’’بحرانوں سے نجات کے لئے فنی تعلیم کا فروغ ضروری ہے‘‘
وطن عزیز کی ترقی میں حصہ ڈالنے کا خواب کوتھم کی صورت میں پورا ہوا
ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ بننے کے لیے ترقی پسند بننا پڑتا ہے، جس کے لیے بلاامتیاز و تفریق سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جبکہ محنت کرنا اور محنت کے پھل کے طورپر ملک وقوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا عوام پر فرض ہے۔
یہی فارمولا دنیا بھر میں اپنایا جاتا ہے کہ بہترین قوم کو پروان چڑھانے کے لیے بہترین سہولیات کی دستیابی کو سو فیصد یقینی بنایا جائے۔ تاہم وطن عزیز میں اس فارمولے پر کوئی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا، یہاں ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' جیسی ضرب المثل نے نہ صرف معاشرہ میں رویوں کا بگاڑ پیدا کیا ہے بلکہ ترقی کی راہوں کو تنگ کردیا ہے۔ ہر فرد اپنے فرائض کوچھوڑ کر دوسروں کی ذمہ داریوں پر زیادہ توجہ دیتا دکھائی دے رہا ہے، جس کے باعث ملک میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران بھی دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ ملک وقوم کی ترقی اور اسے بحرانوں سے نکالنے کے لے موجودہ حکومت کی حکمت عملی پر کوئی شک نہیں گزرتا، لیکن عمل درآمد میں سست روی اور وقت کی ضرورت کے مطابق سہولیات کی فراہمی کے فقدان نے ہمیں پست کردیا ہے۔ ان حالات میں کامیابی کا راز صرف تعلیم کے حصول اور فروغ میں ہی پوشیدہ نہیں بلکہ اس سے ایک قدم اورآگے بڑھ کر فنی تعلیمی کے فروغ کوفوقیت دینا ہوگی، کیوں کہ جس تناسب سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی تناسب سے بے روز گاری بھی بڑھتی جارہی اور ایک محتاط اندازنے کے مطابق ہر سال 15 لاکھ بے روز گار افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے فنی تعلیمی پروگرامز کی پروموشن کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان میں ہوٹل اینڈ مینجمنٹ انڈسٹری کے حوالے سے معروف شخصیت چیف ایگزیکٹوآفیسر کوتھم( کالج آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ) احمد شفیق کا خصوصی انٹرویونظرقارئین ہے۔
احمد شفیق کا شمار پاکستان کی ان سیلف میڈ شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی ترقی پر ہی بات کو ختم نہیں کیا بلکہ اپنی ترقی کو اپنے ملک وقوم کی ترقی سے منسوب کیا اور دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں ملک کی ساکھ کو بہتر کرنے میں کوئی کسرنہ اٹھارکھی بلکہ اگریوں کہا جائے کہ ان کی شخصیت بے لوث اورہر مفاد سے بالاتر ہوکردنیا بھر میں ملک کی پہچان بنی ہوئی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہوٹل اینڈ مینجمنٹ کی دنیا میں جو نام کوتھم نے ان کی سربراہی میں کمایا ہے۔ یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسے ہاتھوں کو مضبوط کرے جو ملک وقوم کی ترقی کو اپنی ترقی مانتے ہیں اوردنیا بھر میں وطن عزیزکی نیک نامی کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ کوتھم جیسے اداروں کو حکومتی سطح پر سہولیات کی فراہمی کرنا فنی تعلیم کے ترقی میں ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔ ''ایکسپریس'' نے اس حوالے سے سی ای او کوتھم احمد شفیق سے چند ایک سوالات کیے، جن کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک وقوم کی ترقی کا انحصار اور بحرانوں سے نجات صرف اورصرف فنی تعلیم کے فروغ پر ہے۔ اس وقت فنی تعلیم اپنی نوعیت کا واحد سرچشمہ ہے، جس کے بل بولتے پر ہیومن ریسوس ڈویلپمنٹ کو فروغ دینے کے ساتھ ملک سے بے روز گاری کا خاتمہ کیاجاسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمومی تعلیم کی اپنی اہمیت ہے اوراس کا اپنا سکوپ ہے، مگر فنی تعلیم سے نظرنہیں چرائی جاسکتی۔ ہمارے ملک میں فنی تعلیم کو شاید معیوب سمجھا جاتا ہو اوربعض افراد اس کو مزدور کا درجہ دیتے ہوں، لیکن یہ حقیقت کے برعکس ہے۔ فنی تعلیم ہی اصل میں زندگی کو سنوارنے کے طریقہ کار سیکھاتی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معاملہ ہو، مینجمنٹ کا شعبہ یا پھر کسی سکیل کی بات کی جائے، ہر لحاظ سے فنی تعلیم انسان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتی ہے۔
کوتھم کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے احمد شفیق نے بتایا کہ 1998ء میں ان کے ذہن میں ہوٹل ہاسپیٹیلیٹی کا آئیڈیا آیا کیوں کہ وہ خود بھی اس کے طالبعلم رہے اورانہیں دنیا بھر میں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور تعلقات بنانے کا موقع بھی ملا۔ جو کہ ان کا انفرادی عمل تھا، مگراس کو انہوں نے ملکی سطح پر بڑھانے اوراپنی کامیابیوں کو ملک وقوم کے نام کرتے ہوئے یہ تہیہ کیا کہ وہ اپنے وطن عزیز میں ایک ایسا ادارہ ضرور بنائیں گے جو ہوٹل اینڈ مینجمنٹ کی تعلیم کے حوالے سے پروان چڑھے اور اس میں کامیاب ہونے والے افراد ملک وقوم کی ترقی کا مضبوط حصہ بنیں۔ یہ خواب 2002ء میں کوتھم کے قیام کی صورت میں پورا ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے علاوہ مزید شہروں، جن میں کراچی، ملتان، اوکاڑہ، شیخوپورہ اورفیصل آباد شامل ہیں، میں بھی اس نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ مسقبل قریب میں اسلام آباد اورپشاور میں بھی اس کے مزید کیمپس کھولے جارہے ہیں۔ احمد شفیق نے بتایا کہ انہوں نے فنی تعلیم کی پروموشن کو صرف کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ویلفیئر کے نظریہ کے تحت ہونہار اور مستحق طلبہ وطالبات پر ادارے کی جانب سے فنڈز بھی لگائے اوران کی پڑھائی کے اخراجات بھی اٹھائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کے کیمپسز میں پڑھایا جانے والا نصاب بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہے۔
اس ادارے کا الحاق برطانیہ اورامریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے مختلف انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ہے اور اسی بنیاد پر نہ صرف ملکی سطح پر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوٹل اینڈ مینجمنٹ کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے بلکہ ہمارے کوالیفائیڈ طلبہ وطالبات غیر ممالک میں بھی باعزت روزگار کما رہے ہیں۔ احمد شفیق کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ اس کام کو اور زیادہ بہترکرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں جس کے لے زمین لے لی گئی ہے تاہم اس یونیورسٹی میں بنیادی سہولیات جس میں اس کی منظوری بھی شامل ہے، کے لیے حکومت پنجاب سے رابطہ بھی کررکھا ہے اور امید ہے جلد منظوری ملنے کے بعد یونیورسٹی کے قیام کے لئے تیزی سے کام شروع کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہوٹل انڈسٹری میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور کام کرنے والے مختلف شعبوں کے ماہرین کی طلب بڑھتی جارہی ہے، اس سے بے روز گاری پر اسی فیصد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فنی تعلیم کی اہمیت کو سرکاری سطح پر اجاگر کیاجائے اوراس کی ترویج کے لیے نجی سیکٹر کو حکومت کا بازو تصور کیاجائے۔
فنی تعلیم کی اہمیت کوبڑھانے کے لیے جماعت نہم اوردہم میں فنی تعلیم کا ایک مضمون آرٹس کے امیدواران کے لیے لازمی قراردیا جائے، جس میں ہوٹل انڈسٹری کو بھی بطور مضمون شامل کیاجائے۔ چیف ایگزیکٹوآفیسر کوتھم نے بتایا کہ اس وقت تک کوتھم کے ذریعہ سے چھ ہزار طلبہ وطالبات کو بین الاقوامی معیار کا ہوٹل انڈسٹری کا ماہر بنادیا گیا ہے جو دنیا بھر میں اپنے جوہر دکھارہے ہیں۔ جبکہ سکالر شپ اوردیگر سہولیات کی مد میں ایک سو پچاس سے زائد طلبہ وطالبات کو روزگارفراہم کیاگیا ہے۔ نوجوان نسل کو اپنا پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روزگارہر فرد کی ضرورت ہے اس کے بغیر کسی انسان کا گزارا نہیں ہے تاہم آپ اپنے وطن میں ہوں یا وطن سے باہر ملک وقوم کی سالمیت اور استحکام کی خاطر اپنی فنی صلاحیت کو بروئے کار لائیں اور اپنے ہر قدم ،کردار اور عمل میں محب الوطنی کو اپنائیں تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہنچان بننے والے آج کے نوجوان اقوام عالم میں ایک مثال بن کر ابھریں۔
یہی فارمولا دنیا بھر میں اپنایا جاتا ہے کہ بہترین قوم کو پروان چڑھانے کے لیے بہترین سہولیات کی دستیابی کو سو فیصد یقینی بنایا جائے۔ تاہم وطن عزیز میں اس فارمولے پر کوئی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا، یہاں ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' جیسی ضرب المثل نے نہ صرف معاشرہ میں رویوں کا بگاڑ پیدا کیا ہے بلکہ ترقی کی راہوں کو تنگ کردیا ہے۔ ہر فرد اپنے فرائض کوچھوڑ کر دوسروں کی ذمہ داریوں پر زیادہ توجہ دیتا دکھائی دے رہا ہے، جس کے باعث ملک میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران بھی دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ ملک وقوم کی ترقی اور اسے بحرانوں سے نکالنے کے لے موجودہ حکومت کی حکمت عملی پر کوئی شک نہیں گزرتا، لیکن عمل درآمد میں سست روی اور وقت کی ضرورت کے مطابق سہولیات کی فراہمی کے فقدان نے ہمیں پست کردیا ہے۔ ان حالات میں کامیابی کا راز صرف تعلیم کے حصول اور فروغ میں ہی پوشیدہ نہیں بلکہ اس سے ایک قدم اورآگے بڑھ کر فنی تعلیمی کے فروغ کوفوقیت دینا ہوگی، کیوں کہ جس تناسب سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی تناسب سے بے روز گاری بھی بڑھتی جارہی اور ایک محتاط اندازنے کے مطابق ہر سال 15 لاکھ بے روز گار افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے فنی تعلیمی پروگرامز کی پروموشن کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان میں ہوٹل اینڈ مینجمنٹ انڈسٹری کے حوالے سے معروف شخصیت چیف ایگزیکٹوآفیسر کوتھم( کالج آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ) احمد شفیق کا خصوصی انٹرویونظرقارئین ہے۔
احمد شفیق کا شمار پاکستان کی ان سیلف میڈ شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی ترقی پر ہی بات کو ختم نہیں کیا بلکہ اپنی ترقی کو اپنے ملک وقوم کی ترقی سے منسوب کیا اور دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں ملک کی ساکھ کو بہتر کرنے میں کوئی کسرنہ اٹھارکھی بلکہ اگریوں کہا جائے کہ ان کی شخصیت بے لوث اورہر مفاد سے بالاتر ہوکردنیا بھر میں ملک کی پہچان بنی ہوئی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہوٹل اینڈ مینجمنٹ کی دنیا میں جو نام کوتھم نے ان کی سربراہی میں کمایا ہے۔ یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسے ہاتھوں کو مضبوط کرے جو ملک وقوم کی ترقی کو اپنی ترقی مانتے ہیں اوردنیا بھر میں وطن عزیزکی نیک نامی کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ کوتھم جیسے اداروں کو حکومتی سطح پر سہولیات کی فراہمی کرنا فنی تعلیم کے ترقی میں ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔ ''ایکسپریس'' نے اس حوالے سے سی ای او کوتھم احمد شفیق سے چند ایک سوالات کیے، جن کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک وقوم کی ترقی کا انحصار اور بحرانوں سے نجات صرف اورصرف فنی تعلیم کے فروغ پر ہے۔ اس وقت فنی تعلیم اپنی نوعیت کا واحد سرچشمہ ہے، جس کے بل بولتے پر ہیومن ریسوس ڈویلپمنٹ کو فروغ دینے کے ساتھ ملک سے بے روز گاری کا خاتمہ کیاجاسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمومی تعلیم کی اپنی اہمیت ہے اوراس کا اپنا سکوپ ہے، مگر فنی تعلیم سے نظرنہیں چرائی جاسکتی۔ ہمارے ملک میں فنی تعلیم کو شاید معیوب سمجھا جاتا ہو اوربعض افراد اس کو مزدور کا درجہ دیتے ہوں، لیکن یہ حقیقت کے برعکس ہے۔ فنی تعلیم ہی اصل میں زندگی کو سنوارنے کے طریقہ کار سیکھاتی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معاملہ ہو، مینجمنٹ کا شعبہ یا پھر کسی سکیل کی بات کی جائے، ہر لحاظ سے فنی تعلیم انسان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتی ہے۔
کوتھم کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے احمد شفیق نے بتایا کہ 1998ء میں ان کے ذہن میں ہوٹل ہاسپیٹیلیٹی کا آئیڈیا آیا کیوں کہ وہ خود بھی اس کے طالبعلم رہے اورانہیں دنیا بھر میں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور تعلقات بنانے کا موقع بھی ملا۔ جو کہ ان کا انفرادی عمل تھا، مگراس کو انہوں نے ملکی سطح پر بڑھانے اوراپنی کامیابیوں کو ملک وقوم کے نام کرتے ہوئے یہ تہیہ کیا کہ وہ اپنے وطن عزیز میں ایک ایسا ادارہ ضرور بنائیں گے جو ہوٹل اینڈ مینجمنٹ کی تعلیم کے حوالے سے پروان چڑھے اور اس میں کامیاب ہونے والے افراد ملک وقوم کی ترقی کا مضبوط حصہ بنیں۔ یہ خواب 2002ء میں کوتھم کے قیام کی صورت میں پورا ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے علاوہ مزید شہروں، جن میں کراچی، ملتان، اوکاڑہ، شیخوپورہ اورفیصل آباد شامل ہیں، میں بھی اس نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ مسقبل قریب میں اسلام آباد اورپشاور میں بھی اس کے مزید کیمپس کھولے جارہے ہیں۔ احمد شفیق نے بتایا کہ انہوں نے فنی تعلیم کی پروموشن کو صرف کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ویلفیئر کے نظریہ کے تحت ہونہار اور مستحق طلبہ وطالبات پر ادارے کی جانب سے فنڈز بھی لگائے اوران کی پڑھائی کے اخراجات بھی اٹھائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کے کیمپسز میں پڑھایا جانے والا نصاب بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہے۔
اس ادارے کا الحاق برطانیہ اورامریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے مختلف انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ہے اور اسی بنیاد پر نہ صرف ملکی سطح پر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوٹل اینڈ مینجمنٹ کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے بلکہ ہمارے کوالیفائیڈ طلبہ وطالبات غیر ممالک میں بھی باعزت روزگار کما رہے ہیں۔ احمد شفیق کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ اس کام کو اور زیادہ بہترکرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں جس کے لے زمین لے لی گئی ہے تاہم اس یونیورسٹی میں بنیادی سہولیات جس میں اس کی منظوری بھی شامل ہے، کے لیے حکومت پنجاب سے رابطہ بھی کررکھا ہے اور امید ہے جلد منظوری ملنے کے بعد یونیورسٹی کے قیام کے لئے تیزی سے کام شروع کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہوٹل انڈسٹری میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور کام کرنے والے مختلف شعبوں کے ماہرین کی طلب بڑھتی جارہی ہے، اس سے بے روز گاری پر اسی فیصد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فنی تعلیم کی اہمیت کو سرکاری سطح پر اجاگر کیاجائے اوراس کی ترویج کے لیے نجی سیکٹر کو حکومت کا بازو تصور کیاجائے۔
فنی تعلیم کی اہمیت کوبڑھانے کے لیے جماعت نہم اوردہم میں فنی تعلیم کا ایک مضمون آرٹس کے امیدواران کے لیے لازمی قراردیا جائے، جس میں ہوٹل انڈسٹری کو بھی بطور مضمون شامل کیاجائے۔ چیف ایگزیکٹوآفیسر کوتھم نے بتایا کہ اس وقت تک کوتھم کے ذریعہ سے چھ ہزار طلبہ وطالبات کو بین الاقوامی معیار کا ہوٹل انڈسٹری کا ماہر بنادیا گیا ہے جو دنیا بھر میں اپنے جوہر دکھارہے ہیں۔ جبکہ سکالر شپ اوردیگر سہولیات کی مد میں ایک سو پچاس سے زائد طلبہ وطالبات کو روزگارفراہم کیاگیا ہے۔ نوجوان نسل کو اپنا پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روزگارہر فرد کی ضرورت ہے اس کے بغیر کسی انسان کا گزارا نہیں ہے تاہم آپ اپنے وطن میں ہوں یا وطن سے باہر ملک وقوم کی سالمیت اور استحکام کی خاطر اپنی فنی صلاحیت کو بروئے کار لائیں اور اپنے ہر قدم ،کردار اور عمل میں محب الوطنی کو اپنائیں تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہنچان بننے والے آج کے نوجوان اقوام عالم میں ایک مثال بن کر ابھریں۔