یا قسمت یا نصیب
پرویز مشرف 24 مارچ کو پاکستان آئے اور اب خصوصی عدالت نے 24 جنوری ہی کو ان کی میڈیکل رپورٹ طلب کی ہے
خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں ان کی بیماری کی تشخیص کے لیے خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ مشرف کے وکلاء نے بتایا کہ ان کے مؤکل زیر علاج ہونے کے باعث پیش نہیں ہو سکتے اور ان کا علاج امریکا میں ہو گا۔ دل کا عارضہ تشویش ناک ہے۔ امریکی ڈاکٹر نے لکھا ہے کہ پرویز مشرف 2006ء کے بعد سے ان کے زیر علاج رہے ہیں۔ لہٰذا انھیں علاج کے لیے امریکا بھجوایا جائے۔ اس موقعے پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویز مشرف عدالت کی حکم عدولی کر رہے ہیں لہٰذا وارنٹ جاری کیے جائیں۔
دوسری طرف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے مقدمے کے پراسیکیوٹر کی جانب سے سابق صدر کو علامتی تحویل میں لینے کی استدعا مسترد کر دی۔میڈیکل بورڈ بنانے کے عدالتی حکم پر زبانی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ عدالت ملک کے جید ماہرین امراض قلب پر مشتمل 5 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی عدم گرفتاری کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور خدشہ ہے کہ سابق صدر بیرون ملک فرار ہو جائیں گے جس پر خصوصی عدالت کے سربراہ نے کہا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ہے۔ بہرحال فوجداری قانون کا اصول یہ ہے کہ جب تک پرویز مشرف خود خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہوتے ان پر سنگین غداری کے الزامات کے زمرے میں فرد جرم عائد ہو سکتی ہے نہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ عدالت میں پیشی ہی کی صورت میں ان پر الزامات عائد ہو سکیں گے۔ اس ضمن میں یا تو وہ اعتراف جرم کر سکتے ہیں یا پھر ان الزامات کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اس خصوصی عدالت میں پیشی سے احتراز کر رہے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ان پر الزامات عائد نہیں کیے جا سکتے۔ ایک اور چھوٹی سی لیکن اہم ترین خبر جس سے بیشتر پاکستانی بے خبر ہوں گے کہ عسکری ادارہ امراض قلب کے چوتھے فلور پر لگی آگ پر قابو پا لیا گیا۔ یاد رہے کہ مشرف بھی اسی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ یہ آگ 15 جنوری کو لگی جب کہ انھیں اگلے روز خصوصی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ پرویز مشرف کے مخالفین اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کہ انھیں کسی طرح اسپتال سے نکالا جائے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ یا قسمت یا نصیب۔
اس تمام صورت حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ابھی کمزور اور پس پردہ قوتیں کتنی طاقتور ہیں۔ ترکی کی نقل کی جا رہی ہے لیکن نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ اصل جمہوریت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ترکی میں یورپ کے اسٹرٹیجک مفادات کا تقاضا تھا کہ وہاں فوج جمہوری چھتری کے نیچے آئے۔ جب کہ پاکستان تو کیا اس پورے خطے کا ہی پتہ نہیں کہ یہاں کیا ہونا ہے۔ پورا خطہ سیال حالت میں ہے۔ ہم ایک عظیم تاریخی تبدیلی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ یہ تاریخی طور پر ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں جانے کا عمل ہے جسے صدیوں بعد دہرایا جاتا ہے۔ اس ٹرانسفارمیشن کا عمل مکمل ہونے پر اس خطے کا ناک نقشہ کیا ہوگا' ابھی کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ تاریخی تبدیلی کا آغاز سوویت یونین کے خاتمے سے ہوا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں سعودی عرب، عراق سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام تیل کے ذخائر پر قبضہ کرلیا گیا اور اس تمام عمل کے دوران ارتکاز دولت اپنی انتہا پر پہنچ گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ایک فیصد سے کم لوگ دنیا کی 42 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ چنانچہ دنیا کی نصف سے زائد آبادی ایک وقت کی روٹی سے محروم ہوگئی۔ دنیا میں پھیلی بے پناہ غربت کہیں عوامی انقلاب کا باعث نہ بن جائے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر دہشت گردی کو تخلیق کیا گیا۔ پھیلتی ہوئی غربت کے نتائج کو کنٹرول کرنے کے لیے دہشت گردوں کی تخلیق کی گئی۔ بے پناہ غربت اور دہشت گردی کتنا زبردست تال میل ہے۔ بے پناہ غربت کے اثرات کو کنٹرول کرنے کے لیے دہشت گردی کا تڑکا لگانا بہت ضروری تھا جس کے لیے القاعدہ اور دوسری تنظیموں کو وجود میں لایا گیا تاکہ پاکستان جیسے ملکوں کو ان کے ہاتھوں بے بس کرکے اس خطے میں اپنی مرضی کی من پسند تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں۔ کیونکہ ماضی میں سامراج کے ہاتھوں جو تقسیم ہوئی وہ غیر فطری تھی۔ اب جو ''فطری'' تقسیم ہوگی اسی کی بنیاد رنگ و نسل ثقافت زبان ہوگی۔
اس تمام صورت حال کو اگر ہم پرویز مشرف پر منطبق کرکے دیکھیں تو ہم باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم تاریخ کے جس نازک موڑ پر کھڑے ہیں اس میں پاک فوج کا کردار اس خطے کے لیے (تبدیلی) کتنا اہم ہے۔ اس لیے ہمارے سادہ لوح دانشور پاکستان میں فوج پر سویلین بالادستی کو فی الحال بھول ہی جائیں تو بہتر ہے۔ فکری طور پر ہمارے نابالغ دانشوروں کا میڈیا میںسویلین بالادستی کا راگ الاپنا ایک بات ہے تو اس کو عمل میں لانا انتہائی دوسری بات۔ آرٹیکل 6 کے حوالے سے میں نے چند سال پہلے پیش گوئی کی تھی۔ اس آرٹیکل کے تن مردہ میں جان پڑنے کے لیے ہمیں 2015ء سے 2017ء کے درمیان انتظار کرنا پڑے گا۔
٭...پرویز مشرف 24 مارچ کو پاکستان آئے اور اب خصوصی عدالت نے 24 جنوری ہی کو ان کی میڈیکل رپورٹ طلب کی ہے۔ اس سے پہلے انھیں 24 دسمبر (پچھلے سال) خصوصی عدالت میں پیش ہونے کا کہا گیا۔ اس حوالے سے ان کے لیے جنوری کا آخری اور فروری کا شروع انتہائی اہم ہے۔