مزدور بچوں کی عزت نفس

مالک کو لگتا ہے اگر ٹھیک سے کام کروانا ہے تو سب سے پہلے بچے کی عزت نفس کو کچلا جائے

12 جون دنیا بھر میں بچوں کی مزدوری کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

گندے کپڑے، ننگے پاؤں اور میلے ہاتھوں میں اوزار لیے تیرہ سالہ چھوٹو ایک نئے ماڈل کی گاڑی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا تھا، مگر جب چھوٹے ہاتھوں سے بڑا بونٹ نہ کھلا تو استاد جی نے کوئی درجن بھر گالیاں دیتے ہوئے اوزار اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ گاڑی کے مالک کو اس کا گالی دینا خاصا ناگوار گزرا کیونکہ گاڑی میں بیٹھا کم وبیش اسی عمرکا اس کا بیٹا بھی سن رہا تھا، جو اس کےلیے انتہائی نامناسب بات تھی۔ گاڑی کے مالک نے تھوڑا آہستہ آواز میں استاد جی سے کہا ''گالی تو مت دو بچہ سن رہا ہے، کتنا غلط اثر پڑے گا۔''

استاد جی نے بڑے آرام سے کہا ''معاف کرنا صاحب! پر اس کام چور کو جب تک ماں بہن یاد نہ کروائیں کام ہی نہیں کرتا اور سچ پوچھیں تو تب تک یہ کچھ سیکھ بھی نہیں سکتا۔''

جی ہاں یہی سوچ ہے ان بیشتر مالکان کی، جن کے پاس کوئی بچہ کام کرتا ہے۔ اب چاہے وہ کوئی ورکشاپ ہو یا گھر۔ مالک کو لگتا ہے اگر ٹھیک سے کام کروانا ہے تو سب سے پہلے بچے کی عزت نفس کو کچلا جائے، اس کی ''میں'' کو مار دیا جائے، تبھی وہ صحیح سے کام کرے گا۔

12 جون دنیا بھر میں بچوں کی مزدوری کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال یعنی 2021 کو تو ویسے بھی اقوام متحدہ نے بچوں کی مزدوری ختم کرنے کا عالمی سال قرار دیا ہے۔ مگر کیا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایسا ممکن ہے؟ اور وہ بھی عالمی وبا کے دنوں میں، جب اسکولز بند، کاروبار بند اور غربت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

کئی سال پہلے اسکول سے باہر بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ بتائی جاتی تھی، مگر اب یہ تعداد کہاں تک پہنچ گئی ہے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اور ویسے بھی جب ہماری حکومتوں کو نہیں پتا تو آپ جان کر کیا کرلیں گے؟ اور اب تو ہم کورونا کے احسان مند ہیں جس نے ہمیں بچوں کا اسکول سے باہر ہونے کا جواز فراہم کردیا۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 142 ملین بچے کسی نہ کسی وجہ سے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کورونا کی وبا نے جہاں معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا، وہاں ہمارے بچوں کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگادیا ہے۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے وہ بچے بھی اسکول سے باہر ہیں جن کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلانے کی کوشش کررہے تھے۔ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں رہے کہ اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کرسکیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سوچ بھی کارفرما ہے، وہ یہ کہ جب ہمارا بچہ اسکول جا ہی نہیں رہا تو فضول میں فیسیں کیوں ادا کریں؟ اسی وجہ سے کئی والدین نے تو بچوں کا نام ہی اسکول سے خارج کراکے گھر بٹھالیا۔ (یاد رہے کہ اسکول انتظامیہ بچوں کو آن لائن تعلیم دے کر فیس حلال کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے)

جب گھر کے حالات خراب ہوئے اور بچوں نے تنگ کرنا شروع کیا تو اکثر والدین نے انھیں کسی نہ کسی کام پر بھیج دیا اور سوچا کہ چلو کچھ دن سکون کا سانس بھی آئے گا اور ساتھ چار پیسے بھی آجائیں گے۔ (اور وہ بچے جو پہلے ہی ماں باپ اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہوکر اسکول جانے سے ہی قاصر تھے، ان کا حال بد سے بدترین ہوتا چلا جارہا ہے)۔


اب آپ مجھ سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ ایک طرف تو میں کہہ رہی ہوں کہ عالمی وبا کی وجہ سے سب کاروبار بند پڑے ہیں، بہت ہی مندا چل رہا ہے، مگر دوسری طرف بچوں کو کام کیسے مل گیا؟ تو صاحب ہمارے ملک میں بڑوں کو کام ملے نہ ملے، بچوں کی مزدوری کے راستے ہمیشہ کھلے ہی رہتے ہیں۔ اور پھر ہمارے امرا کے مالی حالات بھی تو کورونا کی زد میں آئے ہی ہوں گے ناں؟ اور انھوں نے بھی پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کو ترجیح دی ہوگی۔ اب ذرا سوچیے جب ایک بچہ ماہانہ چند ہزار یا روزانہ کے سو پچاس روپے پر کسی بڑے سے بھی زیادہ کام کر رہا ہے تو پھر بڑے کو کام پر کیوں رکھیں؟ اور پھر سونے پہ سہاگہ بچہ اپنے مالک کی فرسٹریشن نکالنے میں بھی تو کتنی مدد کرتا ہے۔ چاہے کوئی بھی مسئلہ ہو، کوئی پریشانی ہو، گھریلو ناچاقی ہو یا پھر آپ کے اپنے بچے آپ کی نہ سنتے ہوں، تو اس ٹینشن سے نکلنے کا آزمودہ طریقہ ماہرین امرا نے بتادیا کہ جو بچہ آپ کے پاس مزدور کے طور پر کام کرتا ہو اسے گالیاں دے کر، مار کر، ڈانٹ کر، جلا کر، ہڈیاں توڑ کر غصہ نکال لو اور اگر پھر بھی سکون نہ ملے تو بے خوف ہوکر جان سے مار ڈالو۔ یقین مانیے اس کے بعد کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور اگر بات میڈیا تک پہنچ جائے اور کچھ آپ جیسے انسان دوست لوگ شور مچائیں تو پھر بھی صرف ایک دن کےلیے زحمت ہوگی۔ ہوسکتا ہے ایک رات حوالات میں بھی گزارنی پڑجائے۔ مگر زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔ اگلے ہی دن ملکی قانون ظالم کو خود ضمانت دلا کر باعزت گھر تک پہنچائے گا اور اس کے بعد بس کچھ پیسے خرچ کرنے ہوں گے تو اس بچے کے والدین بنا کسی پس و پیش کے خوشی خوشی سمجھوتہ کرکے ملزم کو معاف کردیں گے۔ یہاں تو وہ مثال صادق آتی ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مرا سوا لاکھ کا۔

میری تحریر آپ کو طنز سے بھرپور لگ رہی ہوگی اور شاید کچھ کڑوی بھی، مگر وہ شیریں لہجہ کہاں سے لاؤں؟ کیسے کہوں کے میرے ملک کے بچے اپنے تمام تر حقوق کے ساتھ ایک محفوظ، خوبصورت اور باوقار زندگی گزار رہے ہیں؟ ''ہائے رے دل خوش فہم'' میں جانتی ہوں یہ ایک حسین خواب تو ہوسکتا مگر شرمندہ تعبیر ہونے میں سالہا سال درکار ہیں۔ یقیناً ہم تو نہیں مگر شاید ہماری آنے والی نسلیں دیکھ پائیں، یعنی دلی ابھی دور ہے صاحب۔

میرا دل کڑھتا ہے ان معصوم پھولوں کو دیکھ کر، جن کے ہاتھوں میں کتابیں اور آنکھوں میں اس دنیا کو فتح کرلینے کا جنون لے کر اسکول میں ہونا چاہیے مگر ان کے ہاتھ میں تو اوزار ہیں، جس کی سیاہی ہاتھوں اور چہرے کے ساتھ مقدر پر بھی مل دی گئی ہے۔ وہ بچے جن کی کلکاریاں پورے گھر کو روشن کردیتی ہیں، ان کی اپنے نام نہاد مالکوں کی موجودگی میں سہمی اور ڈری ہوئی نظریں مجھے اپنی ہی نظروں میں مجرم بنا دیتی ہیں۔ ایک ہاتھ میں شاپنگ بیگ اور کندھے پر اپنے سے تھوڑی سی ہی کم عمر کے بچے کو اٹھا کر مالکن کے پیچھے چلنے والی بچی کو دیکھ کر میرے اپنے قدم ڈگمگا جاتے ہیں تو بھلا کیونکر ہو شیرینی میرے لہجے میں؟

مجھے کوئی تو بتائے کہ آخر کب تک ہمارے بچے والدین اور حکومتی بے حسی کا شکار ہوتے رہیں گے؟ بین الاقوامی معاہدے، قومی و صوبائی قوانین اور مختلف ادارے ہونے کے باوجود ملک میں بچوں کی مزدوری اور ان کے خلاف ہونے والے تشدد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اور یہ تب تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنے بچوں کو ''آج'' نہیں سمجھیں گے۔

ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم بچوں کو صرف مستقبل سمجھتے ہیں اور مستقبل کی فکر کرتے ہم نے اپنے حال کو فراموش کردیا ہے۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ مستقبل روشن کرنے کےلیے حال میں ہی چراغ جلانا پڑتا ہے۔ کب تک ہم غربت کو جواز بنا کر بچوں سے کام کرواتے رہیں گے؟

یقین کیجیے غربت بچوں کی مزدوری کی بہت ساری وجوہ میں سے صرف ایک وجہ ہے، ورنہ ہم نے بہت سارے غریبوں کے بچے پڑھتے بھی دیکھے ہیں اور ملک کا ایک کامیاب شہری بنتے بھی دیکھا ہے۔ معذرت کے ساتھ مگر یہ حادثاتی طور پر والدین بننے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ بچوں کو پالنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے، نہ کہ بچوں کی ذمے داری کہ وہ والدین کو کما کر کھلائیں۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں تو بچے پیدا ہی اس لیے کیے جاتے ہیں کہ جتنے زیادہ بچے اتنی زیادہ کمائی۔ اور معاف کیجیے گا اگر ہمیں یہ لگتا ہے کہ اس سوچ کو بدلا جاسکتا ہے تو ہم صرف حقیقت سے انکاری ہیں اور کچھ نہیں۔ کیونکہ پاکستان میں سب سے مشکل اور ناممکن کام لوگوں کی سوچ بدلنا ہے۔ ہاں ہم ڈنڈے کے زور پر کچھ بھی کروا سکتے ہیں۔ چاہے وہ بات ہیلمٹ پہننے کی ہو یا شادی ہال دس بجے بند کرنے کی، بس حکومتی ترجیح ہونی چاہیے۔ مگر افسوس ہی اسی بات کا ہے کہ بچے ہماری ترجیح نہیں ہیں۔ سو ہم اسی طرح دن مناتے رہیں گے، کڑھتے رہیں گے، جلتے اور جلاتے رہیں گے اور اپنی آواز اٹھاتے رہیں گے، اس امید پر ''شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story