پاک بھارت تعلقات میں اہم پیش رفت

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہش کے باوجود یہ زیادہ ترکشیدگی کا شکار رہے ہیں

خوش آیند ہے کہ سارک ملکوں کے کاروباری نمایندے اکٹھے ہو رہے اور باہمی تجارت کو فروغ دینے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں. فوٹو:فائل

لاہور:
پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی جانب نئی پیشرفت ہوئی ہے اور یہ دوستانہ تعلقات کے نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ جنگی میدان میں ایک دوسرے کے حریف ممالک خطے کے تقریباً سوا ارب انسانوں کو باہمی منڈیوں تک بلا امتیاز رسائی دینے پر متفق ہو گئے ہیں۔ اب دونوں ممالک کے درمیان واہگہ کے راستے پورا ہفتہ چوبیس گھنٹے تجارت ہو گی۔ نئی دہلی میں سارک ممالک کے کاروباری نمایندوں کی تین روزہ کانفرنس کے موقع پر پاکستانی وزیر تجارت اور بھارتی وزیر تجارت کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے وزراء تجارت نے پاک بھارت دو طرفہ تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو تیز کرنے' انھیں وسعت دینے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے ایک دوسرے کو اپنی منڈیوں تک بلا امتیاز رسائی فراہم کرنے' دونوں ممالک کے بینکوں کی برانچز کھولنے سمیت باہمی تجارت کے فروغ کے لیے کیے گئے فیصلوں پر رواں ماہ کے آخر تک عملدرآمد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہش کے باوجود یہ زیادہ ترکشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے اس مسئلے پر جنگیں لڑنے کے باوجود حتمی نتیجہ نہ نکلنے پر دونوں ممالک نے بالآخر مذاکرات کا راستہ اپنایا۔ اعلیٰ سطح پر کئی بار مذاکرات ہوئے مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے تاہم اس سے یہ تاثر ضرور قائم ہوا کہ باہمی تنازعات جنگ کے بجائے مذاکرات ہی کے ذریعے حل ہوں گے۔ میاں نواز شریف نے اپنے سابق دور حکومت میں بھی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی' ان کی یہ کوششیں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ پاکستان کی صورت میں بار آور ہوئیں۔ مگر وہ قوتیں جو پاک بھارت بہتر تعلقات کی خواہاں نہ تھیں اور دشمنی کی فضا قائم رہنے میں اپنی بقا سمجھتی تھیں' اس موقع پر سرگرم ہو گئیں اور دوستانہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں۔ میاں نواز شریف نے تیسری بار وزیراعظم بننے پر واضح عندیہ دے دیا کہ وہ بھارت سے ہر ممکن بہتر تعلقات قائم کرنے کے متمنی ہیں۔

حالات میں تبدیلی آ چکی ہے اور وہ قوتیں جو پاک بھارت دوستانہ تعلقات میں رکاوٹیں حائل کر رہی تھیں' اب کمزور ہو چکی ہیں' ان کا پروپیگنڈہ اب اتنا مضبوط نہیں رہا کہ وہ امن عمل کو سبوتاژ کر سکیں۔ پاکستان کو معاشی ترقی دینے کے لیے بھی یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ہمسایہ ممالک سے باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بہتر تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ یورپی ممالک بھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہمسایہ ممالک کے باہمی تجارتی تعلقات ہی معاشی مسائل کو حل کرنے اور ترقی کرنے میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں' اسی سوچ کے تحت یورپی یونین کا قیام عمل میں آیا اور آج ان کی مشترکہ کرنسی یورو کی قیمت عالمی مارکیٹ میں ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ جنوبی ایشیا کا یہ خطہ یورپ کے ممالک میں کہیں زیادہ پسماندہ اور معاشی مسائل کا شکار مگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اگرچہ اس خطے کے ممالک کے درمیان روابط بڑھانے کے لیے سارک تنظیم قائم کی گئی مگر پاک بھارت باہمی کشیدگی کے باعث وہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ مگر پھر بھی وہ باہمی رابطے کا ایک ذریعہ چلی آ رہی ہے۔


آج یہ امر خوش آیند ہے کہ سارک ملکوں کے کاروباری نمایندے اکٹھے ہو رہے اور باہمی تجارت کو فروغ دینے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ جس میں پہلی اہم پیشرفت پاک بھارت باہمی تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے اور اس کا حجم بڑھانے پر اتفاق کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے کئی بار کوششیں ہوئیں مگر لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باعث بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہوتا رہا۔ اب پاک بھارت تجارتی تعلقات میں بہتری پر اتفاق خوش آیند ہے مگر مستقبل میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی کوئی بھی کشیدگی ان تجارتی تعلقات کی راہ میں ایک بار پھر حائل ہو سکتی ہے۔ گو پاک بھارت عسکری حکام اس لائن آف کنٹرول کو پرامن رکھنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں لہذا اعلی سطح پر اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ بھارت نے پاکستان کو 1996ء میں موسٹ فیورٹ نیشن قرار دیا مگر پاکستان نے بھارت کے بارے میں ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا کیوں کہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ باہمی تجارت کا توازن یک طرفہ طور پر بھارت کے حق میں ہے اور بھارت کو توازن بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

اب پاکستان کے وزیر تجارت نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر تجارت سے مذاکرات سے قبل بی بی سی کو بتایا کہ این ڈی ایم اے یعنی منڈیوں تک بلا امتیاز رسائی کے نام سے ایک ایسے متوازی نظام پر غور کیا جا رہا ہے جسے ایم ایف این یعنی موسٹ فیورٹ نیشن کا متبادل کہا جا سکتا ہے' اب بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی منڈیوں تک رسائی پر اتفاق کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک نے جو اہم فیصلہ کیا ہے وہ واہگہ اٹاری بارڈر کو پورا ہفتہ 24 گھنٹے کھولنے پر اتفاق ہے اس سے دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں تیزی آئے گی' یہ تجارت کارگو کنٹینر کے ذریعے بھی کرنے پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ کنٹینر دو سے تین منٹ میں اسکین ہو جاتا ہے۔ دونوں ممالک میں ویزے کے حصول میں بھی بہت سے رکاوٹیں حائل ہیں' دونوں ممالک کو نا صرف کاروباری ویزے کا حصول آسان بنانا چاہیے بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی ویزے کے حصول میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنی چاہیے کیونکہ دونوں جانب کے بہت سے افراد کے رشتے دار سرحد پار رہتے ہیں۔

اس طرح شہریوں کی زیادہ سے زیادہ باہمی آمدورفت سے تعلقات میں زیادہ بہتر ی آئے گی۔ ان تعلقات کو صرف تجارت تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کا دائرہ علم و ادب' سائنس، زراعت' میڈیکل سمیت دیگر شعبوں تک بھی پھیلایا جائے۔ اگر دونوں ممالک سائنسی شعبے میں مشترکہ تحقیقاتی ادارے قائم کریں تو اس سے یہاں انقلاب آ سکتا ہے اور باہمی دشمنی کی فضا بھی آہستہ آہستہ چھٹتی چلی جائے گی اور ایک دن مسئلہ کشمیر بھی باہمی مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گا۔ بہر صورت پاک بھارت تجارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق خوش آیند ہے دیگر سارک ممالک کے ساتھ بھی باہمی تجارت کے فروغ کے لیے روابط کو مضبوط بنایا جائے تو اس خطے سے غربت اور جہالت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکتا ہے۔
Load Next Story