گھوڑا اور گنگا

تعصب کی گرد سے اوپر اٹھ کر اپنے ملک کا مشاہدہ کیا جائے تو احوال مختلف نظر آتے ہیں۔۔۔


راؤ منظر حیات January 19, 2014
[email protected]

تعصب کی گرد سے اوپر اٹھ کر اپنے ملک کا مشاہدہ کیا جائے تو احوال مختلف نظر آتے ہیں۔ اگرچہ مذہبی اور شخصی تعصبات کو بالائے طاق رکھنا اب دشوار ہی نہیں، قدرے نا ممکن نظر آتا ہے مگر فکر اور دلیل کی طاقت ہی اصل میں ہمیں ذہنی طور پر آزاد کر سکتی ہے۔ جس معاشرے میں دلیل کی قوت کو پابند کیا جائے اور فکری آزادی کو جبر سے روکنے کی کوشش کی جائے اسے کسی بیرونی دشمن کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اسے انحطاط کی گھاٹی میں گرانے کے لیے بھی کسی تدبیر کی ضرورت نہیں۔ ذلت اور پسماندگی کا سفر وہ معاشرہ بغیر کسی سہارے کے بڑی تیزی سے طے کرتا ہے۔ ہم رُک کر مختلف ممالک سے حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ آخر ہم اتنے کمزور کیوں ہیں؟ ہم میں سے ہر ایک کو بربادی کے اس سفر کی وجوہات بھی ازبر ہیں اور ہم میں سے اکثریت اب اس بگاڑ میں شامل ہے۔ ہم اتنے بے رحم لوگ ہیں کہ ہم نے اپنی تاریخ تک کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ کو تبدیل کرتے کرتے ہم نے اپنا ملکی جغرافیہ بگاڑ لیا ہے۔1947ء میں حاصل کیا گیا پاکستان اپنی اصل حالت میں دنیا کے نقشے پر موجود نہیں ہے۔

چند برس پہلے مجھے قائداعظم کے اے ڈی سی کا ایک لیکچر سننے کا موقع ملا۔ ان کا تعلق آرمی سے تھا اور وہ بریگیڈیر کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کی محبت تھی کہ وہ پنڈی سے پیرانہ سالی کے باوجود سفر کر کے صرف اس نشست کے لیے لاہور پہنچے تھے۔ ہم چالیس کے قریب سرکاری افسر دو گھنٹے ہمہ تن گوش رہے۔ بریگیڈیر نور صاحب نے قائد کے ذاتی رویے کے متعلق تفصیل سے بات کی۔ ان کے بقول گورنر جنرل ہائوس کراچی میں کام کرنے والوں میں ہر مذہب کے لوگ موجود تھے۔ مسلم، ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ گورنمنٹ ہائوس میں باورچی سے لے کر ہر منصب پر کام کر رہے تھے۔ قائد نے کبھی یہ نہیں دریافت کیا تھا کہ ان کا کھانا کس مذہب سے تعلق رکھنے والے نے بنایا ہے۔ بقول بریگیڈیر صاحب کے، قائد تعصب سے مکمل طور پر بالاتر تھے۔ اس کی عملی مثالیں بھی بہت سی ہیں۔ کئی درخشاں مثالیں تو ہم قومی سطح پر چھپانے کی نا کام کوشش بھی کرتے رہے ہیں۔ مگر قائد واقعی ایک عظیم رہنما تھے۔ لیکن انکو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ان کے بعد آنے والے حکمران ملک کو مذہبی تعصب کے گڑھے میں بے رحمی سے دھکیل دینگے۔ ہمارے اس خطہ میں، جو اب مملکت خداداد پاکستان کہلاتا ہے، غیر مسلم لوگوں نے بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں۔

گنگا رام 1851ء میں پنجاب کے ایک گائوں مانگٹا والہ میں پیدا ہوا۔ یہ قصبہ لاہور سے ساٹھ کلو میڑ دور ہے۔ اس کے والد کا نام دولت رام تھا جو پنجاب پولیس میں جونیئر سب انسپکٹر تھا۔ گنگا رام کی پیدائش کے وقت اس کا والد تھا نہ مانگٹا والہ میں تعینات تھا۔ اُس وقت دولت رام کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اُس کا بیٹا ہندوستان میں اتنا نیک نام اور دولت کمائے گا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد گنگا رام گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گیا۔1871ء میں وہ رڑکی کے تھامسن انجینئرنگ کالج میں چلا گیا۔ وہاں گنگا رام کو اندازہ ہوا کہ اُس میں عمارتیں ڈیزائن کرنے اور نقشہ بنانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ تعلیم مکمل ہونے پر اسے سونے کے تمغہ سے نوازا گیا۔ وہ1873ء میں پنجاب پی ڈبلیوڈی (P.W.D) میں سب انجینئر بھرتی ہو گیا۔ وہ بہت جلد اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کے زینے عبور کرتا گیا۔

آپ لاہور میں کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ جائیں، آپ کو گنگا رام کے ڈیزائن اور تعمیر کیے ہوئے شاہکار نظر آئینگے۔ یہ عمارتیں آج بھی حیران کن خوبصورتی اور مضبوطی سے قائم ہیں۔ جی۔پی۔او (G.P.O) لاہور کی عمارت مال روڈ کے تقریباً وسط میں بنائی گئی۔ اس کی محرابیں، چھتیں اور گنبد دور سے آپ کو اپنے وجود کا احساس دلاتیں ہیں۔ عجائب گھر پر نظر ڈالیں، اس کی عمارت پر غور فرمائیں یہ عمارت بذات کود ایک عجوبہ ہے۔ اس کی بناوٹ اور تعمیر میں آپ کو بلا کی سنجیدگی اور متانت نظر آئے گی۔ ایچیسن کالج کی عمارت بھی گنگا رام کی تخلیق ہے۔ میو اسکول آف آرٹس جو اب نیشنل کالج آف آرٹس ہے، اپنی وضع قطع میں بالکل منفرد ہے، گنگارام کی تعمیرات کی فہرست بہت طویل ہے۔ مگر اُس کو یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ زمانے کی گرد سے حافظہ کا شیشہ دھندلا جاتا ہے۔ لیڈی میکلیفن گرلز ہائی اسکول، گورنمنٹ کالج لاہور کا کیمسڑی ڈیپارٹمنٹ، میو اسپتال کا البرٹ وکٹر شعبہ، گنگارام ہائی اسکول جو اب لاہور کالج برائے خواتین ہے، تمام صرف اسی شخص کے مرہون منت ہیں۔ ہیلے کالج آف کامرس، معذوروں کے لیے راوی روڈ ہائوس، گنگارام ٹرسٹ بلڈنگ اور لیڈی مینارڈ انڈسٹریل اسکول بھی گنگارام کے جادوئی ہاتھ کا کمال ہیں۔ ماڈل ٹائون اور گلبرگ لاہور کے نفیس ترین رہائشی علاقے ہیں، یہ بھی اُسی شخص کا اعجاز ہے۔یہ تمام کارنامے یا عمارتیں یا عجوبے اپنی جگہ پر بہت اہم ہیں مگر میں ان سے بالکل متاثر نہیں ہوں کیونکہ اس شخص نے اور بہت سے حیران کن کام کیے تھے۔

گنگارام نے لوگوں کے سفر کے لیے ایک انتہائی سادہ اور سستا حل نکالا۔ لاہور جڑانوالہ ریلوے لائن پر بچیانہ ریلوے اسٹیشن ہے۔ اُس نے بچیانہ ریلوے اسٹیشن سے اپنے آبائی گائوں گنگاپور کے درمیان ایک چھوٹی گیج کی پٹری بچھوائی۔ دو ٹرالیاں جوڑ کر ایک دیسی ٹرین ترتیب دی گئی اور اسے کھینچنے کے لیے گھوڑوں کا انتظام کیا۔ اس عجوبہ کا نام گھوڑا ٹرین رکھا گیا۔ گھوڑے ان ٹرالیوں کو کھینچ کر بچیانہ سے گنگا پور لے جاتے تھے۔ گھوڑا ٹرین بذات خود ایک اچھوتی تخلیق تھی۔ یہ ٹرین مسافروں کے لیے کئی دہائیاں چلتی رہی مگر 1980ء میں ریلوے ٹریک کی ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ سے بند ہو گئی۔2010ء میں اس کو دوبارہ بحال کرنے کی ایک نیم دلانہ کوشش کی گئی تھی۔

گنگارام نے اپنی زندگی میں حیرت انگیز تجربات کیے۔ اُس نے انجینئرنگ چھوڑ کر کاشت کاری شروع کر دی۔ حکومت نے اس کو ضلع مونٹ گمری (ساہیوال) میں پچاس ہزار ایکڑ زمین لیز پر دے دی۔ یہ تمام زمین ایک طرح کا صحرا تھا۔ اس پر کسی قسم کی کوئی فصل نہیں اُگتی تھی۔ گنگارام نے وہاں آبپاشی کا ایک نیا نظام بنا دیا۔ ایک دیسی بجلی گھر اور، سیکڑوں میل لمبے آبپاشی کے نالوں کی تعمیر سے وہ تمام بنجر علاقہ گُل و گلزار ہو گیا۔ نجی شعبہ میں پورے ہندوستان میں اتنا بڑا اور وسیع آبپاشی کا نظام کسی اور جگہ پر نہیں تھا۔ گنگارام نے اس زمین سے لاکھوں روپے کمائے اور تمام کے تمام خیرات کر دیے۔ جی ہاں، اس نے اپنی محنت کی تمام ذاتی کمائی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خیرات کر ڈالی۔

بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔1921ء میں گنگارام نے اندرون لاہور میں انتہائی قیمتی زمین پر عطیے کے طور پر گنگارام اسپتال بنا دیا۔1943ء میں اندرون شہر سے گنگارام اسپتال کو اس کی موجودہ جگہ پر منتقل کیا گیا۔1946ء میں گنگارام کے خاندان نے لاہور میں بالک رام میڈیکل کالج شروع کیا۔ بالک رام دراصل گنگارام کا بیٹا تھا۔ 1947ء میں یہ میڈیکل کالج بند ہو گیا اور اس کی تمام عمارت بے کار ہو گئی۔1948ء میں اسی پرانی بلڈنگ میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج قائم کیا گیا جو آج تک قائم ہے۔

میں حیران ہوں کہ ایک آدمی جی ہاں، صرف ایک آدمی یہ تمام کام کیسے کر گیا۔ کیا ! بلا کی ذہانت اور کیا! قیامت کا کمال فن، اس شخص کو خدا نے واقعی مختلف بنایا تھا۔ 1903ء میں گنگارام کو" رائے بہادر" کا خطاب دیا گیا۔1922ء میں اس کی خدمات کے پیش نظر اس کو" سر" کے خطاب سے نوازا گیا۔ لندن میں انتقال کے بعد اس کی راکھ کو دریائے گنگامیں بہایا گیا۔ لیکن راکھ کے بیشتر حصہ کو لاہور میں دریائے راوی کے نزدیک دفن کر دیا گیا۔ اس کی خاموش سمادھی شائد آج بھی راوی کے کنارے پر موجود ہو۔ شائد وہ اب تک بے نشان ہو چکی ہو یا کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہو۔ اس کی خدمات کے مد نظر اس کا ایک پتھر کا مجسمہ مال روڈ پر نصب کیا گیا جو اب وہاں موجود نہیں ہے۔1947ء میں ہندو مسلم فسادات زوروں پر تھے۔"رائے بہادر سر گنگارام" کے مجسمہ کو لوگوں نے پتھر مارے۔ مجسمہ کا منہ کالا کیا گیا اور اس کے گلے میں جوتیوں کا ہار ڈالا گیا۔ سعادت حسن منٹو نے اس غیر مناسب حرکت پر ایک لافانی کہانی لکھی جو ہمارے معاشرے کے دوغلہ پن اور منافقت کو ظاہر کرنے کے لیے آج بھی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔

ایک عظیم انسان جس نے لاہور شہر کو لازوال خوبصورت تحفے دیے۔ جس نے اپنی تمام ذاتی کمائی خیرات کر دی۔ جس نے اپنی ساری جائیداد وقف کر دی۔ جس نے اس شہر کو اُس وقت کا ایک بہت بڑا اسپتال دیا۔ مگر دکھ کی بات ہے کہ ہمارے معاشرہ نے اس درویش صفت انسان کو احسانات کے بدلہ میں کیا لوٹایا؟ آج اس کی بنائی گئی عمارتوں سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہو ر ہے ہیں۔ اس کے اسپتال سے سال میں لاکھوں لوگ شفا یاب ہوتے ہیں۔ اس کے بنائے ہوئے اسکول اور کالج میں ہزاروں لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مگر ہم میں اتنا ظرف نہیں، کہ ہم اس کے مجسمہ کو مال روڈ پر واپس نصب کر دیں۔ اگر مجسمہ کسی خوف کی وجہ سے نہیں لگا سکتے؟ تو چلو کوئی لائبریری یا کوئی باغ ہی اُس عظیم شخص سے منسوب کر دیں۔ لیکن شائد اب ہم اتنے چھوٹے کام کرنے کی ہمت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ آپ گنگارام کو چھوڑ دیں، میں تو اس گھوڑے کا احسان واپس نہیں کر سکتا جو غریب مسافروں کو کھینچ کر بچیانہ ریلوے اسٹیشن سے گنگارام قصبہ تک لے جاتا تھا۔ آج ہم مذہبی تعصب کی گھوڑا ٹرین پر سوار ہیں مگر کسی کو علم نہیں کہ یہ ٹرین بغیر پٹٹری کے چل رہی ہے اور اس کی کوئی منزل نہیں ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں