کیا بھارت جواب دے گا
بھارت کوجناب نریندرمودی کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے آزادی کے بعدسے اب تک کی بدترین کساد بازاری کاسامنا ہے۔
LONDON:
4جون2021کو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے ایک عندیہ دیا کہ اگر بھارت کشمیر پر 5اگست 2019سے پہلے والی حیثیت بحال کرنے کا روڈ میپ یعنی ٹائم ٹیبل دے تو جناب عمران خان کی حکومت بھار ت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
جناب وزیرِاعظم کی طرف سے ایک بار پھر یہ کوشش نظر آتی ہے کہ کسی طرح بھارت کے سختی سے بند ہاتھ کو کھولا جائے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر Meaningfulڈائیلاگ کی کوئی صورت نکل آئے۔ مذاکرات کی یہ مشروط پیش کش کوئی باقاعدہ تجویز نہیں۔کسی بھی پانی کی گہرائی ناپنے کے لیے جس طرح مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں، اسی طرح بین الاقوامی معاملات میں فریق مخالف کے خیالات اور مرضی معلوم کرنے کے لیے کئی طریقے ہوتے ہیں۔
کسی بھی اہم تقریب جس میں میڈیا کی بھرمار ہو ، کسی اہم ترین مسئلے پر بظاہر باتوں باتوں میں بات کر کے فریقِ مخالف کو پیغام دینے کی سعی کی جاتی ہے تاکہ وہ اس پر غور و خوض کرے اور سوچ سمجھ کر ردِ عمل ظاہر کرے اور ٹھہرے پانی میں ارتعاش پیدا ہو۔جناب عمران خان کے اندر ایک وصف ہے کہ بظاہر مکمل تیاری کیے بغیر اور بہت احتیاط سے الفاظ کا چناؤ کیے بغیر اہم امور پر کسی بھی اہم تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے کرتے بہت اہم بات کر جاتے ہیں۔یہی کچھ اس موقع پر بھی ہوا۔
غالب امکان ہے کہ اس مشروط پیش کش سے پہلے وزارتِ خارجہ اور متعلقہ اداروں سے ضروری صلاح مشور ہ نہیں کیا گیا البتہ یہ ایک اہم پیش کش ہے۔ بھارت کی طرف سے ابھی کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔اس کا بہت امکان ہے کہ بھارتی راجدھانی میں اس پر ارتعاش پیدا ہ ہولیکن جناب نریندر مودی کی بھارتی حکومت مسائل کی دلدل میں اپنے پاؤں اتنے گہرے پھنسا چکی ہے کہ وہ ابھی کوئی بھی ردِ عمل دینے کی طرف نہیں جائے گی۔
بھارت کو جناب نریندر مودی کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے آزادی کے بعد سے اب تک کی بد ترین کساد بازاری کا سامنا ہے۔ بھارت کی معیشت جاری مالی سال میں 7.7فی صد سکڑی ہے۔یہ آزادی کے بعد سے اب تک بھارتی معیشت کا بد ترین سال ہے۔ کورونا کے حوالے سے غلط حکومتی اقدامات اور لاک ڈاؤنز کی وجہ سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 1947 کے بعد مسلسل دو سہ ماہیوں میں سکڑنے کے بعد موجودہ مالی سال کی چوتھی سہ ماہی میں ایشیا کی بظاہر تیسری بڑی معیشت نے صرف 1.6فی صد نمو کی۔بنگلور کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ برس کورونا کی عالمی سطح کی وبا کے باعث23کروڑ بھارتی شہری غربت کا شکار ہوئے۔اس تحقیق میں وہ لوگ جو 375 بھارتی روپیہ یومیہ سے کم پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں ان کو شریک کیا گیا ہے۔
سال 2020 کے اختتام پر لاک ڈاؤن اور پابندیوں میں نمایاںکمی کی گئی تھی جس سے معاشی سرگرمیوں کو وقتی طور پر سہارا ملا لیکن امسال اپریل میں کورونا کے مہلک ہر سوپھیلتے وارنے معاشی سرگرمیاں جاری نہ رہنے دیں۔ بھارتی معیشت پر نظر رکھنے والے ایک سینٹر کے مطابق کورونا وبا کی موجودہ لہر کے دوران آٹھ ہفتوں میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار مرد و زن لقمہء اجل بنے ۔یہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اسپتالوں میں داخلے کے بعد مرے۔ مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے۔ گلیاں اور بازار جب لاشوں سے پٹ گئے تو گورنمنٹ نے بوکھلا کر مزید سخت لاک ڈاؤںلگا دیے۔
ان لاک ڈاؤنز کے نتیجے میںروزگار اتنے سکڑے کہ صرف اپریل میں کم و بیش73لاکھ لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کساد بازاری کا مطلب ،بھارت کے لیے بے شمار مشکلات ہیں۔ جہاں 90فیصد افرادی قوت غیر رسمی سیکٹر میں بغیر کسی سماجی تحفظ کے کام کرتی ہو اور ان میں سے بھی اکثریت حکومت کے ایمرجنسی راشن پروگرام کی اہل ہی نہ ہو وہاں عام لوگوں کی مشکلات کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔ ان حالات میں نریندر مودی حکومت کو ہر روز بڑھتی تنقید کا سامنا ہے۔ تنقید کرنے والوں میں معیشت کے ایک عالمی ماہر نوبل انعام یافتہ فرد بھی شامل ہیں۔
پچھلے مہینے بھارت کی چار ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔یہ انتخابات اس حوالے سے بہت اہم تھے کیونکہ مغربی بنگال جیسا انتہائی اہم صوبہ بھی ان میں شامل تھا۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور امیت شا نے ان انتخابات کو اتنی اہمیت دی کہ بنفسِ نفیس تمام انتخابی ریلیوں اور جلسوں میںشرکت کی۔یہ سب کچھ اُن ایام میں ہوا جب کہ کورونا وبا تیزی سے پھیل رہی تھی اور کافی احتیاط کی ضرورت تھی۔ ریلیوں اور جلسوں کی وجہ سے کورونا وبا تیزی سے پھیلی لیکن مودی اور امیت شا نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی۔وہ ہر حالت میں یہ معرکہ جیتنا چاہتے تھے۔
مودی اور امیت شا کی محنت رائیگاں گئی۔مغربی بنگال میں بی جے پی کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن بات یہیں پر نہ رکی۔ ہوا یہ کہ مغربی بنگال کے ساتھ دو اور ریاستوں میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی۔مودی کی سیاسی پارٹی صرف ایک ہی ریاست میں اپنی پارٹی کی حکومت بچا پائی۔کئی بڑی بڑی کمپنیاں اور کارپوریشنیں بند ہو گئی ہیں یا دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ایسے میں وزیرِ اعظم عمران خان بھارت کو کشمیر پر اگست 2019کے غیر قانونی اقدامات سے پیچھے ہٹنے اور بات چیت کی تجویز دے رہے ہیں۔ یہی صحیح طریقہ ہے۔
ایسا ہی ہونا چاہیے۔ہمارے وزیرِ اعظم کو ایسی ہی خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ کسی بھی ملک،کسی بھی حکومت کے سربراہ کو ایسا ہی رویہ دکھانا چاہیے لیکن ساتھ ہی حقیقت پر مبنی جواب کی توقع کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ بھارت کی معیشت روبہ زوال ہے۔بی جے پی ریاستی انتخابات ہار رہی ہے۔
بھارت کے اوپر کشمیر کے حوالے سے اور مسلمانوںکے حوالے سے کوئی بین الاقوامی دباؤ نہیں ہے۔ اگست 2019 کے غیر قا نونی اقدامات کے بعد پاکستان اور چین دو مرتبہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں لیکن چین کو چھوڑ کر باقی سارے مستقل ممبران بھارت کے ہمنوابنے ہوئے ہیں۔دنیا بھر میں مسلم خون ارزاں ہے۔کشمیر میں چونکہ ابھی تک مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لیے اس وادی جنت نظیر میں بھارت کی کسی بھی زیادتی کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ بھارت ظلم و بربریت کے تمام ہتھکنڈے پوری آزادی سے آزما رہا ہے اور دنیا کا ضمیر خاموش ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ عوام کے ہاتھوں تنقید کی شدید زد میں آنے والی بی جے پی کی حکومت وزیرِ اعظم پاکستان کی غیر رسمی تجویز پر کیا کوئی مثبت ردِ عمل دے سکتی ہے یایہ اہم تجویز اور آواز صدا بصحرا ہی ثابت ہو گی۔
قائینِ کرام امریکا 1940کی دہائی سے ایک اہم ملک بنا اور بہت کم عرصے میں سپر پاور بن گیا۔دنیا جہان سے اہلِ علم اور اہلِ ہنر امریکا پہنچ کر اپنے مستقبل سنوارنے اور امریکی قوت کو چار چاند لگانے لگے۔تب سے امریکا نے ہر دوسری قوت کو نیچا دکھایا اور ابھرتی قوتوں کے راستے میں کانٹے بوئے ہیں۔اس وقت امریکا کو چین کی ابھرتی تہذیبی قوت سے معاملہ درپیش ہے۔چین ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی ہی کسی قوم کی معیشت کو مضبوط بنانے کے ساتھ فوجی برتری کے ضامن ہوتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے پیشرو ٹرمپ کے راستے پر چلتے ہوئے چین کی 28کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس سے پہلے ٹرمپ نے31چینی کمپنیوںپر پابندی لگائی تھی۔ امریکی صدور کے ان اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب امریکا کا ہدف چین کو دنیا کی سب سے بڑی قوت بننے سے روکنا ہے۔دیکھیے اس مرتبہ بھی امریکا کامیاب ہوتا ہے یا چین کی تہذیبی ریاست بچ بچا کر آگے نکل جاتی ہے۔
4جون2021کو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے ایک عندیہ دیا کہ اگر بھارت کشمیر پر 5اگست 2019سے پہلے والی حیثیت بحال کرنے کا روڈ میپ یعنی ٹائم ٹیبل دے تو جناب عمران خان کی حکومت بھار ت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
جناب وزیرِاعظم کی طرف سے ایک بار پھر یہ کوشش نظر آتی ہے کہ کسی طرح بھارت کے سختی سے بند ہاتھ کو کھولا جائے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر Meaningfulڈائیلاگ کی کوئی صورت نکل آئے۔ مذاکرات کی یہ مشروط پیش کش کوئی باقاعدہ تجویز نہیں۔کسی بھی پانی کی گہرائی ناپنے کے لیے جس طرح مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں، اسی طرح بین الاقوامی معاملات میں فریق مخالف کے خیالات اور مرضی معلوم کرنے کے لیے کئی طریقے ہوتے ہیں۔
کسی بھی اہم تقریب جس میں میڈیا کی بھرمار ہو ، کسی اہم ترین مسئلے پر بظاہر باتوں باتوں میں بات کر کے فریقِ مخالف کو پیغام دینے کی سعی کی جاتی ہے تاکہ وہ اس پر غور و خوض کرے اور سوچ سمجھ کر ردِ عمل ظاہر کرے اور ٹھہرے پانی میں ارتعاش پیدا ہو۔جناب عمران خان کے اندر ایک وصف ہے کہ بظاہر مکمل تیاری کیے بغیر اور بہت احتیاط سے الفاظ کا چناؤ کیے بغیر اہم امور پر کسی بھی اہم تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے کرتے بہت اہم بات کر جاتے ہیں۔یہی کچھ اس موقع پر بھی ہوا۔
غالب امکان ہے کہ اس مشروط پیش کش سے پہلے وزارتِ خارجہ اور متعلقہ اداروں سے ضروری صلاح مشور ہ نہیں کیا گیا البتہ یہ ایک اہم پیش کش ہے۔ بھارت کی طرف سے ابھی کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔اس کا بہت امکان ہے کہ بھارتی راجدھانی میں اس پر ارتعاش پیدا ہ ہولیکن جناب نریندر مودی کی بھارتی حکومت مسائل کی دلدل میں اپنے پاؤں اتنے گہرے پھنسا چکی ہے کہ وہ ابھی کوئی بھی ردِ عمل دینے کی طرف نہیں جائے گی۔
بھارت کو جناب نریندر مودی کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے آزادی کے بعد سے اب تک کی بد ترین کساد بازاری کا سامنا ہے۔ بھارت کی معیشت جاری مالی سال میں 7.7فی صد سکڑی ہے۔یہ آزادی کے بعد سے اب تک بھارتی معیشت کا بد ترین سال ہے۔ کورونا کے حوالے سے غلط حکومتی اقدامات اور لاک ڈاؤنز کی وجہ سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 1947 کے بعد مسلسل دو سہ ماہیوں میں سکڑنے کے بعد موجودہ مالی سال کی چوتھی سہ ماہی میں ایشیا کی بظاہر تیسری بڑی معیشت نے صرف 1.6فی صد نمو کی۔بنگلور کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ برس کورونا کی عالمی سطح کی وبا کے باعث23کروڑ بھارتی شہری غربت کا شکار ہوئے۔اس تحقیق میں وہ لوگ جو 375 بھارتی روپیہ یومیہ سے کم پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں ان کو شریک کیا گیا ہے۔
سال 2020 کے اختتام پر لاک ڈاؤن اور پابندیوں میں نمایاںکمی کی گئی تھی جس سے معاشی سرگرمیوں کو وقتی طور پر سہارا ملا لیکن امسال اپریل میں کورونا کے مہلک ہر سوپھیلتے وارنے معاشی سرگرمیاں جاری نہ رہنے دیں۔ بھارتی معیشت پر نظر رکھنے والے ایک سینٹر کے مطابق کورونا وبا کی موجودہ لہر کے دوران آٹھ ہفتوں میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار مرد و زن لقمہء اجل بنے ۔یہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اسپتالوں میں داخلے کے بعد مرے۔ مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے۔ گلیاں اور بازار جب لاشوں سے پٹ گئے تو گورنمنٹ نے بوکھلا کر مزید سخت لاک ڈاؤںلگا دیے۔
ان لاک ڈاؤنز کے نتیجے میںروزگار اتنے سکڑے کہ صرف اپریل میں کم و بیش73لاکھ لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کساد بازاری کا مطلب ،بھارت کے لیے بے شمار مشکلات ہیں۔ جہاں 90فیصد افرادی قوت غیر رسمی سیکٹر میں بغیر کسی سماجی تحفظ کے کام کرتی ہو اور ان میں سے بھی اکثریت حکومت کے ایمرجنسی راشن پروگرام کی اہل ہی نہ ہو وہاں عام لوگوں کی مشکلات کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔ ان حالات میں نریندر مودی حکومت کو ہر روز بڑھتی تنقید کا سامنا ہے۔ تنقید کرنے والوں میں معیشت کے ایک عالمی ماہر نوبل انعام یافتہ فرد بھی شامل ہیں۔
پچھلے مہینے بھارت کی چار ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔یہ انتخابات اس حوالے سے بہت اہم تھے کیونکہ مغربی بنگال جیسا انتہائی اہم صوبہ بھی ان میں شامل تھا۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور امیت شا نے ان انتخابات کو اتنی اہمیت دی کہ بنفسِ نفیس تمام انتخابی ریلیوں اور جلسوں میںشرکت کی۔یہ سب کچھ اُن ایام میں ہوا جب کہ کورونا وبا تیزی سے پھیل رہی تھی اور کافی احتیاط کی ضرورت تھی۔ ریلیوں اور جلسوں کی وجہ سے کورونا وبا تیزی سے پھیلی لیکن مودی اور امیت شا نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی۔وہ ہر حالت میں یہ معرکہ جیتنا چاہتے تھے۔
مودی اور امیت شا کی محنت رائیگاں گئی۔مغربی بنگال میں بی جے پی کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن بات یہیں پر نہ رکی۔ ہوا یہ کہ مغربی بنگال کے ساتھ دو اور ریاستوں میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی۔مودی کی سیاسی پارٹی صرف ایک ہی ریاست میں اپنی پارٹی کی حکومت بچا پائی۔کئی بڑی بڑی کمپنیاں اور کارپوریشنیں بند ہو گئی ہیں یا دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ایسے میں وزیرِ اعظم عمران خان بھارت کو کشمیر پر اگست 2019کے غیر قانونی اقدامات سے پیچھے ہٹنے اور بات چیت کی تجویز دے رہے ہیں۔ یہی صحیح طریقہ ہے۔
ایسا ہی ہونا چاہیے۔ہمارے وزیرِ اعظم کو ایسی ہی خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ کسی بھی ملک،کسی بھی حکومت کے سربراہ کو ایسا ہی رویہ دکھانا چاہیے لیکن ساتھ ہی حقیقت پر مبنی جواب کی توقع کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ بھارت کی معیشت روبہ زوال ہے۔بی جے پی ریاستی انتخابات ہار رہی ہے۔
بھارت کے اوپر کشمیر کے حوالے سے اور مسلمانوںکے حوالے سے کوئی بین الاقوامی دباؤ نہیں ہے۔ اگست 2019 کے غیر قا نونی اقدامات کے بعد پاکستان اور چین دو مرتبہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں لیکن چین کو چھوڑ کر باقی سارے مستقل ممبران بھارت کے ہمنوابنے ہوئے ہیں۔دنیا بھر میں مسلم خون ارزاں ہے۔کشمیر میں چونکہ ابھی تک مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لیے اس وادی جنت نظیر میں بھارت کی کسی بھی زیادتی کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ بھارت ظلم و بربریت کے تمام ہتھکنڈے پوری آزادی سے آزما رہا ہے اور دنیا کا ضمیر خاموش ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ عوام کے ہاتھوں تنقید کی شدید زد میں آنے والی بی جے پی کی حکومت وزیرِ اعظم پاکستان کی غیر رسمی تجویز پر کیا کوئی مثبت ردِ عمل دے سکتی ہے یایہ اہم تجویز اور آواز صدا بصحرا ہی ثابت ہو گی۔
قائینِ کرام امریکا 1940کی دہائی سے ایک اہم ملک بنا اور بہت کم عرصے میں سپر پاور بن گیا۔دنیا جہان سے اہلِ علم اور اہلِ ہنر امریکا پہنچ کر اپنے مستقبل سنوارنے اور امریکی قوت کو چار چاند لگانے لگے۔تب سے امریکا نے ہر دوسری قوت کو نیچا دکھایا اور ابھرتی قوتوں کے راستے میں کانٹے بوئے ہیں۔اس وقت امریکا کو چین کی ابھرتی تہذیبی قوت سے معاملہ درپیش ہے۔چین ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی ہی کسی قوم کی معیشت کو مضبوط بنانے کے ساتھ فوجی برتری کے ضامن ہوتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے پیشرو ٹرمپ کے راستے پر چلتے ہوئے چین کی 28کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس سے پہلے ٹرمپ نے31چینی کمپنیوںپر پابندی لگائی تھی۔ امریکی صدور کے ان اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب امریکا کا ہدف چین کو دنیا کی سب سے بڑی قوت بننے سے روکنا ہے۔دیکھیے اس مرتبہ بھی امریکا کامیاب ہوتا ہے یا چین کی تہذیبی ریاست بچ بچا کر آگے نکل جاتی ہے۔