2013 گیا اور 14 آگیا
محنت کش طبقہ متعدد دفعہ اپنی طاقت کا اظہار کر چکا ہے لیکن اصلاح پسند قیادت نجات کا کوئی رستہ نہیں دے رہی
2013 کے واقعات سے بھرپور سال کا اختتام ہو چکا ہے جب کہ 2014 کا ہنگامہ خیز سال بانہیں کھولے کامیابیوں کی جانب پکار رہا ہے۔ 2013 کے سال میں یہ حتمی طور پر واضح ہوگیا کہ دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہوچکی ہے۔ معاشی، سماجی اور سیاسی عدم استحکام شدت اختیار کر چکا ہے۔ معاشی توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش میں عالمی سطح پر سرمایہ دار طبقہ سماجی توازن کھو بیٹھا ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سیاسی ڈھانچہ کمزور ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال کی سب سے اہم تحریک بلا شک و شبہ مرسی کے خلاف جولائی میں ابھرنے والا انقلاب تھا۔ سڑکوں پر موجود 3کروڑ لوگوں نے مصر اور عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کا اظہار کیا۔ اس سے عالمی سطح پر سرمایہ دار طبقے اور ہر سرمایہ دار سیاستدان پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ عوام نے ایک غیر منتخب آمر کے بعد منتخب شدہ آمر کا تختہ الٹ دیا۔ آنے والے وقت میں یورپ میں بھی ایسے ہی حالات بنیں گے۔ سطح سے نیچے پکتے انقلاب نے اپنا سر ایران میں بھی ابھارا جہاں خامنہ ای انتخابات کے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق قابو نہیں کرسکے۔ ترکی جہاں پچھلے عرصے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ دارانہ ترقی ہوئی تھی وہاں ایک بہت بڑی انقلابی تحریک ابھری جس نے بہت سے تجزیہ نگاروں کو حیران کردیا۔ جنوبی افریقہ میں حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس پر سیاہ فام محنت کشوں کا دباؤ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ منڈیلا کے جنازے نے حقیقی ایشوز سے توجہ ہٹانے کی بجائے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یورپ میں یونان بحران میں مزید ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔
محنت کش طبقہ متعدد دفعہ اپنی طاقت کا اظہار کر چکا ہے لیکن اصلاح پسند قیادت نجات کا کوئی رستہ نہیں دے رہی۔جب عوام تیزی سے انقلاب کے رستے پر مائل ہو رہے ہیں ایسے وقت میں نام نہاد بائیں بازو کی قیادت دائیں جانب جھکتی جا رہی ہے اور یورپی یونین ٹرائیکا کی جی حضوری کر رہی ہے۔ نئی سیاسی قوت یونان میں متبادل پیش کی ہے جسے بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے۔ پورے کا پورا جنوبی یورپ ہیجان کی کیفیت میں ہے۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی اور گھروں سے بے دخلیوں کے خلاف تحریک اسپین کے محنت کشوں کی عظیم روایات کو زندہ کر رہی ہے۔ اٹلی میں حکومت افراتفری کا شکار ہے اور کچھ ہفتے قبل جنیوا کی ہڑتالوں نے محنت کشوں کی لڑائی کے جذبے کا اظہار کیا ہے۔ پرتگال میں کٹوتیوں کے خلاف جدو جہد میں جون کی عام ہڑتال سب سے بڑی تھی۔ یورپ کے شمال میں بھی سرمایہ دار طبقے کو انقلاب کے ڈراؤنے خواب آرہے ہیں۔ برطانیہ میں سرمایہ دار طبقہ لیبر پارٹی پر اعتماد نہیں کر پا رہا۔ لیبر پارٹی کے سربراہ ملی بینڈ نے جب شام پر حملے کے خلاف موقف اختیار کیا تو ایسے واقعات کا سلسلہ شروع ہوگیا جو بالآخر شام پر حملے کو ترک کرنے پر اختتام پذیر ہوا۔
آسٹریا اور ڈنمارک میں طلبہ کی ہڑتالوں نے واضح کیا ہے کہ نوجوان تحریک کے لیے تیار ہیں اور محنت کش میدان عمل سے زیادہ دور نہیں۔ لاطینی امریکا کے مستحکم ترین ممالک بھی اب بحران میں داخل ہو رہے ہیں۔ چلی میں طلبہ اور محنت کشوں کی تحریکیں پنوشے کے بعد بننے والی حکومتوں کو کمزور کر رہی ہیں۔ حال ہی میں چلی میں سوشلسٹ پارٹی کی خاتون صدر مشعل منتخب ہوگئی ہیں۔ برازیل میں محنت کشوں کی روایتی پارٹی کی حکومت کو سرمایہ دار نواز پالیسیوں کے باعث عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کولمبیا کی نئی حکومت کو سنجیدہ مخالفت کا سامنا ہے۔وینزویلا میں سرمایہ داری کے خلاف متحرک عوام نے بلدیاتی انتخابات میں یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی کو کامیابی دلائی جس سے عوام نے اپنی خواہش کا ایک مرتبہ پھر اظہار کردیا ہے۔امریکا میں آخر کار حکمران طبقہ آگے بڑھنے کے رستے پر تقسیم ہوچکا ہے۔ سیاسی نظام ایک شدید بحران میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج اب بانجھ پن کا شکار ہوچکا ہے۔ اس میں سنوڈن کے انکشافات اور شام پر حملے کا ناٹک بے نقاب ہوچکا ہے۔ اب طبقاتی کشمکش کسی بھی وقت ابھر سکتی ہے۔
پاکستان کی حالت ان سب ممالک سے زیادہ نازک ہے۔ سماجی، معاشی اور سیاسی بحرانات یہاں روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ نظام کا بحران اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور محنت کش طبقے کے لیے زندگی سلگتی ہوئی جہنم بن چکی ہے۔ سیاسی افق پر براجمان قیادتیں گلے سڑے سماج میں مزید بدبو پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہیں۔ عوام تبدیلی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ لیکن جہاں یہ صورت حال انقلابی نظریات کے حامل افراد کو روشن مستقبل کی امید اور جذبہ فراہم کرتی ہے وہاں سطحی سوچ رکھنے والے، سرمایہ داری میں رہتے ہوئے نام نہاد انقلاب کی بات کرنے والے، قنوطیت پسند مایوسی اور بدگمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مایوسی کی یہی کیفیت سرمایہ دار، دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور معیشت دانوں میں نظر آتی ہے جن کے پاس بہتر زندگی کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ ان کی تمام بحثوں، تجزیوں اور تحریروں کا نچوڑ یہی ہے کہ اس نظام کو حتمی طور پر تسلیم کرلیا جائے اور ذلت کی اس زندگی کو اپنا مقدر تسلیم کرکے صبر کے ساتھ زندگی گزار لی جائے۔ لیکن جس کے سامنے اس کے دل کے ٹکڑے صرف اس لیے دم توڑ رہے ہوں کہ اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں، وہ کب تک صبر کرسکتا ہے۔ جو غربت کی اتھاہ گہرائی میں غرق ہوتے ہوئے اپنے سامنے دوسری جانب دولت کے انبار وسیع ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہو وہ کب تک خاموش رہ سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی بہت بڑی عوامی تحریک اور انقلاب موجود نہیں لیکن آنے والے وقت میں انقلاب کے تناظر کو رد کردینا بھی بہت بڑا تاریخی جرم ہے۔ انسانی سماج کبھی بھی سیدھی لکیر میں سفر نہیں کرتے۔ انقلابی نقطہ نظر تاریخ کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ سماج میں ابھرنے والی تحریکوں نے روایتی دانش کو ہمیشہ حیران کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی آگے کوئی بھی انسانی سماج ہم نوع نہیں ہوتا۔
طبقاتی سماج میں متحارب طبقات کی کشمکش مسلسل جاری رہتی ہے۔ کبھی یہ سطح سے نیچے غیر محسوس انداز میں پنپتی رہتی ہے اور کبھی انقلابی ادوار میں یہ اپنا سر ابھارتی ہے اور پورے معاشی نظام کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیتی ہے۔ معروض کی انھیں کیفیات کو گہرائی میں سمجھنا اور درست نتائج اخذ کرنا انقلابیوں کے لیے ضروری ہے۔ تناظر تخلیق کرنا ایک سائنس ہے۔ ہم ایک ہی پہلو کو دیکھنے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے تاریخی ارتقا کو مادی بنیادوں پر سمجھتے ہوئے اور سماجی معاشی بنیادوں سے جوڑتے ہوئے اس کیفیت میں موجود مختلف متضاد عناصر کی باہمی کشمکش کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس تجزیے کو سماج کے عمومی رجحانات کے پس منظر کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے تناظر تخلیق کیا جاتا ہے جب کہ غلط سرمایہ دارانہ نظریات کے حامل افراد اعداد و شمار کی ترتیب سے لے کر حقائق کے بیان تک ایک مخصوص سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔ اسی طرح حکومت یا سرمایہ دارانہ تحقیقی اداروں اور میڈیا کی رپورٹوں میں بھی جھوٹ کے ساتھ ساتھ مکاری اور عیاری میں نمایاں ہوتی ہے جہاں حقائق کو اپنے مفادات کے لیے مسخ کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں جدلیاتی مادیت سے نابلد تجزیہ نگار اس جال میں ناگزیر طور پر پھنس جاتا ہے اور وہی نتائج اخذ کرتا ہے جو حکمران طبقے کی خواہش کے عین مطابق ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں جہاں عالمی سطح پر ایک جانب بڑی بڑی تحریکیں اور انقلابات برپا ہو رہے ہیں وہاں ان کے منطقی انجام تک نہ پہنچنے کا بھی بہت واویلا کیا جا رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انقلاب کرنے سے بھی معیار زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اس لیے ہر جدوجہد لازمی طور پر رائیگاں جائے گی جب کہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہا جا رہا تھا کہ انقلابات ماضی کا قصہ ہوچکے ہیں۔حالات نے پہلے بھی ایسے قنوطیت پسندوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے اور آیندہ بھی دے گا۔ ہم انقلابی جہاں ان انقلابات کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں اور اسے محنت کش طبقے کا آگے کی جانب عظیم قدم قرار دیتے ہیں وہاں ان میں موجود خامیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے انھیں اجاگر کرتے ہیں اور ان پر قابو پانے کی جدوجہد کرتے ہیں تاکہ عالمی امداد باہمی کا سماج تشکیل دیا جاسکے۔