وفاقی بجٹ پیش موبائل کالز اور انٹرنیٹ پیکجز مہنگے الیکٹرک اور 850 سی سی گاڑیاں سستی
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے لیے 8 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کا بجٹ پیش کیا گیا۔
اپوزیشن احتجاج
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ اپوزیشن اراکین نے شور شرابہ شروع کردیا اور شدید نعرے بازی کی۔ انہوں نے مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی کے نعرے لگائے، اور نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کرنے اور ڈیسک بجانے لگے جس کی وجہ سے اتنا شور ہوا کہ ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ ایک موقع پر تو اسپیکر کو خواتین اپوزیشن ارکان کو حکومتی بینچز سے ہٹانے کے لیے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کرنا پڑا۔
قبرستان میں مردے اکھاڑنا
وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کے استحکام میں وقت لگا، سابق حکومت نے قرض لیکر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے، لیکن موجودہ حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے، صنعت کی ترقی غیرمعمولی رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے آغاز میں پی ٹی آئی حکومت کو ورثے میں ملنے والی خراب معاشی صورتحال اور قرضوں و خساروں کا ذکر کیا تاہم انہوں نے کہا کہ قبرستان میں کھڑے ہوکر مردے اکھاڑنے سے بہتر ہے کہ باہر نکل کر قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے استحکام کا مرحلہ کافی حد تک مکمل ہوگیا ہے اور اب ترقی و استحکام ہدف ہوگا۔
موبائل فون کالز، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پیکجز مہنگے
وزیر خزانہ نے کہا کہ 3 منٹ سے زائد جاری رہنے والی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال، ایس ایم ایس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جارہی ہے جس سے آبادی کے بڑے حصے پر ٹیکس نافذ ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ موبائل سروسز پر موجودہ ود ہولڈنگ ٹیکس 12.5 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کردیا جائے گا اور کچھ عرصے بعد 8 فیصد کیا جائے گا۔
آئی ٹی پر ٹیکس چھوٹ
آئی ٹی سروس کی برآمدات کو زیرو ریٹنگ کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کردی گئی۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لیے معیاری کاغذ کی درآمد پر بھی چھوٹ دے دی گئی۔ خود تلف ہونے والی سرنجز اور آکسیجن سلنڈرز پر ٹیکس چھوٹ دے دی گئی۔
موبائل فون اور ٹائرز مہنگے
وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں موبائل فون اور ٹائروں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی جارہی ہے، برآمدات کے فروغ کیلئے خصوصی ایکسپورٹ اسکیم متعارف کروائی جارہی ہے جس کے تحت ایس ایم ایز و دیگر شعبے ڈیوٹی فری درآمدات کرسکیں گے جس کی معیاد بھی دو سال سے بڑھا کر 5 سال کی جارہی ہے۔
بلاسود قرضے
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لیے 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔ ہر کاشت کار گھرانے کو ہر فصل کی کاشت کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرضے دیں گے۔ اسی طرح ٹریکٹرز اور مشینی امداد کے لیے 2 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔
کم لاگت گھروں کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ روپے تک سستے قرضے، ہر گھرانے کو صحت کارڈ اور ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی۔ گھر کی خریدار یا تعمیر میں مدد کے لیے 3 لاکھ روپے سبسڈی دی جارہی ہے جس کے لیے بجٹ میں 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ احساس پروگرام کے لیے 260 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
الیکٹرک اور 850 سی سی گاڑیاں سستی
الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی مینو فیکچرنگ کے لیے کٹس کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ ان گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے 1 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔ مقامی طور پر بنائی گئی 850 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور VAT ٹیکس ختم کردیا گیا۔ ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے کم کرکے ساڑھے 12 فیصد کردی گئی۔
درآمدات پر ٹیکس استثنیٰ
آئندہ بجٹ میں کتابوں، رسالوں، زرعی آلات اور 850 سی سی گاڑیوں کے سی بی یو کی درآمد کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔
بجٹ خسارہ
وزیر خزانہ نے کہا کہ اخراجات میں 14 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے اور 7523 ارب روپے رہنے کی توقع ہے۔ آئندہ سال کا مجموعی بجٹ خسارہ 6.3 فیصد ہوگا جبکہ موجودہ سال کا بجٹ خسارہ 7.1 فیصد ہے۔
ریونیو اور صوبوں کا حصہ
شوکت ترین نے کہا کہ آئندہ مالی سال کیلئے مجموعی ریونیو کا تخمینہ 7909 ارب روپے ہے اور ریونیو میں اضافہ کا ہدف 24 فیصد ہے، ایف بی آر کا ہدف 24 فیصد گروتھ کے ساتھ 5829 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے اور نان ٹیکس ریونیو گروتھ کا ہدف 22 فیصد رکھا گیا ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2704 ارب روپے سے بڑھا کر 3411 ارب روپے کردیا ہے، صوبوں کو 707 ارب روپے اضافی دیے جائیں گے۔ شوکت ترین نے مزید کہا کہ وفاق کراچی کی بہتری کے لیے 98 ارب روپے دے گا۔
تنخواہیں اور پنشن
وزیر خزانہ نے کہا کہ یکم جولائی سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا، اردلی الاؤنس کو 14000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر ساڑھے سترہ ہزار روپے ماہانہ کیا جائے گا، اسی طرح گریڈ ایک سے پانچ کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الاؤنس کو ساڑھے چار سو روپے سے بڑھا کر 900 روپے کیا جارہا ہے، کم آمدنی والے افراد پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کیلئے کم سے کم اجرت بڑھا کر 20 ہزار روپے ماہانہ کی جارہی ہے، تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ میں اخراجات جاریہ 14 فیصد اضافہ کے ساتھ 6561 ارب روپے سے بڑھا کر 7523 ارب روپے کیا جارہا ہے، سبسڈیز کیلئے 682 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔
پوائنٹ آف سیل مشینیں
تھوک اور پرچون کاروباروں کے لیے پی او ایس مشینیں اس وقت 11 ہزار دکانوں میں نصب ہیں جنہیں 2 سال میں بڑھا کر 5 لاکھ ریٹیل دکانوں میں نصب کیا جائے گا جو ایف بی آر سے منسلک ہوں گی۔ حکومت ان مشینوں کی تنصیب مفت کرے گی۔
کورونا
وزیر خزانہ کے مطابق کووڈ ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کورونا ویکسین کی درآمد پر 1.1 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے، جون 2022 تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔
پاک چین اقتصادی راہداری
سی پیک کے 13 ارب ڈالر کے 17 بڑے منصوبے مکمل کر لیے گئے اور 21 ارب ڈالر مالیت کے مزید 21 منصوبے جاری ہیں، اسٹریٹجک نوعیت کے 28ارب ڈالر کے 26 منصوبے زیر غور ہیں، بجٹ میں کراچی لاہور موٹروے کی تکمیل ترجیحات میں شامل ہے۔
دفاعی بجٹ
دفاعی اخراجات کی مد میں تنخواہوں اور پنشن سمیت دیگر اخراجات کے لیے 13 کھرب 70 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا جو کہ 9.8 فیصد ہے۔
بجٹ دستاویزات سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ڈیفنس سروسز کے لیے 13 کھرب 70 ارب روپے اور پاک فوج کے لیے 6 کھرب 51 ارب 54 کروڑ، ایئرفورس کے لیے 2 کھرب 91 ارب 20 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی۔ پاکستان نیوی کی تنخواہوں و پنشن اور دیگر اخرجات کے لیے 1 کھرب 48 ارب 73 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی۔
نئے سال کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 16 فیصد اور جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے، جس میں سے پاک آرمی کا دِفاعی بجٹ ملکی بجٹ کا 7 فیصد ہے۔
آبی ذخائر
وزیر خزانہ نے کہا کہ آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 91 ارب روپے، داسو ہائیڈور پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے مختص، دیامبر بھاشا ڈیم کے لیے 23ارب، مہمند ڈیم کے لیے 6ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں، جب کہ نیل جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے 15ارب روپے کی تجویز ہے۔
توانائی
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجلی کی ترسیل کے منصوبوں کے لیے 118 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اسلام آباد اور لاہور میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کے لیے ساڑھے سات ارب روپے اور داسو سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ساڑھے آٹھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ری کلیمڈ اور استعمال شدہ لیڈ بیٹریوں پر سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ نافذ کیا جارہا ہے۔
بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، سندھ کے لیے گرانٹ
وزیر خزانہ کے مطابق جنوبی بلوچستان ترقیاتی پلان کیلئے 20 ارب روپے، گلگت بلتستان سوشیو اکنامک ڈویلپمنٹ پلان کیلئے 40 ارب روپے، گلگت بلتستان کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں 47 ارب روپے، آزاد کشمیر کو گرانٹ ان ایڈ کی مدمیں60 ارب روپے، سندھ کو گرانٹ ان ایڈ کی مد19 ارب روپے ، بلوچستان کو این ایف سی کے حصے کے علاوہ گرانٹ ان ایڈ کی مدمیں 10 ارب روپے، نئی مردم شماری کیلئے5 ارب روپے، لوکل الیکشن کے انعقاد کیلئے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
اینٹی ریپ فنڈ، ایچ ای سی، پی آئی اے، اسٹیل ملز، مردم شماری
وزیر خزانہ نے کہا کہ انسداد جنسی زیادتی فنڈ قائم کیا جارہا ہے جس کے لیے 100 ملین روپے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 66 ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ کے لیے مزید 44 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں بعدازاں 15 ارب روپے اضافہ ہوگا۔ پی آئی اے کے لیے 20 ارب، اسٹیل ملز کے لیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مردم شماری کے لیے 5 ارب، مقامی حکومتوں کے الیکشن کے لیے 5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
چھوٹے کاروبار کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ
وزیر خزانہ نے کہا کہ 10 ملین روپے تک سالانہ ٹرن اوور والی گھریلو صنعت کو سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن سے استثنیٰ دے دیا گیا۔ سوتی دھاگہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی کو بھی ختم کردیا گیا، صنعتی معیشت کو مزید تقویت دینے کے لیے رواں مالی سال ٹیکسٹائل سے متعلقہ اشیاء کی 164 ٹیرف ہیڈنگز پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کردیا گیا ہے، 300 سے زائد ایکٹیو فارما سیوٹیکل اجزاء کو کسٹمز ڈیوٹیز ادائیگی سے چھوٹ دے دی ہے۔
ٹیکس اتھارٹی کے صوابدیدی اختیارات میں کمی
شوکت ترین نے بتایا کہ ٹیکس حکام کے آڈٹ اور انکوائری کرنے کے صوابدیدی اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کےلیے ایف بی آر کی بجائے تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کروایا جائے گا۔
ترقیاتی بجٹ
آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کو 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے مقرر کیا گیا جو 40 فیصد اضافہ ہے۔ اس میں سے وفاقی وزارتوں کو 672 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ملے گا، ایوی ایشن ڈویژن کیلئے 4 ارب 29 کروڑ، کابینہ ڈویژن کو56ارب2کروڑ روپے ، موسمیاتی تبدیلی 14ارب روپے، کامرس ڈویژن 30 کروڑ روپے، وزارت تعلیم و تربیت کیلئے9 ارب روپے، وزارت خزانہ 94ارب روپے ، ہائر ایجوکیشن کمیشن 37 ارب روپے ، ہاؤسنگ و تعمیرات کیلئے 14 ارب94 کروڑ، وزارت انسانی حقوق 22 کروڑ، وزارت صنعت و پیداوار 3 ارب، وزارت اطلاعات 1 ارب 84 کروڑ روپے، وزارت آئی ٹی 8 ارب روپے، بین الصوبائی رابطہ کیلئے 2 ارب 56 کروڑ، وزارت داخلہ 22 ارب روپے، امورکشمیر اورگلگت بلتستان کیلئے61ارب، وزارت قانون و انصاف 6 ارب، امور جہازرانی و میری ٹائم کیلئے 4 ارب 95 کروڑ، وزارت انسداد منشیات کیلئے 33 کروڑ، وزارت غذائی تحفظ کے لیے 12 ارب ، نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے 22ارب82 کروڑ، قومی ورثہ و ثقافت کیلئے 4 کروڑ 59 لاکھ، پٹرولیم ڈویژن 3 ارب 7 کروڑ روپے، وزارت منصوبہ بندی 99 ارب 25 کروڑ، سماجی تحفظ 11 کروڑ 89 لاکھ، ریلوے ڈویژن کیلئے 30 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی 8 ارب 11 کروڑ، آبی وسائل 110 ارب روپے، این ایچ اے 113 ارب 95 کروڑ روپے، پیپکو کے لیے 53 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مقرر کیا گیا ہے۔ دیگر ضروریات و ایمرجنسی کیلئے 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تقریر کے اختتام پر وزیر اعظم نے وزیر خزانہ کو ان کی نشست پر جا کر شاباشی دی۔ قومی اسمبلی اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔