فرق صاف ظاہر ہے
اردو میں متعدد ایسی ضرب المثل اورکہاوتیں ہیں جو سابق صدر پرویز مشرف کی حالت زار پر صادق آتی ہیں
اردو میں متعدد ایسی ضرب المثل اورکہاوتیں ہیں جو سابق صدر پرویز مشرف کی حالت زار پر صادق آتی ہیں۔ مثلاً برے کام کا برا نتیجہ، جیسی کرنی ویسی بھرنی اور جو بویا ہے وہی کاٹنا ہے وغیرہ وغیرہ اور بلا شبہ جنرل پرویز مشرف آج مکافات عمل سے گزررہے ہیں اور ان کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہاہے لیکن بعض حلقوں میں تشویش کا تاثر بھی ابھر رہا ہے اور کچھ بیرونی تحفظات کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ سعودی وزیرخارجہ کی پاکستان آمد نے ٹھہرے ہوئے پانی میں لہریں پیدا کردیں چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ وہ سعودی بادشاہ کا کون سا ''خصوصی پیغام'' لے کر آئے تھے اور کن ''یقین دہانیوں'' کے ساتھ وطن لوٹ گئے۔ جنرل مشرف کے بیرونی ''سرپرستوں'' اور اندرونی ''محافظوں'' کی بیک ڈور ''سرگرمیوں'' پر میڈیا میں بحث ہورہی ہے۔ آخر وہ کیا عوامل اور محرکات تھے کہ سابق صدر مشرف عدالت میں حاضر ہونے گھر سے نکلے تھے لیکن ڈرامائی انداز میں بیماریٔ دل کے باعث قرب و جوار کے تمام اسپتالوں کو ''بائی پاس'' کرتے ہوئے سیدھے امراض قلب کے اسپتال پہنچ کر ''محصور'' ہوگئے۔
ان کے اس اچانک ''کمانڈو ایکشن'' کے پس پردہ بہت سے تشنہ سوالات سر اٹھا رہے ہیں کہ یہ ڈرامہ کس نے تحریر کیا، اس کا ہدایت کار کن ہے اور اس کے اصل کردار کون ہیں۔ بہر حال اصل حقائق سامنے آنے میں تو وقت لگے گا اور قوم کا اضطراب بڑھتا جائے گا کہ ''پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نظر'' لیکن یہ بات تقریباً طے سمجھی جانی چاہیے کہ تمام تر مراحل سے گزرنے کے بعد بھی غداری مقدمے کا حاصل پرویز مشرف کی جلا وطنی ہوگا۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر ادارہ دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت کرنا اپنا ''آئینی حق'' سمجھتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے آغاز ہی میں واضح کردیا تھا کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ بھارت نے ہمارے ساتھ ہی آزادی حاصل کی جلد ہی آئین تشکیل دے دیا گیا۔ وہاں آج تک سیاست دان ہی ملک کا نظم و نسق چلاتے آرہے ہیں جب کہ فوج آئین کے تحت سرحدوں کی حفاظت کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں آزادی کے بعد ایک عشرے تک آئین کی تشکیل ہی نہ ہوسکی۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد تو جمہوریت کی گاڑی ہچکولے ہی کھاتی رہی اور غیر جمہوریت قوتوں کے اقتدار کے ایوانوں تک آنے کی راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں۔
نتیجتاً 27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے جمہوریت پر پہلا شب خون مارا اور تقریباً 11سال تک بلا شرکت غیرے اقتدار پر قابض رہے۔ پھر 23 مارچ 1969 کو تاج حکمرانی اپنے ہم منصب یحییٰ خان کی جھولی میں ڈال دیا جس نے قوم کو سقوط بنگال کا ایسا کاری زخم لگایا کہ جس سے آج تک لہو رس رہا ہے۔ بقیہ پاکستان کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آئی تو انھوں نے ملک کو ایسا متفقہ آئین بناکر دیا کہ جو آج تک مملکت کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک مقدس دستاویز ہے اسی آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین توڑنا سنگین غداری کے زمرے میں آتاہے لیکن افسوس کہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے محض چار سال بعد ہی پانچ جولائی 1977 کو ایک طالع آزما ضیاء الحق نے ایک منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کرکے آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا سنگین جرم کر ڈالا اور آئین کے خالق عوام کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی لیکن کسی سول حکومت نے ضیاء الحق کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج نہیں کرایا۔ 12 اکتوبر 1999کو پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا لیکن کسی سول حکمران نے ان کے خلاف بھی آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ نہیں چلایا بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت اس آمرانہ اقدام پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی، اس پر مستزاد مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات بھی تفویض کردیے گئے۔
3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ایک مرتبہ پھر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین کو پامال کردیا۔ آج حکومت پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدام کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرکے اسے قانون کے شکنجے میں جکڑنا اور سزا دلانا چاہتی ہے لیکن حیرت انگیز طورپر پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے فوجی اقدام کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ حالانکہ 12 اکتوبر 1999 کو طالع آزما نے میاں نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کیا تھا اور میاں صاحب کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں سزا بھی سنائی گئی تھی پھر سعودی بادشاہ کے ''فرمان شاہی'' کے طفیل میاں صاحب کی جان بخشی ہوگئی اور وہ سعودی عرب سدھار گئے۔ ملک بھر کے مبصرین، تجزیہ نگار، آئینی و قانونی ماہرین، دانشور حلقے اور اکابر سیاست دان سوال اٹھا رہے ہیں کہ پرویز مشرف کا 12 اکتوبر کا اقدام 3 نومبر کی ایمرجنسی کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور بڑا جرم تھا اور نواز حکومت تو ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سے شروع کرنا چاہتے نہ کہ3 نومبر کی ایمرجنسی کے نفاذ سے لیکن حکومت 12 اکتوبر کو دانستہ نظر انداز کرکے صرف 3نومبر کی ایمرجنسی کے اقدام کے خلاف مقدمہ چلانے پر مصر ہے۔
تاکہ سارے حوالے اور ثبوت پرویز سے شروع ہوکر ان ہی پر ختم ہوجائیں اور باقی لوگ محفوظ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے لے کر ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک سب مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ کرنا مقصود ہے تو ان کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سے شروع کیاجائے کہ یہی قرین انصاف ہے۔ ایک اہم سوال یہ اٹھایا جارہاہے کہ کیا 12 اکتوبر اور 3نومبر کے غیر آئینی اقدام تنہا پرویز مشرف کے فیصلے تھے؟ یا ہر دو مواقعوں پر انھوںنے جو غیر جمہوری فیصلے کیے ان کے معاونین دیگر طاقتور لوگ بھی تھے ؟ اور ان کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدام کی تصدیق کی تھی، لہٰذا انصاف کا فطری تقاضا تو یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 6 کی شق (2) (3) کے تحت 12 اکتوبر اور 3نومبر کے تمام کرداروں کو آئین کے کٹہرے میں لایاجائے۔ ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت نے تو جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ہم بھی ''شریک جرم'' تھے، ہمارے خلاف بھی مقدمہ چلائیں اور قائد تحریک الطاف بھائی نے بھی دانشوران قوم کے سامنے 9 نکات پیش کرکے حکومت کو ''شفاف آئینہ'' دکھایاہے۔ اگر وہ اپنا ''اصل چہرہ'' دیکھنا پسند کریں تو...!
پرویز مشرف قانون کے احترام میں عدالت میں پیش ہونے کی بجائے اسپتال جا پہنچے اور خود کو فرد جرم عائد ہونے سے بچالیا۔ جب کہ دوسری جانب سابق سویلین صدر پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے عدالتی حکم کی تعمیل اور قانون کے احترام میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوکر ثابت کردیا کہ پیپلزپارٹی سے وابستہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ کارکن و رہنما ملک کے آئین، قانون اور عدالتوں کا مکمل احترام کرتاہے۔ قبل ازیں شہید بھٹو، بی بی شہید، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی عدالتی حکم کی تعمیل میں ججز کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔ شہید بھٹو نے عدالتی حکم پر پھانسی کی سزا قبول کی۔ یوسف رضا گیلانی نے ایوان وزیراعظم کو خیر باد کہا اور سابق صدر زرداری تو 11سال تک جیل میں رہے لیکن آئین و قانون کے احترام اور عدلیہ کی توقیر و تعظیم پر آنچ نہ آنے دی لیکن صدر مشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا، خود کو کمانڈو کہتے رہے ''میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں'' کی تکرار بھی جاری رہی لیکن جب ''وقت احتساب'' آیا تو بیماریٔ دل کا سہارا لے کر اسپتال جا پہنچے۔ زندہ حقیقت یہی ہے کہ سیاست دان آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں جب کہ طالع آزما ڈکٹیٹر آئین و قانون کو پامال کرتے ہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔
ان کے اس اچانک ''کمانڈو ایکشن'' کے پس پردہ بہت سے تشنہ سوالات سر اٹھا رہے ہیں کہ یہ ڈرامہ کس نے تحریر کیا، اس کا ہدایت کار کن ہے اور اس کے اصل کردار کون ہیں۔ بہر حال اصل حقائق سامنے آنے میں تو وقت لگے گا اور قوم کا اضطراب بڑھتا جائے گا کہ ''پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نظر'' لیکن یہ بات تقریباً طے سمجھی جانی چاہیے کہ تمام تر مراحل سے گزرنے کے بعد بھی غداری مقدمے کا حاصل پرویز مشرف کی جلا وطنی ہوگا۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر ادارہ دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت کرنا اپنا ''آئینی حق'' سمجھتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے آغاز ہی میں واضح کردیا تھا کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ بھارت نے ہمارے ساتھ ہی آزادی حاصل کی جلد ہی آئین تشکیل دے دیا گیا۔ وہاں آج تک سیاست دان ہی ملک کا نظم و نسق چلاتے آرہے ہیں جب کہ فوج آئین کے تحت سرحدوں کی حفاظت کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں آزادی کے بعد ایک عشرے تک آئین کی تشکیل ہی نہ ہوسکی۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد تو جمہوریت کی گاڑی ہچکولے ہی کھاتی رہی اور غیر جمہوریت قوتوں کے اقتدار کے ایوانوں تک آنے کی راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں۔
نتیجتاً 27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے جمہوریت پر پہلا شب خون مارا اور تقریباً 11سال تک بلا شرکت غیرے اقتدار پر قابض رہے۔ پھر 23 مارچ 1969 کو تاج حکمرانی اپنے ہم منصب یحییٰ خان کی جھولی میں ڈال دیا جس نے قوم کو سقوط بنگال کا ایسا کاری زخم لگایا کہ جس سے آج تک لہو رس رہا ہے۔ بقیہ پاکستان کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آئی تو انھوں نے ملک کو ایسا متفقہ آئین بناکر دیا کہ جو آج تک مملکت کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک مقدس دستاویز ہے اسی آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین توڑنا سنگین غداری کے زمرے میں آتاہے لیکن افسوس کہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے محض چار سال بعد ہی پانچ جولائی 1977 کو ایک طالع آزما ضیاء الحق نے ایک منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کرکے آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا سنگین جرم کر ڈالا اور آئین کے خالق عوام کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی لیکن کسی سول حکومت نے ضیاء الحق کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج نہیں کرایا۔ 12 اکتوبر 1999کو پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا لیکن کسی سول حکمران نے ان کے خلاف بھی آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ نہیں چلایا بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت اس آمرانہ اقدام پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی، اس پر مستزاد مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات بھی تفویض کردیے گئے۔
3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ایک مرتبہ پھر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین کو پامال کردیا۔ آج حکومت پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدام کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرکے اسے قانون کے شکنجے میں جکڑنا اور سزا دلانا چاہتی ہے لیکن حیرت انگیز طورپر پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے فوجی اقدام کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ حالانکہ 12 اکتوبر 1999 کو طالع آزما نے میاں نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کیا تھا اور میاں صاحب کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں سزا بھی سنائی گئی تھی پھر سعودی بادشاہ کے ''فرمان شاہی'' کے طفیل میاں صاحب کی جان بخشی ہوگئی اور وہ سعودی عرب سدھار گئے۔ ملک بھر کے مبصرین، تجزیہ نگار، آئینی و قانونی ماہرین، دانشور حلقے اور اکابر سیاست دان سوال اٹھا رہے ہیں کہ پرویز مشرف کا 12 اکتوبر کا اقدام 3 نومبر کی ایمرجنسی کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور بڑا جرم تھا اور نواز حکومت تو ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سے شروع کرنا چاہتے نہ کہ3 نومبر کی ایمرجنسی کے نفاذ سے لیکن حکومت 12 اکتوبر کو دانستہ نظر انداز کرکے صرف 3نومبر کی ایمرجنسی کے اقدام کے خلاف مقدمہ چلانے پر مصر ہے۔
تاکہ سارے حوالے اور ثبوت پرویز سے شروع ہوکر ان ہی پر ختم ہوجائیں اور باقی لوگ محفوظ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے لے کر ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک سب مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ کرنا مقصود ہے تو ان کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سے شروع کیاجائے کہ یہی قرین انصاف ہے۔ ایک اہم سوال یہ اٹھایا جارہاہے کہ کیا 12 اکتوبر اور 3نومبر کے غیر آئینی اقدام تنہا پرویز مشرف کے فیصلے تھے؟ یا ہر دو مواقعوں پر انھوںنے جو غیر جمہوری فیصلے کیے ان کے معاونین دیگر طاقتور لوگ بھی تھے ؟ اور ان کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدام کی تصدیق کی تھی، لہٰذا انصاف کا فطری تقاضا تو یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 6 کی شق (2) (3) کے تحت 12 اکتوبر اور 3نومبر کے تمام کرداروں کو آئین کے کٹہرے میں لایاجائے۔ ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت نے تو جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ہم بھی ''شریک جرم'' تھے، ہمارے خلاف بھی مقدمہ چلائیں اور قائد تحریک الطاف بھائی نے بھی دانشوران قوم کے سامنے 9 نکات پیش کرکے حکومت کو ''شفاف آئینہ'' دکھایاہے۔ اگر وہ اپنا ''اصل چہرہ'' دیکھنا پسند کریں تو...!
پرویز مشرف قانون کے احترام میں عدالت میں پیش ہونے کی بجائے اسپتال جا پہنچے اور خود کو فرد جرم عائد ہونے سے بچالیا۔ جب کہ دوسری جانب سابق سویلین صدر پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے عدالتی حکم کی تعمیل اور قانون کے احترام میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوکر ثابت کردیا کہ پیپلزپارٹی سے وابستہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ کارکن و رہنما ملک کے آئین، قانون اور عدالتوں کا مکمل احترام کرتاہے۔ قبل ازیں شہید بھٹو، بی بی شہید، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی عدالتی حکم کی تعمیل میں ججز کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔ شہید بھٹو نے عدالتی حکم پر پھانسی کی سزا قبول کی۔ یوسف رضا گیلانی نے ایوان وزیراعظم کو خیر باد کہا اور سابق صدر زرداری تو 11سال تک جیل میں رہے لیکن آئین و قانون کے احترام اور عدلیہ کی توقیر و تعظیم پر آنچ نہ آنے دی لیکن صدر مشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا، خود کو کمانڈو کہتے رہے ''میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں'' کی تکرار بھی جاری رہی لیکن جب ''وقت احتساب'' آیا تو بیماریٔ دل کا سہارا لے کر اسپتال جا پہنچے۔ زندہ حقیقت یہی ہے کہ سیاست دان آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں جب کہ طالع آزما ڈکٹیٹر آئین و قانون کو پامال کرتے ہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔