ ن کی زہرہ ودود فاطمی نے کورم کی نشاندہی کردی۔
کورم پورا ہونے پر اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ ایوان کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا دوسری طرف تلاوت کے فورا بعد کورم کی نشاندہی کرکے واک آؤٹ کرتے ہو، اس ایوان میں حکومت قانون سازی کیلئے اہم بلز لیکر آئی ہے، اپوزیشن اس قانون سازی کا حصہ بنے۔
پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر محترم نے اعتراض کیا کہ کورم کیوں پوائنٹ آؤٹ ہوا، اسلیے کہ تمام بل بغیر پڑھے ارکان سے پاس کروائیں گے، اس طرح کارروائی بلڈوز ہوتے ہم نے کبھی نہیں دیکھی، یہ بل نہ حکومتی ارکان نے پڑھے نہ اپوزیشن نے پھر بل پاس کرنے کا فائدہ؟
رانا تنویر حسین نے کہا کہ جس طرح دوروز قبل 10 بل ایک ہی روز میں منظور کرلئے گئے، اتنی جلدی اتنے بل منظور کرنا چاہتے ہیں جیسے بجٹ کے بعد آپ نے الیکشن میں جانا ہو، قائمہ کمیٹیاں غیر موثر ہوچکی ہیں۔
مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن کے مطابق قائمہ کمیٹیوں میں کام نہیں ہوتا، الیکشن ایکٹ نو ماہ قائمہ کمیٹی میں رہا اوراپوزیشن کمیٹی میں روڑے اٹکاتی رہی، ایک طرف الیکشن صاف شفاف کرانے کی بات کی جاتی ہے، دوسری طرف الیکشن ایکٹ پر بحث سے اپوزیشن گریزاں رہی۔
احسن اقبال نے کہا کہ آج معمول کی ایجنڈے پر اسی نکات کا شامل ہونا واضح ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، اسی وجہ سے آج حکومتی ارکان کی تعداد بھی زیادہ ہے، لگتا ہے کہ کوئی خاص کام ہونے جارہا ہے، آج حکومت خاموشی سے اس ایوان سے بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کیلئے بل پاس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، میرا ضمیر اور میری جماعت اس قانون کے پاس ہونے کا الزام اپنے سر نہیں اٹھا سکتا، خاص طور پر کلبھوشن کے لیے مخصوص قانون سازی کی اجازت نہیں دیں گے۔
احسن اقبال نے کہا کہ بھارتی جاسوس کے لئے قانون سازی کو ہماری نسلیں معاف نہیں کریں گی، کل تک کلبھوشن کا نام نہ لینا ایشو بنا لیا گیا تھا، ایجنڈے میں ایسے ایشو شامل کئے گئے جو بڑا مسئلہ بن جائیں گے، ہم یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس مقدس ایوان میں جاسوس کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے، حکومت کس طریقے سے یہ قانون سازی کر رہی ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ احسن اقبال آپ جو بات کر رہے ہیں وہ بھارت چاہتا ہے، میں سمجھتا ہوں آپ نے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ نہیں پڑھا، اور اگر پڑھ رکھا ہے تو مجھے بہت حیرت ہے کہ آپ یہ بات کر رہے ہیں، اگر ہم یہ قانون نہیں لے کر آئیںگے تو عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، میں آپکے سامنے یہ سارا فیصلہ پڑھ دیتے ہیں جس کا پیرا 146 یہ ہے کہ کلبھوشن کو پھانسی دینے کے فیصلے کو ریویو کرنا پڑے گا، یہی وہ قانون ہے جو فیصلے پر نظرثانی کو یقینی بنائے گا۔
اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں شدید نعرے بازی کی گئی، مودی اور کلبھوشن کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے، کلبھوشن کو پھانسی دو کے نعرے لگائے گئے۔ اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا اور شدید احتجاج کیا۔
اسپیکر نے اپوزیشن کو فلور دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب متعلقہ بل کی باری آئے گی تب ہی بولنے دوں گا۔
عالمی عدالت انصاف (نظرثانی و غور) بل 2020ء منظور
قومی اسمبلی میں عالمی عدالت انصاف (نظرثانی و غور) بل 2020ء کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس بل کی منظوری سے تمام غیر ملکیوں کو فوجی عدالتوں کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق مل جائے گا۔ اس قانون سے پاکستان میں فوجی عدالت سے سزا پانے والے بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کا حق مل جائے گا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ کلبھوشن کو (ن) لیگ کے دور میں قونصلر رسائی نہیں دی گئی، عالمی عدالت انصاف نے واضح طور پر اپیل کا قانون لانے کا کہا ہے، اگر یہ بل پاس نہ ہوتا تو بھارت یو این میں جاتا اور عالمی عدالت انصاف میں توہین کا مقدمہ درج کراتا۔
فروغ نسیم نے مزید کہا کہ یہ وہ قانون ہے جو اپوزیشن کو پاکستان کے مفاد میں مل کر منظور کرانا چاہیے تھا لیکن اپوزیشن نے آج بھارتی مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی۔