منگھوپیر گرم چشمہ اور مگرمچھ

کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں ہندوؤں کا یہ متبرک مقام تھا۔ استبداد زمانہ سے یہ جگہ اکثر آباد ویران ہوتی رہی۔


ایم قادر خان June 11, 2021

حاجی حافظ حسن المعروف سخی سلطان منگھوپیر ان کا اسم گرامی حسن اور ایک روایت کے مطابق کمال الدین ہے۔ آپ عرب النسل ہیں، آپ کا سلسلہ نسب امیرالمومنین حضرت علیؓ سے ملتا ہے۔ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سادات ہیں۔

آپ تیرہویں صدی عیسوی میں حجاز مقدس سے ہندوستان تشریف لائے۔ یہ زمانہ تاتاریوں کے فتنہ کا تھا، آپ بھی ان کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے۔ بعدازاں حج کے لیے تشریف لے گئے اسی دوران مدینہ منورہ میں زیارت رسول اللہؐ نصیب ہوئی۔ بارگاہ رسالت سے آپ کو اجودھن میں مقیم حضرت فریدالدین گنج شکرؒ سے ملنے کی ہدایت ہوئی۔

چنانچہ منگھو بابا (منگھوپیر) حضرت فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سلسلہ عبادت سے منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد خلافت سے نوازے گئے۔ آپ حکم مرشد موجودہ مقام حسینی منگھوپیر تشریف لے گئے اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ یہ جگہ (منگھوپیر) اس وقت غیرآباد تھی۔

کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں ہندوؤں کا یہ متبرک مقام تھا۔ استبداد زمانہ سے یہ جگہ اکثر آباد ویران ہوتی رہی۔ حضرت منگھوباباؒ (منگھوپیر) کی شہرت اطراف میں پھیلی تو یہ جگہ مرجۂ دوراں ہوگئی۔ کہا جاتا ہے اسی جگہ آپؒ کے ہم عصر چند بزرگان دین حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ ملتانی، حضرت لال شہباز قلندرؒ اور جلال الدین بخاریؒ تشریف لایا کرتے تھے۔

حضرت منگھوپیرؒ مزار کے قریب تالاب ہے جو مگرمچھوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرامت کے مظہر ہیں۔ ان مگرمچھوں کے سردار بڑے مگرمچھ کا نام مور ہے جب ایک مور مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ تمام ایک اجتماعی نظام سے منسلک نظر آتے ہیں۔ ایسا نظم و نسق دیکھ کر ششدر ہو جاتے ہیں۔ منگھوپیرؒ کا مقام اور یہاں کے مگرمچھ غیر مسلم صاحبان، علم و فن کی توجہ کے بھی مراکز رہے ہیں۔ مختلف یورپی ماہرین نے یہاں کے بارے میں لکھا ہے کہ:

1838 میں جیکب برلاکس نے اس جگہ کا جغرافیائی مطالعہ کیا، انیسویں صدی میں ایک افلیوک نامی سیاح یہاں کے مگرمچھوں کی طلسماتی طرز زندگی کا ذکر سن کر خود آیا۔ تحقیق کی اور اپنا مشاہدہ اپنی کتاب میں رقم کیا۔

منگھوپیرؒ کی درگاہ مقام اجابت دعا ہے عقیدت مند اور حاجت مندوں کا یہاں پر تانتا بندھا رہتا ہے۔8 ذی الحجہ کو آپ کا سالانہ عرس منایا جاتا ہے آپ کے خلفا میں حضرت خاکی شاہ بخاری کا نام ملتا ہے جو حضرت کے احاطے میں مدفون ہیں۔ گرم پانی کا چشمہ بھی موجود ہے۔

پانی اللہ تعالیٰ کا انمول تحفہ، ایسا خوبصورت تحفہ نہ صرف کرۂ ارض اس کا بنیادی جز ہے بلکہ اس سے کائنات کی خوبصورتی اور حیات وابستہ ہے۔ پانی بھی اپنے اندر جزا و سزا کی خصوصیات کے ساتھ کہیں طلاطم کہیں مست موجوں کے ساتھ بستیاں زمین بوس کردیتا ہے تو کہیں باران رحمت بن کر کھیت کھلیان کو زرخیز اور بنجر زمین پر حیات کی نئی امیدیں پیدا کردیتا ہے۔ یوں تو پانی ایک ہی شکل میں پوری دنیا میں ہے لیکن اپنی خاصیت کے اعتبار سے اس کی اہمیت کم یا زیادہ طے پاتی ہے۔ جیسے ''آب زم زم'' اپنی جزئیات و افادیت کے لحاظ سے پوری دنیا میں صفحہ اول میں سمجھا اور شمار ہوتا ہے۔

بے شمار قدرتی چشمے اولیا کرام اور بزرگان دین کے فیوض کا نتیجہ ہوتے ہیں جو اپنی خاصیت کی وجہ سے سالہا سال سے زائرین کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔

کراچی مرکز سے 28 میل اور 45 منٹ کی مسافت پر واقع منگھوپیر کا مزار اور گرم پانی کا چشمہ گزشتہ کئی سو برسوں سے عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ زائرین اور مقامی افراد کے نزدیک چشمے کا جاری ہونا منگھو بابا کا ایک کرشمہ ہے جس کے باعث ہزاروں عقیدت مند یہاں آتے ہیں۔

زائرین کی کثیر تعداد منگھو بابا کے مزار کے بعد گرم چشمہ کا رخ کرتی ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ پانی امراض جلد کے لیے نہایت مفید اور موثر ذریعہ علاج ہے۔ کہا جاتا ہے یہاں تین یا چار سے زائد چشمے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہاں ایسے مریض آتے ہیں جن کو مختلف چھوٹے بڑے ڈاکٹرز کے علاج سے فائدہ نہ ہوا ہو۔ جب وہ اس چشمے کے پانی سے غسل کرتے ہیں تو انھیں شفا ملتی ہے۔

چونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گندھک سے جلدی امراض میں فائدہ ہوتا ہے وہ منگھوپیر کے اس گرم چشمے میں موجود ہے جس سے جلدی امراض کو شفا ملتی ہے۔ عقیدت مندی ایک طرف لیکن مختلف اہل علم کا یہ خیال ہے کہ منگھوپیر کے پہاڑوں میں چونکہ ارتعاش کی وجہ سے بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے اور پھر جب کبھی ان پہاڑوں میں ارتعاش ہوتا ہے تو پانی پہاڑ یا زمین سے باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔

چونکہ پہاڑوں میں قدرتی معدنیات وسیع تعداد میں موجود ہیں تو پانی معدنیات سے مل کر اپنے لیے عام پانی سے ہٹ کر منفرد افادیت حاصل کرسکتا ہے۔ پتھروں سے وہ پانی اوپر آنا شروع ہو جاتا ہے وہ اوپر آتے آتے بہنا شروع کردیتا ہے۔ جس کو ہم چشمہ کہتے ہیں۔ منگھوپیر کے گرم چشمے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو سیکڑوں سال بیت گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑوں میں کتنا پانی جمع ہے جو تسلسل سے جاری ہونے کے باوجود ختم نہیں ہو رہا؟

منگھوپیر مزار کے قریب ''جزام'' کا اسپتال تقریباً 100 سال سے موجود ہے۔ کہتے ہیں اسپتال میں داخل عقیدت مند اس گرم پانی کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ پانی جب گندھک سے گزرتا ہے تو اس میں گندھک شامل ہو جاتی ہے چونکہ اس کا ٹمپریچر ہائی ہو جاتا ہے اسی وجہ سے یہ بہت گرم ہو جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ''جزام'' اور ''کوڑھ'' کے مریضوں کو اس پانی سے غسل کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔

یہاں پر آنے والے جن کی زیادہ تعداد متوسط طبقے سے ہے جن کے وسائل صرف دو روٹی تک محدود ہیں۔ ڈاکٹرز کی بھاری فیس ادا کرنا ان کے لیے مشکل ہے۔ لہٰذا وہ محض معمولی رقم خرچ کرکے چشمے کے پانی سے غسل کرتے ہیں۔

گرم چشمے کے پانی کی جانچ کرنے کے لیے مختلف ادوار میں مختلف ڈاکٹرز اپنی ذاتی کوشش کرتے رہے۔ان ماہرین نے کہا ہے کہ چشمے کے پانی میں گندھک کی مقدار موجود ہے۔ اس طرح پانی جراثیم کش کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ چونکہ پانی گرم ہوتا ہے اتنا گرم کہ انسان غسل کرسکے۔ ہر روز تقریباً 100 سے زائد افراد جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں اس چشمے کے پانی سے نہانے آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں