کوہساروں کا بین الاقوامی دن
تیسرے پاکستان ماؤنٹین فیسٹیول کی تقریبات میںنسٹ کے طلبہ، اساتذہ اورماہرین نے مل کر کام کیا
کوہساروں کے بین الاقوامی دن کے حوالے سے تیسرا پاکستان مائونٹین فیسٹیول ڈیویلپمنٹ کمیونیکیشنز نیٹ ورک (ڈیو کام/ پاکستان)، نیشنل یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے انسٹیٹیوٹ آف انوائرنمِنٹل سائنس اینڈ انجینئرنگ (IESE) اور سیڈ پراجیکٹ کے باہمی اشتراک سے نسٹ میں منعقد کیا گیا۔ یونی ورسٹی کے طالب علموں کے لیے گیارہ روز تک ماہرین ماحولیات اور ماحولیاتی ابلاغ کے ساتھ کام کرنے کا یہ پہلا موقع تھا، جس سے طلبہ و طالبات نے بھر پور استفادہ کیا۔
تیسرے پاکستان مائونٹین فیسٹیول کی ابتدا مارگلہ ہلز ٹریل تھری پر ماحول دوست واک سے ہوا جس میں ایک سو سے زیادہ طلبہ و طالبات نے ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر عمران ہاشمی، ڈاکٹر محمد فہیم اور منیر احمد کی قیادت میں حصہ لیا۔ اس ماحول دوست واک کے شرکاء نے تقریبا چھے کلو میٹر لمبے ٹریک کی صفائی بھی کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ کمیونیکیشنز نیٹ ورک منیر احمد نے طلبہ و طالبات کے ماحول دوست اقدامات کو سراہا۔ انھوں نے کہا ''ہمارے نوجوان ہمارا روشن مستقبل ہیں، مثبت کاموں کی طرف ان کی رہ نمائی کرنا، اساتذہ اور ماہرین کا کام ہے۔ کوہ ساروں کا حسن اور وسائل ہماری زندگی ہیں، ہم سب کا فرض ہے کہ ہم جب بھی کوہ ساروں کی سیرکو جائیں، تووہاں کچرا نہ پھیلائیں، بل کہ کچرا بیگ میں ڈال کر لے آئیں۔ درختوں کو نقصان نہ پہنچائیں اور شفاف پانی کو گدلا نہ کریں۔ ڈاکٹر محمد ارشد نے کوہ ساروں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کوہ سار ہمارا اثاثہ ہیں، ماحول کو معتدل رکھنے میں ان پر موجود درخت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان سے طبی اثرات کی حامل جڑی بوٹیاں ملتی ہیں لہٰذا ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے کوہ ساروںکے قدرتی ماحول کی حفاظت کریں۔
تیسرے پاکستان مائونٹین فیسٹیول کی سب سے بڑی تقریب نسٹ اسکول آف آرکیٹیکٹ، ڈیزائن اینڈ آرٹ میں ہوئی، مہمان خصوصی پہلی بارکے ٹو سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما اشرف امان تھے۔ اس موقع پر سیڈ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر رافیلے دیل چیما اور ایسوسی ایٹ ڈین قاضی اشتیاق بھی موجود تھے۔ اشرف امان نے دست کاریوں کے اسٹالوں کا دورہ کیا اور اہم تصویری نمائش ''قراقرم سو سال پہلے اور اب'' کا افتتاح بھی کیا، جو ہفتہ بھر طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس نمائش میں اطالوی محقق اور سیاح فیلیپو دی فلیپی کے 1913ء کے فوٹوگراف بھی تھے اور 2004ء کی کوہ پیما مہم اور موجودہ قراقرم کی تصاویر بھی رکھی گئی تھیں۔ ڈیوکام/ پاکستان، Ev-K2-CNR اور سیڈ پراجیکٹ نے اس موقع پر کوہ ساروں کو درپیش مسائل سے طلبہ کو آگاہ کرنے کے لیے معلوماتی اسٹال بھی لگایا اور طلبہ میں معلوماتی کتابچے اور رپورٹس بھی تقسیم کیں۔ اسی روز گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے موسیقی کے ایک گروپ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا جس میں یونی ورسٹی کے طلبہ و طالبات نے بھی حصہ لیا۔ اشرف امان نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہاڑ ان کی زندگی، ان کا گھر ہیں، ان ہی سے ان کا رزق وابستہ ہے بل کہ سمندر تک سارے پاکستان کا دار و مدارپہاڑوں کے وسائل پرہے۔
پہاڑوں پر سینکڑوں مربع کلو میٹر پر جمے گلیشیئر سارا سال پانی فراہم کرتے ہیں، ان میں موجود معدنیات اور قیمتی پتھر ہماری معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے جنگل موسموں کو معتدل رکھتے ہیں۔ حکومتوں کی ملی بھگت سے ٹمبر مافیا نے پہاڑوں کے وسائل اور جنگلوں کو بے دریغ نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر پچھلے چند برسوں میں جتنا نقصان گلگت بلتستان کی سرزمین کو پہنچا یا گیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی، عوام اس نقصان کا حساب کس سے مانگیں۔ Ev-K2-CNR سیڈ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر رافیلے دیل چیما نے طلبہ کو بتایا کہ سیڈ پراجیکٹ نے گلگت بلتستان میں مقامی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر ماحولیاتی اور موسمیاتی تحقیق کے کئی منصوبے مکمل کئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سنٹرل قراقرم نیشنل پارک باضابطہ طور پر وضع کیا جا چکا ہے اور اس کی انتظام کاری کا منصوبہ بھی منظوری کے مراحل طے کر چکا ہے، پاکستان میں پہلا کلائیمیٹ آبزرویٹری سٹیشن بھی اپناکام کرچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے حکومتی ادارے پائیدار ترقی کی ساری حکمت عملیوں کو دیانت داری کے ساتھ نافذ کریں۔
اسی دن جڑواں شہروں کی طالبات کے درمیان ''آن دی سپاٹ'' مقابلۂ مصوری منعقد ہوا، جو تین گھنٹے جاری رہا،اس میں 36 طالبات نے آئل آن کینوس کے ذریعے کے ٹو پہاڑ حسن اجاگر کیا۔ بعد میں ان پینٹنگز کی نمائش جھروکا آرٹ گیلری میں ہوئی جس کے مہمان خصوصی معرو ف اداکار اورمصور جمال شاہ تھے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ آرٹ زندگی گزارنے کا طریقہ ہے، آرٹ سے ہماری زندگی میں حسن ہے، ہمیں اپنے ارد گرد قدرتی حسن کی قدر اور حفاظت کرنی چاہیے، حفاظت اس لیے کہ اس پر آنے والی نسلوں کا بھی حق ہے، ہمیں ان کے لیے خوب صورت دنیا چھوڑکر جانا ہے۔ جمال شاہ نے مقابلۂ مصوری میںپوزیشن حاصل کرنے والی طالبات میں انعامات بھی تقسیم کیے۔ پوسٹ گریجوایٹ میں ثانیہ امتیاز، سندس اظہر، لینا ظفر، سونم نواز اور حنا حسین نے بالترتیب پہلی پانچ پوزیشنز حاصل کیں۔ انڈر گریجوایٹ میں فروا بتول، عبیرہ حبیب، آمنہ افضال، زینب بی بی، راضیہ اعجاز الحق اور سعیدہ بی بی نے بالترتیب پہلی چھ پوزیشنیں حاصل کیں۔ پروفیسر تسنیم عباس(فاطمہ جناح ویمین یونی ورسٹی)، ایسوسی ایٹ پروفیسر فرح عدنان(کامسیٹس یونی ورسٹی) اور رفعت آراء بیگ(سینیئر لیکچرر ہیڈ اسٹارٹ اسکول کیمبرج سیکشن) منصفین کی جیوری میں شامل تھیں۔ رفعت آراء بیگ مقابلۂ مصوری کی کوآرڈینیٹر بھی تھیں۔
موسمی تغیرات کے نتیجے میں کوہ ساروں کے بدلتے ہوئے ماحول کی وجہ سے انسانی زندگی کو درپیش خطرات پر ایک سیمینار نسٹ کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمینٹل سائنس اینڈ انجینیئرنگ میں منعقد کیا گیا، صدارت پلاننگ کمشن پاکستان کے سینیئر رکن محمد جاوید ملک نے کی، مہمانِ اعزاز اسکول آف سول اینڈ انوائرنمینٹل انجینیئرنگ کے پرنسپل ڈاکٹر طارق محمود تھے۔ محمد جاوید ملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے پہاڑوں کو شدید خطرات لاحق ہیں کیوں کہ ہم اپنے پہاڑوں کے قدرتی وسائل کو بڑی تیزی سے ختم کر رہے ہیں۔ قدرتی ماحول کی تباہ کاری کی وجہ سے ہمارے پہاڑی علاقوں کا اوسط درجہ حرارت بڑھ چکا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے اور مون سون میںاس کے منفی اثرات ہم گذشتہ چار سال سے بھگت رہے ہیں، اگر ہم نے ضروری حکمت عملی نہ اپنائی تو اس کے بہت ہی منفی اثرات برداشت کرنا پڑیں گے۔
تیسرے پاکستان مائونٹین فیسٹیول کی ابتدا مارگلہ ہلز ٹریل تھری پر ماحول دوست واک سے ہوا جس میں ایک سو سے زیادہ طلبہ و طالبات نے ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر عمران ہاشمی، ڈاکٹر محمد فہیم اور منیر احمد کی قیادت میں حصہ لیا۔ اس ماحول دوست واک کے شرکاء نے تقریبا چھے کلو میٹر لمبے ٹریک کی صفائی بھی کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ کمیونیکیشنز نیٹ ورک منیر احمد نے طلبہ و طالبات کے ماحول دوست اقدامات کو سراہا۔ انھوں نے کہا ''ہمارے نوجوان ہمارا روشن مستقبل ہیں، مثبت کاموں کی طرف ان کی رہ نمائی کرنا، اساتذہ اور ماہرین کا کام ہے۔ کوہ ساروں کا حسن اور وسائل ہماری زندگی ہیں، ہم سب کا فرض ہے کہ ہم جب بھی کوہ ساروں کی سیرکو جائیں، تووہاں کچرا نہ پھیلائیں، بل کہ کچرا بیگ میں ڈال کر لے آئیں۔ درختوں کو نقصان نہ پہنچائیں اور شفاف پانی کو گدلا نہ کریں۔ ڈاکٹر محمد ارشد نے کوہ ساروں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کوہ سار ہمارا اثاثہ ہیں، ماحول کو معتدل رکھنے میں ان پر موجود درخت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان سے طبی اثرات کی حامل جڑی بوٹیاں ملتی ہیں لہٰذا ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے کوہ ساروںکے قدرتی ماحول کی حفاظت کریں۔
تیسرے پاکستان مائونٹین فیسٹیول کی سب سے بڑی تقریب نسٹ اسکول آف آرکیٹیکٹ، ڈیزائن اینڈ آرٹ میں ہوئی، مہمان خصوصی پہلی بارکے ٹو سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما اشرف امان تھے۔ اس موقع پر سیڈ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر رافیلے دیل چیما اور ایسوسی ایٹ ڈین قاضی اشتیاق بھی موجود تھے۔ اشرف امان نے دست کاریوں کے اسٹالوں کا دورہ کیا اور اہم تصویری نمائش ''قراقرم سو سال پہلے اور اب'' کا افتتاح بھی کیا، جو ہفتہ بھر طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس نمائش میں اطالوی محقق اور سیاح فیلیپو دی فلیپی کے 1913ء کے فوٹوگراف بھی تھے اور 2004ء کی کوہ پیما مہم اور موجودہ قراقرم کی تصاویر بھی رکھی گئی تھیں۔ ڈیوکام/ پاکستان، Ev-K2-CNR اور سیڈ پراجیکٹ نے اس موقع پر کوہ ساروں کو درپیش مسائل سے طلبہ کو آگاہ کرنے کے لیے معلوماتی اسٹال بھی لگایا اور طلبہ میں معلوماتی کتابچے اور رپورٹس بھی تقسیم کیں۔ اسی روز گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے موسیقی کے ایک گروپ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا جس میں یونی ورسٹی کے طلبہ و طالبات نے بھی حصہ لیا۔ اشرف امان نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہاڑ ان کی زندگی، ان کا گھر ہیں، ان ہی سے ان کا رزق وابستہ ہے بل کہ سمندر تک سارے پاکستان کا دار و مدارپہاڑوں کے وسائل پرہے۔
پہاڑوں پر سینکڑوں مربع کلو میٹر پر جمے گلیشیئر سارا سال پانی فراہم کرتے ہیں، ان میں موجود معدنیات اور قیمتی پتھر ہماری معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے جنگل موسموں کو معتدل رکھتے ہیں۔ حکومتوں کی ملی بھگت سے ٹمبر مافیا نے پہاڑوں کے وسائل اور جنگلوں کو بے دریغ نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر پچھلے چند برسوں میں جتنا نقصان گلگت بلتستان کی سرزمین کو پہنچا یا گیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی، عوام اس نقصان کا حساب کس سے مانگیں۔ Ev-K2-CNR سیڈ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر رافیلے دیل چیما نے طلبہ کو بتایا کہ سیڈ پراجیکٹ نے گلگت بلتستان میں مقامی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر ماحولیاتی اور موسمیاتی تحقیق کے کئی منصوبے مکمل کئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سنٹرل قراقرم نیشنل پارک باضابطہ طور پر وضع کیا جا چکا ہے اور اس کی انتظام کاری کا منصوبہ بھی منظوری کے مراحل طے کر چکا ہے، پاکستان میں پہلا کلائیمیٹ آبزرویٹری سٹیشن بھی اپناکام کرچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے حکومتی ادارے پائیدار ترقی کی ساری حکمت عملیوں کو دیانت داری کے ساتھ نافذ کریں۔
اسی دن جڑواں شہروں کی طالبات کے درمیان ''آن دی سپاٹ'' مقابلۂ مصوری منعقد ہوا، جو تین گھنٹے جاری رہا،اس میں 36 طالبات نے آئل آن کینوس کے ذریعے کے ٹو پہاڑ حسن اجاگر کیا۔ بعد میں ان پینٹنگز کی نمائش جھروکا آرٹ گیلری میں ہوئی جس کے مہمان خصوصی معرو ف اداکار اورمصور جمال شاہ تھے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ آرٹ زندگی گزارنے کا طریقہ ہے، آرٹ سے ہماری زندگی میں حسن ہے، ہمیں اپنے ارد گرد قدرتی حسن کی قدر اور حفاظت کرنی چاہیے، حفاظت اس لیے کہ اس پر آنے والی نسلوں کا بھی حق ہے، ہمیں ان کے لیے خوب صورت دنیا چھوڑکر جانا ہے۔ جمال شاہ نے مقابلۂ مصوری میںپوزیشن حاصل کرنے والی طالبات میں انعامات بھی تقسیم کیے۔ پوسٹ گریجوایٹ میں ثانیہ امتیاز، سندس اظہر، لینا ظفر، سونم نواز اور حنا حسین نے بالترتیب پہلی پانچ پوزیشنز حاصل کیں۔ انڈر گریجوایٹ میں فروا بتول، عبیرہ حبیب، آمنہ افضال، زینب بی بی، راضیہ اعجاز الحق اور سعیدہ بی بی نے بالترتیب پہلی چھ پوزیشنیں حاصل کیں۔ پروفیسر تسنیم عباس(فاطمہ جناح ویمین یونی ورسٹی)، ایسوسی ایٹ پروفیسر فرح عدنان(کامسیٹس یونی ورسٹی) اور رفعت آراء بیگ(سینیئر لیکچرر ہیڈ اسٹارٹ اسکول کیمبرج سیکشن) منصفین کی جیوری میں شامل تھیں۔ رفعت آراء بیگ مقابلۂ مصوری کی کوآرڈینیٹر بھی تھیں۔
موسمی تغیرات کے نتیجے میں کوہ ساروں کے بدلتے ہوئے ماحول کی وجہ سے انسانی زندگی کو درپیش خطرات پر ایک سیمینار نسٹ کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمینٹل سائنس اینڈ انجینیئرنگ میں منعقد کیا گیا، صدارت پلاننگ کمشن پاکستان کے سینیئر رکن محمد جاوید ملک نے کی، مہمانِ اعزاز اسکول آف سول اینڈ انوائرنمینٹل انجینیئرنگ کے پرنسپل ڈاکٹر طارق محمود تھے۔ محمد جاوید ملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے پہاڑوں کو شدید خطرات لاحق ہیں کیوں کہ ہم اپنے پہاڑوں کے قدرتی وسائل کو بڑی تیزی سے ختم کر رہے ہیں۔ قدرتی ماحول کی تباہ کاری کی وجہ سے ہمارے پہاڑی علاقوں کا اوسط درجہ حرارت بڑھ چکا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے اور مون سون میںاس کے منفی اثرات ہم گذشتہ چار سال سے بھگت رہے ہیں، اگر ہم نے ضروری حکمت عملی نہ اپنائی تو اس کے بہت ہی منفی اثرات برداشت کرنا پڑیں گے۔