جاگتے رہنا بھائیوں…
لڑائی صرف جنگ کے میدان میں لڑی جاتی ہے یہ باتیں، یہ دعوی، اب بس کتابی ہیں
DIJKOT:
لڑائی صرف جنگ کے میدان میں لڑی جاتی ہے یہ باتیں، یہ دعوی، اب بس کتابی ہیں ۔ جنگیں لڑنیوالے اپنے مفادات کے لیے نا جانے کون کون سے محاذ کھولتے ہیں، کب کون سا دروازہ کھولا ہو اور کون سی کھڑکی کب بند ہو جائے کسی کو نہیں معلوم ۔ ایسے میں نگاہیں ہر سمت رکھنی ہوتی ہیں ۔ ورنہ اُس ہرن کی طرح موت ہوتی ہے جو دریا کو محفوظ سمجھتی ہے۔ بچپن میں ہمیں کہانی سنائی جاتی تھی کہ ایک ہرنی کی زندگی مشکل میں اُس وقت ہو جاتی ہے جب ایک شکاری جنگل میں گھومتا پھرتا اُسے دیکھ لیتا ہے وہ ہرنی کو دیکھ کر اتنا خوش ہوتا ہے کہ دل میں ٹھان لیتا ہے کہ بس اسی ہرنی کا شکار کرنا ہے ۔ جیسے ہی شکاری پہلی گولی چلاتا ہے ہرنی محتاط ہو کر بھاگنے لگتی ہے اُس کے بعد ہرنی بھا گتی ہوئی جس راستے پر جاتی ہے شکاری اُس کیسامنے آجاتا ہے ۔ ایک لمحے کے لیے ہرنی رکتی ہے اور سوچتی ہے کہ ایسی کوئی جگہ ڈھونڈی جائے جہاں سے شکاری پر نگاہ رہ سکے اور موقعہ نکلنے پر بھاگا بھی جاسکے ۔ ہرنی بھاگتی ہوئی غار کی طرف جاتی ہے لیکن اندر پہنچ کر اُس کو احساس ہوتا ہے کہ یہ جگہ ٹھیک نہیں وہ وہاں سے جیسے ہی نکلتی ہے شکاری کی نگاہ اُس پر پڑ جاتی ہے ۔
ہرنی پھر جان بچانے کے لیے بھاگتی ہے ۔ شکاری کی پسند اب ضد میں بدلنے لگتی ہے وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اس ہرنی کا شکار ضرور کرے گا ۔ ہرنی شکاری کی آنکھوں میں دھول ڈال کر وہاں سے نکل جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن اُس کے ذہن میں یہ بات آجاتی ہے کہ شکاری اُسے نہیں چھوڑے گا۔ اس لیے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈی جائے جہاں سے وہ خود کو محفوظ بنا سکے ۔ وہ رات کے وقت دوڑتی رہتی ہے اور جگہ کی تلاش جاری رکھتی ہے ۔ صبح ہونے سے پہلے اُسے ایک جگہ ایسی نظر آجاتی ہے ۔ وہ دریا کے کنارے پہنچتی ہے جہاں سے جنگل اُسے نظر آتا ہے ۔ و ہ اپنے ذہن کیمطابق اپنی حفاظت کے پہلو پر نگاہ دوڑاتی ہے ۔ ایک طرف جنگل ہے اور دوسری طرف پانی ۔ اگر وہ یہاں پڑائو ڈالتی ہے تو اُسے پانی کے ساتھ کھانا بھی مل جائے گا اور جنگل کی طرف نگاہ بھی رہے گی ۔ جیسے ہی جنگل کی طرف ہلچل ہو گی اُسے معلوم ہو جائے گا اور وہ بچ نکلے گی ۔ وہ اپنے ذہن میں اس بات کا تعین کر لیتی ہے کہ ایک طرف دریا ہونے کی وجہ سے شکاری نہیں آئے گا اور تین طرف تو اُس کی نگاہ ہے ۔ شکاری آہستہ آہستہ جنگل میں قدم بڑھاتے ہوئے جیسے ہی دریا کے سامنے آنے لگتا ہے ۔
ہرنی کو اندازہ ہو جاتا ہے وہ بھاگ جاتی ہے ۔ شکاری ہرنی کی یہ چال سمجھ جاتا ہے ۔ وہ جان چکا ہوتا ہے کہ تین طرف جنگل ہونے کی وجہ سے ہرنی نے جنگل کی طرف تو اپنی آنکھوں کے کیمرے لگائے ہوئے ہیں ۔ اس لیے ان تین میں سے کسی بھی ایک راستے کی طرف سے شکاری آتا ہے تو وہ دو اور راستوں سے بھاگ جاتی ہے لیکن ہرنی کی نظر دریا کی طرف نہیں ہے ۔ شکار ی رات کا انتظار کرتا ہے ۔ ایک کشتی کا انتظام کرتا ہے اور پھر دریاکی سمت سے آہستہ آہستہ ہرنی کی طرف بڑھنے لگتا ہے ۔ ہرنی اپنا منہ جنگل کی طرف کر کے سکون سے لیٹی ہوتی ہے ۔ شکاری اپنی بندوق اٹھاتا ہے اور نشانہ لے کر فائر کردیتا ہے ، گولی کی رفتار ہرنی کو ہلنے کا موقعہ نہیں دیتی اور بس ایک آہ نکلتی ہے کہ کاش میں ایک طرف سے لاپرواہ نہ ہوتی ۔اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کراچی سے لے کر خیبر تک پھیلی ہوئی خونی ہولی ، نفرتوں کی بارش اور فرقوں کی تقسیم کو سمجھیں۔آئیے کچھ مثالیں دیتے ہیں کہ اس ملک کے اندر ریاستی ، غیر ریاستی ، علاقائی اور بین الاقوامی ہاتھ کس طرح ڈوریوں کو ہلاتے ہیں اور کس طرح ہم جیسے ایک طرف سے لاپرواہ لوگ ہرنی کی طرح شکاری کے نشانے پر آجاتے ہیں ۔
اس کے لیے پہلے سفر کیجیے سوات کا جہاں ایک ممتاز عالم دین مولانا محمد عالم خان ہیں جن کے قریبی تعلقات موجودہ طالبان رہنما مولانا فضل اللہ سے بہت بہت اچھے ہیں ۔ اسی مولانا محمد عالم خان کی بات کو ہمیشہ مولانا فضل اللہ بہت اہمیت دیتے ہیں اور انھیں مولانا عالم خان کے بھتیجے کا نام ہے مفتی عثمان یار خان جو کہ مولانا سمیع الحق کی جماعت کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری تھے اور انھیں کراچی میں 17 جنوری کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اب آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ سمیع الحق صاحب نے کہا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ اب سوچیں یہ باتیں مولانا سمیع الحق نے اسلام آباد میں کہیں ۔ ملا فضل اللہ بقول طالبان کے افغانستان میں ہے اُن کے دوست سوات میں اور اُن کے بھتیجے کا قتل ہوتا ہے کراچی میں ؟ سمجھ میں تو آرہا ہو گا ۔ ایکسپریس کے لوگوں کو شہید کیا گیا فون آتا ہے افغانستان سے۔کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ایک چھوٹی سی مگر غیر معمولی خبر کو دیکھیں جس کی تردید کسی نے نہیں کی ۔ اس لیے اُسے بیان کیا جاسکتا ہے کہ چوہدری اسلم کی طالبان رہنما سے کیا بات ہوئی ۔
شایع شدہ خبر کے مطابق طالبان ترجمان نے جب چوہدری اسلم سے کہا کہ وہ اُن کے لوگوں کے خلاف کارروائی بند کر دیں تو چوہدری اسلم نے انھیں برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔ اس پر طالبان رہنما کے بقول انھوں نے غصے میں آنے کی بجائے چوہدری اسلم سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ہماری حکومت سے بات چل رہی ہے اور اگر حکومت نے کراچی کو تحریک طالبان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا تو...؟ اُس پر چوہدری نے کہا کہ وہ کراچی میں اُن کا قبرستان بنا دے گا ۔ میری سمجھ میں طالبان رہنما کی مذاق میں کی ہو ئی بات پھنس گئی ہے کہ اگر حکومت نے کراچی اُن کے حوالے کر دیا تو...؟اب تو آپ کر سمجھ آرہا ہو گا کہ امریکا ، روس ، بھارت ، افغانستان سے پاکستان اور پاکستان میں کراچی سے لے کر خیبر تک ہرنی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے میں بھکر ، ملتان ، لاہور اور پنڈی کو مت بھول جائیے گا کیونکہ شکاری کو شکار پسند آگیا ہے ۔ کراچی پیسہ کے لیے ، پنجاب افرادی قوت کے لیے تو خیبر پختونخواہ طاقت کے اظہارکے لیے ۔ اس لیے جاگتے رہنا بھائیوں ...