داخلی سیکیورٹی پالیسی تیار

ملک کی اولین انٹرنل سیکیورٹی پالیسی تیار کر لی گئی ہے جسے جلد وفاقی کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا


Editorial January 19, 2014
نئے سیکیورٹی پلان میں ان ہی علاقوں اور عمارتوں کی سیکیورٹی پر زور دیا گیا ہے جن کی سیکیورٹی میں پہلے بھی کوئی خاص کمی نظر نہیں آتی. فوٹو: فائل

ملک کی اولین انٹرنل سیکیورٹی پالیسی تیار کر لی گئی ہے جسے جلد وفاقی کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا ہے کہ اس سیکیورٹی پالیسی کے کماحقہ نفاذ پر تقریباً 28 ارب روپے کی رقم خرچ ہو گی۔ یہ اخراجات مختلف سیکیورٹی انتظامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ چوہدری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق حکومتوں کی ناقص پالیسیوں نے ملک کو غیر محفوظ کر دیا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ ملک پر مسلط کرنے کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سابقہ حکومتوں نے گزشتہ بارہ سال کے دوران نہ تو طالبان سے مفاہمتی بات چیت کی کوئی کوشش کی اور نہ ہی ان کے خلاف موثر کارروائی کی گئی جس کے نتیجے میں حالات بہت بگڑ گئے ہیں' اب وزیراعظم کی زیر ہدایت جس سیکیورٹی پالیسی کی منظوری دی جا رہی ہے اس میں وفاقی دارالحکومت کے ہائی سیکیورٹی زون سمیت اور راولپنڈی کے لیے دس ارب روپے سے زیادہ کی رقم سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے رکھی گئی ہے۔ ایوان صدر' پارلیمنٹ' پی ایم سیکریٹریٹ' پی ایم ہائوس سپریم کورٹ بلڈنگ' ڈپلومیٹک انکلیو کی حفاظت میں اضافے کے لیے بھی اربوں روپے کی رقوم خرچ ہونگی۔

اس سیکیورٹی پالیسی کے سرسری مطالعہ سے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ نئے سیکیورٹی پلان میں ان ہی علاقوں اور عمارتوں کی سیکیورٹی پر زور دیا گیا ہے جن کی سیکیورٹی میں پہلے بھی کوئی خاص کمی نظر نہیں آتی۔ وہاں پہلے ہی سخت ترین حفاظتی انتظامات موجود ہیں اور پہلے ہی ان کی سیکیورٹی پر حد سے زیادہ اخراجات کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ملک کے عوام جو نہتے ہیں اور جن کی حفاظت حکومت کا اولین اور بنیادی فرض ہونا چاہیے، نئے سیکیورٹی پلان میں ان عام لوگوں کی حفاظت کا کوئی ذکر نہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ سڑکوں اور بازاروں کو سیکیورٹی اہلکاروں سے بھر کر بھی اس وقت تک انھیں محفوظ نہیں بنایا جا سکتا جب تک عوام کی بنیادی ضروریات ان کے لیے ارزاں نہیں کی جاتیں کیونکہ بے چینی کی جڑیں بنیادی ضرورتوں کے پورے نہ ہونے سے ہی پھوٹتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی مخدوش سیکیورٹی میں بیرونی عناصر کی مداخلت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ کام ہماری سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہے کہ وہ ان معاملات کی نشاندہی کریں تا کہ ان پر قابو پایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں