شوہر کو زیرنگیں رکھنا ٹھیک نہیں ازدواجی تعلقات پر جدید تحقیق کیا کہتی ہے
مشرقی معاشروں میں لڑکی کو شروع سے ہی اس کی آنے والی زندگی کے حوالے تربیت دی جانے لگتی ہے۔
لاہور:
مشرقی معاشروں میں لڑکی کو شروع سے ہی اس کی آنے والی زندگی کے حوالے تربیت دی جانے لگتی ہے۔ اس ضمن میں اسے نصیحتوں کا سامنا رہتا ہے۔
پہلے تو تمام مائیں یہی بتاتی تھیں کہ سسرال جا کر اپنی زبان پر قابو رکھنا ہے۔۔۔ کڑوی بات بھی میٹھی گولی کی طرح نگلنا ہے۔۔۔ اپنے ہاتھوں اور سلیقہ مندی کے سَحر سے سسرال والوں کو اپنا اسیر کر لینا ہے۔۔۔ اپنے شوہر کو سر آنکھوں پر بٹھانا ہے۔۔۔ اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بھی اب ہماری اقدار تبدیل ہونے لگی ہیں، جب کہ اس کے برعکس غیروں پر ہماری اقدار کی حقیقت کھلنے لگی ہے اور وہ ازدواجی زندگی پر تحقیقات کی روشنی میں کچھ ہماری روایات سے متفق ہونے لگے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی ایک تحقیق کے مطابق خوش گوار اور متوازن ازدواجی زندگی کے لیے شوہر سے ماتحتوں والا اندا ز رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے شاید بیوی تو اپنے تئیں اطمینان محسوس کرے، لیکن یہ امر شاذ ہی مردوں کو خوش رکھ پاتا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ یہ ایک ایسے معاشرے کی تحقیق ہے، جسے ہمارے مقابلے میں آزاد معاشرہ کہا جاتا ہے۔ اسے اگر ہم اپنے معاشرے پر منطبق کر کے دیکھیں تو صورت حال یقیناً اور بھی زیادہ گمبھیر ہے۔ یہاں کا مرد مغرب کے مقابلے میں زیادہ اختیارات رکھتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ بیوی کی انگلیوں پر ناچتا رہے، تو نفسیاتی طور پر یہ چیز اس کی شخصیت میں بھی شکست وریخت کا باعث بنے گی۔ آک لینڈ کی جامعہ کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ شوہروں کو ہرانے والی کچھ خواتین اگرچہ بہت خوش و خرم رہنے لگتی ہیں، مگر دوسری طرف ان کے شوہروں کی انا کو زک پہنچتی ہے۔ اس لیے وہ اداس اوراندر ہی اندر بے چین رہنے لگتے ہیں۔ ان کا چڑاچڑا پن بیوی سے چڑنے اور کسی دوسری عورت کی طرف رغبت کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ بیویوں کے آگے بظاہر ہار مارنے یا ڈھیر ہو جانے والے شوہر مسلسل ذہنی کوفت کا شکار رہنے لگتے ہیں۔ دفاتر میں بھی ان کی کار کردگی کا معیار پست ہو جاتا ہے۔ ازدواج کے مابین محبت کی جگہ ضد کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں، جس سے حالات خرابی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ ایسے شوہر جو اپنی بیویوں کے آگے بحث مباحثے میں ہار مان جاتے ہیں ۔وہ خود بھی اپنی شادی شدہ زندگی کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بیویوں پر جب کوئی روک ٹوک نہیں رہتی تو وہ نہایت سخت تنقید نگار بن جاتی ہیں اور ان کا پہلا نشانہ شوہر ہی ہوتے ہیں، یہ صورت حال شوہر کے لیے جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ مگر جیسے جیسے زمانہ ترقی کر رہا ہے، ماڈرن کہلانے کی چاہ میں ہم پستیوں کی جانب گامزن ہیں۔ اخلاقیات کے معیار میں تبدیلی آتی جا رہی ہے۔
اب مائیں ماضی کی طرح کی روک ٹوک کی قائل نظر نہیں آتیں، بلکہ اس کے برعکس بعض مائیں اپنی بیٹیوں کو سسرال میں ڈٹ کر کھڑے ہونے کے گر سکھانے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ کبھی گھر کے بزرگ اس کے خلاف کریں تو برا مانا جاتا ہے اور بیٹیوں کی بد تمیزی کی حمایت کی جاتی ہے۔ مائوں کا موقف ہوتا ہے کہ اس طرح تو ان کی بیٹی دبائو کا شکار ہو جائے گی، خود اعتمادی کھو دے گی اور نتیجتاً سسرال میں بھی لوگ اس پر اپنی دھاک بٹھانے لگیں گے اور یوں اس کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔ ایسے میں ظاہر ہے بزرگوں کی بات کم ہی چل پاتی ہے۔ یوں آج کل کی مائیں ببانگ دہل سسرال میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے طریقے بتانے کے بہ جائے اپنی دھاک بٹھانے کے طریقے بتاتی ہیں کہ کس طرح اپنی بات منوانی ہے اور کس راہ سے اپنی خواہشات کو تکمیل کی راہ دکھانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سسرال میں لڑکی کا دل لگنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شوہر دبنے والا ہو تو بیوی کے حکم پر سر جھکا کر جلد ہی گھر والوں سے الگ ہو جاتا ہے، مگر کچھ مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیوی کی ایسی باتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ اگر دونوں ہی اپنی جگہ ڈٹے رہیں تو گھر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ جب یہ انا پرستی حد سے بڑھ جاتی ہے، پھر گھروں کا بسنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے سکھائی گئی نام نہاد خود اعتمادی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ کیا ایسی انا پرستی کسی کام کی ہوتی ہے، جب وہ گھروں کو اجاڑ دے اور خوشیاں برباد کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ایسی ہی چھوٹی چھوٹی وجوہات کی بنا پر گھر ٹوٹا کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک عمل ہے۔ شادی شدہ جوڑے میں سے ایک بھی اگر سمجھ داری سے کام لے اور توازن سے چلے تو کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس میں بیوی کا کردار سب سے اہم ہے۔ وہ چاہے تو خوش دلی سے ان مسائل سے نمٹ سکتی ہے۔
کام یاب شادی شدہ خواتین اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے اپنی شادی کے ابتدائی دنوں میں لچک کا مظاہرہ کیا، تب ہی کہیں جاکر وہ سسرالیوں اور شوہر کے دل میں گھر کرنے میں کام یاب ہوئیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اوائل میں ہم آہنگی کا فقدان ہوتا ہے اور بات کا بتنگر بننے میں دیر نہیں لگتی۔ اگر کبھی تکرار ہوجائے تو درست ہونے کے باوجود عورت کی خاموشی مرد کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں معاون ہوتی ہے، لیکن اگر بیوی ایسی تکرار میں اپنے نصف بہتر پر حاوی ہو جائیں تو پھر کم سے کم اسے کام یاب ازدواجی زندگی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قدرت نے عورت کو وفا اور قربانی کا پیکر بنایا ہے۔ اپنے حقیقی پرسکون گھر کی خواہش مند خاتون کبھی یہ خواہش نہیں کرتی کہ اس کا سرتاج خوش نہ رہے۔ اس کی چاہ یہ ہوتی ہے کہ اس کا شوہر حاکم بننے کے بہ جائے اس کی الفت کا اسیر بنے۔ اس لیے بیوی کو ہمیشہ شوہر کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ہر آئے گئے کہ سامنے شوہر پر برتری جتانے کی جتن میں ہی جتی رہے۔ اگر وہ اپنے شریک حیات کو سب سے بالا تصور کرے گی۔ اس کی فرماں بردار رہے گی تو یقیناً اس کا گھر جنت بھی جنت کی طرح بن جائے گا۔
مشرقی معاشروں میں لڑکی کو شروع سے ہی اس کی آنے والی زندگی کے حوالے تربیت دی جانے لگتی ہے۔ اس ضمن میں اسے نصیحتوں کا سامنا رہتا ہے۔
پہلے تو تمام مائیں یہی بتاتی تھیں کہ سسرال جا کر اپنی زبان پر قابو رکھنا ہے۔۔۔ کڑوی بات بھی میٹھی گولی کی طرح نگلنا ہے۔۔۔ اپنے ہاتھوں اور سلیقہ مندی کے سَحر سے سسرال والوں کو اپنا اسیر کر لینا ہے۔۔۔ اپنے شوہر کو سر آنکھوں پر بٹھانا ہے۔۔۔ اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بھی اب ہماری اقدار تبدیل ہونے لگی ہیں، جب کہ اس کے برعکس غیروں پر ہماری اقدار کی حقیقت کھلنے لگی ہے اور وہ ازدواجی زندگی پر تحقیقات کی روشنی میں کچھ ہماری روایات سے متفق ہونے لگے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی ایک تحقیق کے مطابق خوش گوار اور متوازن ازدواجی زندگی کے لیے شوہر سے ماتحتوں والا اندا ز رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے شاید بیوی تو اپنے تئیں اطمینان محسوس کرے، لیکن یہ امر شاذ ہی مردوں کو خوش رکھ پاتا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ یہ ایک ایسے معاشرے کی تحقیق ہے، جسے ہمارے مقابلے میں آزاد معاشرہ کہا جاتا ہے۔ اسے اگر ہم اپنے معاشرے پر منطبق کر کے دیکھیں تو صورت حال یقیناً اور بھی زیادہ گمبھیر ہے۔ یہاں کا مرد مغرب کے مقابلے میں زیادہ اختیارات رکھتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ بیوی کی انگلیوں پر ناچتا رہے، تو نفسیاتی طور پر یہ چیز اس کی شخصیت میں بھی شکست وریخت کا باعث بنے گی۔ آک لینڈ کی جامعہ کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ شوہروں کو ہرانے والی کچھ خواتین اگرچہ بہت خوش و خرم رہنے لگتی ہیں، مگر دوسری طرف ان کے شوہروں کی انا کو زک پہنچتی ہے۔ اس لیے وہ اداس اوراندر ہی اندر بے چین رہنے لگتے ہیں۔ ان کا چڑاچڑا پن بیوی سے چڑنے اور کسی دوسری عورت کی طرف رغبت کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ بیویوں کے آگے بظاہر ہار مارنے یا ڈھیر ہو جانے والے شوہر مسلسل ذہنی کوفت کا شکار رہنے لگتے ہیں۔ دفاتر میں بھی ان کی کار کردگی کا معیار پست ہو جاتا ہے۔ ازدواج کے مابین محبت کی جگہ ضد کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں، جس سے حالات خرابی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ ایسے شوہر جو اپنی بیویوں کے آگے بحث مباحثے میں ہار مان جاتے ہیں ۔وہ خود بھی اپنی شادی شدہ زندگی کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بیویوں پر جب کوئی روک ٹوک نہیں رہتی تو وہ نہایت سخت تنقید نگار بن جاتی ہیں اور ان کا پہلا نشانہ شوہر ہی ہوتے ہیں، یہ صورت حال شوہر کے لیے جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ مگر جیسے جیسے زمانہ ترقی کر رہا ہے، ماڈرن کہلانے کی چاہ میں ہم پستیوں کی جانب گامزن ہیں۔ اخلاقیات کے معیار میں تبدیلی آتی جا رہی ہے۔
اب مائیں ماضی کی طرح کی روک ٹوک کی قائل نظر نہیں آتیں، بلکہ اس کے برعکس بعض مائیں اپنی بیٹیوں کو سسرال میں ڈٹ کر کھڑے ہونے کے گر سکھانے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ کبھی گھر کے بزرگ اس کے خلاف کریں تو برا مانا جاتا ہے اور بیٹیوں کی بد تمیزی کی حمایت کی جاتی ہے۔ مائوں کا موقف ہوتا ہے کہ اس طرح تو ان کی بیٹی دبائو کا شکار ہو جائے گی، خود اعتمادی کھو دے گی اور نتیجتاً سسرال میں بھی لوگ اس پر اپنی دھاک بٹھانے لگیں گے اور یوں اس کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔ ایسے میں ظاہر ہے بزرگوں کی بات کم ہی چل پاتی ہے۔ یوں آج کل کی مائیں ببانگ دہل سسرال میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے طریقے بتانے کے بہ جائے اپنی دھاک بٹھانے کے طریقے بتاتی ہیں کہ کس طرح اپنی بات منوانی ہے اور کس راہ سے اپنی خواہشات کو تکمیل کی راہ دکھانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سسرال میں لڑکی کا دل لگنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شوہر دبنے والا ہو تو بیوی کے حکم پر سر جھکا کر جلد ہی گھر والوں سے الگ ہو جاتا ہے، مگر کچھ مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیوی کی ایسی باتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ اگر دونوں ہی اپنی جگہ ڈٹے رہیں تو گھر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ جب یہ انا پرستی حد سے بڑھ جاتی ہے، پھر گھروں کا بسنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے سکھائی گئی نام نہاد خود اعتمادی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ کیا ایسی انا پرستی کسی کام کی ہوتی ہے، جب وہ گھروں کو اجاڑ دے اور خوشیاں برباد کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ایسی ہی چھوٹی چھوٹی وجوہات کی بنا پر گھر ٹوٹا کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک عمل ہے۔ شادی شدہ جوڑے میں سے ایک بھی اگر سمجھ داری سے کام لے اور توازن سے چلے تو کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس میں بیوی کا کردار سب سے اہم ہے۔ وہ چاہے تو خوش دلی سے ان مسائل سے نمٹ سکتی ہے۔
کام یاب شادی شدہ خواتین اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے اپنی شادی کے ابتدائی دنوں میں لچک کا مظاہرہ کیا، تب ہی کہیں جاکر وہ سسرالیوں اور شوہر کے دل میں گھر کرنے میں کام یاب ہوئیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اوائل میں ہم آہنگی کا فقدان ہوتا ہے اور بات کا بتنگر بننے میں دیر نہیں لگتی۔ اگر کبھی تکرار ہوجائے تو درست ہونے کے باوجود عورت کی خاموشی مرد کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں معاون ہوتی ہے، لیکن اگر بیوی ایسی تکرار میں اپنے نصف بہتر پر حاوی ہو جائیں تو پھر کم سے کم اسے کام یاب ازدواجی زندگی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قدرت نے عورت کو وفا اور قربانی کا پیکر بنایا ہے۔ اپنے حقیقی پرسکون گھر کی خواہش مند خاتون کبھی یہ خواہش نہیں کرتی کہ اس کا سرتاج خوش نہ رہے۔ اس کی چاہ یہ ہوتی ہے کہ اس کا شوہر حاکم بننے کے بہ جائے اس کی الفت کا اسیر بنے۔ اس لیے بیوی کو ہمیشہ شوہر کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ہر آئے گئے کہ سامنے شوہر پر برتری جتانے کی جتن میں ہی جتی رہے۔ اگر وہ اپنے شریک حیات کو سب سے بالا تصور کرے گی۔ اس کی فرماں بردار رہے گی تو یقیناً اس کا گھر جنت بھی جنت کی طرح بن جائے گا۔