مارشل لاء کے زمانوں میں صحافت کا ایک رنگ یہ بھی تھا
ایوب خاں کا زمانہ تھا اچانک ساری سیاسی سرگرمیاں معطل، وزیر سفیر اپنے اپنے کام سے فارغ، اسمبلیوں میں تالے پڑ گئے
مثل مشہور ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ کم از کم ہمارے ادب میں تو بری بھلی یہ روایت چلی آتی ہے کہ پچھلوں کو یاد رکھا جاتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ کس لکھنے والے نے کس قسم کے تجربے کیے' کیا کچھ لکھا' اس کی اب کیا قدر و قیمت ہے۔ صحافت میں یا شاید تخصیص کے ساتھ ہمارے ملک کی صحافت میں ایسی روایت نہیں ہے۔ سو ایک عہد کی صحافت اپنے وقت ہی سے غرض رکھتی ہے' پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی۔ اس کا خیال ہمیں اس واسطے سے آیا کہ ابھی ان ہی دنوں لاہور پریس کلب میں ریاض بٹالوی کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام تھا۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ نامور صحافیوں سے بڑھ کر کچھ اس زمانے کے ماہر ڈاکٹر یہاں نظر آ رہے تھے۔ اس پر یاروں کو تجسس تو ہونا ہی تھا۔ یہ اپنے وقت کے ماہر ڈاکٹر یہاں کس تقریب سے موجود ہیں۔ بے خبروں پر یہ راز اس وقت کھلا جب انھوں نے ریاض بٹالوی کی ان صحافیانہ سرگرمیوں پر، جس کا تعلق خدمت خلق سے تھا، خراج تحسین پیش کیا۔
یہ کچھ سنتے ہوئے ہمیں اس عہد کی صحافت اور جس بحران سے وہ اس وقت دو چار تھی اس حوالے سے کتنا کچھ یاد آیا۔
اصل میں وہ ایوب خاں کا زمانہ تھا۔ یعنی ملک کے پہلے مارشل لا کا زمانہ۔ اچانک ساری سیاسی سرگرمیاں معطل۔ وزیر سفیر اپنے اپنے کام سے فارغ۔ اسمبلیوں میں تالے پڑ گئے۔ سیاسی خبروں کا سلسلہ تو موقوف ہونا ہی تھا۔ اس پر بات بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ اور مارشل لا جو گُل کِھلا رہا تھا اس طرف اشارے کنائے میں بھی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ بس کچھ اس قسم کا نقشہ تھا کہ ؎
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
پھر اخبار والے کیا کریں۔ اخباروں کو جہاں سے مسالہ مہیا ہوتا تھا اس پر تو پرے بیٹھ گئے۔ ایسے ماحول میں ایک نیا اخبار 'مشرق' کے نام سے نمودار ہوا۔ اس کے سامنے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ کیا سیاست سے ہٹ کر بھی متبادل راستے ہیں جو اخبار کو غذا فراہم کر سکیں۔ اس سلسلہ میں مختلف تجربے کیے گئے' یہ سوچ کر کہ آخر قومی زندگی ایک خانے میں تو بند نہیں رہتی۔ انسانی زندگی رنگا رنگ ہے۔ کتنے اس کے پہلو ہیں۔ انھیں ذرا کھنگالا جائے۔ اس ضرورت کے تحت اس اخبار میں فیچر رائٹنگ پر خصوصی توجہ دی گئی۔
ابھی تک اردو صحافت میں فیچر رائٹنگ بس واجبی واجبی تھی۔ اس اخباری صنف میں اظہار کے جتنے امکانات ہیں انھیں کھنگالا ہی نہیں گیا تھا مگر ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اور وہ جو غالب نے کہا ہے کہ؎
پاتے نہیں گر راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اس دبائو میں ریاض بٹالوی ایک فیچر رائٹر بن کر ابھرے اور ایسے ابھرے کہ شہر میں ان کے فیچروں کا بہت چرچا ہوا۔ صحافی تو وہ پہلے سے چلے آ رہے تھے۔ لیکن شاید ان کے اندر جو صحافیانہ جوہر چھپا ہوا تھا وہ اب نمایاں ہوا۔ سیاست سے ہٹ کر انسانی دلچسپی کے معاملات اور عام خلقت کے مسائل اور بکھیڑے، انھیں اس فیچر نگار نے کریدنا شروع کیا اور یہاں تو گویا سونے کی کان تھی۔ کتنا کچھ برآمد ہوا۔ اور جس انداز سے ان معاملات کو پیش کیا گیا اس سے سمجھ لیجیے کہ اس فیچر کو پر لگ گئے۔
فیچروں کا ایک پورا سلسلہ ایک حقیقت ایک افسانہ' کے عنوان سے شروع ہوا۔ انسانی دکھ درد سے لبریز کیسی کیسی کہانی منظر عام پر آئی۔ سیدھا سچا واقعہ مگر اس رنگ کا کہ جیسے یہ کوئی افسانہ ہے۔ 47ء والے فسادات کو اور ہجرت کے واقعات کو ایک پورا زمانہ گزر چکا تھا۔ جو خاندان پاکستان کی طرف آتے ہوئے فسادیوں کے حملوں کی زد میں آ کر تتر بتر ہو گئے تھے۔ ان میں سے جو مرتے گرتے پاکستان آن پہنچے تھے وہ اب اپنے بچھڑے ہوئوں پر صبر کر کے بیٹھ گئے تھے۔ سمجھ لیا تھا کہ وہ کشتگان میں شامل ہو کر اللہ کو پیارے ہوئے۔ مگر جب ریاض بٹالوی نے ایسے خاندانوں کا اتا پتہ کیا اور جو ان پر گزری تھی اسے سن کر فیچر لکھے تو دور و نزدیک سے خط آنے شروع ہو گئے۔ پتہ چلا کہ جنھیں مرا ہوا جانا تھا وہ تو زندہ ہیں۔ اس طرح کتنے بچھڑے ہوئوں کا ملاپ ہوا۔
دکھ بیماری کے واقعات الگ۔ ایسے معاملات کے سلسلہ میں ریاض بٹالوی نے صرف فیچر لکھنے کو کافی نہیں سمجھا۔ بلکہ اسپتالوں سے رابطے قائم کیے اور ان کے ذریعہ علاج معالجے کا انتظام کیا۔ ایسے واقعات سے اس اخبار کو یہ اشارہ ملا کہ اخبار کے ذریعہ خدمت خلق کا فریضہ بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ سو اخبار میں ایک شعبہ اسی مقصد سے قائم کیا گیا جس کا انچارج بن کر ریاض بٹالوی نے بڑی سرگرمی سے یہ فریضہ انجام دیا۔ اس واسطے سے پتہ چلا کہ اس صحافی کے اندر تو ایک خادم خلق بھی چھپا بیٹھا تھا یعنی عبدالستار ایدھی کی نمود سے پہلے اسی قماش کا ایک صحافی۔
تو وہ جو کچھ ڈاکٹر اور اس نوع کا کام کرنے والے یہاں موجود تھے جیسے ڈاکٹر پروفیسر محمود علی ملک' ڈاکٹر پروفیسر اکبر چوہدری' حشمت آفندی (ستارہ امتیاز) ڈاکٹر مغیث الدین شیخ وہ اسی واسطے سے آئے ہوئے تھے۔ وہ کس خلوص سے ریاض بٹالوی کی ایسی خدمات کو یاد کر رہے تھے اور انھیں سراہ رہے تھے۔ ڈاکٹر اکبر چوہدری جو ان دنوں گنگارام اسپتال کے نگران اعلیٰ تھے ان سے ریاض کا ربط و ضبط بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس حد تک کہ روز کا یہ معمول ٹھہرا کہ پھول لے کر صبح ہی صبح گنگا رام پہنچنا۔ پہلے مریضوں سے جا کر طبیعت کا حال معلوم کرنا' پھر پھول پیش کرنا۔ اور اس کے بعد ڈاکٹر موصوف سے ملاقات کرنا۔
یہاں کہا جا رہا تھا کہ اس کام کا پورا ریکارڈ محفوظ کرنا چاہیے تھا۔ کون کیسے یہ کام کرتا۔ ایوب خاں اور یحییٰ خان کے مارشل لائوں سے بڑھ کر ضیاء الحق کا مارشل لاء اس پر بھاری پڑا۔ اور اتنا بھاری پڑا کہ اخبار نے اس بوجھ تلے آ کر آخر دم دیدیا۔ یہی ایک اخبار تھوڑا ہی تھا۔ ٹرسٹ کے شکنجہ میں پھنسے ہوئے سب اخبار پاکستان ٹائمز' امروز' ہفتہ وار' لیل و نہار۔ ہفتہ وار اخبار خواتین (کراچی) سب ہی کا خون اس ڈکٹیٹر کے سر ہے۔
مطلب یہ کہ مارشل لائوں کے جواب میں ایسے کام بھی ہوئے اور ایسے جوہر قابل بھی ان ظالم زمانوں میں نمودار ہوئے۔
پاکستانی صحافت پر ان بحرانوں میں کیا گزری۔ اس کی کیا کردگی رہی۔ یہ خود اپنی جگہ پر ایک داستان ہے۔