چھ سیاسی محبوب
ہم پاکستانیوں کے 20 ویں صدی تک چھ سیاسی محبوب تھے۔ جملہ کچھ غلط ہوگیا ہے، محبوب تھے نہیں بلکہ ہیں
ہم پاکستانیوں کے 20 ویں صدی تک چھ سیاسی محبوب تھے۔ جملہ کچھ غلط ہوگیا ہے۔ محبوب تھے نہیں بلکہ ہیں۔ بیس کروڑ عوام ان کے پجاری ہیں۔ شاید یہ پتھر کے صنم ہیں جن کے آگے ووٹر ہر چند سال بعد ووٹ دینے کی صورت میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام( ف)، جماعت اسلامی، اے این پی اور بھٹو فیکٹر۔ بعض اوقات صنم بدل جاتے ہیں لیکن چونکہ سیاسی مندر وہی ہوتا ہے لہٰذا پجاری ان ہی کی چوکھٹ پر سر جھکانے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ شیر، پتنگ، کتاب، ترازو، لالٹین اور تیر کے انتخابی نشان پر مہر لگا کر پاکستانی عوام اپنی جبین نیاز ان لیڈروں کے سیاسی آستانوں پر جھکاتے رہتے ہیں۔ رائے ونڈ، نائن زیرو، ڈیرہ، منصورہ، چارسدہ اور بلاول ہاؤس۔ یہ چھ مقامات ووٹروں کی سیاسی آماجگاہیں قرار پاتی ہیں۔ آنکھوں پر پٹی بندھے کولہو کے بیل اور ووٹروں میں کوئی فرق ہے؟ آئیے! نصف صدی کا سفر کرنے والے اور وہیں کے وہیں کھڑے رہنے والے بھولے پجاریوں کی کہانی بیان کرتے ہیں۔
نواز شریف کو پاکستانی ووٹروں نے اسی وقت اپنے دل کے مندر میں بسایا جب جنرل ضیا نے ان کی حمایت کی۔ 85 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد دیہی پنجاب اپنے میں سے وزیر اعلیٰ چن رہا تھا۔ ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے'' جیسا جملہ کہہ کر ضیا الحق نے پاکستانی سیاست کا رخ موڑ دیا۔ بیس سال تک ووٹرز پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم رہا۔ عمران، بلے اور بنی گالا سے قبل تک یہ تقسیم واضح دیکھی جاسکتی تھی۔ پچھلی صدی کے آخری پندرہ برسوں میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے سب کچھ دیکھ لیا۔ فوجی جنرل کی سرپرستی میں اقتدار، جنرل کے بغیر اقتدار، بے نظیر سے محاذ آرائی، اقتدار سے محرومی، قید، مقدمے اور جلاوطنی۔ دور مشرف میں شیر کی سواری سے گریز کرنے والے لوگوں نے جنرل کے جانے کے بعد رائے ونڈ کو پھر سیاسی مرکز بنا لیا۔ پہلے پنجاب کا اقتدار دے کر اور پھر پاکستان کا۔ ملک کے تیس فیصد عوام رائے ونڈ کو اپنا ''سیاسی مرکز'' سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ رہنما ملک کو خوشحال کردیں گے۔ اس مندر کے پجاریوں سے ایک سوال کے بعد ہم دوسرے مندر کے پجاریوں کی جانب بڑھیں گے۔
الطاف حسین 80 کے عشرے میں ابھرنے والے دوسرے لیڈر ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر کے مقابل کراچی کے شہری ایک لیڈر چاہتے تھے۔ الطاف حسین ان کے معیار پر پورے اترے۔ سندھ کے دو بڑے شہروں کے رہنے والوں نے واقعتاً الطاف حسین کو اپنا سیاسی قبلہ مان لیا۔ لیڈر کی اس قدر ''پرستش'' برصغیر کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ''ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے''، قائد کے فرمان پر جان قربان کرنے کے نعرے دیواروں پر بھی نظر آئے عملی طور پر بھی قیادت کی شکایت پر کارکنان کا دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ پر جھپٹنا واضح کرتا ہے کہ متحدہ کے جانثار اپنی اکلوتی اور واحد قیادت پر متحد ہیں۔ ایم کیو ایم کی ذہین اور پڑھی لکھی قیادت سے ایک نازک سوال ''ہم نہیں ہمارے بعد۔ الطاف، الطاف'' کا نعرہ لگانیوالوں سے ایک اہم سوال۔ انھوں نے آنیوالے دنوں، ہفتوں، برسوں نہیں بلکہ عشروں اور صدیوں تک قیادت کے تسلسل کے لیے کیا سوچا ہے؟ کیا تنظیم جن مقاصد کو لے کر چلی تھی وہ کچھ پورے بھی ہوئے؟
مولانا فضل الرحمن تیسرے لیڈر ہیں جو نواز شریف اور الطاف حسین کے بعد منظر سیاست پر ابھر کر سامنے آئے۔ ان کے چاہنے والوں نے بھی ان کا بت اپنے من کے مندر میں سجا لیا ہے۔ اقتدار کے گرد طواف کی سیاست نے دین داروں اور دنیاداروں کو مولانا کا مرید بنالیا ہے۔ حقیقت پسندی کو پسند کرنے والوں اور زمینی حقائق کا صحیح اندازہ لگانے والوں نے مولانا کو سیاست کا گرو مان لیا ہے۔ مشرف، زرداری اور نواز شریف کو جب بھی اقتدار ملا تو مولانا بھی ان کے قریب پائے گئے۔ کراچی و لاہور کے جلسوں میں بڑی تعداد میں عوام کی شرکت کے باوجود ایک سیٹ نہ لے سکنے والے مخلص کارکنوں سے ایک سوال، کیا مولانا فضل الرحمن کی درویشی کے بجائے حقیقت پسندی حقیقت ہے؟
سید منور حسن جماعت اسلامی کے چوتھے سربراہ ہیں۔ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد کے بعد چوتھے منتخب امیر۔ جماعت کا سیاسی نظام ایسی اصطلاحوں کا تقاضا تو نہیں کرتا لیکن قائد کی مرتب کردہ پالیسی پر شوریٰ کا آمنا و صدقنا کہہ دینا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہر جنرل سیکریٹری کے امیر منتخب ہوجانے کی ہیٹ ٹرک ظاہر کرتی ہے کہ اراکین جماعت اپنے امیر کا اشارہ سمجھتے ہیں۔ ایک ہی انداز اور ایک ہی ڈگر پر کام کرتے جماعت کے کارکنان بور ہوچکے ہیں۔ قاضی صاحب کے مختلف انداز نے بہتر نتیجہ نہ دیا یوں جماعت ایک بار پھر مولانا مودودی کے دیے ہوئے فکری نظام پر چل رہی ہے۔ ترکی اور مصر میں اسلامی پارٹیوں کی انتخابی مقبولیت نے جماعت کے حوصلوں کو بلند کیا لیکن حالیہ انتخابی نتیجے نے پھر کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ اکابرین جماعت سے ایک سوال۔ کیا بزرگ قیادت ایک طرف ہوکر نوجوان قیادت کو موقع دے گی؟ چالیس پچاس سالہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، کمیٹڈ۔ آنیوالے دنوں میں کیا جماعت کی اعلیٰ قیادت یہ رسک لے گی؟
اسفند یار ولی کو پاکستان کا سب سے بڑا سیاستدان ہونا چاہیے کہ وہ باپ دادا کو سیاست کرتے دیکھ رہے ہیں۔ غفار خان کا پوتا اور ولی خان کا بیٹا۔ تیسری نسل کا سیاستدان ہونے جیسااعزاز پاکستان میں کسی کو حاصل نہیں۔ سچے، مخلص کارکنان سیاسی سجدے کے لیے چارسدہ کی جانب دیکھتے ہیں۔ کانگریس سے ری پبلکن اور عوامی نیشنل پارٹی سے این ڈی پی اور اب اے این پی۔ سو سالہ جدوجہد میں وزارت اعلیٰ اور صوبے کا نام حاصل کرنے کے بعد انتخابات میں ناکامی۔ اب پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ایک فیصلہ کرنا چاہیے۔ قیادت کے لیے خاندان چاہیے یا میرٹ؟
آصف زرداری پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر ابھرنے والے ایک اہم سیاسی محبوب ہیں۔ 2007 میں بے نظیر کی شہادت کے بعد پارٹی کو کامیاب کروانے، صدارت کا منصب حاصل کرنے اور پانچ سالہ معیاد پوری کرنے والے آخری '' بھگوان''۔ بھٹو کی سیاسی پوجا کرنے والے اور بے نظیر کو دیوی ماننے والے اب آصف زرداری اور بلاول کو اپنے من کے مندر میں بسا چکے ہیں۔ کم از کم اندرون سندھ کی حد تک یہ بات درست ہوسکتی ہے۔ چاروں صوبوں میں بے نظیر کے نام پر اچھے ووٹ لینے والے نے اچھی کارکردگی نہ دکھائی۔ اس بات کو پارٹی کے لیڈر اور جیالے بھی مانتے ہیں۔ اب پارٹی چیئرمین بلاول پارٹی کی قیادت کرتے ہیں تو کیا ہوگا؟ کیا پارٹی اندرون سندھ کے علاوہ بھی کہیں سے ووٹ لے سکے گی؟ کیا وراثت کا نظام کسی پڑھے لکھے مخلص کارکن کو پارٹی کا چیئرمین دیکھ سکے گا؟
عمران خان کا ذکر ہم نے نہیں کیا۔ چھ پارٹیوں نے 75 فیصد ووٹ 2013 کے انتخابات میں حاصل کیے ہیں۔ 25 فیصد ووٹ لینے والے عمران کی بات کرکے تین چوتھائی قارئین کے برا ماننے کا ڈر رہتا ہے لیکن سچ بات کرنی ہو تو ڈر کیسا؟ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ایسے صنم پوجتے رہیں گے؟ بغیر سوچے سمجھے اور اندھے مقلد بن کر۔ ہم کب تک ان پتھر کے بنے سیاسی بتوں کی پرستش کرتے رہیں گے؟ کب تک سیاسی مندروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے رہیں گے؟ کب تک یہی ذلت، رسوائی، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، کرپشن ہمارا مقدر رہے گی؟ کب تک ہم اپنی جبین نیاز خود کی اولاد کے لیے سوچنے والے لیڈروں کے آستانوں پر جھکاتے رہیں گے؟ کبھی ہم اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں گے؟ ہم کب تک آنکھوں پر پٹی بندھے کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر لگاتے رہیں گے؟ کب تک ہم آزمائے ہوؤں کو آزمائیں گے؟ کب تک ہم ان ہی چھ سیاسی مندروں کے پجاری بنے رہیں گے؟ کب تک رہیں گے ہمارے یہی چھ سیاسی محبوب؟
نواز شریف کو پاکستانی ووٹروں نے اسی وقت اپنے دل کے مندر میں بسایا جب جنرل ضیا نے ان کی حمایت کی۔ 85 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد دیہی پنجاب اپنے میں سے وزیر اعلیٰ چن رہا تھا۔ ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے'' جیسا جملہ کہہ کر ضیا الحق نے پاکستانی سیاست کا رخ موڑ دیا۔ بیس سال تک ووٹرز پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم رہا۔ عمران، بلے اور بنی گالا سے قبل تک یہ تقسیم واضح دیکھی جاسکتی تھی۔ پچھلی صدی کے آخری پندرہ برسوں میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے سب کچھ دیکھ لیا۔ فوجی جنرل کی سرپرستی میں اقتدار، جنرل کے بغیر اقتدار، بے نظیر سے محاذ آرائی، اقتدار سے محرومی، قید، مقدمے اور جلاوطنی۔ دور مشرف میں شیر کی سواری سے گریز کرنے والے لوگوں نے جنرل کے جانے کے بعد رائے ونڈ کو پھر سیاسی مرکز بنا لیا۔ پہلے پنجاب کا اقتدار دے کر اور پھر پاکستان کا۔ ملک کے تیس فیصد عوام رائے ونڈ کو اپنا ''سیاسی مرکز'' سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ رہنما ملک کو خوشحال کردیں گے۔ اس مندر کے پجاریوں سے ایک سوال کے بعد ہم دوسرے مندر کے پجاریوں کی جانب بڑھیں گے۔
الطاف حسین 80 کے عشرے میں ابھرنے والے دوسرے لیڈر ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر کے مقابل کراچی کے شہری ایک لیڈر چاہتے تھے۔ الطاف حسین ان کے معیار پر پورے اترے۔ سندھ کے دو بڑے شہروں کے رہنے والوں نے واقعتاً الطاف حسین کو اپنا سیاسی قبلہ مان لیا۔ لیڈر کی اس قدر ''پرستش'' برصغیر کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ''ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے''، قائد کے فرمان پر جان قربان کرنے کے نعرے دیواروں پر بھی نظر آئے عملی طور پر بھی قیادت کی شکایت پر کارکنان کا دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ پر جھپٹنا واضح کرتا ہے کہ متحدہ کے جانثار اپنی اکلوتی اور واحد قیادت پر متحد ہیں۔ ایم کیو ایم کی ذہین اور پڑھی لکھی قیادت سے ایک نازک سوال ''ہم نہیں ہمارے بعد۔ الطاف، الطاف'' کا نعرہ لگانیوالوں سے ایک اہم سوال۔ انھوں نے آنیوالے دنوں، ہفتوں، برسوں نہیں بلکہ عشروں اور صدیوں تک قیادت کے تسلسل کے لیے کیا سوچا ہے؟ کیا تنظیم جن مقاصد کو لے کر چلی تھی وہ کچھ پورے بھی ہوئے؟
مولانا فضل الرحمن تیسرے لیڈر ہیں جو نواز شریف اور الطاف حسین کے بعد منظر سیاست پر ابھر کر سامنے آئے۔ ان کے چاہنے والوں نے بھی ان کا بت اپنے من کے مندر میں سجا لیا ہے۔ اقتدار کے گرد طواف کی سیاست نے دین داروں اور دنیاداروں کو مولانا کا مرید بنالیا ہے۔ حقیقت پسندی کو پسند کرنے والوں اور زمینی حقائق کا صحیح اندازہ لگانے والوں نے مولانا کو سیاست کا گرو مان لیا ہے۔ مشرف، زرداری اور نواز شریف کو جب بھی اقتدار ملا تو مولانا بھی ان کے قریب پائے گئے۔ کراچی و لاہور کے جلسوں میں بڑی تعداد میں عوام کی شرکت کے باوجود ایک سیٹ نہ لے سکنے والے مخلص کارکنوں سے ایک سوال، کیا مولانا فضل الرحمن کی درویشی کے بجائے حقیقت پسندی حقیقت ہے؟
سید منور حسن جماعت اسلامی کے چوتھے سربراہ ہیں۔ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد کے بعد چوتھے منتخب امیر۔ جماعت کا سیاسی نظام ایسی اصطلاحوں کا تقاضا تو نہیں کرتا لیکن قائد کی مرتب کردہ پالیسی پر شوریٰ کا آمنا و صدقنا کہہ دینا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہر جنرل سیکریٹری کے امیر منتخب ہوجانے کی ہیٹ ٹرک ظاہر کرتی ہے کہ اراکین جماعت اپنے امیر کا اشارہ سمجھتے ہیں۔ ایک ہی انداز اور ایک ہی ڈگر پر کام کرتے جماعت کے کارکنان بور ہوچکے ہیں۔ قاضی صاحب کے مختلف انداز نے بہتر نتیجہ نہ دیا یوں جماعت ایک بار پھر مولانا مودودی کے دیے ہوئے فکری نظام پر چل رہی ہے۔ ترکی اور مصر میں اسلامی پارٹیوں کی انتخابی مقبولیت نے جماعت کے حوصلوں کو بلند کیا لیکن حالیہ انتخابی نتیجے نے پھر کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ اکابرین جماعت سے ایک سوال۔ کیا بزرگ قیادت ایک طرف ہوکر نوجوان قیادت کو موقع دے گی؟ چالیس پچاس سالہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، کمیٹڈ۔ آنیوالے دنوں میں کیا جماعت کی اعلیٰ قیادت یہ رسک لے گی؟
اسفند یار ولی کو پاکستان کا سب سے بڑا سیاستدان ہونا چاہیے کہ وہ باپ دادا کو سیاست کرتے دیکھ رہے ہیں۔ غفار خان کا پوتا اور ولی خان کا بیٹا۔ تیسری نسل کا سیاستدان ہونے جیسااعزاز پاکستان میں کسی کو حاصل نہیں۔ سچے، مخلص کارکنان سیاسی سجدے کے لیے چارسدہ کی جانب دیکھتے ہیں۔ کانگریس سے ری پبلکن اور عوامی نیشنل پارٹی سے این ڈی پی اور اب اے این پی۔ سو سالہ جدوجہد میں وزارت اعلیٰ اور صوبے کا نام حاصل کرنے کے بعد انتخابات میں ناکامی۔ اب پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ایک فیصلہ کرنا چاہیے۔ قیادت کے لیے خاندان چاہیے یا میرٹ؟
آصف زرداری پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر ابھرنے والے ایک اہم سیاسی محبوب ہیں۔ 2007 میں بے نظیر کی شہادت کے بعد پارٹی کو کامیاب کروانے، صدارت کا منصب حاصل کرنے اور پانچ سالہ معیاد پوری کرنے والے آخری '' بھگوان''۔ بھٹو کی سیاسی پوجا کرنے والے اور بے نظیر کو دیوی ماننے والے اب آصف زرداری اور بلاول کو اپنے من کے مندر میں بسا چکے ہیں۔ کم از کم اندرون سندھ کی حد تک یہ بات درست ہوسکتی ہے۔ چاروں صوبوں میں بے نظیر کے نام پر اچھے ووٹ لینے والے نے اچھی کارکردگی نہ دکھائی۔ اس بات کو پارٹی کے لیڈر اور جیالے بھی مانتے ہیں۔ اب پارٹی چیئرمین بلاول پارٹی کی قیادت کرتے ہیں تو کیا ہوگا؟ کیا پارٹی اندرون سندھ کے علاوہ بھی کہیں سے ووٹ لے سکے گی؟ کیا وراثت کا نظام کسی پڑھے لکھے مخلص کارکن کو پارٹی کا چیئرمین دیکھ سکے گا؟
عمران خان کا ذکر ہم نے نہیں کیا۔ چھ پارٹیوں نے 75 فیصد ووٹ 2013 کے انتخابات میں حاصل کیے ہیں۔ 25 فیصد ووٹ لینے والے عمران کی بات کرکے تین چوتھائی قارئین کے برا ماننے کا ڈر رہتا ہے لیکن سچ بات کرنی ہو تو ڈر کیسا؟ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ایسے صنم پوجتے رہیں گے؟ بغیر سوچے سمجھے اور اندھے مقلد بن کر۔ ہم کب تک ان پتھر کے بنے سیاسی بتوں کی پرستش کرتے رہیں گے؟ کب تک سیاسی مندروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے رہیں گے؟ کب تک یہی ذلت، رسوائی، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، کرپشن ہمارا مقدر رہے گی؟ کب تک ہم اپنی جبین نیاز خود کی اولاد کے لیے سوچنے والے لیڈروں کے آستانوں پر جھکاتے رہیں گے؟ کبھی ہم اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں گے؟ ہم کب تک آنکھوں پر پٹی بندھے کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر لگاتے رہیں گے؟ کب تک ہم آزمائے ہوؤں کو آزمائیں گے؟ کب تک ہم ان ہی چھ سیاسی مندروں کے پجاری بنے رہیں گے؟ کب تک رہیں گے ہمارے یہی چھ سیاسی محبوب؟