حکومت آئندہ سال تاریخ کا سب سے بڑا قرض لے گی تجزیہ کار
بجٹ میں متوسط اور نچلے متوسط طبقے پر مزید بوجھ ڈالا گیا، مہنگائی کنٹرول نہیں ہوسکے گی۔
تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا ہے کہ شوکت ترین کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس بڑی جامع تھی، انھوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ اگلے پورے مالی سال کوئی منی بجٹ نہیں لائیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام '' دی ریویو'' میں کامران یوسف سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت نے ڈیری مصنوعات پر جی ایس ٹی دس فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کر دی ہے۔ اس سے کریم ، ڈیری ملک پاؤڈر،پیکٹ میں بند دہی، فلیورڈ ملک اور ٹی وائٹنر کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
انھوں نے بتایا کہ بجٹ دستاویزات کے مطابق حکومت آئندہ مالی سال17.2 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لینے جا رہی ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ ہو گا۔ حکومت ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ وہ پچھلے قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرض لے رہی ہے۔ فارن کمرشل لون کی مدت ایک سے ڈیڑھ سال ہوتی ہے۔ یہ کم از کم پانچ ارب ڈالر کا تو مان لیں کہ یہ ان کا لیا ہوا قرضہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے انڈسٹری کے خام مال پر کافی مراعات دی ہیں۔ اس سے صنعتی پیداوار کی لاگت کم ہو گی۔
پروگرام میں شریک سینئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ بجٹ غریب اور امیر دونوں کے لیے ہے۔ حکومت نے ان دونوں طبقوں کے درمیان کھیلا ہے ، یعنی دونوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے کے لوگو ں جن کی ملک میں اکثریت ہے پرمزید بوجھ ڈالا ہے۔ اگر کہیں ان کو ریلیف دیا گیا ہے تو وہ بہت ہی کم ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا گیا۔ مگر نجی شعبے کے تنخواہ دار طبقے کے لیے کچھ نہیں سوچا۔ حکومت مہنگائی کو کنٹول نہیں کر سکے گی۔
سینئر صحافی مہتاب حیدر نے کہا کہ جب سے شوکت ترین آئے ہیں حکومت کے وعدے اور دعوے بہت زیادہ ہیں۔آئی ایم ایف بجٹری سپورٹ نہیں کرسکتا مگر حکومت نے بجٹ سپورٹ کے لیے بڑی رقم رکھی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام '' دی ریویو'' میں کامران یوسف سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت نے ڈیری مصنوعات پر جی ایس ٹی دس فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کر دی ہے۔ اس سے کریم ، ڈیری ملک پاؤڈر،پیکٹ میں بند دہی، فلیورڈ ملک اور ٹی وائٹنر کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
انھوں نے بتایا کہ بجٹ دستاویزات کے مطابق حکومت آئندہ مالی سال17.2 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لینے جا رہی ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ ہو گا۔ حکومت ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ وہ پچھلے قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرض لے رہی ہے۔ فارن کمرشل لون کی مدت ایک سے ڈیڑھ سال ہوتی ہے۔ یہ کم از کم پانچ ارب ڈالر کا تو مان لیں کہ یہ ان کا لیا ہوا قرضہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے انڈسٹری کے خام مال پر کافی مراعات دی ہیں۔ اس سے صنعتی پیداوار کی لاگت کم ہو گی۔
پروگرام میں شریک سینئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ بجٹ غریب اور امیر دونوں کے لیے ہے۔ حکومت نے ان دونوں طبقوں کے درمیان کھیلا ہے ، یعنی دونوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے کے لوگو ں جن کی ملک میں اکثریت ہے پرمزید بوجھ ڈالا ہے۔ اگر کہیں ان کو ریلیف دیا گیا ہے تو وہ بہت ہی کم ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا گیا۔ مگر نجی شعبے کے تنخواہ دار طبقے کے لیے کچھ نہیں سوچا۔ حکومت مہنگائی کو کنٹول نہیں کر سکے گی۔
سینئر صحافی مہتاب حیدر نے کہا کہ جب سے شوکت ترین آئے ہیں حکومت کے وعدے اور دعوے بہت زیادہ ہیں۔آئی ایم ایف بجٹری سپورٹ نہیں کرسکتا مگر حکومت نے بجٹ سپورٹ کے لیے بڑی رقم رکھی ہے۔