آج کے گلوبل ویلیج میں ہر جگہ یہی دستور ہے کہ جب کوئی طالب علم کسی بھی سطح پر کوئی امتحان پاس کرتا ہے تو اسے اس کامیابی پر ایک سرٹیفکیٹ، ڈپلومہ یا ڈگری جاری کی جاتی ہے، جو ایک طرف اس کی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے تو دوسری طرف اس فارغ التحصیل طالب علم کی حاصل کردہ تعلیم کا ثبوت ہوتا ہے۔ آج کل کی مادی زندگی میں ہر چیز کا ثبوت بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی آپ کی مانتا نہیں ہے۔
ہم پیدا ہوں تو برتھ سرٹیفکیٹ، مر جائیں تو ڈیتھ سرٹیفکیٹ، اسکول میں داخل ہوں تو نادرا سے ب فارم سرٹیفکیٹ، اسکول چھوڑیں تو اسکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ، امتحان پاس کریں تو سرٹیفکیٹ، اسپتال میں داخل ہوں اور فارغ ہوں تو اسپتال سے ڈسچارج کا سرٹیفکیٹ، قطرے پیئیں تو سرٹیفکیٹ، ویکسین لگوائیں تو سرٹیفکیٹ، باہر ملک میں جانا ہو تو سرٹیفکیٹ، ملازمت کے حصول کےلیے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ، اگر آپ معذور ہیں تو ڈس ایبل سرٹیفکیٹ، ملازمت مل جائے تو کیریکٹر سرٹیفکیٹ، اس کے علاوہ کسی مخصوص ملازمت کےلیے اس شعبے میں کام کے تجربے کا سرٹیفکیٹ، ایک کمپنی سے دوسری کمپنی میں جائیں تو پہلی کمپنی میں کام کرنے کا سرٹیفکیٹ، فیملی ممبر کی کنفرمیشن کےلیے نادرا سے فیملی ٹری سرٹیفکیٹ، کاروباری حضرات ہیں انکم ٹیکس سرٹیفکیٹ وغیرہ۔
الغرض ہم آج کے دور میں سانس لینے سے سانس ختم ہونے تک کسی نہ کسی سرٹیفکیٹ کے محتاج ہیں، کیونکہ دنیا اب ہم سے زیادہ ہمارے سرٹیفکیٹس پر یقین کرتی ہے اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے رویوں اور طور طریقوں کی بدولت کسی کےلیے قابل اعتبار نہیں رہے ہیں۔
اس ساری صورتحال کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم آج کی ماڈرن اور ترقی یافتہ دنیا میں سرٹیفکیٹس کے محتاج لوگ ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر نہ کوئی ہماری تعلیم مانتا ہے، نہ ہمارے اخلاق کی قدر کرتا ہے، نہ ہمیں صحت مند خیال کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ہمیں مناسب ملازمت دینے پر راضی ہوتا ہے۔ اب یہ تو طے ہوگیا کہ اگر ہم نے اس زندگی میں سر اٹھا کر جینا ہے تو درجن بھر سرٹیفکیٹس ہر وقت ہمارے ساتھ بیگ میں موجود ہونے چاہئیں جو جہاں ضرورت پڑے فوراً نکال کر بندہ سامنے رکھ دے، تاکہ سامنے والے کی آنکھیں کھل جائیں اور فخر سے ہمارے پاؤں زمین پر نہ ٹکنے پائیں اور ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ ہمیں رشک کی نگاہوں سے دیکھیں۔
اب یہاں تک تو بات درست ہے کہ ہر کام کے ثبوت کےلیے کسی پکے کاغذ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اگر وہ پکا کاغذ یعنی سرٹیفکیٹ یا ڈگری اگر جعلی ہو تو پھر کیا ہوگا؟ اس کا مطلب جس شخص کے پاس وہ سرٹیفکیٹ یا ڈگری ہے وہ اس کا اہل نہیں ہے اور اگر وہ اس بنیاد پر کوئی بھی عہدہ حاصل کرے گا تو وہ اس کام کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا، کیونکہ اسے وہ کام آتا ہی نہیں ہوگا۔ اب ظاہر ہے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس بات کی تصدیق کی جارہی ہے کہ جس کو جاری کیا گیا ہو وہ اس پر درج کام کا اہل ہے۔ مگر یہاں ہمارے معاشرے میں جس کو ایسے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ باہر باہر سے سرٹیفکیٹ بن جائے اور کام چل جائے۔ اس کےلیے ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرتا ہے، کوئی سفارش استعمال کرتا ہے اور کوئی پیسوں سے کام چلاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح نااہل اکثریت اپنا مطلوبہ پکا کاغذ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
ہمارے ملک میں اب یہ ایک عام سی بات بن گئی ہے کہ جس کسی کو کوئی ڈاکومنٹ درکار ہو، سرٹیفکیٹ بنوانا ہو، وہ فوراً اس کےلیے ریفرنس ڈھونڈنا شروع کردیتا ہے اور لنک بناتے بناتے کچھ یا زیادہ دے دلا کر اپنا کام نکال لیتا ہے۔ جعلی سرٹیفکیٹ کے حوالے سے ہمارے ملک میں تعلیمی سرٹیفکیٹ سے لے کر پروفیشل ڈگری تک اور پولیو قطرے سے لے کر اب کورونا ویکسین تک کے سرٹیفکیٹ تک بنوا لینا کوئی جان جوکھوں کا کام نہیں ہے۔ کئی اداروں میں ہونے والی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ کئی لوگ جعلی کاغذات پر وہاں بھرتی ہوچکے ہیں۔
ملک میں موجود کئی ایسی پرائیویٹ لیباریٹریز ہیں جو کسی شخص کو دیکھے بغیر میڈیکل فٹنس کی رپورٹ بنا کر دے دیتی ہیں۔ کئی لوگ ایسی رپورٹس پر اندرون اور بیرون ممالک میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کسی شخص کے میڈیکل میں کوئی ایشو ہو تو اس کو فٹ کرنے کےلیے پیسوں کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے اور بندہ فٹ ہو جاتا ہے۔ چند سال پہلے سعودیہ نے پاکستان سے وہاں جانے والوں کےلیے پولیو کے قطرے پینے لازمی قرار دے کر اس کا سرٹیفکیٹ ساتھ لانے کو کہہ دیا تھا، بس سب کے پاس بغیر قطرے پیے اصل سرٹیفکیٹ موجود تھا۔
جب حکومت نے کورونا کی ویکسین لگانا شروع کی تو کچھ سمجھدار لوگ تو حکومت اور ڈاکٹرز کی ہدایات پر ویکسین لگوا رہے تھے، لیکن عوام کی اکثریت جہالت کے جھوٹے پروپیگنڈے میں پھنس کر ویکسین لگوانے سے نہ صرف خود انکاری تھی بلکہ دوسروں کو بھی منع کررہی تھی اور اس کےلیے نہ جانے کون کون سی تاویلات پیش کر رہی تھی۔ بعد ازاں جب حکومت نے سرکاری ملازمین کےلیے ویکسین کو لازمی قرار دے دیا اور دوسرے شہریوں کےلیے بھی ویکسین لگوانے کےلیے دائرہ تنگ کررہی تھی تو ایسے لوگوں نے پھر پر پرزے نکال لیے اور ایسے راستے ڈھونڈ رہے تھے کہ ویکسین بھی نہ لگوانی پڑے اور سرٹیفکیٹ بھی مل جائے۔ اس کےلیے کوئی لنک یا پھر پیسہ استعمال کیا گیا اور کامیاب بھی ہوگئے کہ یہاں کون سا کام ناممکن ہے۔
اگر میڈیکل لیب بغیر دیکھے کسی کو فٹنس کا سرٹیفکیٹ دے رہی ہیں، سرکاری اسپتالوں والے پولیو کے سرٹیفکیٹس بغیر قطرے پلائے باہر جانے والوں کو دے رہے ہیں، گاڑی کو چیک کیے بغیر اسے سڑک پر دوڑنے کےلیے فٹ قرار دیا جارہا ہے۔ پی آئی اے میں پچھلے دنوں ہونے والی انکوائری میں سب پائلٹس کے نہیں مگر کچھ کے تو جعلی لائسنس سامنے آئے۔ ڈرائیونگ لائسنس دھڑا دھڑ دو نمبر چل رہے ہیں۔ الغرض یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
حکومت سے گزارش ہے کہ اگر ہم سرٹیفکیٹس کے ہی محتاج لوگ ہیں تو کم از کم اس نظام کو ہی سیدھا کرلیا، جائے تاکہ جس شخص کے پاس کوئی ڈگری یا سرٹیفکیٹ ہو ہم اسے شک کی نگاہ سے تو نہ دیکھیں۔ ہمارے اداروں کی ناقص کارکردگی کی ایک اہم اور بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ''صحیح بندہ صحیح سیٹ'' پر نہیں ہے۔ جو خود کرپشن کے ذریعے کسی سیٹ پر بیٹھیں گے وہ دوسروں کے کام کرپشن اور سفارش کے بغیر کیسے کریں گے اور جو دو نمبر ڈگریوں اور جھوٹے پولیو اور کورونا سرٹیفکیٹس کے ساتھ بیرون ملک جائیں گے، وہ کیسے اپنے ملک کا نام اونچا کریں گے؟
آپ یقین کیجئے کہ سرٹیفکیٹ مافیا کسی طرح بھی شوگر مافیا، پٹرول مافیا، گندم مافیا اور مہنگائی مافیا سے کم طاقتور نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔ ان کے خلاف ایک مضبوط اور بے رحم ایکشن کی ضرورت ہے۔ جو لوگ جعلی سرٹیفکیٹ اور رپورٹس بناتے اور بنواتے ہیں، جو ڈاکومنٹس پر جعلی تصدیق کرتے اور کراتے ہیں، ان کے خلاف سخت سے سخت مثالی کاروائی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ کیونکہ صرف اسی طریقے سے ہم ہر حقدار کو اس کا حق دے سکتے ہیں اور کسی کا حق چھیننے والوں کو بے نقاب کرکے وطن عزیز کو ایسے چور ڈاکوؤں اور سرٹیفکیٹ مافیا سے نجات دلا سکتے ہیں۔ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ بس اخلاص نیت اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا عزم دل اور دماغ میں ہونا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔