کینیڈا میں ایک اور مسلمان خاندان دہشتگردی کا شکار
ہمیں اْن عوامل کو بھی تلاش کرنا ہوگا جو کینیڈین نوجوانوں میں دیگر اقوام کے خلاف نفرت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
دہشت گردی کا یہ افسوسناک واقعہ کینیڈا کے سب سے بڑے صوبہ اونٹاریو کے شہر لندن میں پیش آیا جہاں اسلاموفوبیاکے شکار ایک بیس سالہ دہشت گرد نے اپنا پک اپ ٹرک فٹ پاتھ پر چڑھا کر چار افراد کو کچل کر ہلاک کرڈالا۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی یہ فیملی جو اتوار کی شام کو معمول کی چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلی تھی اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی۔چند روز قبل پیش آنے والے واقعہ میں مرنے والوں میں چوہتر سالہ ضعیف والدہ ، چھیالیس سالہ بیٹا، چوالیس سالہ بیوی اور اْن کی پندرہ سالہ بیٹی شامل ہیں صرف نو سالہ بیٹا اْس بدقسمت فیملی کا واحد فرد ہے جو دہشت گردی کے اس واقعہ میں زندہ بچ سکا لیکن حادثہ میں شدید زخمی ہونے کی وجہ سے ابھی اسپتال میں زیر علاج ہے۔
واقعہ کی اطلاع ٹیلیویژن اور اخبارات کے ذریعے دْنیا بھر میں پھیل گئی۔ لندن (انٹاریو) کے میئر ایڈ ہولڈر نے اس افسوس ناک واقعہ کو لندن کی تاریخ کا افسوسناک باب قرار دیا۔ انھوں نے کہاں کہ لندن (اونٹاریو ) میں مسلمان دیگر کمیونٹی کے ساتھ بڑے پْر امن طریقے سے رہ رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو لندن (انٹاریو) کے مقامی افراد سے بد دل کرنے کی ایک سازش ہے۔
انھوں نے کہا کہ مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تاکہ آیندہ اس طرح کا واقعہ رونماء نہ ہونے پائے۔ اس واقعہ سے صوبہ اونٹاریو اور پورے کینیڈا میں مقیم مسلمانوں میں غم اور خوف کی لہر دوڑ گئی۔ کینیڈا کے مسلمان ابھی چار سال قبل پیش آنے والے واقعہ کو بھی نہ بْھلا پائے تھے کہ جب اسی طرح کا ایک واقعہ کیوبک کی مسجد میں پیش آیا تھا جہاں پر ایک دہشت گرد نے چھ نمازیوں کو دوران نماز شہید کردیا تھا۔
مسلمانوں کو اْمید تھی کہ سخت سزاؤں کے قانون کی بدولت دوبارہ کینیڈا کی سر زمین پر اس نوعیت کا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ لیکن اس موجودہ واقعہ نے مسلمانوں میں ایک بار پھر نئے سرے سے اسلاموفوبیا کے مکمل خاتمے کے لیے بھر پور طور پرکام کرنے کی ضرورت کو سامنے لے آئی ہے۔
صوبہ اونٹاریو اور لندن پولیس کا اقدام اس واقعہ کے حوالے سے قابل تعریف ہے جنھوں نے مجرم کو چند کلومیٹر دور جاکر ہی گرفتار کرلیا۔ پولیس نے اپنی ابتدائی تفتیش میں ہی اسے مسلم نفرت پر مبنی جرم قرار دیا ہے۔ملزم پر دہشت گردی کی دفعات بھی عائد کرنے کا امکان ہے۔یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں مقیم تمام اقلیت بشمول مسلمان کینیڈین پولیس اور یہاں کے سسٹم پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔
اس غمزدہ اور افسوسناک واقعہ کے بعد اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کینیڈا کی پارلیمنٹ میں اس طرح کے مضبوط قوانین بنائے جائیں جس سے اس طرح کی دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں مدد ملے۔ جہاں پر اسکارف پہن کر سائیکل چلانے والی کسی لڑکی پر آواز کسے جانے پر پکڑے جانے اور سزا کا خوف ہو تاکہ اس طرح کا بدنصیب واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو۔ کینیڈا میں بسنے والے پاکستانیوں سمیت تمام مسلم لائرز کو اس حوالے سے اپنی سفارشات کینیڈین حکام تک پہنچانا چاہیے اور مشترکہ طور پر اس قانون کی منظوری کے لیے اپنی تمام تر کوششیں تیز کردینی چاہیے۔
ہمیں اْن عوامل کو بھی تلاش کرنا ہوگا جو کینیڈین نوجوانوں میں دیگر اقوام کے خلاف نفرت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں یہ نفرت صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی زد میں بلیک کمیونٹی، ایشین کمیونٹی اور کینیڈا کا پسماندہ اور دیہاتی طبقہ بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے بھی اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف ہمیں تقسیم کر رہا ہے بلکہ کینیڈا کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ نوجوانوں میں اس پیغام کو عام کرے کہ ہمیں ایک اورمضبوط ہوکر کینیڈا کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی اپنے سفارتی مشن کے ذریعے بھی اس طرح کے قانون کی منظوری کے لیے کینیڈین حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ اسلامو فوبیا کے مْکمل سدباب کے لیے مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی یہ فیملی جو اتوار کی شام کو معمول کی چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلی تھی اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی۔چند روز قبل پیش آنے والے واقعہ میں مرنے والوں میں چوہتر سالہ ضعیف والدہ ، چھیالیس سالہ بیٹا، چوالیس سالہ بیوی اور اْن کی پندرہ سالہ بیٹی شامل ہیں صرف نو سالہ بیٹا اْس بدقسمت فیملی کا واحد فرد ہے جو دہشت گردی کے اس واقعہ میں زندہ بچ سکا لیکن حادثہ میں شدید زخمی ہونے کی وجہ سے ابھی اسپتال میں زیر علاج ہے۔
واقعہ کی اطلاع ٹیلیویژن اور اخبارات کے ذریعے دْنیا بھر میں پھیل گئی۔ لندن (انٹاریو) کے میئر ایڈ ہولڈر نے اس افسوس ناک واقعہ کو لندن کی تاریخ کا افسوسناک باب قرار دیا۔ انھوں نے کہاں کہ لندن (اونٹاریو ) میں مسلمان دیگر کمیونٹی کے ساتھ بڑے پْر امن طریقے سے رہ رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو لندن (انٹاریو) کے مقامی افراد سے بد دل کرنے کی ایک سازش ہے۔
انھوں نے کہا کہ مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تاکہ آیندہ اس طرح کا واقعہ رونماء نہ ہونے پائے۔ اس واقعہ سے صوبہ اونٹاریو اور پورے کینیڈا میں مقیم مسلمانوں میں غم اور خوف کی لہر دوڑ گئی۔ کینیڈا کے مسلمان ابھی چار سال قبل پیش آنے والے واقعہ کو بھی نہ بْھلا پائے تھے کہ جب اسی طرح کا ایک واقعہ کیوبک کی مسجد میں پیش آیا تھا جہاں پر ایک دہشت گرد نے چھ نمازیوں کو دوران نماز شہید کردیا تھا۔
مسلمانوں کو اْمید تھی کہ سخت سزاؤں کے قانون کی بدولت دوبارہ کینیڈا کی سر زمین پر اس نوعیت کا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ لیکن اس موجودہ واقعہ نے مسلمانوں میں ایک بار پھر نئے سرے سے اسلاموفوبیا کے مکمل خاتمے کے لیے بھر پور طور پرکام کرنے کی ضرورت کو سامنے لے آئی ہے۔
صوبہ اونٹاریو اور لندن پولیس کا اقدام اس واقعہ کے حوالے سے قابل تعریف ہے جنھوں نے مجرم کو چند کلومیٹر دور جاکر ہی گرفتار کرلیا۔ پولیس نے اپنی ابتدائی تفتیش میں ہی اسے مسلم نفرت پر مبنی جرم قرار دیا ہے۔ملزم پر دہشت گردی کی دفعات بھی عائد کرنے کا امکان ہے۔یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں مقیم تمام اقلیت بشمول مسلمان کینیڈین پولیس اور یہاں کے سسٹم پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔
اس غمزدہ اور افسوسناک واقعہ کے بعد اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کینیڈا کی پارلیمنٹ میں اس طرح کے مضبوط قوانین بنائے جائیں جس سے اس طرح کی دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں مدد ملے۔ جہاں پر اسکارف پہن کر سائیکل چلانے والی کسی لڑکی پر آواز کسے جانے پر پکڑے جانے اور سزا کا خوف ہو تاکہ اس طرح کا بدنصیب واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو۔ کینیڈا میں بسنے والے پاکستانیوں سمیت تمام مسلم لائرز کو اس حوالے سے اپنی سفارشات کینیڈین حکام تک پہنچانا چاہیے اور مشترکہ طور پر اس قانون کی منظوری کے لیے اپنی تمام تر کوششیں تیز کردینی چاہیے۔
ہمیں اْن عوامل کو بھی تلاش کرنا ہوگا جو کینیڈین نوجوانوں میں دیگر اقوام کے خلاف نفرت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں یہ نفرت صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی زد میں بلیک کمیونٹی، ایشین کمیونٹی اور کینیڈا کا پسماندہ اور دیہاتی طبقہ بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے بھی اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف ہمیں تقسیم کر رہا ہے بلکہ کینیڈا کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ نوجوانوں میں اس پیغام کو عام کرے کہ ہمیں ایک اورمضبوط ہوکر کینیڈا کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی اپنے سفارتی مشن کے ذریعے بھی اس طرح کے قانون کی منظوری کے لیے کینیڈین حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ اسلامو فوبیا کے مْکمل سدباب کے لیے مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔