بجٹ برائے سال 202122
بجٹ کا مجموعی حجم 8 ہزار487 ارب روپے ہو گا، مجموعی طور پر 383 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت نے جمعہ کو3 ہزار990 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 8 ہزار487 ارب روپے ہو گا، مجموعی طور پر 383 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔
دفاع کے لیے1370 ارب روپے، قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے 3 ہزار 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے ہے، سبسڈی کا تخمینہ 682 ارب لگایا گیا ہے۔
آیندہ مالی سال کے لیے مجموعی ریونیو تخمینہ 7909 ارب، ایف بی آر کا ہدف 5829 ارب تجویز کیا گیا ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ گزشتہ سال کے 2704 ارب روپے سے بڑھ کر3411 ارب روپے رہے گا، گراس محصولات کا حجم 7909 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جو گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ6395 ارب روپے کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے، نان ٹیکس ریونیو میں22 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
تنخواہ دار طبقہ پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں یکم جولائی سے 10 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈسپیریٹی الاؤنس گریڈ 20،21 اور 22 کے افسران کو بھی ملے گا۔ اردلی الاؤنس کو 14ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر ساڑھے17ہزار روپے ماہانہ کیا جائے گا، اسی طرح گریڈ ایک سے 5 کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الاؤنس کو ساڑھے 4 سو روپے سے بڑھا کر 900 روپے کر دیا گیا ہے۔ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر کردی گئی ہے۔
بجٹ میں ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے جسکے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں مجموعی طور پر382 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور119 ارب روپے کی چھوٹ و رعایات دی گئی ہیں اس لحاظ سے اگلے بجٹ میں نئے ٹیکسوں سے 264 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، بجٹ میں کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 52 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور 42 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں دس ارب روپے اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔
سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور صرف19 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے اس طرح اگلے بجٹ میں سیلز ٹیکس کی مد میں196 ارب روپے اضافی اکٹھے کیے جائینگے اور انکم ٹیکس کی مد میں116 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جب کہ 58 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے اس طرح اگلے بجٹ میں انکم ٹیکس کی مد میں نئے ٹیکس لگاکر 58 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔
چھوٹی گاڑیوں پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایتیں دی گئی ہیں جس سے چھوٹی گاڑیاں سستی ہو جائیں گی، مقامی سطح پر تیار ہونے والی ہیوی موٹرسائیکل، ٹرک اور ٹریکٹر کی مخصوص اقسام پر ٹیکسوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔ مقامی طور پر بنائی جانیوالی850 سی سی تک کاروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں چھوٹ اور سیلز ٹیکس17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کی جا رہی ہے۔ مقامی طور پر تیار ہونے والی 850 سی سی تک گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پر چھوٹ کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کے بیڑے کو کئی بڑے طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں تھوڑا وقت لگا۔ 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2019 کو 800 ملین ڈالر سرپلس میں تبدیل کر دیا گیا۔
کپاس کے علاوہ تمام دیگر زرعی اشیا کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جب کہ صنعتی ترقی بھی غیر معمولی رہی، تین بڑے ڈیمز کی تعمیرات ہماری ترجیحات میں شامل ہونگے جس میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے، دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 23 ارب روپے جب کہ مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت13 ارب ڈالر مالیت سے 17 منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جب کہ21 ارب ڈالر سے21 منصوبے جاری ہیں۔ کے پی ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں30 ارب روپے اگلے10 سالہ ترقی منصوبے کے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بلین ٹری سونامی منصوبہ ہے اور مالی سال میں14 ارب روپے مختص کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مردم شماری 2022کے لیے5 ارب روپے وفاقی حصے کے طور پر تجویز کی گئی ہے۔ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے لیے5 ارب روپے اور کووڈ19 ایمرجنسی فنڈ کی مد میں100 ارب روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کا آغاز ہوتے ہی اپوزیشن بینچوں سے شور شرابہ شروع ہوگیا اور نعرے بازی کی گئی، اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ڈیسک بجائے، مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کیا جس سے ایوان مچھلی منڈی بنا رہا، بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے حکومت مخالف پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے، اپوزیشن اراکین نے ایوان میں ''مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی گو نیازی'' کے نعرے بازی کی۔
شہباز شریف کی قومی اسمبلی آمد کے موقع پر ''شیر شیر'' کے نعرے بازی کی گئی، اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود وزیر خزانہ نے تقریر جاری رکھی، شوکت ترین نے بجٹ تقریر شروع کی تو مسلم لیگ (ن) کی خواتین اسپیکر ڈائس کے سامنے لائن بنا کر کھڑی ہو گئیں اور احتجاج شروع کر دیا، اپوزیشن نے بجٹ کو عوام پر معاشی حملہ قرار دیا، وزیر اعظم عوام کو معاشی ریلیف دینے میں ناکام ہوگئے، دوسری جانب کاروباری اور تجارتی حلقوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل آیا۔
ماہرین اقتصادیات اور سابقہ وزرائے خزانہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دو بجٹوں کے مقابلہ میں موجود بجٹ جارحانہ اور غیر معذرت خواہانہ اور کچھ کرنے کی توقعات اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کے دعوؤں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے لیکن کیا حکومت ان وعدوں کو پورا بھی کر سکے گی کیونکہ گزشتہ دو بجٹس میں عوام کو ریلیف دینے کے جو بلند و بانگ دعوے کیے گئے ان کی تکمیل میں حکمران ''اپ ٹو مارک'' نہیں رہے۔
انھوں نے اپنی کمٹمنٹس اور انتخابی وعدوں کا پاس نہیں رکھا، کورونا کی مسلمہ تباہ کاریوں سے قطع نظر حکومت ملک کو ایک مستحکم اقتصادی اور سماجی نظام تاحال نہیں دے سکی، حکمراں اپنے پورے دور حکومت میں ملبہ پچھلی دو حکومتوں پر گراتے رہے اور ایسا مائنڈ سیٹ اپنایا گیا کہ ''مرے کو مارے شاہ مدار'' کے واہمہ نے حکومت کی فعالیت کو یرغمال بنا لیا، کوئی بات وزیر اعظم اور ان کی ٹیم سابق حکومتوں کو لتاڑے بغیر مکمل نہیں کر سکے، ہر خرابی میں موجودہ حکومت کو ماضی کی حکومتیں ذمے دار نظر آئیں، چنانچہ عوام کو تبدیلی اور روشنی کی کرن نظر نہ آنے کی شکایت ہی رہی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ بعض صائب اقدام بھی بجٹ کا حصہ بنائے گئے، مثلاً آٹو انڈسٹری کو بہت سپورٹ کی گئی، گروتھ کو پیش نظر رکھا گیا ہے، ٹیکس نیٹ ورک کو توسیع دی گئی، کئی شعبوں میں کٹوتیاں کی گئیں، غیرجانبدار کاروباری حلقوں نے بجٹ میں مضمر تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں اور اقدامات کو ملکی معیشت کے لیے مفید قرار دیا اور اس بات کی تائید کی کہ حکومت نے بجٹ میں کوئی گورکھ دھندا نہیں رکھا، عوام کو ایک پیش رفت نظر آئے گی، جمود ٹوٹے گا، کچھ بہتر اقتصادی حالات کی بازگشت سنائی دے گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے پہلے دو برسوں میں معیشت کی بحالی کی وجہ سے عوام کو سہولت نہ دے سکے۔ انھوں نے اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا ہم اقتدار میں آئے تو معیشت کی حالت بدترین تھی، ارکان اسمبلی کے مسائل کا بھی احساس ہے، عوامی ردعمل کا سب سے زیادہ سامنا آپ کو رہا تاہم معیشت بحال ہو چکی، اب ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں، بجٹ کے بعد ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہو جائے گی۔ ہم نے کمزور طبقے کو سہولت دینے پر توجہ دی ہے۔ ہماری ترجیح کسان ہے کیونکہ ملک کا مستقبل زراعت سے وابستہ ہے، 12 ایکڑ زمین والوں کو بلاسود قرضے دیں گے، آڑھتی اور مڈل مین کا کردار ختم کر رہے ہیں۔ بینک قرضے دینے سے ڈرتے ہیں۔ اخوت جیسی تنظیموں کے ذریعے قرضے دے رہے ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ نے قوم کے سامنے خوابوں، دلفریب وعدوں، منصوبوں اور دل خوش کن اقدامات کا سمندر پھیلا دیا ہے جب کہ کاروباری طبقات سے حکومت نے دو طرح کی امیدیں وابستہ کی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کوشش میں وہ ہمہ جہتی کامیابیاں حاصل کرسکیں گے کہ نہیں، بہرحال اب وقت بتلائے گا کہ حکومت عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کریگی۔
ماہرین کے مطابق مقصد صرف بجٹ کو ریلیف اورینٹڈ بناکر پیش کرنا ہی نہیں بلکہ ایک کلیدی سیاسی موڑ پر نئے پاکستان کی تعمیر کا عوام کو یقینی پیغام بھی دینا ہے۔ اس حقیقت کا ارباب اختیار ادراک کریں کہ عوام ایک امید افزا سیاسی، تعلیمی، اور صحت انفرااسٹرکچر سے آراستہ سماجی ڈھانچہ کے منتظر ہیں، ان کی سوچ فعالیت، شفافیت، اور تخلیقی پاکستان سے منسلک ہے، ان کی فکر ایک بڑی اڑان مانگتی ہے، مگر ابھی تک اقتصادی، نظریاتی، فکری اور سیاسی طور پر کوئی نظام اسے پرواز میں اجازت نہ دے سکا۔
دفاع کے لیے1370 ارب روپے، قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے 3 ہزار 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے ہے، سبسڈی کا تخمینہ 682 ارب لگایا گیا ہے۔
آیندہ مالی سال کے لیے مجموعی ریونیو تخمینہ 7909 ارب، ایف بی آر کا ہدف 5829 ارب تجویز کیا گیا ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ گزشتہ سال کے 2704 ارب روپے سے بڑھ کر3411 ارب روپے رہے گا، گراس محصولات کا حجم 7909 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جو گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ6395 ارب روپے کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے، نان ٹیکس ریونیو میں22 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
تنخواہ دار طبقہ پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں یکم جولائی سے 10 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈسپیریٹی الاؤنس گریڈ 20،21 اور 22 کے افسران کو بھی ملے گا۔ اردلی الاؤنس کو 14ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر ساڑھے17ہزار روپے ماہانہ کیا جائے گا، اسی طرح گریڈ ایک سے 5 کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الاؤنس کو ساڑھے 4 سو روپے سے بڑھا کر 900 روپے کر دیا گیا ہے۔ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر کردی گئی ہے۔
بجٹ میں ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے جسکے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں مجموعی طور پر382 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور119 ارب روپے کی چھوٹ و رعایات دی گئی ہیں اس لحاظ سے اگلے بجٹ میں نئے ٹیکسوں سے 264 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، بجٹ میں کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 52 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور 42 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں دس ارب روپے اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔
سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور صرف19 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے اس طرح اگلے بجٹ میں سیلز ٹیکس کی مد میں196 ارب روپے اضافی اکٹھے کیے جائینگے اور انکم ٹیکس کی مد میں116 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جب کہ 58 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے اس طرح اگلے بجٹ میں انکم ٹیکس کی مد میں نئے ٹیکس لگاکر 58 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔
چھوٹی گاڑیوں پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایتیں دی گئی ہیں جس سے چھوٹی گاڑیاں سستی ہو جائیں گی، مقامی سطح پر تیار ہونے والی ہیوی موٹرسائیکل، ٹرک اور ٹریکٹر کی مخصوص اقسام پر ٹیکسوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔ مقامی طور پر بنائی جانیوالی850 سی سی تک کاروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں چھوٹ اور سیلز ٹیکس17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کی جا رہی ہے۔ مقامی طور پر تیار ہونے والی 850 سی سی تک گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پر چھوٹ کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کے بیڑے کو کئی بڑے طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں تھوڑا وقت لگا۔ 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2019 کو 800 ملین ڈالر سرپلس میں تبدیل کر دیا گیا۔
کپاس کے علاوہ تمام دیگر زرعی اشیا کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جب کہ صنعتی ترقی بھی غیر معمولی رہی، تین بڑے ڈیمز کی تعمیرات ہماری ترجیحات میں شامل ہونگے جس میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے، دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 23 ارب روپے جب کہ مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت13 ارب ڈالر مالیت سے 17 منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جب کہ21 ارب ڈالر سے21 منصوبے جاری ہیں۔ کے پی ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں30 ارب روپے اگلے10 سالہ ترقی منصوبے کے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بلین ٹری سونامی منصوبہ ہے اور مالی سال میں14 ارب روپے مختص کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مردم شماری 2022کے لیے5 ارب روپے وفاقی حصے کے طور پر تجویز کی گئی ہے۔ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے لیے5 ارب روپے اور کووڈ19 ایمرجنسی فنڈ کی مد میں100 ارب روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کا آغاز ہوتے ہی اپوزیشن بینچوں سے شور شرابہ شروع ہوگیا اور نعرے بازی کی گئی، اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ڈیسک بجائے، مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کیا جس سے ایوان مچھلی منڈی بنا رہا، بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے حکومت مخالف پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے، اپوزیشن اراکین نے ایوان میں ''مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی گو نیازی'' کے نعرے بازی کی۔
شہباز شریف کی قومی اسمبلی آمد کے موقع پر ''شیر شیر'' کے نعرے بازی کی گئی، اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود وزیر خزانہ نے تقریر جاری رکھی، شوکت ترین نے بجٹ تقریر شروع کی تو مسلم لیگ (ن) کی خواتین اسپیکر ڈائس کے سامنے لائن بنا کر کھڑی ہو گئیں اور احتجاج شروع کر دیا، اپوزیشن نے بجٹ کو عوام پر معاشی حملہ قرار دیا، وزیر اعظم عوام کو معاشی ریلیف دینے میں ناکام ہوگئے، دوسری جانب کاروباری اور تجارتی حلقوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل آیا۔
ماہرین اقتصادیات اور سابقہ وزرائے خزانہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دو بجٹوں کے مقابلہ میں موجود بجٹ جارحانہ اور غیر معذرت خواہانہ اور کچھ کرنے کی توقعات اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کے دعوؤں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے لیکن کیا حکومت ان وعدوں کو پورا بھی کر سکے گی کیونکہ گزشتہ دو بجٹس میں عوام کو ریلیف دینے کے جو بلند و بانگ دعوے کیے گئے ان کی تکمیل میں حکمران ''اپ ٹو مارک'' نہیں رہے۔
انھوں نے اپنی کمٹمنٹس اور انتخابی وعدوں کا پاس نہیں رکھا، کورونا کی مسلمہ تباہ کاریوں سے قطع نظر حکومت ملک کو ایک مستحکم اقتصادی اور سماجی نظام تاحال نہیں دے سکی، حکمراں اپنے پورے دور حکومت میں ملبہ پچھلی دو حکومتوں پر گراتے رہے اور ایسا مائنڈ سیٹ اپنایا گیا کہ ''مرے کو مارے شاہ مدار'' کے واہمہ نے حکومت کی فعالیت کو یرغمال بنا لیا، کوئی بات وزیر اعظم اور ان کی ٹیم سابق حکومتوں کو لتاڑے بغیر مکمل نہیں کر سکے، ہر خرابی میں موجودہ حکومت کو ماضی کی حکومتیں ذمے دار نظر آئیں، چنانچہ عوام کو تبدیلی اور روشنی کی کرن نظر نہ آنے کی شکایت ہی رہی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ بعض صائب اقدام بھی بجٹ کا حصہ بنائے گئے، مثلاً آٹو انڈسٹری کو بہت سپورٹ کی گئی، گروتھ کو پیش نظر رکھا گیا ہے، ٹیکس نیٹ ورک کو توسیع دی گئی، کئی شعبوں میں کٹوتیاں کی گئیں، غیرجانبدار کاروباری حلقوں نے بجٹ میں مضمر تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں اور اقدامات کو ملکی معیشت کے لیے مفید قرار دیا اور اس بات کی تائید کی کہ حکومت نے بجٹ میں کوئی گورکھ دھندا نہیں رکھا، عوام کو ایک پیش رفت نظر آئے گی، جمود ٹوٹے گا، کچھ بہتر اقتصادی حالات کی بازگشت سنائی دے گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے پہلے دو برسوں میں معیشت کی بحالی کی وجہ سے عوام کو سہولت نہ دے سکے۔ انھوں نے اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا ہم اقتدار میں آئے تو معیشت کی حالت بدترین تھی، ارکان اسمبلی کے مسائل کا بھی احساس ہے، عوامی ردعمل کا سب سے زیادہ سامنا آپ کو رہا تاہم معیشت بحال ہو چکی، اب ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں، بجٹ کے بعد ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہو جائے گی۔ ہم نے کمزور طبقے کو سہولت دینے پر توجہ دی ہے۔ ہماری ترجیح کسان ہے کیونکہ ملک کا مستقبل زراعت سے وابستہ ہے، 12 ایکڑ زمین والوں کو بلاسود قرضے دیں گے، آڑھتی اور مڈل مین کا کردار ختم کر رہے ہیں۔ بینک قرضے دینے سے ڈرتے ہیں۔ اخوت جیسی تنظیموں کے ذریعے قرضے دے رہے ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ نے قوم کے سامنے خوابوں، دلفریب وعدوں، منصوبوں اور دل خوش کن اقدامات کا سمندر پھیلا دیا ہے جب کہ کاروباری طبقات سے حکومت نے دو طرح کی امیدیں وابستہ کی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کوشش میں وہ ہمہ جہتی کامیابیاں حاصل کرسکیں گے کہ نہیں، بہرحال اب وقت بتلائے گا کہ حکومت عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کریگی۔
ماہرین کے مطابق مقصد صرف بجٹ کو ریلیف اورینٹڈ بناکر پیش کرنا ہی نہیں بلکہ ایک کلیدی سیاسی موڑ پر نئے پاکستان کی تعمیر کا عوام کو یقینی پیغام بھی دینا ہے۔ اس حقیقت کا ارباب اختیار ادراک کریں کہ عوام ایک امید افزا سیاسی، تعلیمی، اور صحت انفرااسٹرکچر سے آراستہ سماجی ڈھانچہ کے منتظر ہیں، ان کی سوچ فعالیت، شفافیت، اور تخلیقی پاکستان سے منسلک ہے، ان کی فکر ایک بڑی اڑان مانگتی ہے، مگر ابھی تک اقتصادی، نظریاتی، فکری اور سیاسی طور پر کوئی نظام اسے پرواز میں اجازت نہ دے سکا۔