مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اختلافات
پی ڈی ایم کے ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر انتخاب میں پی پی کے متعلق شکوک بڑھے اور اپوزیشن پھر تقسیم ہوگئی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات نئے نہیں بلکہ عشروں پرانے ہیں۔ 1988 میں پیپلز پارٹی کی جب وفاق میں حکومت بنی تو پہلی بار پاکستان مسلم لیگ جس کے سربراہ محمد خان جونیجو تھے، نے میاں نواز شریف کو پنجاب میں وزیر اعلیٰ بنایا تھا جب کہ نواز شریف 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے۔ محمد خان جونیجو کی وفاقی حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیا الحق نے انھیں پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بھی بنایا تھا۔
1988 میں وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی آپس میں سخت مخالفت رہی۔ میاں نواز شریف کو صدر غلام اسحاق اور متعدد حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور 1990 میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا جس کے بعد بے نظیر دوبارہ وزیر اعظم بنیں ان کی حکومت کے خلاف نواز شریف نے تحریک نجات چلائی تھی اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد 1997 میں میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے تو بے نظیر بھٹو نے بھی ان کے خلاف تحریک چلائی اور دونوں میں کوئی اپنی مدت پوری نہ کرسکا تھا اور گیارہ سالوں میں دونوں ایک دوسرے کی مخالفت کرکے باری باری دو دو بار وزیر اعظم بنے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے شدید ترین مخالف تھے اور ایک دوسرے کا اقتدار ختم کرانے کے لیے کوشاں رہے۔
1999 میں دو تہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم نواز شریف کی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرفی کی بے نظیر نے حمایت کی تھی اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی سخت سیاسی مخالف رہیں مگر جنرل صدر پرویز مشرف نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو ملکی سیاست سے باہر نکالنے کے لیے جب دونوں کو جلا وطن ہونے پر مجبور کردیا تھا تو یہ دونوں بھی باہمی سیاسی لڑائی ختم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور دونوں نے لندن میں بیٹھ کر ایک سیاسی معاہدہ جمہوریت کے نام پر کیا تھا۔
2007 میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے بے نظیر بھٹو کو نواز شریف پر اہمیت دی اور این آر او پر مجبور ہوئے مگر وہ بے نظیر کی وطن واپسی کے خلاف تھے جب کہ بے نظیر بھٹو اپنے ساتھ نواز شریف کی وطن واپسی کی خواہاں تھیں۔
جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود بے نظیر واپس آئیں اور 2007 میں ان کی شہادت سے قبل نواز شریف بھی وطن واپس آگئے تھے اور دونوں مل کر ملک میں جمہوریت کی بحالی پر متفق تھے اور دونوں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت پر قائم اور عمل پیرا تھے، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سیاسی طور پر ساتھ چلنے پر مجبور تھے جب کہ دونوں پارٹیوں کے منشور اور ترجیحات مختلف تھیں اور 2008 میں پہلی بار دونوں جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی تھی۔
عدلیہ بحالی کے مسئلے پر آصف زرداری اور نواز شریف ساتھ نہ چل سکے اور مسلم لیگ (ن) پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی مگر اس نے حکومت گرانے کی ماضی کی طرح کوئی کوشش نہیں کی اور پی پی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور بعد میں نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی مدت پوری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کی پیپلز پارٹی میں مخالفت بہت بڑھ گئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرانے کا آصف زرداری ضرور دعویٰ کرتے تھے اور انھوں نے مقتدر حلقوں کے ایما پر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ضرور ختم کرا دی تھی اور بعد میں بلوچستان میں راتوں رات بنائی گئی بلوچستان عوامی پارٹی میں جب مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو شامل کرایا گیا تو مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آصف زرداری نے باپ کے صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین اور اپنے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کرالیا تھا اور دونوں پارٹیوں میں خلیج وسیع ہوتی گئی اور 2018 کے الیکشن میں سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی تیسری حکومت بنالی مگر اکثریت کے باوجود مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنی حکومت نہ بنا سکی اور دو سالوں میں عمران خان نے دونوں پارٹیوں کو نیب کی دوہری پالیسی کے باعث پھر ایک دوسرے کے خلاف مخالفت ختم کرکے پی ڈی ایم میں شامل ہونے پر مجبور کردیا۔
پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے اور وہ پی ڈی ایم میں وزیر اعظم عمران خان کی کڑی اپوزیشن بھی ہے۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو پہلے سینیٹر بنوایا پھر پی ڈی ایم کو نظرانداز کرکے حکومت سے مل کر سینیٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر بھی لے آئی جس پر (ن) لیگ اور پی پی میں پھر اختلافات بڑھے۔
پی ڈی ایم کے ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر انتخاب میں پی پی کے متعلق شکوک بڑھے اور اپوزیشن پھر تقسیم ہوگئی جس کا فائدہ حکومت اور پی پی کو ہوا جس سے پی ڈی ایم میں پی پی کی مخالفت بڑھی اور مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ایک دوسرے کے مزید قریب آگئیں اور دونوں اب پی پی کے مقابلے کے لیے متحد اور پی ڈی ایم میں پی پی کی واپسی نہیں چاہتیں جس سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں سیاسی فاصلے مزید بڑھ رہے ہیں۔
1988 میں وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی آپس میں سخت مخالفت رہی۔ میاں نواز شریف کو صدر غلام اسحاق اور متعدد حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور 1990 میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا جس کے بعد بے نظیر دوبارہ وزیر اعظم بنیں ان کی حکومت کے خلاف نواز شریف نے تحریک نجات چلائی تھی اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد 1997 میں میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے تو بے نظیر بھٹو نے بھی ان کے خلاف تحریک چلائی اور دونوں میں کوئی اپنی مدت پوری نہ کرسکا تھا اور گیارہ سالوں میں دونوں ایک دوسرے کی مخالفت کرکے باری باری دو دو بار وزیر اعظم بنے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے شدید ترین مخالف تھے اور ایک دوسرے کا اقتدار ختم کرانے کے لیے کوشاں رہے۔
1999 میں دو تہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم نواز شریف کی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرفی کی بے نظیر نے حمایت کی تھی اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی سخت سیاسی مخالف رہیں مگر جنرل صدر پرویز مشرف نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو ملکی سیاست سے باہر نکالنے کے لیے جب دونوں کو جلا وطن ہونے پر مجبور کردیا تھا تو یہ دونوں بھی باہمی سیاسی لڑائی ختم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور دونوں نے لندن میں بیٹھ کر ایک سیاسی معاہدہ جمہوریت کے نام پر کیا تھا۔
2007 میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے بے نظیر بھٹو کو نواز شریف پر اہمیت دی اور این آر او پر مجبور ہوئے مگر وہ بے نظیر کی وطن واپسی کے خلاف تھے جب کہ بے نظیر بھٹو اپنے ساتھ نواز شریف کی وطن واپسی کی خواہاں تھیں۔
جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود بے نظیر واپس آئیں اور 2007 میں ان کی شہادت سے قبل نواز شریف بھی وطن واپس آگئے تھے اور دونوں مل کر ملک میں جمہوریت کی بحالی پر متفق تھے اور دونوں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت پر قائم اور عمل پیرا تھے، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سیاسی طور پر ساتھ چلنے پر مجبور تھے جب کہ دونوں پارٹیوں کے منشور اور ترجیحات مختلف تھیں اور 2008 میں پہلی بار دونوں جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی تھی۔
عدلیہ بحالی کے مسئلے پر آصف زرداری اور نواز شریف ساتھ نہ چل سکے اور مسلم لیگ (ن) پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی مگر اس نے حکومت گرانے کی ماضی کی طرح کوئی کوشش نہیں کی اور پی پی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور بعد میں نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی مدت پوری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کی پیپلز پارٹی میں مخالفت بہت بڑھ گئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرانے کا آصف زرداری ضرور دعویٰ کرتے تھے اور انھوں نے مقتدر حلقوں کے ایما پر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ضرور ختم کرا دی تھی اور بعد میں بلوچستان میں راتوں رات بنائی گئی بلوچستان عوامی پارٹی میں جب مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو شامل کرایا گیا تو مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آصف زرداری نے باپ کے صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین اور اپنے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کرالیا تھا اور دونوں پارٹیوں میں خلیج وسیع ہوتی گئی اور 2018 کے الیکشن میں سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی تیسری حکومت بنالی مگر اکثریت کے باوجود مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنی حکومت نہ بنا سکی اور دو سالوں میں عمران خان نے دونوں پارٹیوں کو نیب کی دوہری پالیسی کے باعث پھر ایک دوسرے کے خلاف مخالفت ختم کرکے پی ڈی ایم میں شامل ہونے پر مجبور کردیا۔
پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے اور وہ پی ڈی ایم میں وزیر اعظم عمران خان کی کڑی اپوزیشن بھی ہے۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو پہلے سینیٹر بنوایا پھر پی ڈی ایم کو نظرانداز کرکے حکومت سے مل کر سینیٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر بھی لے آئی جس پر (ن) لیگ اور پی پی میں پھر اختلافات بڑھے۔
پی ڈی ایم کے ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر انتخاب میں پی پی کے متعلق شکوک بڑھے اور اپوزیشن پھر تقسیم ہوگئی جس کا فائدہ حکومت اور پی پی کو ہوا جس سے پی ڈی ایم میں پی پی کی مخالفت بڑھی اور مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ایک دوسرے کے مزید قریب آگئیں اور دونوں اب پی پی کے مقابلے کے لیے متحد اور پی ڈی ایم میں پی پی کی واپسی نہیں چاہتیں جس سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں سیاسی فاصلے مزید بڑھ رہے ہیں۔