دو راستے
طالبان کے اکابرین کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ ان کی کارروائیوں کا نشانہ اکثروبیشتر بے گناہ اور معصوم شہری بنتے ہیں
GUJRANWALA:
جمعے کی شام ایکسپریس نیوز کیDSNGپردہشت گروں کے حملے میں تین صحافتی کارکن شہید ہوگئے۔ ایکسپریس گروپ پرچھ ماہ کے دوران یہ تیسرا حملہ تھا۔اس سے قبل دو حملے اس کے دفتر پر ہوچکے ہیں۔اس سے قطع نظر کہ حملہ آورکون تھے اور ان کی سوچ کیا تھی؟ایسے اقدمات کا مقصد اطلاعات ومعلومات کی آزادانہ رسائی میں رکاوٹ ڈالنا ہوتا ہے۔اس لیے یہ ذرایع ابلاغ سے وابستہ افراد سے زیادہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے، جن تک اطلاعات کی رسائی کے لیے شعبہ صحافت کے لوگ اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں۔ اس ملک کی سول سوسائٹی کا مسئلہ ہے، جو جاننے کے حق کاشعور رکھتی ہے۔ہمارے سامنے تو دو راستے ہیں۔اول،ہم جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہوتا دیکھتے رہیں اور اپنی زندگیوں اور مفادات کی خاطر اصل واقعات بیان کرنے سے دامن بچانے کی کوشش کریں۔دوئم،ہرقسم کے حالات سے نبردآزماء ہونے کے لیے ذہنی طورپر تیار ہوجائیں اوردہشت گردی کی پرواہ کیے بغیر اپنے ضمیر کی آواز پر جو سچ اور حق محسوس ہو،اس کا اظہار کرتے رہیں۔
ایک بار پھر یہ بتانا ضروری ہے کہ صحافت خواہ اخباری ہو یا الیکٹرونک میڈیا کی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔اول، عوام تک رونماء ہونے والے مختلف واقعات، حادثات اور سانحات کی فوری اطلاع بہم پہنچانا۔ دوئم ،اس خبر یا اطلاع کی مزید تفتیش کرکے اس کا پس منظر اور اس سے متعلق اعداد وشمارپیش کرنا اور خبر کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لینا۔ایک صحافی کے لیے سیاسی شعور رکھنایعنی اس کا Politicisedہونا توضروری ہوتا ہے،لیکن اپنے پیشہ کا تقاضہ ہے کہ وہ کسی جماعت کی ترجمانی کرنے کے بجائے خود کو Non-Partisanرکھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے لیے سیاست کی باریکیوں اور موشگافیوں کو سمجھنے کا شعورتو انتہائی ضروری ہے، مگر ہماری پیشہ ورانہ دیانت داری ہمیں کسی جماعت کے لیے ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے سے روکتی ہے۔اس بات کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ اخبارات کے ادارتی صفحہ پر جو جائزے اور تجزیے شایع ہوتے ہیں، وہ دراصلViews on Newsہوتے ہیںاور ان کا مقصد کسی جماعت یا گروہ کی تذلیل نہیں ہوتا۔ایک تجزیہ نگار اپنے علم اور معلومات کی روشنی میںخبروں کا جائزہ پیش کرتا ہے،جس میں بعض جماعتوں کے طریقہ کار اور کارکردگی پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
یہ ذرایع ابلاغ کی ذمے داری ہوتی ہے کہ اگر وہ ایک نقطہ نظر شایع کررہاہے اور جواباً کوئی دوسرا گروہ اس سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے اس سے رجوع کرتا ہے، تو یہ اس ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ دوسرے نقطہ نظر کو بھی مساوی موقع فراہم کرے۔لیکن دھونس، دھمکی اور قتل وغارت گری کے ذریعے سراسیمگی پھیلانااور ذرایع ابلاغ کو کسی مخصوص موقف کے خلاف آنے والی اطلاعات و معلومات شایع یا نشر کرنے سے جبرا روکنا آزادیِ اظہار پر قدغن کے زمرے میں آتا ہے۔
یہاں ہم دو مثالیں پیش کرنا چاہییں گے۔پہلی مثال کا تعلق امریکا سے ہے۔1848ء میں پنسلوانیاگزٹ میں پیٹر زینگر نامی صحافی نے ریاست کے گورنر کی کرپشن کے بارے میں خبر شایع کی۔جس پر برہم ہوکر گورنر نے اس صحافی کی گرفتاری کا حکم صادر کردیا۔صحافی پیٹرزینگر کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔عدلت میں پیٹر نے جو موقف اختیار کیا وہ یہ تھا۔ہمیں یہ حق دیا جائے کہ ہم نے جو معلومات مختلف ذرایع سے اکھٹا کی ہیں، انھیں پوری پیشہ ورانہ دیانت داری کے شایع آزادانہ شایع کرسکیں۔ اگر کوئی حلقہ ان خبروں اور جائزوں کو غلط سمجھتا ہے، تو وہ اپنی تحریری شکایت ہم تک پہنچائے ،ہم پوری دیانت داری کے ساتھ اتنی ہی جگہ(space)اس اختلافی نقطہ نظر کو بھی دیں گے، بشرطیکہ اس میں منطقی جواز موجود ہو، اختلاف برائے اختلاف نہ کیا گیا ہو۔عدالت نے پیٹر کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اس کی رہائی کا حکم صادر کیا، بلکہ اس روز سے یہ اصول امریکی صحافت کا اہم ترین جزو بن چکاہے۔
دوسرا واقعہ برطانیہ کا ہے۔ لارڈ برٹرینڈ رسل عصر حاضر کے عظیم فلسفی تھے۔ انھیں مثبت حقیقت پسندی(Positive Realism)کا نمایندہ فلسفی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عالمی امن کے بہت بڑے داعی بھی تھے۔ انھوں نے 1960ء کے عشرے میں ویت نام میں امریکی چیرہ دستیوں کے خلاف ایک عوامی عدالت لگائی، جس کے وکیلِ استغاثہ کی ٹیم میں پاکستان کے معروف وکیل اور 1973ء کے آئین کے مصنفوں میں سے ایک میاں محمود علی قصوری بھی شامل تھے۔ اس مقدمہ کے بعد امریکا ویت نام سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہواتھا۔ قصہ مختصر1929ء میں لارڈ برٹرینڈرسل کے مختلف مواقعے پر دیے گئے لیکچروں پر مشتمل کتاب Why I am not Christianشایع ہوئی۔ اس کتاب میں عیسائیت کی سینٹ پال اور سینٹ پیٹر جیسی بعض اہم اور برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں سخت ترین الفاظ استعمال کیے گئے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد برطانیہ کے کلیسائوں میں کھلبلی مچ گئی اور لارڈ رسل کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائرکردیا گیا۔
اس مقدمے میں لارڈ رسل کا موقف تھا کہ ضروری نہیں کہ ان کا نقطہ نظردرست ہو۔ جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ جواباً ایک کتاب تحریر کریں جس میں ان کے خیالات کو منطقی استداد کے ساتھ رد کریں۔اس طرح اگر جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے،تو اس سے عوام کے علم میں اضافہ ہوگا اور انھیں بہت سی ایسی معلومات ہوسکیں گی، جن تک ان کی رسائی نہیں ہوسکی ہے۔اس کے بعد قارئین خود ہی فیصلہ کریں گے کہ کس کا نقطہ نظر درست ہے اور کس کا غلط۔ عدالت نے برٹرینڈ رسل کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے مقدمہ خارج کردیا ۔اختلاف رائے کا یہی درست طریقہ ہے اور اسی طرح عوام کی فکری تربیت ہوتی ہے۔
ذرایع ابلاغ میں بیشک بہت سی خامیاں ہیں، لیکن وہ مختلف موقف پیش کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔بلکہ تمام نقطہ ہائے نظر کو مناسب جگہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک طالبان سے بغض وعناد کا معاملہ ہے تو یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ ان کے حامی بھی اس ملک میں خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اگروہ اپنا موقف پریس ریلیز وغیرہ کے ذریعے مہیاکریں گے توکوئی وجہ نہیں کہ ذرایع ابلاغ اسے نظر انداز کریں، بلکہ خبر کی اہمیت کے لحاظ سے اسے مناسب جگہ بھی دی جائے گی۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اب تک اخبارات میں شایع ہونے والے تجزیوں اور ٹیلی ویژن مذاکروں میں یہی کہا گیا ہے کہ اگر وہ آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں اور عوام سے ووٹ لے کراکثریت حاصل کرتے ہیں تو انھیں اقتدار میں آنے اور دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں آئین میں ردوبدل کرنے کاپورا جمہوری حق حاصل ہوگا۔لیکن جبر اور تشدد کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
طالبان کے اکابرین اور ذمے داروں کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کی کارروائیوں کا نشانہ اکثروبیشتر بے گناہ اور معصوم شہری بنتے ہیں۔ ایسے شہری جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔جس سے معاشرے میں انشار اور مایوسی پھیل رہی ہے۔ اس قسم کی متشدد کارروائیوں کے بجائے اگر وہ عوام کو اپنے حق میں موبلائزکریں تو اس کے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ انھیں اس بات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ ذرایع ابلاغ کسی مخصوص نظریے یا گروہ کے خلاف نفرت یا ناپسندیدگی نہیں رکھتا ہے۔بلکہ وہ مختلف آراء کواپنی News Valueکے اعتبار سے پیش کرتا ہے۔خود ذرایع ابلاغ پر مختلف نقطہ ہائے نظر اور عقائد ونظریات کے حامل افراد کام کرتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں میں بھی مختلف سوچ رکھنے والے موجود ہوتے ہیں اور دائیں اور بائیں بازو کی بحث اور تکرارکئی دہائیوں سے جاری ہے۔ البتہ ہم آزادیِ اظہار کے حامی ہیں اور رہیں گے، کیونکہ یہ آزادی ہمیں کسی حکمران یا جماعت نے پلیٹ میں سجا کر پیش نہیں کی، بلکہ اس کے حصول کی خاطر ہمیں طویل جدوجہد کرنا پڑی ہے۔اس لیے یہ سمجھنا کہ ہم کسی مخصوص گروہ کے حامی اور کسی دوسرے مخصوص گروہ کے مخالف ہیں قطعی طورپر غلط ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے فکری کثرتیت کو فرغ دینے اور جمہوریت کو مستحکم بنانے میں اپنا حصہ ڈالاہے اور آج ملک میں جتنی بھی اظہار کی آزادی نظر آتی ہے، وہ ہماری طویل جدوجہد کا ثمر ہے۔
پھر عرض ہے کہ ہمارے سامنے دو راستے ہیں کہ ہم رونماء ہونے والے واقعات پر چپ سادھ لیں اور اپنی زندگیوں اور مفادات کی خاطر عوام کو صحیح اطلاع نہ دے کر اپنے پیشہ سے بددیانتی کے مرتکب ہوں۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے پیشروئوں کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اطلاعات و معلومات کی رسائی کے اس عمل کو جاری رکھیں خواہ راہ میں کتنے ہی دشوار گذار مرحلے کیوں نہ آئیں۔
جمعے کی شام ایکسپریس نیوز کیDSNGپردہشت گروں کے حملے میں تین صحافتی کارکن شہید ہوگئے۔ ایکسپریس گروپ پرچھ ماہ کے دوران یہ تیسرا حملہ تھا۔اس سے قبل دو حملے اس کے دفتر پر ہوچکے ہیں۔اس سے قطع نظر کہ حملہ آورکون تھے اور ان کی سوچ کیا تھی؟ایسے اقدمات کا مقصد اطلاعات ومعلومات کی آزادانہ رسائی میں رکاوٹ ڈالنا ہوتا ہے۔اس لیے یہ ذرایع ابلاغ سے وابستہ افراد سے زیادہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے، جن تک اطلاعات کی رسائی کے لیے شعبہ صحافت کے لوگ اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں۔ اس ملک کی سول سوسائٹی کا مسئلہ ہے، جو جاننے کے حق کاشعور رکھتی ہے۔ہمارے سامنے تو دو راستے ہیں۔اول،ہم جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہوتا دیکھتے رہیں اور اپنی زندگیوں اور مفادات کی خاطر اصل واقعات بیان کرنے سے دامن بچانے کی کوشش کریں۔دوئم،ہرقسم کے حالات سے نبردآزماء ہونے کے لیے ذہنی طورپر تیار ہوجائیں اوردہشت گردی کی پرواہ کیے بغیر اپنے ضمیر کی آواز پر جو سچ اور حق محسوس ہو،اس کا اظہار کرتے رہیں۔
ایک بار پھر یہ بتانا ضروری ہے کہ صحافت خواہ اخباری ہو یا الیکٹرونک میڈیا کی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔اول، عوام تک رونماء ہونے والے مختلف واقعات، حادثات اور سانحات کی فوری اطلاع بہم پہنچانا۔ دوئم ،اس خبر یا اطلاع کی مزید تفتیش کرکے اس کا پس منظر اور اس سے متعلق اعداد وشمارپیش کرنا اور خبر کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لینا۔ایک صحافی کے لیے سیاسی شعور رکھنایعنی اس کا Politicisedہونا توضروری ہوتا ہے،لیکن اپنے پیشہ کا تقاضہ ہے کہ وہ کسی جماعت کی ترجمانی کرنے کے بجائے خود کو Non-Partisanرکھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے لیے سیاست کی باریکیوں اور موشگافیوں کو سمجھنے کا شعورتو انتہائی ضروری ہے، مگر ہماری پیشہ ورانہ دیانت داری ہمیں کسی جماعت کے لیے ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے سے روکتی ہے۔اس بات کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ اخبارات کے ادارتی صفحہ پر جو جائزے اور تجزیے شایع ہوتے ہیں، وہ دراصلViews on Newsہوتے ہیںاور ان کا مقصد کسی جماعت یا گروہ کی تذلیل نہیں ہوتا۔ایک تجزیہ نگار اپنے علم اور معلومات کی روشنی میںخبروں کا جائزہ پیش کرتا ہے،جس میں بعض جماعتوں کے طریقہ کار اور کارکردگی پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
یہ ذرایع ابلاغ کی ذمے داری ہوتی ہے کہ اگر وہ ایک نقطہ نظر شایع کررہاہے اور جواباً کوئی دوسرا گروہ اس سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے اس سے رجوع کرتا ہے، تو یہ اس ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ دوسرے نقطہ نظر کو بھی مساوی موقع فراہم کرے۔لیکن دھونس، دھمکی اور قتل وغارت گری کے ذریعے سراسیمگی پھیلانااور ذرایع ابلاغ کو کسی مخصوص موقف کے خلاف آنے والی اطلاعات و معلومات شایع یا نشر کرنے سے جبرا روکنا آزادیِ اظہار پر قدغن کے زمرے میں آتا ہے۔
یہاں ہم دو مثالیں پیش کرنا چاہییں گے۔پہلی مثال کا تعلق امریکا سے ہے۔1848ء میں پنسلوانیاگزٹ میں پیٹر زینگر نامی صحافی نے ریاست کے گورنر کی کرپشن کے بارے میں خبر شایع کی۔جس پر برہم ہوکر گورنر نے اس صحافی کی گرفتاری کا حکم صادر کردیا۔صحافی پیٹرزینگر کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔عدلت میں پیٹر نے جو موقف اختیار کیا وہ یہ تھا۔ہمیں یہ حق دیا جائے کہ ہم نے جو معلومات مختلف ذرایع سے اکھٹا کی ہیں، انھیں پوری پیشہ ورانہ دیانت داری کے شایع آزادانہ شایع کرسکیں۔ اگر کوئی حلقہ ان خبروں اور جائزوں کو غلط سمجھتا ہے، تو وہ اپنی تحریری شکایت ہم تک پہنچائے ،ہم پوری دیانت داری کے ساتھ اتنی ہی جگہ(space)اس اختلافی نقطہ نظر کو بھی دیں گے، بشرطیکہ اس میں منطقی جواز موجود ہو، اختلاف برائے اختلاف نہ کیا گیا ہو۔عدالت نے پیٹر کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اس کی رہائی کا حکم صادر کیا، بلکہ اس روز سے یہ اصول امریکی صحافت کا اہم ترین جزو بن چکاہے۔
دوسرا واقعہ برطانیہ کا ہے۔ لارڈ برٹرینڈ رسل عصر حاضر کے عظیم فلسفی تھے۔ انھیں مثبت حقیقت پسندی(Positive Realism)کا نمایندہ فلسفی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عالمی امن کے بہت بڑے داعی بھی تھے۔ انھوں نے 1960ء کے عشرے میں ویت نام میں امریکی چیرہ دستیوں کے خلاف ایک عوامی عدالت لگائی، جس کے وکیلِ استغاثہ کی ٹیم میں پاکستان کے معروف وکیل اور 1973ء کے آئین کے مصنفوں میں سے ایک میاں محمود علی قصوری بھی شامل تھے۔ اس مقدمہ کے بعد امریکا ویت نام سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہواتھا۔ قصہ مختصر1929ء میں لارڈ برٹرینڈرسل کے مختلف مواقعے پر دیے گئے لیکچروں پر مشتمل کتاب Why I am not Christianشایع ہوئی۔ اس کتاب میں عیسائیت کی سینٹ پال اور سینٹ پیٹر جیسی بعض اہم اور برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں سخت ترین الفاظ استعمال کیے گئے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد برطانیہ کے کلیسائوں میں کھلبلی مچ گئی اور لارڈ رسل کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائرکردیا گیا۔
اس مقدمے میں لارڈ رسل کا موقف تھا کہ ضروری نہیں کہ ان کا نقطہ نظردرست ہو۔ جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ جواباً ایک کتاب تحریر کریں جس میں ان کے خیالات کو منطقی استداد کے ساتھ رد کریں۔اس طرح اگر جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے،تو اس سے عوام کے علم میں اضافہ ہوگا اور انھیں بہت سی ایسی معلومات ہوسکیں گی، جن تک ان کی رسائی نہیں ہوسکی ہے۔اس کے بعد قارئین خود ہی فیصلہ کریں گے کہ کس کا نقطہ نظر درست ہے اور کس کا غلط۔ عدالت نے برٹرینڈ رسل کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے مقدمہ خارج کردیا ۔اختلاف رائے کا یہی درست طریقہ ہے اور اسی طرح عوام کی فکری تربیت ہوتی ہے۔
ذرایع ابلاغ میں بیشک بہت سی خامیاں ہیں، لیکن وہ مختلف موقف پیش کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔بلکہ تمام نقطہ ہائے نظر کو مناسب جگہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک طالبان سے بغض وعناد کا معاملہ ہے تو یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ ان کے حامی بھی اس ملک میں خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اگروہ اپنا موقف پریس ریلیز وغیرہ کے ذریعے مہیاکریں گے توکوئی وجہ نہیں کہ ذرایع ابلاغ اسے نظر انداز کریں، بلکہ خبر کی اہمیت کے لحاظ سے اسے مناسب جگہ بھی دی جائے گی۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اب تک اخبارات میں شایع ہونے والے تجزیوں اور ٹیلی ویژن مذاکروں میں یہی کہا گیا ہے کہ اگر وہ آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں اور عوام سے ووٹ لے کراکثریت حاصل کرتے ہیں تو انھیں اقتدار میں آنے اور دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں آئین میں ردوبدل کرنے کاپورا جمہوری حق حاصل ہوگا۔لیکن جبر اور تشدد کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
طالبان کے اکابرین اور ذمے داروں کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کی کارروائیوں کا نشانہ اکثروبیشتر بے گناہ اور معصوم شہری بنتے ہیں۔ ایسے شہری جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔جس سے معاشرے میں انشار اور مایوسی پھیل رہی ہے۔ اس قسم کی متشدد کارروائیوں کے بجائے اگر وہ عوام کو اپنے حق میں موبلائزکریں تو اس کے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ انھیں اس بات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ ذرایع ابلاغ کسی مخصوص نظریے یا گروہ کے خلاف نفرت یا ناپسندیدگی نہیں رکھتا ہے۔بلکہ وہ مختلف آراء کواپنی News Valueکے اعتبار سے پیش کرتا ہے۔خود ذرایع ابلاغ پر مختلف نقطہ ہائے نظر اور عقائد ونظریات کے حامل افراد کام کرتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں میں بھی مختلف سوچ رکھنے والے موجود ہوتے ہیں اور دائیں اور بائیں بازو کی بحث اور تکرارکئی دہائیوں سے جاری ہے۔ البتہ ہم آزادیِ اظہار کے حامی ہیں اور رہیں گے، کیونکہ یہ آزادی ہمیں کسی حکمران یا جماعت نے پلیٹ میں سجا کر پیش نہیں کی، بلکہ اس کے حصول کی خاطر ہمیں طویل جدوجہد کرنا پڑی ہے۔اس لیے یہ سمجھنا کہ ہم کسی مخصوص گروہ کے حامی اور کسی دوسرے مخصوص گروہ کے مخالف ہیں قطعی طورپر غلط ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے فکری کثرتیت کو فرغ دینے اور جمہوریت کو مستحکم بنانے میں اپنا حصہ ڈالاہے اور آج ملک میں جتنی بھی اظہار کی آزادی نظر آتی ہے، وہ ہماری طویل جدوجہد کا ثمر ہے۔
پھر عرض ہے کہ ہمارے سامنے دو راستے ہیں کہ ہم رونماء ہونے والے واقعات پر چپ سادھ لیں اور اپنی زندگیوں اور مفادات کی خاطر عوام کو صحیح اطلاع نہ دے کر اپنے پیشہ سے بددیانتی کے مرتکب ہوں۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے پیشروئوں کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اطلاعات و معلومات کی رسائی کے اس عمل کو جاری رکھیں خواہ راہ میں کتنے ہی دشوار گذار مرحلے کیوں نہ آئیں۔